• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیاسنت، تواتر عملی کا نام ہے؟

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کیاسنت، تواتر عملی کا نام ہے؟

کچھ ادیب حضرات سنت کی نئی تعریف یوں کرتے ہیں کہ وہ سنت جو تواتر کے ساتھ زیر عمل رہی ہو وہی قابل عمل شے ہے ورنہ نہیں۔ لہٰذا صحیح بخاری وصحیح مسلم کی وہ حدیث جو صحت کی انتہاؤں کو چھوتی ہو ۔اس وقت تک قابل عمل نہیں ہوسکتی جب تک سنت متواترہ اس کے ہمراہ نہ ہو۔سوال یہ ہے کہ یہ مفہوم کس محدث کبیر نے یا فقیہ وقت نے پیش کیا ہے؟ تاریخ کا وہ کون سا ایساجھروکہ ہے جہاں علمی وعملی زوال آیا ہو اور وقتی تعامل کو اہل علم حضرات نے نظریہ ضرورت کے تحت سنت متواترہ کا نام دیا ہو؟کیا سنت متواترہ ، حدیث کے وجود کے بغیر اپنا وجود ثابت کرسکتی ہے؟ وہ کون سی سنت متواترہ ہے جو بغیر حدیث کے وجود میں آئی؟ کیا مسلمانوں کی موجودہ عملی صورت حال صدق وکذب کا احتمال رکھتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا اسے سنت متواترہ کہا جائے؟ کیا یہ قطعی یا یقینی سنت ہے یا ظنی؟ یا پس پردہ اس مفہوم سے اپنی شخصیات کو معصوم قرار دینا تو مقصد نہیں؟ جس مسلک میں انسان خود متذبذب ہو اور بضد ہو کہ میں نے یہی چال ہی چلنی ہے تو اسے ایک حکیمانہ چال یہ بھی سوجھتی ہے کہ دوسرے کے محاذ میں داخل ہوکر اسے خود اس کے گھر میں الجھا دو اور اپنے آپ کو بچالو۔مناسب یہی ہے کہ آدمی اپنے آپ کو اس گو مگو کی کیفیت سے نکالے تاکہ وہ خود یقینی کیفیت میں داخل ہو۔

… دور صحابہ کرام میں مسلمان خرافات اور بدعات کا شکار نہیں ہوئے۔ خوارج کا خروج اور ان کے بعد معتزلہ کے اقتدار کا ڈنکا جس نے قرآن وسنت کا نام بڑی عقیدت سے لیا مگر ان کے تیر وتفنگ اہل سنت ہی سہتے رہے۔مگر اس حقیقت سے کسے انکار ہے کہ انہوں نے سنت کا مفہوم ہی غلط لیا۔ اسے فلسفیانہ رنگ دیا۔ اور ظلم کی سیاہ تاریخ رقم کی۔جدید دور میں تواتر عملی کا مفہوم اسی فکر کی صدائے باز گشت ہے جس سے بہت سی صحیح احادیث اور ثابت شدہ سنتوں پر شب خون مارا جاسکتا ہے۔ گو ان تجار کی دکان پرچند اصلی اورکھری اشیاء بھی ہیں جو وہ اپنے جعلی اور کھوٹے سامان کی بہتات میں مصلحتاً رکھنے پر مجبور ہیں۔انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ماضی میں اعتزال نے اپنا موقف کھل کر پیش کیا تواس کے نتائج ہی نے باطنیت کو شہ دی اور عجیب وغریب مفاہیم کو عقائد کا ملغوبہ بنا کر پیش کیا۔ یہی اعتزال آج اسی سنت کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتا ہے۔

…ذخیرہ ٔحدیث میں بیشتر سنتیں ایسی ہیں جو خبر واحد سے ثابت ہیں ان سے مجتہدین کرام نے استنباطات بھی کئے ہیں۔اور بعض اخبار سے تو فرض، نیز حلال وحرام کے مسائل بھی درج کئے ۔ کتب فقہ ان سے بھری پڑی ہیں مگر تواتر عملی کے مفہوم کی گولی عجیب سی ہے جو سابقہ مجتہدین کو مات دے کر ان کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے دی جارہی ہے۔

…آج کے حالات میں دیکھا جائے توتواتر عملی مذاہب اربعہ میں بھی کہاں رہا ہے؟ ائمہ فقہاء کرام کے دودو اقوال اور پھر ان کے شاگردوں کے اپنے اقوال و تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تواتر عملی انہوں نے بھی تسلیم ہی نہیں کیا۔ صوفیا ء بھی تواتر عملی کو اگر تسلیم کرتے تو شایدان کے ہاں مختلف سلاسل قائم نہ ہوتے۔اور ان کا ہر ذکر وفکریااشارہ بھی سنت نام نہ پاتا۔

…کیا یہ بھی تواتر عملی کی دین ہے کہ حرم کعبہ میں چار مصلے بنے؟ جو امت میں افتراق وانتشار کا سبب تھے ۔یا یہ مصلے ختم کرکے ایک ہی مصلے پر مسلمانوں کو جمع کرکے صحیح تواتر عملی کاتصور دیا،یامزاروں اور قبوں کا رواج بھی تواتر عملی ہے اور مسلمان جو رخ اختیار کررہے ہیں کیا وہی دین ہے؟ مگر ان کے انہدام کا کام سیدنا علی ؓ نے بہ حکمِ نبویﷺ سرانجام دیا اوربعد میں خود بطور خلیفہ یہ کام انہوں نے دوسروں سے بھی لیا۔ یہ سب اس لئے نظر انداز کردیے جائیں کہ اس معاملے میں مروی حدیث خبر واحد ہے؟ خاندانی، قبائلی، مذہبی اور لسانی تعصبات جو صدیوں سے عملی تواترسے رو بہ زوال ہیں اور مسلمان ہی ان قافلوں کے راہی ہیں اور ان کی قیادت بھی مسلمان ہی کررہے ہیں انہیں بھی عملی تواتریقینی کا درجہ دے دیا جائے؟

… یہ سب خبر واحد کے غلط مفہوم کو اجاگر کرنے کے نتائج ہیں اور اپنی عقلی تک بندیوں کو رائج کرنے کا ایک سیاہ پہلو بھی۔بہترعلم وہی ہے جو روایت ودرایت کی انتہائی معتدل شرائط کے مطابق ہو۔ اسے ہی صحیح مان کر اپنے ظن وتاویل یا دانش سے اجتناب کیا جائے۔ محض لفاظی کے زور سے وقتی طور پر اپنا حلقہ اثر تو بن جاتا ہے مگر یہ حلقہ اثربے قابو ہو کر ایک اور عاقل کو کھڑا کردے گا۔ جس سے نئے زاویے بنتے چلے جائیں گے اوراپنی عقل پر ناز بڑھتا جائے گا۔واصل بن عطاء کی عقل بھی اجتماعیت سے اٹھ کر زاویہ نشین ہوگئی تھی۔اور پھر کیا ہر دور میں اس مزاج کے لوگ انہیں نہیں ملے؟ بلکہ: {وَاتَّبَعُوا الشَّہَوَاتِ} کے حامل یہی ناخلف اپنے آثار آخر چھوڑ ہی جاتے ہیں۔آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہمیں یاد رکھنا چاہئے:
لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوَاہُ۔ تم میں کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کے سوا سے محبوب نہ ہوجاؤں۔

… اس لئے حالات کچھ بھی ہوں سنت رسول کا مفہوم وہی ہونا چاہئے جو آپ ﷺ نے متعین فرمایا۔ وہ سنت جو آپ ﷺ کے ارد گرد رہی اور گردش کرتی رہی اسی کے تحت ہمیں اپنی سوچ، عمل اور عقیدہ کو رکھنا اورپرکھنا ہے۔ اس پر کسی کی انفرادی، خیالی، باطنی، اشاری یا مذہبی چھاپ سے گریز کیا جائے۔یہ دین ہے کسی کے آثار کے ساتھ اسے گڈمڈ نہ کیا جائے۔

…اہم بات یہ بھی ہے کہ کوئی اجماع، قیاس یا قول ، سنت کا مدمقابل ہو ہی نہیں سکتا۔ سنت فقہی ہو یا قانونی وآئینی۔۔ دونوں کے مفہوم کو ملتبس نہیں کرنا چاہئے۔ یعنی قانونی ہو تو اس کے لئے تواتر عملی، عمل اہل مدینہ، اقوال ائمہ وغیرہ مصادر بن جائیں اورخبر واحد کو نظر انداز کردیا جائے۔اور فقہی ہو تو اس کے لئے خبر واحد کو مصدر بنالیا جائے۔خلفاء اربعہ نے ہمیشہ بڑے اہم مسائل میں بھی خبر واحد کوہی قانونی مصدر بنایا۔کتنے قانونی مسائل تھے جن کا شرعی حل انہیں معلوم نہ تھا گو تواتر عملی کچھ اور تھامگر خبر واحد کے مل جانے پر اس کا ہی انہوں نے نفاذ کیا۔ محدثین وائمہ مجتہدین کے نزدیک خبر واحد انفرادی واجتماعی سنتیں، فرض یا حرام حتی کہ ایمان وکفر تک ثابت کرتی ہے۔امام ابن القیم رحمہ اللہ کا یہ قول بڑا وزنی ہے:
السُّنَّۃُ ہِیَ الْمِعْیَارُ عَلَی الْعَمَلِ وَلَیْسَ الْعَمَلُ مِعْیَارًاعَلَی السُّنَّۃِ۔ سنت ہی کسی بھی عمل کے لئے معیار ہے نہ کہ عمل، سنت کے لئے۔ (اعلام الموقعین ۲/۲۹۵)

مشہور صحابی سیدنا عمران بن حصینؓ ایک دفعہ درس حدیث دے رہے تھے کسی نے کہا: قرآن ہی وعظ ونصیحت کے لئے کافی ہے۔ آپ ؓ نے سخت غصہ میں فرمایا: تمہیں معلوم نہیں حدیث مبارکہ ہی تو قرآن کی تفسیر ہے۔ اگر حدیث مبارکہ کی اہمیت نہ ہوتی تو مجھے بتاؤ کہ ظہر وعصرکی چار ، مغرب کی تین ، عشاء کی چار اور فجر کی دو رکعات ہیں ان کی تفصیل تمہیں کہاں ملتی؟ اس لئے حدیث کو مانناپابندی ٔرسول ہے اور نہ ماننا اس سے فرار ہے۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 
Top