• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کوئی مسجد شیعہ نہیں ہوتی اور نہ سنی ہوتی ہے، بلکہ مسجد فقط اللہ کا گھر ہے

شمولیت
مئی 14، 2015
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6



ایران میں اہلسنت مساجد کی صورتحال

Details
Written by Wilayat
Category: پروپیگنڈہ
شيعه ويب سائيڻ سه ليا گيا مضمون
کيا يه سچ هو سکتا هه؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟علماء جواب دين


بدقسمتی سے ناصبی ملا مستقل طور پر ایران اور اہل تشیع کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کر کے اپنے شیطانی مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اسکا اصل مقصد ہر صورت اسلامی امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے۔ مثال کے طور پر یہ ویڈیو دیکھئیے:
یہ ناصبی ملا جھوٹے الزامات لگا رہا ہے کہ:
  1. ایران/تہران میں کوئی سنی مسجد نہیں ہے۔
  2. پھر یہ الزام لگا رہا ہے کہ ایرانی پارلیمنٹ میں یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس تو سیٹیں ہیں، مگر اہلسنت کے لیے کوئی سیٹ نہیں ہے۔
  3. ایرانی بلوچوں کے پاس اچھی جاب نہیں ہیں۔
کوئی مسجد شیعہ نہیں ہوتی اور نہ سنی ہوتی ہے، بلکہ مسجد فقط اللہ کا گھر ہے
ایران میں شیعہ سنی اتحاد اور بھائی چارے پر بہت زور دیا جاتا ہے اور امام خمینی علیہ رحمہ اس اتحاد کے بہت بڑے داعی تھی۔
  1. ایران کا آئین اور امام خمینی علیہ رحمہ اس چیز پر بہت واضح ہیں کہ اللہ کی مساجد کو شیعہ یا سنی مساجد کا لیبل لگا دینا اتحاد بین المسلمین پر بہت بڑا حملہ ہے۔ نہیں، کوئی مسجد شیعہ نہیں ہوتی اور نہ سنی ہوتی ہے، بلکہ تمام مساجد فقط اللہ کے لیے ہیں۔
  2. اور ایرانی آئین کہتا ہے:
    اگر کسی علاقے میں اہل تشیع کی اکثریت ہے، تو وہاں برادرانِ اہلسنت پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ شیعہ امام کے پیچھے نماز پڑھیں۔
    اور اگر کسی علاقے میں برادران اہلسنت کی اکثریت ہے تو وہاں اہل تشیع پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اہلسنت امام کے پیچھے نماز ادا کریں، اور انہیں اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد کھول کر بیٹھ جائیں۔
نوٹ:
ایران کی صورتحال کو کسی صورت سعودیہ کی صورتحال سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ سعودیہ میں مکہ میں کوئی شیعہ مسجد ہے اور نہ مدینہ شہر میں، بلکہ سعودی حکومت کسی سلفی کو زور نہیں دیتی کہ وہ کسی شیعہ امام کے پیچھے جا کر نماز ادا کریں۔ سعودیہ میں اہل تشیع کی حالت انتہائی خراب ہے اور بہت سخت پابندیوں کا سامنا ہے، مگر اسکے باوجود ان ناصبی ملا حضرات کی زبان سے اس ظلم کے خلاف ایک لفظ نہیں نکلتا۔
پاکستان میں مساجد کی صورتحال
آپ کو پاکستان کی ہر سڑک پر تین چار مسجدیں پاس پاس بنی نظر آ جائیں گی۔
پہلی مسجد اہلحدیث کی ہو گی تو دوسری مسجد دیوبند کی، اور دس میٹر کے فاصلے پر تیسری مسجد بریلوی حضرات کی ہو گی تو پندرہ میٹر کے فاصلے پر چوتھی مسجد اہل تشیع کی۔
کیا یہ واقعی اتحاد بین المسلمین کے لیے فائدہ مند ہے کہ ہر دس میٹر کے فاصلے پر تین چار مختلف مساجد بنی ہوئی ہوں؟
اور کہیں کہیں تو ایسے بدترین مناظر بھی دیکھنے میں آتے ہیں جیسا کہ جرمنی کے ایک شہر میں ایک ہی عمارت کے اندر تین مختلف مساجد بنی ہوئی ہیں، اور وہاں کے غیر مسلم اس مذاق کو دیکھ کر مسلمانوں پر استہزاء کرتے ہیں۔
ایران میں دس ہزار مساجد میں اہلسنت ائمہ امامت کرواتے ہیں
فاسق فتنہ گر مسلسل یہ جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں کہ ایران میں اہلسنت کو مساجد کھولنے کی اجازت نہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو ہم اس پر یقین کرنے سے قبل تحقیق کریں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ:
  1. ایران میں مساجد کی کُل تعداد ستر ہزار ہے۔
  2. ان میں سے دس ہزار مساجد اہلسنت کے پاس ہیں جس میں اہلسنت ائمہ امامت کرواتے ہیں۔
  3. یعنی ہر پانچ سو اہلسنت برادران کے لیے اوسطاً ایک مسجد موجود ہے، جبکہ ہر گیارہ سو اہل تشیع کے لیے اوسطاً ایک مسجد ہے۔
ایران آئین کہتا ہے کہ کوئی مسجد شیعہ اور کوئی مسجد سنی نہیں ہوتی، بلکہ تمام مساجد فقط اللہ کا گھر ہیں۔ جن علاقوں میں برادرانِ اہلسنت کی اکثریت ہے، وہاں اہل تشیع کو اجازت نہیں کہ وہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا کر بیٹھ جائیں، بلکہ ان پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ جا کر اہلسنت امام کے پیچھے نماز ادا کریں (اور اسکا الٹ وہاں پر جہاں اہل تشیع اکثریت میں ہیں)۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کچھ علاقوں میں کرپشن ہو اور اس اصول کی مکمل طور پر پیروی نہ کی جاتی ہو، مگر دنیا میں کونسی وہ جگہ ہے جو سو فیصد ہر قسم کی کرپشن سے پاک ہو؟ عموم کی بات کرنی ہے تو وہ یہ ہے کہ اہل تشیع کو ہرگز کوئی پرابلم نہیں ہے کہ وہ جا کر اہلسنت امام کے پیچھے نماز ادا کریں۔
دیکھئیے یہ لنک۔
مسلمانان ایران 7 درصد اهل سنت را کسر کنیم ،کل جمعیت شیعه بالغ ب
چهارشنبه ۲۱ اسفند ۱۳۸۷ ساعت ۱۲:۲۳

شیعیان ایران کمترین عبادتگاه را برای زیارت و برگزاری نمازو فرائض دینی در مقایسه با اهل سنت و اقلیت های مذهبی دارند.

به گزارش سرویس اجتماعی جهان نیوز ، نزدیک به 70 هزار مسجد در کشور وجود دارد که از این میزان 60هزار مسجد متعلق به شیعیان و 10 هزار مسجد نیز برای اهل سنت است.

این در حالی است که بنا بر گزارش های رسمی در مورد جمعیت کشور از 72 میلیون نفر ایرانی بیش از 99 درصد مسلمان و 7 درصد آنها نیز از اهل سنت هستند. بر این اساس نزدیک به 5 میلیون سنی در کشور وجود دارد که دارای 10 هزار مسجد هستند و به این ترتیب بطور متوسط برای هر 500 سنی یک مسجد ساخته شده است.

در همین حال اگر از جمعیت مسلمانان ایران 7 درصد اهل سنت را کسر کنیم ،کل جمعیت شیعه بالغ بر 66 میلیون نفر خواهد بود که بطور متوسط برای هر1100 شیعه یک مسجد وجود خواهد داشت.

این در حالی است که مطابق آمار غیر رسمی نزدیک به 40 درصد مساجد شیعیان بدون روحانی و امام جماعت است و بیش از نیمی از این مساجد به بازسازی اساسی نیاز دارد .

از طرفی جمعیت ارامنه کشور قریب به 150 هزار نفر است که دارای 300 کلیسا هستند که به این ترتیب برای هر 500 ارمنی یک کلیسا وجود دارد .

به نظر می رسد مسئولین فرهنگی کشور بایستی اهتمام جدی تری نسبت به ساخت مسجد و نگهداری آن در مناطق شیعه نشین کشور بالاخص مناطق محروم داشته باشند چراکه بی توجهی نسبت به آن می تواند آثار زیانباری داشته باشد

اس خبر کے بعد فاسق ناصبی ملا حضرات کے جھوٹے پروپیگنڈے کا پردہ چاک ہو جائے گا۔ انشاء اللہ۔
گواہی: ایرانی اہل تشیع حضرات کے برادران اہلسنت کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں اور وہ انہیں مسلمان بھائی کی نظر سے دیکھتے ہیں
اہل تشیع اور اہلسنت کے تعلقات کے متعلق امریکی مستند ادارے PCO (Center for Public Opinion) نے ایک سروے کروایا (لنک)۔ اسکے نتائج یہ ہیں:

Iranian Shiite Muslims Think Favorably of Sunni Muslims, Christians, Americans and others .
... For Iranian citizens of the Islamic Republic, 87 percent of who in our survey identified themselves as Shiite, views of both Sunni Muslims and Christians were overwhelmingly favorable—with only 8 percent voicing an unfavorable view of Sunnis and 11 percent of Christians. (Opinions on Jews were divided, though more are favorable than unfavorable.)
Indeed, Iranian views of Sunnis and Christians, as well as non-Iranians generally, are quite accepting—more so than the corresponding views of their neighbors, such as in Saudi Arabia, according to our TFT survey there.
Iranians clearly distinguish between countries and policies they do not like (US and Israel), and people they do like (Christians, Americans, Arabs, Sunni Muslims and Jews). Iranians are favorable to Christians by a 6:1 margin, Sunni Muslims by a 9:1 margin, Americans by a 2:1 margin and Jews by a 5:4 margin. In fact, Iranians are as favorable to Americans as they are to their Arab neighbors. The high favorability of Sunni Muslims among Iranians (higher than for Arabs generally) demonstrates that Shiite/Sunni issues are not the primary force driving a wedge between Iranians and their Arab neighbors.

چنانچہ، ایرانی اہل تشیع ہرگز ہرگز برادرانِ اہلسنت سے کوئی عناد نہیں رکھتے، بلکہ یہ صرف اور صرف ناصبی ملا حضرات وہ مخلوق ہے جن کا سارا خمیر عناد، نفرت و دشمنی پر مشتمل ہے۔
ایران آئین اسلام اور مختلف فقہہ کے متعلق
آرٹیکل گیارہ:

In accordance with the sacred verse of the Koran "This your community is a single community, and I am your Lord, so worship Me" [21:92], all Muslims form a single nation, and the government of the Islamic Republic of Iran have the duty of formulating its general policies with a view to cultivating the friendship and unity of all Muslim peoples, and it must constantly strive to bring about the political, economic, and cultural unity of the Islamic world.
آرٹیکل بارہ:

The official religion of Iran is Islam and the (official Fiqh is) Twelver Ja'fari school, and this principle will remain eternally immutable. Other Islamic schools are to be accorded full respect, and their followers are free to act in accordance with their own jurisprudence in performing their religious rites. These schools enjoy official status in matters pertaining to religious education, affairs of personal status (marriage, divorce, inheritance, and wills) and related litigation in courts of law. In regions of the country where Muslims following any one of these schools constitute the majority, local regulations, within the bounds of the jurisdiction of local councils, are to be in accordance with the respective school, without infringing upon the rights of the followers of other schools.

آرٹیکل گیارہ اسلام کے متعلق ہے۔
ایران میں اہل تشیع کے ساتھ ساتھ اہلسنت کے مذاہب اربعہ سرکاری سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔
آرٹیکل بارہ آفیشل مذاہب اور مذہبی قوانین کے متعلق ہے، جو کہ شیعہ اثناء عشری فقہی قوانین پر مشتمل ہے (صرف اُن علاقوں میں جہاں اہل تشیع کی اکثریت ہے)۔ جبکہ وہ علاقے، جہاں دیگر اہلسنت مذاہب اربعہ کے ماننے والوں کی اکثریت ہے، تو وہاں کا آفیشل مذہب و قوانین اُس فقہ کے قوانین کے مطابق ہوں گے اور وہاں کی شیعہ اقلیت کو اُن اصولوں کی پاسداری کرنا ہو گی۔ یہ کیس ہے ایرانی بلوچستان سیستان علاقے کا کہ جہاں پر اہلسنت کی اکثریت ہے۔
ایران کے شہر زاہدان (بلوچستان) میں اہلسنت کا ایک بہت بڑا مدرسہ موجود ہے (دارلعلوم و جامع المکی" یہ انکے ادارے کا آفیشل ویب سائیٹ ہے۔
اور ذیل کے ویڈیو دیکھئیے جہاں مفتی تقی عثمانی (جو پاکستان میں دیوبند حضرات کے سربراہ ہیں) ایران جا کر لیکچر دے رہے ہیں۔

TEHRAN (FNA)- Egypt’s Al-Azhar University, one of Muslim’s most prestigious institution, is considering opening a branch in Iran.

“Sheikh Mohammed Sayyid Tantawi, who heads Al-Azhar University has positively welcomed the request from the Iranian authorities to open a branch of his institute in Tehran and is said to be evaluating the proposal,” said a source within the management of the university to the London-based al-Sharq al-Awsat newspaper.

Tantawi received a request from authorities in Tehran to open an institute linked to Al-Azhar to teach Sunni doctrine in the Iranian capital.

“An Iranian delegation led by head of Iran’s interest section in Cairo Seyed Hossein Rajabi visited the Sheikh (Tantawi) at Al-Azhar three days ago,” said the source.

“Together they agreed on the necessity to bring the experience of the teachings at Al-Azhar to Iran, to promote cultural cooperation and exchange of professors from religious universities between Cairo and Tehran.”

The source said that Tantawi has agreed to consider opening a branch of the university in Tehran.

ناصبی ملا حضرات کا جھوٹ کہ ایرانی پارلیمنٹ میں کوئی اہلسنت ممبر موجود نہیں
آپ نے اوپر ویڈیو ملاحظہ کی ہے جہاں ناصبی ملا الزام لگا رہا ہے کہ ایرانی پارلیمنٹ میں یہودیوں اور عیسائیوں کی لیے تو سیٹیں ہیں، مگر اہلسنت کے لیے کوئی سیٹ نہیں۔
یہ اس ناصبی ملا کا کھلم کھلا جھوٹ ہے۔ بی بی سی اردو سروس اسلامی ایران کے خلاف پروپیگنڈہ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ اسی بی بی سی کی آپ یہ خبر پڑھ سکتے ہیں جو بتلا رہی ہے کہ ایرانی پارلیمنٹ میں اٹھارہ اہلسنت ممبران موجود ہیں۔
اب آپ اس ناصبی ملا کی کذب بیانی پر کیا کہیں گے سوائے لاحول واللہ قوۃ پڑھتے ہوئے آگے بڑھ جانے کے۔
یہودیوں اور عیسائیوں کی ایرانی پارلیمنٹ میں مخصوص نشتیں ہیں کیونکہ انہیں ایران میں غیر مسلم اقلیت کا درجہ حاصل ہے۔ جبکہ برادرانِ اہلسنت ہرگز ہرگز غیر مسلم اقلیت نہیں بلکہ ہمارے دینی مسلمان بھائی ہیں اور ہم سے الگ نہیں۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ چھوٹی موٹی پرابلمز اور شکایات سامنے آتی رہیں، مگر یہ بہت بڑا جھوٹا الزام ہے کہ کوئی ایرانی پارلیمنٹ میں کوئی اہلسنت ممبر موجود نہیں کیونکہ اُن کے ساتھ یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی بدترین سلوک کیا جاتا ہے۔
الزام کہ ایرانی بلوچوں کے پاس اچھی جاب نہیں ہے
بلاشبہ یہ ایک پرابلم ہے کہ ایرانی بلوچ بقیہ علاقوں سے جاب میں پیچھے ہیں۔ مگر اسکی وجہ انکا اہلسنت سے تعلق ہونا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ ایران میں مقابلہ بہت سخت ہے اور بقیہ علاقوں کا تعلیمی معیار ایرانی بلوچستان سے آگے ہے۔ ایرانی بلوچستان میں لوگوں کا کلچر ابھی تک پرانا ہے اور اگرچہ کہ وہاں حکومت نے مکمل تعلیمی سہولیات مہیا کر رکھی ہیں، مگر پھر بھی تعلیمی معیار وہاں کے کلچر کی وجہ سے اتنا آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ اکثر بلوچ طلباء یونیورسٹی نہیں جاتے، اور جو جا رہے ہیں ان میں سے بہت سارے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ (نوٹ: ایرانی بلوچستان میں تعلیمی سہولیات پاکستای بلوچستان سے کئی گنا زیادہ ہیں، مگر مقابلہ اس لیے سخت ہو جاتا ہے کیونکہ بقیہ ایران کا تعلیمی معیار بھی بہت بلند ہے)۔
اگرچہ کہ حالات آجکل تبدیل ہو رہے ہیں اور ایرانی بلوچوں میں تعلیم کا معیار آہستہ آہستہ بلند ہو رہا ہے، مگر اس سارے پراسس میں وقت لگتا ہے۔
نتیجہ:
قرآن کہتا ہے کہ جب کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اسکی تحقیق کر لیا کرو۔ یہ اس بات کی ضمانت ہے کہ کوئی ناصبی ملا اپنے مذموم مقاصد میں پورا نہیں ہو سکے گا اور انکی اتحاد بین المسلمین کو پارہ پارہ کرنے کی سازش ناکام رہے گی۔ انشاء اللہ۔
 
Top