• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کونسی حدیث واجب ہے اور کونسی نہیں؟

شمولیت
اگست 02، 2018
پیغامات
69
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
22
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبراکۃ
یوں تو رسول اللہ ﷺ کی ہر(ثابت) احادیث ہی انکھوں کی ٹھنڈک ہے لیکن ایک بھائی کا سوال ہے کہ
کون سی حدیث واجب ہوتی ہے اور کونسی نہیں؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ حدیث میں بیان ہونے والے امر کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دیکھا جائے گا، آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس امر کو لازمی قرار دیتے ہیں، یا اس کی ترغیب و تاکید فرماتے ہیں!
اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی امر کو لازم قرار دیں، حکم دیں اس طرح کہ '' ایسا کرو'' اور تو وہ امر واجب و فرض قرار پائے گا، الا یہ کہ کوئی قرینہ ایسا ہو جو اس بات کو ثابت کرے یہ امر مندوب ہے، یعنی ترغیب ہے، لازم نہیں، ایسی صورت میں اس حدیث مذکور امر فرض و واجب نہیں بلکہ مندوب یعنی مسنون قرار پائے گا!
اسی طرح اس کے برعکس یعنی کسی شئے یا عمل کے حرام ہونے مے معاملہ میں بھی!

یعنی کہ یہ واجب و فرض یا سنت و مندوب ہونا احکام کی فقہی نوعیت کے اعتبار سے ہے!
اور تمام صحیح احادیث واجب العمل ہیں، اسی فقہی نوعیت کے لحاظ سے کہ جس حدیث میں فرض و واجب عمل ذکر ہے، اسے فرض وواجب مانا جائے، اور جس میں مندوب و سنت عمل مذکور ہے اسے مندوب و سنت مانا جائے!
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
ایک ہی عمل کی اگر کئی متعارض احادیث ہوں تو ان میں سے طریقہ انتخاب کیا ہوگا؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبراکۃ
یوں تو رسول اللہ ﷺ کی ہر(ثابت) احادیث ہی انکھوں کی ٹھنڈک ہے لیکن ایک بھائی کا سوال ہے کہ
کون سی حدیث واجب ہوتی ہے اور کونسی نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال کا جواب تو محترم بھائی @ابن داود حفظہ اللہ نے دے دیا ہے ،
اس جواب کی روشنی میں واضح ہے کہ یہ سوال دو پہلو رکھتا ہے ،
(1) کیا ہر حدیث کو ماننا لازم ہے ؟
(2)کیا حدیث سے ثابت عقیدہ و عمل ماننا واجب ہے ؟

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہر صحیح حدیث کو سچا اورجزو اسلام ماننا ضروری ہے اس پہلو کو حجیت حدیث کے عنوان سے بیان کیا جاتا ہے ، اس پہلو کا تعلق عقیدہ و عمل دونوں سے ہے ،جیسا کہ
اللہ تعالی کا قرآن مجید میں حکم ہے :
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا " سورۃ الحشر آیت 7
اور جو کچھ تمہیں (ہمارے مکرم )رسول ﷺ دیں وہ لے لو ، اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ۔

تفصیل کیلئے دیکھئے "حجیت حدیث " کا تھریڈ دیکھئے ۔
اور ادارہ محدث کی شائع کردہ کتاب " حجیت حدیث " کا مطالعہ کیجئے ۔
کتاب یہاں سے ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں ۔
ـــــــــــــــــــــــ

حدیث کو ماننے ، تسلیم کرنے کا دوسرا پہلو فقہی ہے ،یعنی احادیث میں موجود احکام و اعمال کی مختلف حیثیت تسلیم کرنا
یعنی یہ حکم یا عمل واجب ہے یا مستحب و مسنون ہے ؟
مثلاً نماز مغرب کی فرض نماز سے پہلے دو رکعت سنت غیرمؤکدہ ہیں ، اور مغرب کی تین رکعت فرض کے بعد دو رکعت مؤکدہ سنتیں ہیں ،
ــــــــــــــــــــ
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک ہی عمل کی اگر کئی متعارض احادیث ہوں تو ان میں سے طریقہ انتخاب کیا ہوگا؟
ایسا تعارض اکثر لوگوں کے دماغ میں ہوتا ہے، اسے ڈاکٹر کے انتخاب کی فکر کرنا چاہیئے!
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
ایسا تعارض اکثر لوگوں کے دماغ میں ہوتا ہے، اسے ڈاکٹر کے انتخاب کی فکر کرنا چاہیئے!
کس ڈاکٹر کا انتخاب کروں؟
انسانی جسمانی یا روحانی یا ــــــــ ؟
اس فورم پر کس جنس اور "فیلڈ" کے ڈاکٹر ہیں؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
ایک ہی عمل کی اگر کئی متعارض احادیث ہوں تو ان میں سے طریقہ انتخاب کیا ہوگا؟
درج ذیل شخص سے معذرت کہ جواب دینے کی کوشش نا کرے۔
ایسا تعارض اکثر لوگوں کے دماغ میں ہوتا ہے، اسے ڈاکٹر کے انتخاب کی فکر کرنا چاہیئے!
اصحاب فہم و دانش سے مثبت علمی جواب کی توقع کے ساتھ منتظر جواب۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
مثال کے طور پر یہ دو احادیث ہیں۔
ایک میں امام کی اقتدا میں سورت فاتحہ پڑھنے کی تاکید ہے۔
دوسری میں ممانعت وارد ہے۔
پہلی حدیث
سنن أبي داود:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كُنَّا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: «لَعَلَّكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ» قُلْنَا: نَعَمْ هَذًّا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا»

دوسری حدیث
سنن ابن ماجه:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، وَإِذَا قَالَ: {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7] ، فَقُولُوا: آمِينَ، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا، فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ "
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مثال کے طور پر یہ دو احادیث ہیں۔
ایک میں امام کی اقتدا میں سورت فاتحہ پڑھنے کی تاکید ہے۔
دوسری میں ممانعت وارد ہے۔
پہلی حدیث
سنن أبي داود:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كُنَّا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: «لَعَلَّكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ» قُلْنَا: نَعَمْ هَذًّا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا»

دوسری حدیث
سنن ابن ماجه:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، وَإِذَا قَالَ: {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7] ، فَقُولُوا: آمِينَ، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا، فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ "
پہلی حدیث میں:
1۔سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم ہے۔
2۔ سورہ فاتحہ کے علاوہ دیگر قراءت نہ کرنے کا حکم ہے۔
دوسری حدیث میں:
امام کی قراءت کے وقت خاموشی اختیار کرنے کا حکم ہے۔
نتیجہ:
سورۃ فاتحہ پڑھیں، لیکن امام کی طرح اونچی آواز میں نہیں، بلکہ خاموشی کے ساتھ۔ جیساکہ ایک اور حدیث میں اس کی صراحت ہے اقرأ بہا فی نفسک یا فارسی۔
تضاد تب ہوتا:
جب ایک حدیث میں کہا جائےکہ سورۃ فاتحہ پڑھو، دوسری میں کہا جائے کہ سورۃ فاتحہ نہ پڑھو۔ ’سورۃ فاتحہ نہ پڑھو‘ یہ تو کہیں بھی موجود نہیں۔ ’فأنصتوا‘ کا معنی’سورۃ فاتحہ نہ پڑھو‘ کرنا غلط فہمی ہے۔
ان دو احادیث کی جمع و تطبیق کی اور بھی صورتیں ہیں۔
میرے خیال میں یہ کہنا صحیح ہے، کہ تضاد احادیث میں نہیں، کہیں اور ہوتا ہے۔
 
Top