• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کھیتی باڑی کے آلات سے ذلت کیوں آتی ہے علمائے کرام رہنمائی فرمائیں

شمولیت
مارچ 19، 2012
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
82
عن ابي امامة الباهلي قال - وراى سكة وشيئا من آلة الحرث فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لا يدخل هذا بيت قوم إلا ادخله الله الذل ".​
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے ہل کا پھال اور کھیتی باڑی کے کچھ دوسرے آلات دیکھے اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس قوم کے گھر میں یہ (آلات) داخل ہو جاتے ہیں، اللہ ان پر ذلت مسلط کر دیتا ہے۔
حدیث نمبر (بمطابق فقہی ترتیب): 1122

تخریج: أخرجه البخاري في " صحيحه " (5 / 4 بشرح " الفتح ") ، ورواه الطبراني في " الكبير " من طريق أخرى عن أبي أمامة

قال الشيخ الألباني: التكالب على الدنيا يورث الذل:
ذكرت في المقال السابق بعض الأحاديث الواردة في الحض على استثمار الأرض، مما
لا يدع مجالا للشك في أن الإسلام شرع ذلك للمسلمين ورغبهم فيه أيما ترغيب.
واليوم نورد بعض الأحاديث التي قد يتبادر لبعض الأذهان الضعيفة أو القلوب
المريضة أنها معارضة للأحاديث المتقدمة، وهي في الحقيقة غير منافية له،
إذا ما أحسن فهمها، وخلت النفس من اتباع هواها!
الأول: عن أبي أمامة الباهلي قال - ورأى سكة وشيئا من آلة الحرث فقال:
سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:
" لا يدخل هذا بيت قوم إلا أدخله الله الذل ".

أخرجه البخاري في " صحيحه " (5 / 4 بشرح " الفتح ") ، ورواه الطبراني في
" الكبير " من طريق أخرى عن أبي أمامة مرفوعا بلفظ:
" ما من أهل بيت يغدو عليهم فدان إلا ذلوا ".
ذكره في " المجمع " (4 / 120) .
وقد وفق العلماء بين هذا الحديث والأحاديث المتقدمة في المقال المشار إليه
بوجهين اثنين:
أ - أن المراد بالذل ما يلزمهم من حقوق الأرض التي تطالبهم بها الولاة من خراج
أو عشر، فمن أدخل نفسه في ذلك فقد عرضها للذل.
قال المناوي في " الفيض ": " وليس هذا ذما للزراعة فإنها محمودة مثاب عليها
لكثرة أكل العوافي منها، إذ لا تلازم بين ذل الدنيا وحرمان ثواب البعض ".
ولهذا قال ابن التين: " هذا من أخباره صلى الله عليه وسلم بالمغيبات، لأن
المشاهد الآن أن أكثر الظلم إنما هو على أهل الحرث ".
ب - أنه محمول على من شغله الحرث والزرع عن القيام بالواجبات كالحرب ونحوه،
وإلى هذا ذهب البخاري حيث ترجم للحديث بقوله:
" باب ما يحذر من عواقب الاشتغال بآلة الزرع، أو مجاوزة الحد الذي أمر به ".
فإن من المعلوم أن الغلو في السعي وراء الكسب يلهي صاحبه عن الواجب ويحمله على
التكالب على الدنيا والإخلاد إلى الأرض والإعراض عن الجهاد، كما هو مشاهد من
الكثيرين من الأغنياء.
ويؤيد هذا الوجه قوله صلى الله عليه وسلم:
" إذا تبايعتم بالعينة، وأخذتم أذناب البقر ورضيتم بالزرع وتركتم الجهاد
سلط الله عليكم ذلا لا ينزعه حتى ترجعوا إلى دينكم ".
@خضر حیات صاحب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
کھیتی باڑی کے آلات کی وجہ سے ذلت آنا ، یہ ایک استعارہ ہے کہ جو شخص دنیاداری میں مشغول ہو کر اللہ کے حقوق بھول جاتاہے، اللہ ایسے لوگوں کو ذلیل کردیتاہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی منافقین، جہاد سے پیچھے رہنے کے بہانوں میں سے ایک بہانہ کھیتی باڑی کو بنایا کرتے تھے، اور آج بھی اللہ کے دین سے دوری کی وجہ دنیاداری میں الجھ جانا ہے، ایسے دنیاداروں کی نسبت جب تک مسلمانوں میں کم رہی ہے، مسلمان کامیاب رہے ہیں، جب ایسے لوگوں کی کثرت ہوگئی ، اسی وقت ذلت و خواری ان کا مقدر بن گئی۔
حالیہ دنوں میں بھی مسلمانوں کی یہی صورت حال ہے۔ بلکہ اب تو ’ معاشی بائیکاٹ‘ باقاعدہ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے لگاہے، جبکہ ترقی کے دور میں مسلمان نہ موت سے ڈرتے تھے، اور نہ ہی معاشی بائیکاٹ کی دھمکیاں اور دنیاوی نقصانات ان کا کچھ بگاڑ پاتی تھیں ۔
اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
کھیتی باڑی کے آلات سے ذلت کیوں آتی ہے
صحیح البخاری ،
كِتَابُ المُزَارَعَةِ

بَابُ مَا يُحَذَّرُ مِنْ عَوَاقِبِ الِاشْتِغَالِ بِآلَةِ الزَّرْعِ، أَوْ مُجَاوَزَةِ الحَدِّ الَّذِي أُمِرَ بِهِ

2321صحیححَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ الْحِمْصِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ الْأَلْهَانِيُّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ وَرَأَى سِكَّةً وَشَيْئًا مِنْ آلَةِ الْحَرْثِ فَقَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَدْخُلُ هَذَا بَيْتَ قَوْمٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ الذُّلَّ


کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان

باب : کھیتی کے سامان میں بہت زیادہ مصروف رہنا یا حد سے زیادہ اس میں لگ جانا، اس کا انجام برا ہے

ترجمہ : سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کی نظر پھالی اور کھیتی کے بعض دوسرے آلات پر پڑی۔ آپ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جس قوم کے گھر میں یہ چیز داخل ہوتی ہے تو اپنے ساتھ ذلت بھی لاتی ہے۔
تشریح: حضرت امام بخاری نے منعقدہ باب میں احادیث آمدہ در مدح زراعت و در ذم زراعت میں تطبیق پیش فرمائی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ کہ کھیتی باڑی اگر حد اعتدال میں کی جائے کہ اس کی وجہ سے فرائض اسلام کی ادائیگی میں کوئی تساہل نہ ہو تو وہ کھیتی قابل تعریف ہے۔ جس کی فضیلت حدیث واردہ میں نقل ہوئی ہے۔ اور اگر کھیتی باڑی میں اس قدر مشغولیت ہو جائے کہ ایک مسلمان اپنے دینی فرائض سے بھی غافل ہو جائے تو پھر وہ کھیتی قابل تعریف نہیں رہتی۔
ہدا من اخبارہ صلی اللہ علیہ وسلم بالمغیبات لان المشاہد الان ان اکثر الظلم انما ہو علی اہل الحرث و قد اشار البخاری بالترجمۃ الی الجمع بین حدیث ابی امامۃ و الحدیث الماضی فی فضل الزرع و الغرس و ذلک باحد الامرین اما ان یحمل ما ورد من الذم علی عاقبۃ ذلک و محلہ اذا اشتغل بہ فضیع بسببہ ما امر بحفظہ و اما ان یحمل علی ما اذا لم یضع الا انہ جاوز الحد فیہ و الذی یظہر ان کلام ابی امامۃ محمول علی من یتعاطی ذلک بنفسہ اما من لہ عمال یعملون لہ و ادخل دارہ الالۃ المذکورۃ لتحفظ لہم فلیس مراد لو یمکن الحمل علی عمومہ فان الذل شامل لکل من ادخل نفسہ ما یستلزم مطالبۃ اخر لہ و لا سیما اذا کان المطالب من الولاۃ و عن الداودی ہذا لمن یقرب من العدو فانہ اذا اشتغل بالحرث لا یشتغل بالفروسیۃ فیتاسد علیہ العدو فحقہم ان یشتغلوا بالفروسیۃ و علی غیرہم امدادہم بما یحتاجون الیہ ( فتح الباری )
یعنی یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان خبروں میں سے ہے جن کو مشاہدہ نے بالکل صحیح ثابت کر دیا۔ کیوں کہ اکثر مظالم کا شکار کاشتکار ہی ہوتے چلے آرہے ہیں اور حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب سے حدیث ابی امامہ اور حدیث سابقہ بابت فضیلت زراعت و باغبانی میں تطبیق پر اشارہ فرمایا ہے اور یہ دو امور میں سے ایک ہے۔ اول تو یہ کہ جو مذمت وارد ہے اسے اس کے انجام پر محمول کیا جائے، اگر انجام میں اس میں اس قدر مشغولیت ہو گئی کہ اسلامی فرائض سے بھی غافل ہونے لگا۔ دوسرے یہ بھی کہ فرائض کو تو ضائع نہیں کیا مگر حد اعتدال سے آگے تجاوز کرکے اس میں مشغول ہو گیا تو یہ پیشہ اچھا نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ابوامامہ والی حدیث ایسے ہی شخص پر وارد ہوگی جو خود اپنے طور پر اس میں مشغول ہو اور اس میں حد اعتدال سے تجاوز کرجائے۔ اور جس کے نوکر چاکر کام انجام دیتے ہوں اور حفاظت کے لیے آلات زراعت اس کے گھر میں رکھے جائیں تو ذم سے وہ شخص مراد نہ ہوگا۔ حدیث ذم عموم پر بھی محمول کی جاسکتی ہے کہ کاشتکاروں کو بسااوقات ادائے مالیہ کے لیے حکام کے سامنے ذلیل ہونا پڑتا ہے اور دواؤد نے کہا کہ یہ ذم اس کے لیے ہے جو دشمن سے قریب ہو کہ وہ کھیتی باڑی میں مشغول رہ کر دشمن سے بے خوف ہو جائے گا اور ایک دشمن ان کے اوپر چڑھ بیٹھے گا۔ پس ان کے لیے ضروری ہے کہ سپاہ گری میں مشغول رہیں اور حاجت کی اشیاءسے دوسرے لوگ ان کی مدد کریں۔
زراعت باغبانی ایک بہترین فن ہے۔ بہت سے انبیاء، اولیاء، علماءزراعت پیشہ رہے ہیں۔ زمین میں قدرت نے اجناس اور پھلوں سے جو نعمتیں پوشیدہ رکھی ہیں ان کا نکالنا یہ زراعت پیشہ اور باغبان حضرات ہی کا کام ہے۔ اور جاندار مخلوق کے لیے جو اجناس اور چارے کی ضرورت ہے اس کا مہیا کرنے والا بعونہ تعالیٰ ایک زراعت پیشہ کاشتکار ہی ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید میں مختلف پہلوؤں سے ان فنون کا ذکر آیا ہے۔ سورۃ بقرۃ میں ہل جوتنے والے بیل کا ذکر ہے۔
خلاصہ یہ کہ اس فن کی شرافت میں کوئی شبہ نہیں ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ زراعت پیشہ قومیں زیادہ تر مسکینی اور غربت اور ذلت کا شکار رہتی ہیں۔ پھر ان کے سروں پر مالیانے کا پہاڑ ایسا خطرناک ہوتا ہے کہ بسااوقات ان کو ذلیل کرکے رکھ دیتا ہے۔ احادیث متعلقہ مذمت میں یہی پہلو ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو یہ فن بہت قابل تعریف اور باعث رفع درجات دارین ہے۔ آج کے دور میں اس فن کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ جب کہ آج غذائی مسئلہ بنی نوع انسان کے لیے ایک اہم ترین اقتصادی مسئلہ بن گیا ہے۔ ہر حکومت زیادہ سے زیادہ اس فن پر توجہ دے رہی ہے۔
ذلت سے مراد یہ ہے کہ حکام ان سے پیسہ سے وصول کرنے میں ان پر طرح طرح کے ظلم توڑیں گے۔ حافظ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا فرمایا تھا وہ پورا ہوا۔ اکثر ظلم کا شکار کاشتکار لوگ ہی بنتے ہیں۔ بعض نے کہا ذلت سے یہ مراد ہے کہ جب رات دن کھیتی باڑی میں لگ جائیں گے تو سپاہ گری اور فنون جنگ بھول جائیں گے اور دشمن ان پر غالب ہوجائے گا۔
علامہ نووی احادیث زراعت کے ذیل فرماتے ہیں : فی ہذہ الاحادیث فضیلۃ الغرس وفضیلۃ الزرع و ان اجر فاعلی ذلک مستمر مادام الغراس و الزرع وما تولد منہ الی یوم القیامۃ و قد اختلف العلماءفی اطیب المکاسب و افضلہا فقیل التجارۃ و قیل الصنعۃ بالید و قیل الزراعۃ و ہو الصحیح و قد بسطت ایضاحہ فی اخر باب الاطعمۃ من شرح المہذب و فی ہذہ الاحادیث ایضا ان الثواب و الاجر فی الاخرۃ مختص بالمسلمین و ان الانسان یثاب علی ما سرق من مالہ او اتلفتہ دابۃ او طائر و نحوہما ( نووی )
یعنی ان احادیث میں درخت لگانے اور کھیتی کرنے کی فضیلت وارد ہے اور یہ کہ کاشتکار اور باغبان کا ثواب ہمیشہ جاری رہتا ہے جب تک بھی اس کی وہ کھیتی یا درخت رہتے ہیں۔ ثواب کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہ سکتا ہے۔ علماءکا اس بارے میں اختلاف ہے کہ بہترین کسب کون سا ہے۔ کہا گیا ہے کہ تجارت ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دستکاری بہترین کسب ہے اور کہا گیا ہے کہ بہترین کسب کھیتی باڑی ہے اور یہی صحیح ہے۔ اور میں نے باب الاطعمہ شرح مہذب میں اس کو تفصیل سے لکھا ہے اور ان احادیث میں یہ بھی ہے کہ آخرت کا اجر و ثواب مسلمانوں ہی کے لیے خاص ہے اور یہ بھی ہے کہ کاشتکار کی کھیتی میں سے کچھ چوری ہو جائے یا جانور پرندے کچھ اس میں نقصان کر دیں تو ان سب کے بدلے کاشتکار کو ثواب ملتا ہے۔
یا اللہ ! مجھ کو اور میرے بچوں کو ان احادیث کا مصداق بنائیو۔ جب کہ اپنا آبائی پیشہ کاشتکاری ہی ہے۔ اور یا اللہ ! اپنی برکتوں سے ہمیشہ نوازیو اور ہر قسم کی ذلت، مصیبت، پریشانی، تنگ حالی سے بچائیو، آمین ثم آمین
ـــــــــــــــــــــــــ
یہ مضمون دراصل "مکتبۃ السنۃ " سے مقتبس ہے ؛
وہاں صحیح بخاری کی اس مذکورہ حدیث کی شرح میں یہ سطور درج ہیں ۔
 
Last edited:
Top