ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 583
- ری ایکشن اسکور
- 187
- پوائنٹ
- 77
کلمۂ توحید کا معنی سمجھے بغیر اقرار بے فائدہ ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ سلیمان بن عبداﷲ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں :
لا الٰہ الا اﷲ کا اقرار اس طرح کرنا چاہیے کہ اس کے معنی کو سمجھتا ہو اس کے ظاہری و باطنی تقاضوں کو پورا کرتا ہو اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :
فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ (محمد: ۱۹)
’’جان لوکہ اﷲ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے‘‘۔
دوسری جگہ ارشاد ہے :
اِلَّا مَنْ شَھِدَ بِالْحَقِّ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ (الزخرف: ۸۶)
’’مگر جس نے حق کی گواہی دی اور وہ جانتے ہیں‘‘۔
بغیر معنی جانے اور تقاضوں پر عمل کیے بغیر کلمہ کا اقرار کوئی فائدہ نہیں کرتا اس پر اجماع ہوچکا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ابو جہل اور دیگر سردارانِ قریش لا الٰہ الا اﷲ کا معنی جانتے تھے مگر آج اکثر لوگ اس کے معنی سے لاعلم ہیں اور جو لوگ اس کا معنی جانتے ہیں وہ عمل نہیں کرتے بلکہ اس کے تقاضوں کے منافی کام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے ہماری توحید پر کوئی اثر نہیں پڑتا حالانکہ اس بیچارے کو معلوم کہ یہ تو اسلام لانے کے بعد دوبارہ مرتد ہوچکا ہے۔
عبدالرحمن بن حسن رحمہ اﷲ کہتے ہیں:
جس نے لا الٰہ الا اﷲ کا اقرار کیا اور اخلاص وسچائی کے ساتھ اس پر عمل کر لیا قبولیت ، محبت اور اطاعت کے ساتھ تو اﷲ اس کو جنت میں داخل کردے گا اگرچہ کیسا ہی عمل کیوں نہ کرتا ہو۔
(قرۃ عیون الموحدین: ۳۲)
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
جب یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جاہل کفار بھی (کلمہ کا معنی) جانتے تھے تو پھر تعجب ہے ان لوگوں پر جو اسلام کا دعویٰٰ کرتے ہیں مگر کلمے کی تفسیر اتنی بھی نہیں جانتے جتنی کہ جاہل کفار جانتے تھے بلکہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ دلی اعتقاد اور معنی کو سمجھے بغیر صرف کلمہ کا زبانی اقرار ہی کافی ہے اور اگر کوئی زیادہ سمجھداری کا دعوے دار ہے تو وہ صرف کلمہ کا اتنا معنی جانتا ہے اﷲ کے علاوہ کوئی خالق ، رازق ، زندہ کرنے والا ، مارنے والا ، تدبیر کرنے والا کوئی نہیں ہے یہ لوگ جاہل کافروں کہ جتنا بھی کلمہ کا معنی نہیں جانتے ۔
(الدرر السنیۃ: ۱/۷۰)
مزید فرماتے ہیں :
امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ توحید کے لئے ضروری ہے کہ وہ دل سے ہو یعنی توحید کا علم ہو ، زبان سے ہو یعنی اقرار ، عملی ہو یعنی اﷲ کے اوامر ونواہی کا نفاذ اگر ان میں سے ایک چیز بھی کم ہوگئی تو آدمی مسلمان نہیں رہتا (البتہ مرجئہ اس کے خلاف ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایمان صرف دلی اعتقاد کا نام ہے مگر ان کی یہ بات صحیح نہیں) اگر کسی نے توحید کا اقرار کرلیا مگر اس پر عمل نہ کیا تو وہ کافر ہے فرعون وابلیس کی طرح ۔ اور اگر عمل کرلیا ظاہری طور پر مگر باطنی طور پر عقیدہ نہیں رکھا تو وہ خالص منافق ہے کفار سے بدتر ہے۔
(الدرر السنیۃ: ۲/۱۲۵،۱۲۴)
نیز فرماتے ہیں:
لا الٰہ الا اﷲ کے معنی میں نفی بھی ہے اور اثبات بھی چار چیزوں کی نفی ہے چار قسم کا اثبات ہے۔ نفی ہے ، الٰہ، طاغوت، انداد، ارباب کی۔
﴿الٰہ﴾ سے مراد ہے : جس سے نفع ونقصان کی امید رکھی جائے۔
﴿طاغوت﴾ جس کی عبادت کی جائے اور وہ اس پر راضی ہو۔ یا عبادت پرستش کا سبب بننے والے یا اس کے مشابہ امور اختیار کرنا جیسا کہ کسی بادشاہ کے لئے تعریف کے مخصوص الفاظ کے اس میں بہت زیادہ مبالغہ کیا جائے۔
﴿انداد﴾ جو چیز بھی انسان کو دین اسلام سے دور کرنے کا سبب بنے چاہے بیوی بچے ہوں یا گھر ہو، خاندان قوم قبیلہ ہو یا مال دولت تو اسے انداد کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ (البقرہ:۱۶۵)
’’کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اﷲ کے علاوہ انداد (شریک ) بناتے ہیں ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی محبت اﷲ سے کی جاتی ہے ‘‘۔
ارباب : جو حق کے خلاف فتویٰ دے اور اس کی تصدیق کرے اس کو مانا جائے تو یہ کسی کو رب بنانا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لا إِلَهَ إِلا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (التوبۃ: ۳۱)
’’ان لوگوں نے اپنے اہبار و رہبان کو اور مسیح ابن مریم کو اﷲ کے علاوہ رب بنالیا ہے حالانکہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ صرف ایک اﷲ کی عبادت کریں وہ پاک ہے ان کے شرک سے۔‘‘
بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے حق کے خلاف فتوے دئیے ہیں اور لوگوں نے انہیں تسلیم کیا ہے ان کا کہا مانا ہے اس دور کا سب سے پہلا شخص جسے لوگوں نے رب مانا ہے وہ طاغوت ہے القرضاوی، جس نے امت کو گمراہ کیا ہر چیز ان کے لیے حلال قرار دے دی عورت کے فتنے کو پھیلانے کا سبب بنا مرد وعورت کے میل جول کو جائز قرار دیا اس کے دیگر گمراہ کن خیالات اور فتاوے بھی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
۱۔ یہود ، نصاریٰ اور دیگر کفار سے نرمی کا برتاؤ کرنا وہ کہتا ہے کہ ان تینوں گروہوں میں سے جو بھی مسلمانوں کے ساتھ صلح وامن سے رہنا چاہے ان سے دوستی کرنی چاہیے۔ (الحلال والحرام: ۳۰۷)
۲۔ ان کے آسمانی ادیان کا احترام کرنا چاہیے۔ (الاسلام والعلمانیۃ: ۱۰۱)
۳۔ وہ ہمارے بھائی ہیں ۔ (نحو وحدت الفکریہ: ۸۱)
۴۔ ہماری جنگ یہودیوں کے ساتھ عقیدے کی بنیاد پر نہیں ہے۔ (مجلۃ البیان العدد : ۱۲۴)
۵۔ گمراہ اور بدعتی فرقوں اور افراد کے ساتھ نرمی کا سلوک کرنا چاہیے ۔ (الصحوۃ الاسلامیہ بین الجہود والتطرف: ۸۹)
۶۔ آخرت میں اﷲ کے دیدار کا انکار کرتا ہے جیسا کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے البتہ بدعتی فرقہ اشاعرہ کے طریقہ کے مطابق ثابت مانتا ہے ۔ (المرجعۃ العلیافی الاسلام: ۶۳۸)
جبکہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وجوہ یومئذ ناضرة الٰی ربھا ناظرة
’’بہت سے چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اپنے رب کی طرف دیکھنے والے ہوں گے۔ ‘‘
۷۔ الخصائص العامۃ الاسلامیہ میں قرضاوی کہتا ہے کہ روافض سے دوستی کرنا چاہیے ۔
حالانکہ رافضی قرآن میں عیب نکالتے ہیں اسے ناقص سمجھتے ہیں علی رضی اﷲ عنہ کو خدا مانتے ہیں صحابہ رضی اﷲ عنہم اجمعین پر لعنت کرتے ہیں (نعوذ باﷲ) جبکہ اﷲ نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کی مدح وستائش کی ہے :
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح: ۲۹)
’’محمد اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں۔ ‘‘
۸۔ قرضاوی جمہوریت اپنانے کی دعوت دیتا ہے ۔ (الفتاویٰ المعاصرہ: ۲/۶۳۷)
حالانکہ جمہوریت کفر ہے اس لیے کہ یہ غیر اﷲ کو تحکیم کا حق دیتی ہے جبکہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الکٰفِرُونَ (المائدۃ: ۴۴)
’’جو اﷲ کی نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی لوگ کافر ہیں‘‘۔
۹۔ اس کا کردار وعمل بھی عقل پسندوں والا ہے جو کہ معتزلہ کے بقایا جات ہیں ۔ اس لیے قرضاوی بعض صحیح احادیث کو اس بنیاد پر رد کرتا ہے کہ یہ قرآن اور عقل انسانی کے خلاف ہیں۔
جبکہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَمَآ اٰتَا کُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا (الحشر: ۷)
’’جو کچھ تمہیں رسول دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ‘‘۔
قرضاوی نے جن احادیث کو ردّ کیا ہے ان میں سے چند احادیث ذیل میں درج کی جاتی ہیں :
۱۔ مسلم میں حدیث ہے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کہا تھا کہ((ابی واباک فی النار)) ’’میرا باپ اور تمہارا باپ جہنم میں ہیں ‘‘ علماء کا اس پر اتفاق ہے (کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے والد جہنم میں ہیں ) مگر قرضاوی کہتا ہے : ’’میں کہتا ہوں کہ عبداﷲ بن عبدالمطلب نے کون سا گناہ کیا تھا جس کی پاداش میں اسے جہنم میں ڈال دیا گیا ؟ حالانکہ وہ تو اہل الفترہ میں سے ہیں اور اہل فترہ کے بارے میں اتفاق ہے کہ ان کی نجات ہوگی ‘‘۔ (کیف نتعامل مع السنۃ النبویۃ : ۱۶۲)
(نوٹ: اہل فترہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو دو نبیوں کے درمیان اس وقفہ میں پیدا ہوئے اور مر گئے جب کسی نبی کا دین موجود نہ تھا وحی نازل نہیں ہو رہی تھی مگر اہل فترہ والی روایت کی سند ضعیف ہے صحیح نہیں ۔ مترجم (فضیلۃالشیخ ابوجنید حفظہ اﷲ) )
۲۔ صحیحین میں حدیث مروی ہے ((یوتی بالموت کھیئة کبش املح)) ’’قیامت میں موت کو ایک مینڈھے کی صورت میں لاکر ذبح کیا جائے گا‘‘ قرضاوی کہتا ہے یہ بات سب کو یقینی طور پر معلوم ہے عقل ونقل اس پر متفق ہیں کہ موت نہ تو مینڈھا ہے نہ بیل اور نہ ہی کوئی اور حیوان ہے (ایضاً)
۳۔ صحیحین میں حدیث ہے : ((لن یفلح قوم ولوا امرھم امرأة)) ’’وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے عورت کو اپنا سربراہ یا امور کا مختار بنالیا‘‘ قرضاوی کہتا ہے : یہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور کی بات ہے جب حکومت مردوں کے ہاتھ میں ہوتی تھی اور یہ حکومت وہ زبردستی حاصل کرتے تھے جبکہ موجودہ دور میں ایسا نہیں ہے۔(برنامج فی قناۃ)
۴۔ صحیح حدیث ہے جس میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ((مارأیت من ناقصات عقل ودین أسلب للب الرجل الحازم احداکن))’’میں نے ناقص العقل و دین اور سمجھدار آدمی کی عقل کو سلب کرنے والی تم میں سے زیادہ نہیں دیکھا‘‘ قرضاوی کہتا ہے : یہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مزاح کے طور پر کہا تھا اس طرح قرضاوی واضح طور پر احادیث کو ردّ کر رہا ہے اور اپنی عقل کو مقدم کر رہا ہے ۔
۵۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ((لایقتل مسلم بکافر)) ’’کافر کے بدلے میں مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا ‘‘ (اگر مسلمان نے کسی کافر کو قتل کر دیا تو بدلے میں قاتل مسلمان قتل نہ ہوگا) قرضاوی کہتا ہے : یہ رائے ہمارے زمانے کے لئے موزوں نہیں ہے اس رائے کو ترجیح دے کر ہم عذر کو باطل کرکے اور شریعت کا علم بلند کر رہے ہیں۔ (الشیخ الغزالی کماعرفۃ: ۱۶۸)
اس قرضاوی نے بوذا میں بت توڑنے کی بھی مخالفت کی تھی ۔ مگر بڑی مصیبت یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ایسے بھی مبلغین ہیں جو قرضاوی کا دفاع کرتے ہیں اس کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں ہمارے خیال میں تو قرضاوی کا دفاع وہی شخص کرسکتا ہے جو توحید سے ناواقف ہو ورنہ یہ مذکورہ آراء قرضاوی کے کفر وارتداد پر واضح دلیل ہیں۔
توحید کے بارے میں چار باتیں ثابت ہیں :
۱۔ مقصد یا ارادہ یعنی صرف ایک اﷲ ہی کو ماننا مقصود ہو اس کی تعظیم اور محبت مطلوب ہو۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
وَالَّذِینَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ (البقرہ: ۱۶۵)
’’جو لوگ مومن ہیں وہ اﷲسے شدید محبت کرتے ہیں ‘‘۔
خوف وامید:
وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا كَاشِفَ لَهُ إِلا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (یونس: ۱۰۷)
’’اگر اﷲ آپ کو نقصان پہنچادے تو اسے دور کرنے والا کوئی نہیں ہے اور اگر وہ آپ کو بھلائی پہنچانے کا ارادہ کرلے تو کوئی اس کے فضل کا دور کرنے والا نہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اپنا فضل پہنچادے اور وہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے ‘‘
جس نے یہ سب کچھ جان لیا تو گویا اس نے غیر اﷲ سے ناطہ توڑ لیا اب اس پر باطل کا غلبہ نہیں ہوسکتا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں خبر دی ہے کہ اس نے بتوں کو توڑ ڈالا اور اپنی قوم سے بیزاری کا اعلان کر دیا :
قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَةٌ فِیْٓ اِبْرَاھِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِھِمْ اِنَّا بُرَءٓؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کَفَرْنَا بِکُمْ (الممتحنۃ: ۴)
’’تمہارے لئے ابراہیم اور اس کے ساتھی بہترین نمونہ ہیں جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور جنہیں تم اﷲ کے علاوہ پکارتے ہو ان سے بیزار ہیں ۔ ہم تمہارے اس عمل کا انکار کرتے ہیں ‘‘۔
شیخ سلیمان بن عبداﷲ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
اگر کوئی مشرک زبان سے لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کہہ دے مگر الٰہ اور رسول کا معنی نہ جانتا ہو ۔ نماز پڑھتا ہو روزے رکھتا ہو حج کرتا ہو مگر ان کی حقیقت سے واقف نہ ہو صرف لوگوں کی دیکھا دیکھی کر رہا ہو شرک کا کوئی عمل نہ کرتا ہو اس آدمی کے عدم اسلام میں کسی کو کوئی شک نہیں یعنی یہ آدمی مسلمان نہیں ہے۔ فقہائے مغرب نے گیارہویں صدی یا اس سے قبل ایسے ہی ایک شخص کے بارے میں اس طرح کا فتوی دیا تھا ۔ الدرالثمین فی شرح المرشد المعین میں مذکور ہے اس کی شرح میں لکھا ہے یہ وہ فتوی ہے جو ان فقہا نے انتہائی صراحت اور وضاحت سے دیا ہے اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے۔
(تیسیر العزیز الحمید: ۸۱،۸۰)