• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیامذہبی طبقے نے کبھی سرمایہ دارانہ نظام کو قبول کیا ہے؟ رہنمائی فرمائی جائے۔

شمولیت
اگست 19، 2018
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
مجھے اوریا مقبول جان کے دو قسطوں پر مشتمل کالم (زمینداری مزارعت اور سود) نے گہری سوچ میں ڈال دیا ہے کہ کیا برصغیر پاک وہند کے علمائے ربانیین کبھی کسی دور میں سرمایہ دارانہ نظام معیشت اور جاگیردانہ نظام حکومت کے خاموش حامی رہے ہیں؟ یہ سوال سائل کو تو چانکا ہی دیتا ہے لیکن مجیب (جواب دینے والے) کو بھی گہری سوچ میں مبتلا کر دیتاہے۔
اس سلسلے میں اگر کسی دوست کے پاس کوئی مستند معلومات موجود ہیں تو ضرور یہاں ان کا مختصرا ذکر کرے تاکہ کسی حد تک تو تشفی ہوسکے۔
اس بے بے بضاعتی اور تہی دامنی کے باوجود ذہن نا رسا اس بات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں کہ علماء کبھی سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے حامی رہے ہوں گے جہ جائیکہ اس کو جائز ودرست قرار دینے کے لئے وہ دلائل وبراہین بھی تراشتے رہے ہوں۔ کیوں کہ جو موٹی موٹی معلومات راقم کو ہیں اس کی روشنی میں یہی خیال ہے کہ دنیا میں آج تک چند نظام ہائے معیشت آئے ہیں جو اسلامی نظام معیشت کے مقابلے میں آئے مگر ناکام ہوگئے جیسے سوشلزم، کمیونزم اور کیپیٹیلزم لیکن اسلام نے جو نظام معیشت بنایا اس کو ایک دور میں بہترین کامیابی سے ہمکناری بھی عطا ہوئی کہ عمر بن عبد العزیز کے زمانے میں ڈھونڈنے سے بھی مستحق زکوۃ نہیں ملتا تھا۔ اور بنیادی انسانی حقوق کی مساویانہ تقسیم کا قابل رشک دور تھا وہ، بھر اس کے بعد فتنوں نے سر اٹھایا اور مختلف نظام ہائے حکومت کو لایا گیا اور سرمائے کے ارتکاز نے سودہ مہاجنوں کو جنم دیا بعد میں یہ باقاعدہ اداروں (بینکوں) کی شکل اختیار کر گئے جو آج تک قائم ودائم ہیں اور کارپوریٹ کلچر کو فروغ دینے کا ایک ہی مقصد ہے کہ اپنی مرضی کہ حکومت لائی جائے اور اس سے اپنے مقاصد کی آبیاری کرائی جائے وغیرہ وغیرہ۔
ان تمام حالات میں کیسے ممکن ہے کہ علماء نے اپنا کردار ادا نہیں کیا ہو، جب نظام تعلیم کے مقابلے کے لئے خانقاہی نظام کو فعال کیا گیا اور بعد میں علی گڑھ کالج کے قیام کے بعد لارڈ میکالے کے وضع کردہ نظام تعلیم کے سامنے بند باندھنے کے لئے دارالعلوم کی بنیاد رکھی گئی جس کا تسلسل آج بھی جاری ہے اور راقم اس تسلسل کا ایک حقیر سا جزو ہے تو معیشت کے میدان میں علماء حضرات کیسے پیچھے رہ گئے؟؟
یہی سوال ذہن میں زہرئلے کیڑے کہ طرح کلبلا رہا ہے۔ اور ممکن ہوا تو جلد ہی اوریا مقبول جان صاحب کے کالموں کا جواب بھی دینے کی کوشش کروں گا لیکن اس سلسلے میں آپ احباب سے تعاون درکار ہے کہ راہنمائی کیجئیے کہ مستند مواد کہاں سے لیا جاسکتا ہے تاکہ ٹھوس دلائل کے ساتھ اوریا صاحب کو جواب دیا جا سکے۔ انتظار رہے گا
والسلام
بقلم خود سمیع الرحمن
15-8-2018​
 
Last edited by a moderator:
Top