• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کس کی دعا قبول ہوتی ہے ؟

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
کس کی دعا قبول ہوتی ہے ؟

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر شمالی طائف (مسرہ) سعودی عرب

دعا مومن کی زندگی کا اہم ترین حصہ ہے۔مومن ہرآن وہرلمحہ اس سے جڑا رہتا ہے اور زندگی کے تمام مسائل اپنے خالق ومالک کے سامنے بیان کرتا رہتا ہے۔ خالق اپنے بندوں کی پکار سے خوش ہوتا ہے اور ہروہ چیز عطا کرتا ہے جس کے لئے اس کے بندے نےندا لگائی ہے ۔ آج لوگوں کی اکثریت نےضعیف الاعتقادی اورایما ن میں کمزور ہونے کے باعث دعا کی اہمیت اور اس کی قبولیت سے اپنا اعتماد اٹھا لیا ہے ۔ دعا تو لوگ کرتے ہیں مگر عدم قبولیت کا رونا روتے ہیں ، اپنی دعاؤں پر اعتماد کرنے کے لئے پھرغیراللہ کا وسیلہ لگا تے ہیں ۔ پتہ نہیں لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ براہ راست اللہ کو پکارنے میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا مگر مزارات پہ دعا کرکے بڑے خوش ہوتے ہیں ، مردوں کا وسیلہ لگاکر دعاؤں کی قبولیت پہ اعتماد بندھ جاتا ہے ۔
ابتدائے آفرینش سے اللہ کی مخلوق نے ہمیشہ اللہ کو پکارا ہے، انبیاء کی بعثت کا عظیم مقصد ایک رب کو پکارنے کی طرف بلانا ہے ۔ انبیاء نے خود بھی اللہ کو پکارکر اپنی اپنی امت کو اس کی تعلیم دی ۔ قرآن میں کتنے پیغمبروں کا ذکر ہے جو اپنے رب کو پکارتے ہیں اور ہر مومن بلکہ اللہ کا ہرولی جو واقعی اللہ کا ولی ہو انہوں نے ہمیشہ اللہ کو ہی پکارا ۔
دعا خالص عبادت کا نام ہے ، تمام نبیوں کے سردار، تمام انسانوں میں اشرف ، تمام اولیاء میں سب سے مکرم ہم سب کے امام اعظم حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا: الدُّعاءَ هوَ العِبادَةُ، ثمَّ قرأَ: وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ(صحيح الترمذي:3372)
ترجمہ: دعا ہی عبادت ہے، پھر آپ نے آیت پڑھی : «وقال ربكم ادعوني أستجب لكم إن الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين»تمہارا رب فرماتا ہے، تم مجھے پکارو، میں تمہاری پکاریعنی دعا کو قبول کروں گا، جو لوگ مجھ سے مانگنے سے گھمنڈ کرتے ہیں، وہ جہنم میں ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوں گے۔
آج مسلمانوں کا ایمان کس قدر گیا گزراہے کہ جعلی پیروفقیر اور پاکھنڈی باباؤں کی بات پہ تو شک نہیں ہوتا مگر انہیں نہ اللہ کے کلام پہ اعتماد ہے اور نہ ہی کائنات کی سب سے عظیم ہستی کے فرمان پہ اعتماد ہے ۔ مذکورہ بالاحدیث میں رسول اکرم ﷺ نے بتلایا کہ دعا عبادت ہے اور آپ ﷺ نے دلیل میں قرآن کی آیت پیش کی کہ رب کا فرمان ہے تم صرف مجھے پکارو ، میں تمہاری پکار کا جواب دیتا ہوں ، ہاں اللہ نے مزید فرمایا کہ لوگو! سن لو اگر تم نے مجھے چھوڑ کر غیرکو پکارا تو پھرتمہارا ٹھکانہ جہنم ہوگا وہ بھی ذلت ورسوائی کے ساتھ ۔ الحفظ والاماں۔
باری تعالی نے ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے : وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ
ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرۃ:186)
ترجمہ:جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے ۔
اللہ نے اس قدر واضح کرکے بتلادیا کہ ناسمجھوں کو بھی سمجھ آجائے ۔اللہ قریب ہے اور ہمیشہ آدمی قریبی کو ہی پکارتا ہے ، اس طرح کی مثال دےکر اللہ نے اپنے بندوں کو بتلایا کہ مجھے ہی پکارا کرو، مجھے جو بھی پکارتا ہے میں اس کی پکار سنتا ہوں ۔ آگے اللہ نے نشانی بھی ذکر فرمائی ہے کہ جو اپنے حقیقی معبود کو پکارتے ہیں ان کا شعار اپنے رب پرصحیح معنوں میں ایمان لانا اور اپنے خالق کی اطاعت وفرمانبرداری کرنا ہے ۔ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر غیراللہ کو پکارتے ہیں وہ نہ رب پر صحیح ایمان لانے والے ہیں اور نہ رب کی اطاعت بجالانے والے ہیں ۔
اللہ ہرجگہ سے اور ہر لمحہ بندوں کی پکار سنتا ہے مگر اس کی شان کریمی اوربندوں پرعظیم مہربانی دیکھیں کہ وہ فریاد سننے ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے: يَتَنَزَّلُ رَبُّنا تَبارَكَ وتَعالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إلى السَّماءِ الدُّنْيا، حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ، يقولُ: مَن يَدْعُونِي فأسْتَجِيبَ له، مَن يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ، مَن يَسْتَغْفِرُنِي فأغْفِرَ له.(صحيح البخاري:6321)
ترجمہ: ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے، اس وقت جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے دوں، کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرتا ہے کہ میں اس کی بخشش کروں۔
دعا سے متعلق قرآن وحدیث میں بہت سارے نصوص ہیں جن کے ذکر کا یہ مقام نہیں ہے ، یہاں میرا مقصد ان لوگوں کا ذکر کرنا ہے جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ،مذکورہ باتیں بطور تمہید تھیں تاکہ اگر کسی کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں تو عدم قبولیت کی وجہ تلاش کرے اوراپنی اصلاح کرلے ۔
تین قسم کے لوگوں کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی،رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ثلاثُ دعَواتٍ مستجاباتٌ دعوةُ المظلومِ ودعوةُ المسافرِ ودعوةُ الوالدِ على ولدِهِ(صحيح الترمذي:3448)
ترجمہ:تین طرح کی دعائیں مقبول ہوتی ہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، اور باپ کی بد دعا اپنے بیٹے کے حق میں۔
مظلوم پر ظلم کرنے والا اللہ سے بے خوف ہوتا ہے یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت اپنے ذہن سے خالق کا تصور نکال چکا ہوتا ہے ۔ جس کے ذہن میں خالق کا تصور ہو وہ کبھی دوسروں پر ظلم نہیں کرسکتا کیونکہ خالق اس کائنات کا خالق ہی نہیں منصف بھی ہے ، اس کی عدالت میں حق کے ساتھ فیصلے ہوتے ہیں ۔ اگر اس کے یہاں انصاف نہ ہوتا تو فرعون جیسے لوگ کمزوروں کو دنیا میں زندہ نہیں چھوڑ تے ۔ دنیا میں لوگوں کی عدالت محض دھوکہ ہے ، انصاف تو اللہ کی عدالت میں ہے ۔ جب کبھی کوئی کسی پرظلم کرتا ہے اور مظلوم اپنے خالق سے اس ظالم کے خلاف فریاد کرتا ہے تو پھر دنیا میں ظالم کو بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب عامل بنا کر یمن بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی:
اتَّقِ دَعْوَةَ المَظْلُومِ، فإنَّهَا ليسَ بيْنَهَا وبيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ.(صحيح البخاري:2448)
ترجمہ: مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کہ اس (دعا) کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔
مظلوم کافر بھی ہو تو اس کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے: دعوةُ المظلومِ مُستجابةٌ ، وإن كان فاجرًا ففُجورُه على نفسِه(صحيح الترغيب:2229)
ترجمہ: مظلوم کی دعا قبول کی جاتی ہے، چاہے فاجر ہی کیوں نہ ہو، فجور(کا خمیازہ) اسی کی جان پر ہوگا۔
ظلم وزیادتی دربار الہی میں اس قدرسنگین جرم ہے کہ اس کی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی دی جائے گی ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ما من ذنبٌ أجدرُ أن يُعجِّلَ اللهُ لصاحبِه العقوبةَ في الدنيا مع ما يدَّخِرُ له في الآخرةِ من البغيِ وقطيعةِ الرحمِ(صحيح ابن ماجه:3413)
ترجمہ: ظلم اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا مرتکب زیادہ لائق ہے کہ اس کو اللہ کی جانب سے دنیا میں بھی جلد سزا دی جائے اور آخرت کے لئے بھی اسے باقی رکھا جائے ۔
مظلوم کی طرح مسافر کی دعا اور والد کی اپنے اولاد کے حق میں دعا کبھی رد نہیں ہوتی ۔ اس پس منظر میں آپ سے یہ عرض کرنا ہے کہ ظلم کا بدلہ لے لینے سے کوئی مظلوم نہیں رہ جاتا ، سفر میں برائی کرنے سے دعا بے اثر ہوجائے گی اور باپ کا نیک وصالح نہ ہونادعا کی تاثیر چھین لے گا ۔
ان تین لوگوں کے علاوہ حدیث میں صالح اولاد کی دعا کا ذکر ہے جو باپ کے حق میں قبول کی جاتی ہے ۔ ایک روایت مسلم میں ہے جس میں تین چیزوں کے صدقہ جاریہ کا ذکر ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إِذَا مَاتَ الإنْسَانُ انْقَطَعَ عنْه عَمَلُهُ إِلَّا مِن ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِن صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو له.(صحيح مسلم:1631)
ترجمہ: جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (جن کا فیض اسے برابر پہنچتا رہتا ہے ) : ایک صدقہ جاریہ ، دوسرا علم جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے، تیسرا صالح اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرتی رہے ۔
ابن ماجہ کی حسن درجے کی روایت میں ہے ، نبی ﷺ فرماتے ہیں : إنَّ الرَّجلَ لتُرفَعُ درجتُه في الجنةِ فيقولُ : أنَّى هذا ؟ فيقالُ : باستغفارِ ولدِك لكَ(صحيح ابن ماجه:3/214)
ترجمہ: آدمی کا درجہ جنت میں بلند کیا جائے گا، پھر وہ کہتا ہے کہ میرا درجہ کیسے بلند ہو گیا (حالانکہ ہمیں عمل کا کوئی موقع نہیں رہا ) اس کو جواب دیا جائے گا کہ تیرے لئے تیری اولاد کے دعا و استغفار کرنے کے سبب سے ۔
باپ کا اپنے بیٹے پر زندگی بھر کا احسان ہوتا ہے بطور خاص طفولت سے جوانی تک ۔ اولاد کے لئے والدین کی قربانی کا دنیا میں کوئی صلہ ممکن نہیں ہے تاہم ان کی قربانیوں اور احسان وسلوک کے تئیں کثرت سے ان کے لئے دعا واستغفار کرنا چاہئے ۔
ایک حدیث میں غازی، حاجی اور معتمران تین قسم کے آدمیوں کی دعا قبول ہونے کا ذکر ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
الغازي في سبيلِ اللَّهِ، والحاجُّ والمعتمِرُ، وفْدُ اللَّهِ، دعاهُم، فأجابوهُ، وسألوهُ، فأعطاهُم(صحيح ابن ماجه:2357)
ترجمہ: اللہ کی راہ میں نکلے ہوئے غازی اور حج وعمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں ، اللہ نے انہیں بلایا تو وہ آگئے لہذا اب وہ اللہ سے سوال کریں گے تو اللہ انہیں عطا فرمائے گا۔
اللہ جنہیں غزوہ یا حج وعمرہ کی سعادت بخشے وہ اپنے عمل میں اخلاص پیدا کرےاور کثرت سے اللہ کو پکارے ، اللہ ان کی مرادیں پوری فرمائے گا۔
اپنے بھائیوں کی پیٹھ پیچھے دعا کرنا بھی قبولیت کا باعث ہے نیز دعا کرنے والے کے حق میں بھی وہ دعا قبول ہوتی ہے ۔ نبی ﷺفرماتے ہیں :
دَعْوَةُ المَرْءِ المُسْلِمِ لأَخِيهِ بظَهْرِ الغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ كُلَّما دَعَا لأَخِيهِ بخَيْرٍ، قالَ المَلَكُ المُوَكَّلُ بهِ: آمِينَ وَلَكَ بمِثْلٍ(صحيح مسلم:2733)
ترجمہ: مسلمان کی اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ پیچھے کی گئی دعا مستجاب ہوتی ہے، اس کے سر کے قریب ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے ، وہ جب بھی اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو مقرر کیا ہوا فرشتہ اس پر کہتا ہے : آمین ، اور تمہیں بھی اسی کے مانند عطا ہو۔
اللہ تعالی توبہ کرنے والی کی بھی دعا قبول کرتا ہے بلکہ توبہ کرنے والا اللہ کے نزدیک محبوب وپسندیدہ بندہ ہے ، فرمان الہی ہے :
وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ (الشوري:25)
ترجمہ: وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو سب جانتا ہے ۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ عَبْدًا أصابَ ذَنْبًا - ورُبَّما قالَ أذْنَبَ ذَنْبًا - فقالَ: رَبِّ أذْنَبْتُ - ورُبَّما قالَ: أصَبْتُ - فاغْفِرْ لِي، فقالَ رَبُّهُ: أعَلِمَ عَبْدِي أنَّ له رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ ويَأْخُذُ بهِ؟ غَفَرْتُ لِعَبْدِي(صحيح البخاري:7507)
ترجمہ: ایک بندے نے بہت گناہ کئے اور کہا: اے میرے رب! میں تیرا ہی گنہگار بندہ ہوں تو مجھے بخش دے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور گناہ کی وجہ سے سزا بھی دیتا ہے میں نے اپنے بندے کو بخش دیا ۔
بلکہ اس حدیث میں ہے کہ بندہ باربار گناہ کرتا ہے اور باربار اللہ سے توبہ کرتا ہے اور اللہ اپنے بندے کو بخش دیتا ہے۔
اللہ کبھی کبھار گنہگار کی بھی دعا قبول کرلیتا ہے حتی کہ شرک کرنے والی کی دعا بھی قبول کرلیتا ہے، یہ اللہ کی مہربانی ہے ۔ ممکن ہے عاصی اپنے گناہوں سے پلٹ جائے، توبہ اور استغفار کرلے ۔ اللہ تعالی مشرکوں کی دعا کے بارے میں ذکر کرتا ہے :
وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ
ۖ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ كَفُورًا (الاسراء:67)
ترجمہ:اور سمندروں میں مصیبت پہنچتے ہی جنہیں تم پکارتے تھے سب گم ہو جاتے ہیں صرف وہی اللہ باقی رہ جاتا ہے پھر جب وہ تمہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو تم منہ پھیر لیتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے ۔
اللہ نے تو شیطان کی بھی دعا قبول کی ہے ، فرمان باری تعالی ہے : قَالَ أَنظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ، قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ (الاعراف:14-15)
ترجمہ:[شیطان نے] کہا: میرے پروردگار!مجھے دوبارہ اٹھائے جانے کے دن تک مہلت دے دے، [تو اللہ تعالی نے] فرمایا: تجھے مہلت [دے دی]ہے۔
دعا اصل میں مومن ومتقی بندوں کی قبول کی جاتی ہے ، گنہگاروں کی دعا کبھی قبول ہوجائے تو اس کا مطلب نہیں کہ گناہ کا دعا پہ کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ گناہ کا دعا پہ بہت اثر پڑتا ہے اور حرام کمائی کا تو بیحد اثر پڑتا ہے چنانچہ صحیح مسلم میں وارد ہے :
ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أشْعَثَ أغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إلى السَّماءِ، يا رَبِّ، يا رَبِّ، ومَطْعَمُهُ حَرامٌ، ومَشْرَبُهُ حَرامٌ، ومَلْبَسُهُ حَرامٌ، وغُذِيَ بالحَرامِ، فأنَّى يُسْتَجابُ لذلكَ؟(صحيح مسلم:1015)
ترجمہ:پھر آپ ﷺ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، پریشان حال اور غبار آلود ہے۔ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگتا ہے ۔ میرے رب! اے میرے رب! اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس پینا حرام ہے، اس کا پہننا حرام کا ہے اور اس کی پرورش ہی حرام سے ہوئی ہے۔ پھر اس کی دعا کیوں کر قبول ہو گی۔
اگر کبھی مزار پہ دعا کرنے سے قبول ہوجائے، اگر کبھی غیراللہ کو پکارنے سے دعا قبول ہوجائے ، اگر کبھی اولیاء کے وسیلے سے دعا قبول ہوجائے تو مسلمان کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس طرح دعا کرنا صحیح ہے یا ایسے دعا کرنے سے جلد قبول ہوتی ہے ۔ ہرگز نہیں ۔اولا :ہمارا عقیدہ یہ ہو کہ دینے والا صرف اللہ ہے خواہ مانگنے والا کہیں بھی جاکر مانگے ۔ثانیا: اللہ تعالی بندوں کو طرح طرح سے آزماتا ہے اور آزمائش میں مبتلا کرکے گناہ سے پلٹنے اور توبہ کرنے کی مہلت دیتا ہے ۔ کوئی مسلمان یہ عقیدہ رکھے کہ قبر والا بھی دیتا ہے تو پھر ہندؤں کا عقیدہ پتھر سے مانگنا بھی صحیح ہوجائے گا کیونکہ کبھی کبھی اس کی بھی مراد پوری ہوجاتی ہے جبکہ ایک ادنی مسلمان بھی کہے گا کہ پتھر نفع ونقصان کا مالک نہیں ہے تو پھر یہ بھی عقیدہ رکھیں کہ قبر والا بھی نفع ونقصان کا مالک نہیں ہے ۔ یہی عقیدہ قرآن ہمیں سکھلاتا ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ
ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ (یونس:106)
ترجمہ: اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسے کو مت پکارو جو تجھ کو نہ نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی نقصان پہنچا سکے ، پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ۔
اپنے مومن وموحد بھائیوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ سے دعا کرتے رہیں وہ ہر نیک بندے کی دعا قبول کرتا ہے ، دعا کی قبولیت پہ یقین بھی رکھیں ، کیا آپ نے شروع مضمون میں اللہ کا کلام نہیں پڑھا جس میں ذکر ہے کہ اللہ ہر پکارنے والے کی پکارسنتا ہے بشرطیکہ وہ صحیح معنوں میں اس پر ایمان لانے والا ہو اور اس کے احکام کی تابعداری کرنے والا ہو۔ اللہ کے نزدیک دعا سب سے معزز چیز ہے ،نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ليسَ شيءٌ أَكْرَمَ على اللَّهِ تعالى منَ الدُّعاءِ(صحيح الترمذي:3370)
ترجمہ:اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز و مکرم کوئی چیز نہیں ہے۔
اسی لئے اللہ تعالی دعا کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا ،نبی ﷺ فرمان ہے :
إنَّ اللَّهَ حيِىٌّ كريمٌ يستحي إذا رفعَ الرَّجلُ إليْهِ يديْهِ أن يردَّهما صفرًا خائبتينِ(صحيح الترمذي:3556)
ترجمہ:اللہ «حيي كريم» ہے یعنی زندہ و موجود ہے اور شریف ہے اسے اس بات سے شرم آتی ہے کہ جب کوئی آدمی اس کے سامنے ہاتھ پھیلا دے تو وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو خالی اور ناکام و نامراد واپس کر دے۔
ہاں یہ بات جان لینے کی ضرورت ہے کہ دعا کی قبولیت کی شکلیں مختلف ہوسکتی ہیں چنانچہ نبی ﷺ کا یہ فرمان ملاحظہ فرمائیں :
ما من مسلمٍ يدعو بدعوةٍ ليس فيها إثمٌ ، ولا قطيعةُ رَحِمٍ ؛ إلا أعطاه بها إحدى ثلاثَ : إما أن يُعجِّلَ له دعوتَه ، وإما أن يدَّخِرَها له في الآخرةِ ، وإما أن يَصرِف عنه من السُّوءِ مثلَها . قالوا : إذًا نُكثِرُ . قال : اللهُ أكثرُ .(صحيح الترغيب:1633)
ترجمہ:جب بھی کوئی مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ یا قطع رحمی نہ ہو، تو اللہ ربّ العزت تین باتوں میں سے ایک ضرور اُسے نوازتے ہیں: یا تو اس کی دعا کو قبول فرما لیتے ہیں یا اس کے لئے آخرت میں ذخیرہ کردیتے ہیں اور یا اس جیسی کوئی برائی اس سے ٹال دیتے ہیں۔ صحابہؓ نے کہا: پھر تو ہم بکثرت دعا کریں گے۔ تو نبیؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ بخشنے (عطا کرنے) والا ہے۔
گویا دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی ، کبھی فورا قبول کرلی جاتی ہے ، کبھی اس کی قبولیت میں تاخیر ہوسکتی ہے ، کبھی اسے آخرت کے لئے ذخیرہ بنا دی جاتی ہے تو کبھی اس کے بدلے برائی دفع کی جاتی ہے ۔
بہرکیف! دعا عبادت ہے اس لئے عاجزی اوراخلاص کے ساتھ صرف اپنے خالق کو پکاریں، دعا کرتے ہوئے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ، براہ راست اسی سے مانگیں، دعا کرتے ہوئےزندہ یا مردہ کسی کا وسیلہ نہ لگائیں بلکہ اللہ کے اسمائے حسنی اور اپنے اعمال صالحہ کا وسیلہ لگائیں ، گناہوں سے بچیں، صحیح طور پر اللہ پر ایمان لائیں ، اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی پاسداری کریں،توبہ کے ساتھ دعاکریں، حرام کمائی سے بالکل دور رہیں ، لوگوں کا حق نہ ماریں ، نہ ہی کسی پر ناحق ظلم کریں اور دعا میں افضل اوقات کا خیال رکھیں ۔ان باتوں کا پاس ولحاظ ہوگا تو رب العالمین بے شک ہماری دعا قبول فرمائے گا۔
 
Top