• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیاامام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کرنے سے اعراض کیا؟

عثمانی

مبتدی
شمولیت
جون 24، 2017
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
13
{{ کیا امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کرنے سے اعراض کیا یا بھر انکے لئے فضیلت کا لفظ استعمال نہیں کیا؟ }}
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(تحریر: محمد شاہ رخ خان)

بعض حضرات کا یہ اعتراض ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں "مناقب اصحاب النبیﷺ" کے نام سے ایک باب قائم کیا ہیں اور اس مں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے فضائل اور مناقب ذکر کئے ھیں نیز اسکے تحت ہر ہر صحابی کے نام سے الگ الگ باب قائم کئے ھیں اور الفاظ کچھ اس طرح استعمال کئے ھیں:

بَابُ فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

بَابُ مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ

اور اسی طرح کے الفظ کے ساتھ دورسرے صحابہ کرام کا ذکر بھی کیا اور ان ابواب کے تحت وہ احادیث لائے جو انکے فضل و منقبت پر دلالت کرتی ہے۔
اب اس پر یہ اعتراض ہوا بعض لوگوں کی طرف سے کہ امام بخاری نے دیگر صحابہ کے نام کے ساتھ تو فضل یا مناقب کے الفاظ استعمال کر کے انکے بارے میں ابواب قائم کئے لیکن جب بات سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی آئی تو باب ان الفاظ کے ساتھ باندھا "بَاب ذكر مُعَاوِيَة" یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر۔۔۔ یعنی یہاں دیگر صحابہ کرام کی طرح امام بخاری نے سیدنا معاویہ کے ساتھ یہاں فضل ہا مناقب کالفظ استعمال نھیں کیا بلکہ ذکر کا لفظ استعمال کیا ھے۔
اب اس سے بعض حضرات نے یہ بات نکالی کہ گویا امام بخاری سیدنا معاویہ کی فضیلت کے قائل نھیں نعوذباللہ یا پھر ان کے نزدیک سیدنا معاویہ کہ فضیلت میں کوئی روایت ثابت نھیں۔
اس بارے مین کچھ گزارشات عرض ہے:
پہلی بات تو یہ کہ ان الفاظ کے ساتھ امام بخاری نے صرف سیدنا معاویہ کے بارے میں یہ باب نھیں باندھا بلکہ اسی باب یعنی "مناقب اصحاب النبیﷺ" میں درج ذیل صحابہ کے بارے میں بھی انہی الفاظ کے ساتھ باب باندھا ھیں:

بَابُ ذِكْرِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ (یہ نبیﷺ کے سگے چچا تھے)

ذِكْرُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ (یہ عشرہ مبشرہ میں سے ھیں)

ذِكْرُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ

ذكر مُصعب بن عُمَيْر (اس باب کے تحت امام بخاری کی کوئی حدیث تک نھیں لائے)

ذكر بن عَبَّاسٍ

نیز امام بخاری نے اس باب "مناقب اصحاب النبیﷺ" کے متصل بعد ایک باب "بَابُ مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ " قائم کیا اور اس میں بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا کے بعض صحابہ کے ناموں کے ساتھ فضل اور منقبت کے الفاظ استعمال کئے اور بعض کے ساتھ صرف ذکر
کا لفط جیسے:
بَابُ مَنَاقِبِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ

منقبة سعد بن عبَادَة

بَابُ ذِكْرِ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ البَجلِيّ

بَابُ ذِكْرِ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ الْعَبْسِيِّ

اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ امام بخاری کا اسلوب رہا ہے کہ کسی کے ساتھ انہوں نے کوئی لفظ استعمال کیا اور کسی کے ساتھ کوئی۔ ورنہ اگر فضل اور منقبت کے بجائے ذکر کا لفظ استعمال کرنے سے امام بخاری کا مقصد فضیلت نہ ماننا یا شک کرنا ثابت ہعتا ہے تو ان صھابہ کے بارے میں مخالفین کا کیا خیال ہے؟ خاص طور پر سیدنا طلحہ بن عبید اللی رضی اللہ عنہ جع عشرہ مبشرہ صحابہ میں سے ہیں۔

نیز یہاں چند باتین قابل غور ہے کہ اس باب میں امام بخاری نے صرف چند محدود صحابہ کرام کے فضائل بیان کئے ھیں اور درجنوں صحابہ کرام کے نام آپ کو ملے گے جن کا ذکر امام بخاری نے یہاں نہیں کیا کیونکہ امام بخاری کو ابنی کتاب الجامع الصحیح میں اختصار مقصود تھا بلکہ اگر صحیح بخاری میں جن صحابہ کرام سے روایات لی ھیں ان میں سے بھی شاید سب کے فضائل اس باب میں بیان نہیں کئے ہونگے۔۔۔ اور یہ بات بھی یاد رہے جہاں انسان اختصار کرتا ھے وہاں سہی چیزیں ذکر کرتا ھے جو زیادہ اہم ہوتی ہے۔
ان سب باتوں کے باوجود امام بخاری نے سیدنا معاویہ کا ذکر اس باب میں کیا اور اگر امام بخاری اگر صرف نام یہ لکھ دیتے تو انکا موقف واضح ہو جاتا جیسا کے انہوں نے سیدنا مصعب بن میر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا لیکں امام بخاری سیدنا معاویہ کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے دو روایتیں بھی لائے ھیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ھیں کہ:
تَنْبِيهٌ عَبَّرَ الْبُخَارِيُّ فِي هَذِهِ التَّرْجَمَةِ بِقَوْلِهِ ذِكْرُ وَلَمْ يَقُلْ فَضِيلَة وَلَا منقبة لكَون الْفَضِيلَة لاتؤخذ من حَدِيث الْبَاب لَان ظَاهر شَهَادَة بن عَبَّاسٍ لَهُ بِالْفِقْهِ وَالصُّحْبَةِ دَالَّةٌ عَلَى الْفَضْلِ الْكثير (فتح الباری 7-104 )
تنبیہ امما بخاری نے یہاں باب مٰن لفظ منقبۃ اور فضل کی جگہ ذکر کا لفظ استعامل کیا ہے کیونکہ فضیلت حدیث باب سے نہیں لی جاتی اوع کیونکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنی کی سیدنا معاویہ کے بارے میں فقیہ اور صحابی ہونے کی گاہی بہت سی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔

نیز حافظ ابن حجر نے یہ بھی فرمایا کہ:
عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاهْوَيْهِ أَنَّهُ قَالَ لَمْ يَصِحَّ فِي فَضَائِلِ مُعَاوِيَةَ شَيْءٌ فَهَذِهِ النُّكْتَةُ فِي عُدُولِ الْبُخَارِيِّ عَنِ التَّصْرِيحِ بِلَفْظِ مَنْقَبَةٍ اعْتِمَادًا عَلَى قَوْلِ شَيْخِهِ
کہ امام بخاری نے شاید اس لئے بھی فضیلت کا لفظ ذکر نہیں فرمایا کہ کونکہ امام اسحق بن راھویہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ سیدنا معاویہ کی فضیلت میں کوئے حدیث ثابت نہیں اور امام بخاری نے بھی اپنے شیخ کے اسی قول پر اعتماد کیا ہے۔

لیکن عرض یہ کہ جس بات کو بنیاد بناکر حافظ سبن حجر نے یہ توجیہ کی ہیں یعنی لٖفظ ذکر کا استعمال اس بنیاد کی آپ حقیقت اوپر پرھ آئے ھیں۔
نیز امام اسحق بن راھویہ کے اس قول کے ثابت ہونے میں بھی نظر ہے کیونکہ اسکی سند کے بنیادی راوی جع امام اسحق سے یہ بات نقل کر رہا ہے، یعقوب بن یوسف بن معقل بن سنان اسکی توثیق کسی نے نھیں کی باوجود اسکے کہ اسکا ترجمہ بعض ائمہ نے لکھا ہے لیسکن کوئی تودیل و توثیق نھیں کی۔ دیکھیئے (تاریخ دمشق ت: 10148، تاریخ بغداد ت: 7534) حالانکہ اس راوی کے بیٹے بہت بڑے محدث گذرے ھیں جنکا نام ابو العباس محمد بن يعقوب بن يوسف بن معقل الاصم تھا اور انکی ترجمہ میں انکے والد کا ذکر بھی کیا گیا ھے کہ وہ انکے کئی رحلات میں انکے ساتھ تھے (دیکھیئے السیر 15-453، التقیید لمعرفة رواۃ السنن والمسانید 1-123) اسکے باوجود بھی انکے متعلق کلمہ توثیق نا ملنا مزید تشویش میں ڈالدیتا ہے۔ بالفرض محدثین نے جو کچھ ان کے بارے میں لکھا ہے اسکا اعتبار کر کے اگر اسکو توثیق بھی شمار کرلیا جائے تو یہ اسحق بن راھویہ کا اپنا اجتھاد سمجھا جائے گا، کیونکہ علی الاطلاق یہ بات کہنا درست نہیں ہے، جسکی تفصیل ان شاء اللہ کسی اور مضمون آجائےگی۔
اس کے بعد حافظ فرماتے ہیں کہ:
لَكِنْ بدقيق نظره استنبط مَا يدْفع بِهِ رُؤُوس الرَّوَافِضِ (فتح الباری 7-104)
لیکن امام بخاری نے اپنی دقت نظری سے ایسا استنباط کیا ہے جس روافض کے سر دور ہوجاتے ہے۔

حافظ نے ہیاں بالکل صحیح کہا ہے کیونکہ امام بخاری یہاں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول لائے ہیں جس میں ایک شخص سیدنا ابن عباس سے آکر کہتا ہے کی معاویہ ایک وتر پڑھتے ھیں آپ انکے بارے میں کہا کہتے ھیں تو ابن عباس فرماتے ھیں کہ انکو چھوڑدو انکوں نبیﷺ کی صحبت حاصل ہے اور اسی کے بعد دوسری روایت میں کہا کہ انکو چھوڑدو وہ فقیہ ہے۔
یعنی انکے بارے میں اس طرح کے سوالات نہ کرو انکو نبیﷺ کی صحبت کاشرف بھی حاصل ہے اور وہ خود بھی فقیہ ہے لہذا ان پر اعتراضات کرنا چھوڑدو وہ سنت کی مضالفت نھیں کرینگے۔
اس روایت کو لاکر امام بخاری نے قیامت تک آنو والے رافضیوں کے منہ پر کالک ملدی اور اھل السنإ کا عقیدہ بیان کردیا ہیں کیونکہ اسکو لانے کا مقصد یہ ہے کہ جنگ صفین کی وجہ سے ان پر اعتراضات کرنا چھوڑدو کیونکہ ایک تو وہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں اور دوسرا وہ فقیہ بھی ہیں لہذا جنگ صٖفین میں انہوں نے جو کچھ کیا اپنے اجتھاد سے کیا۔
اب غور کرنے کی بات ھے کی اگر امام بخاری کو سیدنا معاویہ کی فضیلت بیان کرنا مقصود نہ تھا تو پھر انکا نام "کتاب مناقب اصحاب النبیﷺ" میں کو ذکر "چہ معنی دارد" ؟ اگر انکے نزدیک سیدنا معاویہ کی فضیلت ثابت نہ ہوتی تو انکا نام ہی نہ ذکر کرتے جیسے درجنوں صحابہ کا نہیں کیا۔۔۔۔ حالنکہ کتاب میں اختصار مقصود تھا اور صرف زیادہ اہم باتیں ذکر کی گئی کتاب میں اسکے باوجون سیدنا

پھر مزید یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جب اپنی شہرہ آقاق کتاب التاریخ الکبیر میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا تذکرہ فرمایا تو سب سے پہلے سیدنا ابن عباس کا وہ قول پیش کیا جس میں وہ فرمارہے ہیں کہ میں نے معاویہ سے زیادہ کسی کو حکومت کے لئے مناسب نہیں دیکھا۔
پھر وہ حدیث ذکر کی جس میں ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا اللهمَّ عَلِّم مُعاوِيَةَ الحِسابَ، وقِهِ العَذابَ
اے اللہ معاویہ کو حساب سکھا اور عذاب سے بچا۔
پہر نبیﷺ کی وہ حدیث ذکر کی جس میں ہے کہ نبیﷺ نے سیدنا معاویہ کے بارے میں فرمایا اللهمَّ اجعَلهُ هادِيًا مَهدِيًّا، واهدِهِ، واهدِ بِهِ کہ اے اللہ اسکو رہنما بنا اور ھدایت یافتہ بنا اور اسکو ھدایت دے اور اسکے ذریعہ لوگوں کو ھدایت دے۔
پھر یہ حدیث ذکر فرمائی لاَ تَزالُ طائِفَةٌ مِن أُمَّتِي قائِمَةً عَلى أَمرِ اللهِ، أَو عَلى الحَقِّ، لاَ يَضُرُّهُم مَن خالَفَهُم، ولاَ يَنقُصُهُم مَن خَذَلَهُم، حَتَّى يَأتِيَ أَمرُ اللهِ، أَو حَتَّى تَقُومَ السّاعَةُ جسکو سیدنا معاویہ نبیﷺ سے روایت کرہے ہیں۔
بہر سیدنا عمیر بن سعید رضی اللہ عنہ کا قول ذکر فرمایا کہ لاَ تَذكُرُوا مُعاوِيَةَ إِلاَّ بِخَيرٍ، فَإِنِّي سَمِعتُ رَسُولَ اللهِ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم يقولُ: اللهمَّ اهدِهِ کہ معاویہ کا ذکر صرف بھلائے کے ساتھ ہی کیا کرو کیونکہ میں نبیﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اے اللہ معاویہ کو ھدایت دے۔
پھر یہ حدیث ذکر فرمائی لاَ تَركَبُوا الخَزَّ، ولاَ النِّمارَ اسکو بھی سیدنا معاویہ نبیﷺ سے روایت کرہے ھیں۔
اور امام ابن سیرین کا قول نقل فرمایا کہ كَانَ مُعاوِيَةُ لاَ يُتَّهَمُ فِى الحَدِيثِ عَن رَسُولِ اللهِ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم معاویہ نبیﷺ سے حدیث بیان کرنے میں متھم نہیں ہیں (التاریخ الکبیر ت: 1405)
اور پورے ترجمہ میں کہی جنگ صفین کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ ایسے احادیث اور اقوال نقل کئے جس میں سیدنا معاویہ کی فضیلت آئی ہے اور انکو برا بھلا کہنے سے منع کیا گیا ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے امام بخاری سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے قائل تھے اور دوسروں کو ان پر تنقید کرنے سے روکتے تھے۔

جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ پر یہ الزام۔لگانا کہ انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت نہیں بیان کی یا انکا ذکر خیر کے ساتھ نہیں کیا، روافض کی شرارت ہے۔
 

عثمانی

مبتدی
شمولیت
جون 24، 2017
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
13
@محمد فیض الابرار

السلام علیکم

یہ جواب تو ان پر قرض ہے جو کہتے ہیں کہ امام بخاری رح نے امیر معاویہ رضی اللہ تعالہ عنہ کے لئے فضیلت کا لفظ استعمال نہیں کیا
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اگر اس اعتراض کو لے لیا جائے تو کم از کم نماز جیسی بنیادی عبادت مکمل طور پر صحیح بخاری سے اخذ کرنا نا ممکن ہے دین سارا کا سارا صحیح بخاری میں نہیں ہے اور نہ ہی امام بخاری کی تعبیرات میں موجود ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اور اس طرح کے نتائج صرف اور صرف جہالت کی دلیل ہیں
صحیح بخاری کی تبویب و تراجم پر اگر اس طرح جائزہ لیا جائے تو بہت سارے پہلووں پر نقض لازم آتا ہے جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
@محمد فیض الابرار

السلام علیکم

یہ جواب تو ان پر قرض ہے جو کہتے ہیں کہ امام بخاری رح نے امیر معاویہ رضی اللہ تعالہ عنہ کے لئے فضیلت کا لفظ استعمال نہیں کیا
صحیح فرمایا آپ نے -

مزید یہ کہ صحیح بخاری میں خود امام بخاری رحم الله نے ابن عمر رضی الله سے مروی وہ روایت درج کی ہے جس میں
ہے کہ انھوں نے ان لوگوں کو باغی قرار دیا جنہوں نے یزید بن معاویہ رحم الله کی بیعت خلافت سے اعراض کرنے کی کوشش کی- اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ میں اس (یزید بن معاویہ) میں کوئی ایسی خامی نہیں دیکھتا جس کی بنا پر میں اس کی بیعت توڑ ڈالوں - (صحیح بخاری باب إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ)

ظاہر ہے جب امام بخاری رحم الله، بیٹے (یزید بن معاویہ رحم الله) کی فضیلت یا حق میں ابن عمر رضی الله عنہ کا قول پیش کر رہے ہیں- تو کیسے ممکن کہ باپ سیدنا معاویہ رضی الله عنھما) کی فضیلت میں کوئی روایت اپنی صحیح میں درج نہ کریں ؟؟-
 
Top