• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کھڑے ہو کر پانی پینے کا حکم

شمولیت
جون 14، 2016
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
عثمان بن خالد مرجالوی
===
سائل:
فرحان اکبر۔ کراچی
سوال:
کھڑے ہو کر پانی پینا کیسا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تمہیں پتہ چل جائےکہ کھڑے ہو کر پانی پینے کا کتنا عذاب ہے تو تم اپنے حلق میں ہاتھ ڈال کر اس پانی کو باہر نکال دو۔ اور اگر اس وقت تم دیکھ لو کہ تمہارے ساتھ کتنی خوفناک شکل والا شیطان منہ لگا کر پیتا ہےتو تم پانی پینا ہی چھوڑ دو‘‘۔ اس کی تحقیق مطلوب ہے؟

جواب:
کھڑے ہو کر پانی پینا جائز ہے جس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
نزال سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں:
’’أَتَى عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى بَابِ الرَّحَبَةِ «فَشَرِبَ قَائِمًا» فَقَالَ: إِنَّ نَاسًا يَكْرَهُ أَحَدُهُمْ أَنْ يَشْرَبَ وَهُوَ قَائِمٌ، وَإِنِّي «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ كَمَا رَأَيْتُمُونِي فَعَلْتُ‘‘۔
[صحیح البخاري، الأشربۃ، باب الشرب قائما، (رقم الحدیث: 5615)]
’’علی رضی اللہ عنہ حویلی کے دروازے کے پاس میں تشریف لائے،پھر علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پیا اور کہا کہ کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ سمجھتے ہیں حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے دیکھا ہے جس طرح تم نے مجھے اس وقت کھڑے ہو کر پانی پیتے دیکھا ہے‘‘۔​
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، بیان فرماتے ہیں:
«كُنَّا نَأْكُلُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَمْشِي، وَنَشْرَبُ وَنَحْنُ قِيَامٌ»
[جامع الترمذي، أبواب الأشربۃ، باب ما جاء في النھي عن الشرب قائما، (رقم الحدیث: 1880)، قال الألباني: صحیح]
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چلتے پھرتے کھا لیا کرتے، اور کھڑے ہی (پانی وغیرہ) پی لیا کرتے تھے‘‘۔​
عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَيَشْرَبُ قَائِمًا وَقَاعِدًا»
[جامع الترمذي، أبواب الأشربۃ، باب ما جاء في الرخصۃ في الشرب قائما، (رقم الحدیث: 1882)، سنن النسائي، السھو، باب الانصراف من الصلاۃ، (رقم الحدیث: 1361)، قال الألباني: صحیح]
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کھڑے اور بیٹھنے کی حالت میں (مشروب) پی لیا کرتے تھے‘‘۔​
اسی طرح طبرانی، ابن حبان وغیرہ میں کئی ایک روایات موجود ہیں۔

جن روایات میں ممانعت ہے وہ درج ذیل ہیں:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«لَا يَشْرَبَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَائِمًا، فَمَنْ نَسِيَ فَلْيَسْتَقِئْ»
[صحیح مسلم، الأشربۃ، باب کراھیۃ الشرب قائما، (رقم الحدیث: 2026)]
’’ہر گز تم میں سے کوئی ایک کھڑے ہوکر پانی نہ پیئے، پس جو بھول جائے تو وہ قے کردے‘‘۔​
سیدنا ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان فرماتے ہیں:
«أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا»
[صحیح مسلم، الأشربۃ، باب کراھیۃ الشرب قائما، (رقم الحدیث: 2025)، جامع الترمذي، أبواب الأشربۃ، باب ما جاء في النھي عن الشرب قائما، (رقم الحدیث: 1881)]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان فرماتے ہیں:
«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَزَجَرَ عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا»
[صحیح مسلم، الأشربۃ، باب کراھیۃ الشرب قائما، (رقم الحدیث: 2024)]
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے ڈانٹا ہے‘‘۔​

دونوں طرح کی روایات میں تطبیق:
علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ نے سات اقوال نقل فرمائے ہیں:

أَحدهَا: أَن النَّهْي مَحْمُول على التَّنْزِيه لَا على التَّحْرِيم، وَهُوَ الَّذِي صَار إِلَيْهِ الْأَئِمَّة الجامعون بَين الحَدِيث وَالْفِقْه كالخطابي وَأبي مُحَمَّد الْبَغَوِيّ وَأبي عبد الله الْمَازرِيّ، وَالْقَاضِي عِيَاض وَأبي الْعَبَّاس الْقُرْطُبِيّ، وَأبي زَكَرِيَّا النَّوَوِيّ، رَحِمهم الله تَعَالَى. الثَّانِي: أَن المُرَاد بالقائم هُنَا الْمَاشِي لِأَن الْمَاشِي يُسمى قَائِما، قَالَ الله عز وَجل: {إِلَّا مَا دمت عَلَيْهِ قَائِما} (آل عمرَان: 75) . أَي: مواظباً بِالْمَشْيِ إِلَيْهِ، وَالْعرب تَقول: قُم فِي حاجتنا أَي: امش فِيهَا، قَالَه ابْن التِّين. الثَّالِث: أَنه مَحْمُول على أَن يَأْتِي الرجل أَصْحَابه بشراب فَيبْدَأ قبل أَصْحَابه فيشرب قَائِما، ذكره أَبُو الْوَلِيد الْبَاجِيّ والمازري. الرَّابِع: تَضْعِيف أَحَادِيث النَّهْي عَن الشّرْب قَائِما، قَالَه جمَاعَة من الْمَالِكِيَّة، مِنْهُم: أَبُو عمر بن عبد الْبر، وَفِيه نظر. الْخَامِس: أَن أَحَادِيث النَّهْي مَنْسُوخَة قَالَه أَبُو حَفْص بن شاهين وَابْن حبَان فِي صَحِيحه. السَّادِس: مَا قَالَه ابْن حزم أَن أَحَادِيث النَّهْي ناسخة لأحاديث الشّرْب قَائِما، وَقَالَ النَّوَوِيّ فِي (شرح مُسلم) : الصَّوَاب أَن النَّهْي مَحْمُول على كَرَاهَة التَّنْزِيه، وَأما شربه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَائِما فبيانه للْجُوَاز فَلَا إِشْكَال وَلَا تعَارض، قَالَ: وَهَذَا الَّذِي ذَكرْنَاهُ يتَعَيَّن الْمصير إِلَيْهِ، قَالَ: وَأما من زعم نسخا أَو غَيره فقد غلط غَلطا فَاحِشا، وَكَيف يُصَار إِلَى النّسخ مَعَ إِمْكَان الْجمع لَو ثَبت التَّارِيخ؟ وأنَّى لَهُ بذلك، وَالله أعلم. قلت: جزم النَّوَوِيّ هُنَا بِالْكَرَاهَةِ، وَخَالف ذَلِك فِي (الرَّوْضَة) تبعا للرافعي، فَقَالَ: إِن الشّرْب قَائِما لَيْسَ بمكروه.
[عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، جلد21، صفحہ193]
1۔ نہی محمول ہے مکروہ تنزیہی پر تحریمی پر نہیں۔ اسی قول کی طرف وہ آئمہ گئے ہیں جو حدیث و فقہ میں مطابقت کرتے ہیں جیسے الخطابی، ابو محمد بغوی، ابو عبد اللہ المازری، قاضی عیاض، ابو العباس القرطبی، ابو زکریا النووی رحمھم اﷲ تعالٰی۔
2۔ یہاں کھڑے ہو کر پینے والے سے مراد چلتے پھرتے پینے والا ہے جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے :
إِلاَّ مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَآئِمًا.
(اٰل عمران، 3 : 75)
یعنی مسلسل اس کے پاس اپنی امانت مانگنے کیلئے پھیرے لگاتے ہیں۔ عرب کہتے ہیں :
قم فی حاجتنا.
’’ہمارا کام کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہو‘‘۔ یہ قول ہے علامہ ابن التین کا۔
3۔ یہ ارشاد اس صورت پر محمول ہے کہ آدمی اپنے ساتھیوں کیلئے مشروب لائے اور کھڑے کھڑے پہلے خود پینا شروع کر دے یہ معنی ابو الولید الباجی اور المازری نے ذکر کیا ہے۔
4۔ کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کی حدیثیں ضعیف ہیں یہ قول مالکیہ کی ایک جماعت نے کیا ہے جن میں علامہ ابو عمر ابن عبد البر بھی شامل ہیں اور اس قول میں گفتگو کی گنجائش ہے۔
5۔ منع کی حدیثیں منسوخ ہیں یہ بات ابو حفض بن شاھین اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں کہی ہے۔
6۔ ابن حزم ظاہری نے کہا منع کی حدیثیں کھڑے ہو کر پینے کی روایات کی ناسخ ہیں۔
7۔ امام نووی نے شرح مسلم میں فرمایا صحیح تر بات یہ ہے کہ یہ ممانعت مکروہ تنزیہی کو ثابت کرتی ہے رہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کھڑے ہو کر پینا تو یہ بیان جواز کیلئے ہے۔ لہٰذا کوئی اشکال و تعارض نہیں اور کہا کہ یہ جو ہم نے ذکر کیا ہے اسی کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے نسخ کا قول غلط ہے۔ میں یہ کہتا ہوں امام نووی نے یہاں تو یقینی طور پر مکروہ کہا ہے اور اپنی کتاب الروضہ کے اندر امام الرافعی کی پیروی کرتے ہوئے کھڑے ہو کر پانی پینے کو جائز قرار دیا ہے۔

خلاصۂ کلام:
اول یہ ہے کہ معذور افراد کے لیے تو رخصت موجود ہی ہے، اگر کوئی بغیر کسی عذر کے کھڑے ہو کر پی لیتا ہے تو ہم اسے گنہگار نہیں کہہ سکتے۔ دوم یہ ہے کہ کھڑے ہو کر پانی پینے کا جواز؛ جبکہ بیٹھ کر پینے کا اجر و ثواب ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)
 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
عثمان بن خالد مرجالوی
===
سائل:
فرحان اکبر۔ کراچی
سوال:
کھڑے ہو کر پانی پینا کیسا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تمہیں پتہ چل جائےکہ کھڑے ہو کر پانی پینے کا کتنا عذاب ہے تو تم اپنے حلق میں ہاتھ ڈال کر اس پانی کو باہر نکال دو۔ اور اگر اس وقت تم دیکھ لو کہ تمہارے ساتھ کتنی خوفناک شکل والا شیطان منہ لگا کر پیتا ہےتو تم پانی پینا ہی چھوڑ دو‘‘۔ اس کی تحقیق مطلوب ہے؟

جواب:
کھڑے ہو کر پانی پینا جائز ہے جس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
نزال سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں:
’’أَتَى عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى بَابِ الرَّحَبَةِ «فَشَرِبَ قَائِمًا» فَقَالَ: إِنَّ نَاسًا يَكْرَهُ أَحَدُهُمْ أَنْ يَشْرَبَ وَهُوَ قَائِمٌ، وَإِنِّي «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ كَمَا رَأَيْتُمُونِي فَعَلْتُ‘‘۔
[صحیح البخاري، الأشربۃ، باب الشرب قائما، (رقم الحدیث: 5615)]
’’علی رضی اللہ عنہ حویلی کے دروازے کے پاس میں تشریف لائے،پھر علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پیا اور کہا کہ کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ سمجھتے ہیں حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے دیکھا ہے جس طرح تم نے مجھے اس وقت کھڑے ہو کر پانی پیتے دیکھا ہے‘‘۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، بیان فرماتے ہیں:
«كُنَّا نَأْكُلُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَمْشِي، وَنَشْرَبُ وَنَحْنُ قِيَامٌ»
[جامع الترمذي، أبواب الأشربۃ، باب ما جاء في النھي عن الشرب قائما، (رقم الحدیث: 1880)، قال الألباني: صحیح]
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چلتے پھرتے کھا لیا کرتے، اور کھڑے ہی (پانی وغیرہ) پی لیا کرتے تھے‘‘۔
عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَيَشْرَبُ قَائِمًا وَقَاعِدًا»
[جامع الترمذي، أبواب الأشربۃ، باب ما جاء في الرخصۃ في الشرب قائما، (رقم الحدیث: 1882)، سنن النسائي، السھو، باب الانصراف من الصلاۃ، (رقم الحدیث: 1361)، قال الألباني: صحیح]
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کھڑے اور بیٹھنے کی حالت میں (مشروب) پی لیا کرتے تھے‘‘۔
اسی طرح طبرانی، ابن حبان وغیرہ میں کئی ایک روایات موجود ہیں۔

جن روایات میں ممانعت ہے وہ درج ذیل ہیں:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«لَا يَشْرَبَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَائِمًا، فَمَنْ نَسِيَ فَلْيَسْتَقِئْ»
[صحیح مسلم، الأشربۃ، باب کراھیۃ الشرب قائما، (رقم الحدیث: 2026)]
’’ہر گز تم میں سے کوئی ایک کھڑے ہوکر پانی نہ پیئے، پس جو بھول جائے تو وہ قے کردے‘‘۔
سیدنا ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان فرماتے ہیں:
«أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا»
[صحیح مسلم، الأشربۃ، باب کراھیۃ الشرب قائما، (رقم الحدیث: 2025)، جامع الترمذي، أبواب الأشربۃ، باب ما جاء في النھي عن الشرب قائما، (رقم الحدیث: 1881)]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان فرماتے ہیں:
«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَزَجَرَ عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا»
[صحیح مسلم، الأشربۃ، باب کراھیۃ الشرب قائما، (رقم الحدیث: 2024)]
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے ڈانٹا ہے‘‘۔

دونوں طرح کی روایات میں تطبیق:
علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ نے سات اقوال نقل فرمائے ہیں:

أَحدهَا: أَن النَّهْي مَحْمُول على التَّنْزِيه لَا على التَّحْرِيم، وَهُوَ الَّذِي صَار إِلَيْهِ الْأَئِمَّة الجامعون بَين الحَدِيث وَالْفِقْه كالخطابي وَأبي مُحَمَّد الْبَغَوِيّ وَأبي عبد الله الْمَازرِيّ، وَالْقَاضِي عِيَاض وَأبي الْعَبَّاس الْقُرْطُبِيّ، وَأبي زَكَرِيَّا النَّوَوِيّ، رَحِمهم الله تَعَالَى. الثَّانِي: أَن المُرَاد بالقائم هُنَا الْمَاشِي لِأَن الْمَاشِي يُسمى قَائِما، قَالَ الله عز وَجل: {إِلَّا مَا دمت عَلَيْهِ قَائِما} (آل عمرَان: 75) . أَي: مواظباً بِالْمَشْيِ إِلَيْهِ، وَالْعرب تَقول: قُم فِي حاجتنا أَي: امش فِيهَا، قَالَه ابْن التِّين. الثَّالِث: أَنه مَحْمُول على أَن يَأْتِي الرجل أَصْحَابه بشراب فَيبْدَأ قبل أَصْحَابه فيشرب قَائِما، ذكره أَبُو الْوَلِيد الْبَاجِيّ والمازري. الرَّابِع: تَضْعِيف أَحَادِيث النَّهْي عَن الشّرْب قَائِما، قَالَه جمَاعَة من الْمَالِكِيَّة، مِنْهُم: أَبُو عمر بن عبد الْبر، وَفِيه نظر. الْخَامِس: أَن أَحَادِيث النَّهْي مَنْسُوخَة قَالَه أَبُو حَفْص بن شاهين وَابْن حبَان فِي صَحِيحه. السَّادِس: مَا قَالَه ابْن حزم أَن أَحَادِيث النَّهْي ناسخة لأحاديث الشّرْب قَائِما، وَقَالَ النَّوَوِيّ فِي (شرح مُسلم) : الصَّوَاب أَن النَّهْي مَحْمُول على كَرَاهَة التَّنْزِيه، وَأما شربه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَائِما فبيانه للْجُوَاز فَلَا إِشْكَال وَلَا تعَارض، قَالَ: وَهَذَا الَّذِي ذَكرْنَاهُ يتَعَيَّن الْمصير إِلَيْهِ، قَالَ: وَأما من زعم نسخا أَو غَيره فقد غلط غَلطا فَاحِشا، وَكَيف يُصَار إِلَى النّسخ مَعَ إِمْكَان الْجمع لَو ثَبت التَّارِيخ؟ وأنَّى لَهُ بذلك، وَالله أعلم. قلت: جزم النَّوَوِيّ هُنَا بِالْكَرَاهَةِ، وَخَالف ذَلِك فِي (الرَّوْضَة) تبعا للرافعي، فَقَالَ: إِن الشّرْب قَائِما لَيْسَ بمكروه.
[عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، جلد21، صفحہ193]
1۔ نہی محمول ہے مکروہ تنزیہی پر تحریمی پر نہیں۔ اسی قول کی طرف وہ آئمہ گئے ہیں جو حدیث و فقہ میں مطابقت کرتے ہیں جیسے الخطابی، ابو محمد بغوی، ابو عبد اللہ المازری، قاضی عیاض، ابو العباس القرطبی، ابو زکریا النووی رحمھم اﷲ تعالٰی۔
2۔ یہاں کھڑے ہو کر پینے والے سے مراد چلتے پھرتے پینے والا ہے جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے :

إِلاَّ مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَآئِمًا.
(اٰل عمران، 3 : 75)
یعنی مسلسل اس کے پاس اپنی امانت مانگنے کیلئے پھیرے لگاتے ہیں۔ عرب کہتے ہیں :

قم فی حاجتنا.
’’ہمارا کام کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہو‘‘۔ یہ قول ہے علامہ ابن التین کا۔
3۔ یہ ارشاد اس صورت پر محمول ہے کہ آدمی اپنے ساتھیوں کیلئے مشروب لائے اور کھڑے کھڑے پہلے خود پینا شروع کر دے یہ معنی ابو الولید الباجی اور المازری نے ذکر کیا ہے۔
4۔ کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کی حدیثیں ضعیف ہیں یہ قول مالکیہ کی ایک جماعت نے کیا ہے جن میں علامہ ابو عمر ابن عبد البر بھی شامل ہیں اور اس قول میں گفتگو کی گنجائش ہے۔
5۔ منع کی حدیثیں منسوخ ہیں یہ بات ابو حفض بن شاھین اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں کہی ہے۔
6۔ ابن حزم ظاہری نے کہا منع کی حدیثیں کھڑے ہو کر پینے کی روایات کی ناسخ ہیں۔
7۔ امام نووی نے شرح مسلم میں فرمایا صحیح تر بات یہ ہے کہ یہ ممانعت مکروہ تنزیہی کو ثابت کرتی ہے رہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کھڑے ہو کر پینا تو یہ بیان جواز کیلئے ہے۔ لہٰذا کوئی اشکال و تعارض نہیں اور کہا کہ یہ جو ہم نے ذکر کیا ہے اسی کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے نسخ کا قول غلط ہے۔ میں یہ کہتا ہوں امام نووی نے یہاں تو یقینی طور پر مکروہ کہا ہے اور اپنی کتاب الروضہ کے اندر امام الرافعی کی پیروی کرتے ہوئے کھڑے ہو کر پانی پینے کو جائز قرار دیا ہے۔

خلاصۂ کلام:
اول یہ ہے کہ معذور افراد کے لیے تو رخصت موجود ہی ہے، اگر کوئی بغیر کسی عذر کے کھڑے ہو کر پی لیتا ہے تو ہم اسے گنہگار نہیں کہہ سکتے۔ دوم یہ ہے کہ کھڑے ہو کر پانی پینے کا جواز؛ جبکہ بیٹھ کر پینے کا اجر و ثواب ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)
Jaza Kalla Mataram
 
Top