• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا آپ اس کالم نگار سے متفق ہیں؟

شمولیت
جولائی 07، 2014
پیغامات
155
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
91
اسے خیالی مکالمہ کہہ سکتے ہیں۔حقیقت نہیں ، مختصر یہ کہ یہ صاحب چاہتے ہیں کہ مستقل کیلنڈر میں پہلے سے تعین ہو کہ کس دین عید ہے؟
اور اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ صرف عید ہی نہیں بلکہ پورے سال کے کسی مہینے کے آغاز و اختتام کو اس طرح سے کسی نے بھی مقرر نہیں کیا کہ چاند دیکھنے کی ضرورت نہ رہے۔ بلکہ ہر مہینے کے آغاز و اختتام کے لیے چاند دیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ بد قسمتی سے قوم کا تعلق ہے ہی صرف رمضان اورعیدین تک ۔ باقی پورے سال کے مہینوں کے نام تک قوم کو معلوم نہیں ہوتے البتہ جنوری فروری یاد ہے۔پہلے قوم جنوری فروری چھوڑ کر محرم صفر اسلامی مہینوں کو نافذالعمل بنائے اور اپنے بچوں کو یہ مہینے یاد کروائے۔ پھر اس کے مستقل مقرر کیلنڈر کی ضرورت پیش آئی تو علماء اس حوالے سے اپنی ذمہ داری بھی ادا کریں گے۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
والسلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
طلوع و غروب آفتاب کا ایک اندازہ مقرر ہے کہ روزانہ درجہ بدرجہ ایک یا آدھ منٹ کی دیر یا جلدی ہوتی ہے لیکن فی الحال چاند دیکھے بغیر یہ علم ممکن نہیں کہ چاند کب طلوع ہو گا؟ہلال کمیٹی بھی دو چار دن قبل چاند کا مطلع دیکھنے کی کوشش کرتی ہے تا کہ اندازہ لگا سکے لیکن بمشکل ہی درست اندازہ ہوتا ہے(کچھ ہمارے پاک سعودی قمری جھگڑے کہ ہر حال میں ایک دن ہی عید منائیں گے اور دوسرا فریق کہ چاہے ہو بھی تب بھی نہیں منائیں گے)بہرحال جب چاند کا بھی اندازہ معین ہو جائے گا تو یہ طریقہ کار بھی معروف ہو جائے گا کیونکہ کہاں گلی کوچے چاند دیکھنے کے لیے بھرے رہتے تھے اور آج چاند کی اطلاع کے لیے کسی کی کال،پوسٹ،ٹویٹ یا خبر کا انتظار کیا جاتا ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
پاکستان میں شائع ہونے والے روز نامہ اسلام میں چاند کی روئیت کے بارے ساری معلومات چودہ پندتہ دن پہلے دے دی جاتی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں 16 نومبر کے اخبار میں یکم ربیع الاول کے چاند کی رپورٹ اس لنک میں۔
http://www.dailyislam.pk/epaper/daily/2016/november/16-11-2016/frontpage/05.html
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
اسے خیالی مکالمہ کہہ سکتے ہیں۔حقیقت نہیں ، مختصر یہ کہ یہ صاحب چاہتے ہیں کہ مستقل کیلنڈر میں پہلے سے تعین ہو کہ کس دین عید ہے؟
اور اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ صرف عید ہی نہیں بلکہ پورے سال کے کسی مہینے کے آغاز و اختتام کو اس طرح سے کسی نے بھی مقرر نہیں کیا کہ چاند دیکھنے کی ضرورت نہ رہے۔ بلکہ ہر مہینے کے آغاز و اختتام کے لیے چاند دیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ بد قسمتی سے قوم کا تعلق ہے ہی صرف رمضان اورعیدین تک ۔ باقی پورے سال کے مہینوں کے نام تک قوم کو معلوم نہیں ہوتے البتہ جنوری فروری یاد ہے۔پہلے قوم جنوری فروری چھوڑ کر محرم صفر اسلامی مہینوں کو نافذالعمل بنائے اور اپنے بچوں کو یہ مہینے یاد کروائے۔ پھر اس کے مستقل مقرر کیلنڈر کی ضرورت پیش آئی تو علماء اس حوالے سے اپنی ذمہ داری بھی ادا کریں گے۔
محترم
آپ غالباً اس کالم نگار کا موقف نہیں سمجھ سکے ۔ وہ دو باتیں کہہ رہا ہے ۔ ایک تو یہ جب نمازاور روزہ کا تعین کیلئے ہم سائنس سے انحراف نہیں کر تے تو عید کے چاند کیلئے ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔ جب سائنس چاند گرہن اور سور ج گرہن ہونے کا قبل از وقت بتا سکتی ہے تو یہ کیوں ممکن نہیں کہ چاند کا بتا سکے۔
اسی لئے امریکہ وغیر ہ میں پہلے سے ہی تعین کر لیا جاتا ہے کہ کب عید ہوگی ۔آپ اس بات پر غور کریں کہ جب نماز کے اوقات جن کو ہم نے پانچ مرتبہ ادا کرنا ہیں وہ ہم سائنس کے کہنے پر مان کر اسے ادا کررہے ہیں اس کے لئے زمانہ قدیم اصول مد نظر نہیں رکھ رہےپورے رمضان کے روزے بھی اسی کے مطابق رکھ رہے ہیں توپھر عید کے لئے جو سال میں صرف ایک بار مسئلہ بنتی ہے اتنا وبال کیوں کھڑا کر تے ہیں۔


دوسری یہ بات کہہ رہے ہیں کہ علماء نے ہمیشہ جب بھی کوئی نئی سائنسی ایجاد آئی ہے اس کو خلاف اسلام کہہ کر رد کیا ہے ۔ جس میں مثالیں اس نے اپنے مضمون میں دی ہیں۔
ترکی کے علماء نے پریس یہ کہہ کر ناجائز قرار دیا تھا کہ اس سے مقدس قرآن بھی چھپے گا ۔ یہ جائز نہیں ہے اور یورپ میں کتب خانے بنتے رہے ۔

میں کم از کم کالم نگار کی اس بات سے متفق ہوں کہ علماء پہلے سائنس کی ایجادات کو یکدم حرام قرار دیتے ہیں ۔ تو کچھ
عر صہ بعد گنجائش نکالتے ہیں ۔
تصویر والا معاملہ ہم سب کے سامنے ہے ٹیلی ویژن کب سے موجود ہے لیکن استقراری اور غیر استقراری تصویر کی لاجک علماء اب سمجھے ہیں ۔
اگر کوئی چیز حرام ہے تو وہ حرام ہی رہنی چاہیے ۔اس میں اگر مگر کی گنجائش کہاں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سب سے پہلے ، علماء بھی انسانوں کی طرح انسان ہیں ، ان سے غلطی ، کمی ، کوتاہی ، غفلت ، سستی وغیرہ ہو نہیں سکتی ، اس کا کوئی بھی قائل نہیں ۔
لیکن ذرا سوچیے !
علماء کی ذمہ داری کیا ہے ؟
علماء آپ کو کسی بھی مسئلے کے ’ شرعی پہلو ‘ پر ’ مکمل شرعی رہنمائی ‘ دینے کے پابند ہیں ، سائنس کی مدد سے کیا ممکن ہے ، کیا نہیں ، کیلنڈر پہلے تیار ہوسکتا ہے کہ نہیں ؟ یہ علماء کی ذمہ داری نہیں ، جن کا یہ میدان ہے ، انہوں نے اگر اس حوالے سے پیش رفت کی ہے ، اور علماء ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے ، تو پھر علماء پر اعتراض کرنا بنتا ہے ۔
شرعی مسئلہ بتانا ، اس کی پیچیدگیاں سمجھانا ، اس سے متعلق گھتیاں سلجھانا تو علماء کا کام ہے ، لیکن جن کاموں کا تعلق دیگر شعبوں سے ہے ، مثلا سائنس وغیرہ سے ، وہ ان علوم کے ماہرین کی ذمہ داری ہے کہ انہیں عام لوگوں اور علماء کو سمجھائیں ۔
نمازوں کے کلینڈر تیار کرنے والی بات سائنسدان سمجھا چکے ہیں ، علماء نے اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں دیکھی ، اس پر عمل پیرا ہیں ۔
کیا عید کے چاند والے مسئلہ کے حوالے سے سائنسدانوں نے علماء کو اتنی معلومات بہم پہنچادی ہیں کہ اس کا تعین بھی کیلنڈر کی شکل میں ہفتوں ، مہینوں یا سالوں پہلے کیا جاسکتا ہے ؟
اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر علماء قصور وار ہیں ۔ اگر نہیں تو پھر علماء کو الزام کیسا ؟
دوسری یہ بات کہہ رہے ہیں کہ علماء نے ہمیشہ جب بھی کوئی نئی سائنسی ایجاد آئی ہے اس کو خلاف اسلام کہہ کر رد کیا ہے ۔ جس میں مثالیں اس نے اپنے مضمون میں دی ہیں۔
یہ کمزوری علماء کی ہے یا سائنسدانوں کی ؟ جب میں اپنی بنائی ہوئی چیز کی حقیقت سے کسی کو باخبر نہیں کرسکا ، اور اس نے اس پر غلط حکم لگادیا ہے تو پھر اسے دوش دینے سے پہلے مجھے اپنی صلاحیت کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے ۔
دوسری بات : دین اسلام احتیاط پر مبنی ہے ، ہر چمکتی چیز کو بل جھپکتے سونا کہہ دینا ، یہ علماء کی شان نہیں ۔
دنیا کا ہر شخص اپنے مادی یا دنیاوی کاروبار کی طرف دیکھتا ہے ، چیزوں کے ظاہری حسن و قبح سے متاثر ہوتا ہے ، لیکن علما نے ہر چیز کو شریعت کی نگاہ سے دیکھنا ہوتا ہے ۔ اور شریعت واضح حرام کے ساتھ ساتھ مشتبہات سے بھی بچنے کا حکم دیتی ہے ۔ جب کوئی چیز مشتبہات سے نکل کر واضح حیثیت سے حلال میں شامل ہوجاتی ہے تو علماء بھی اس سے بچنے یا رکنے کے فیصلے سے دستبردار ہوجاتے ہیں ۔
علماء کے حرمت کے فتووں کی جتنی مثالیں دی گئی ہیں ، آپ اِس دور میں رہ کر سوچنے کی بجائے ، اُن چیزوں کی ایجاد کیسے ہوئی ، کن لوگوں نے کی ؟ اور اُس دور کے لوگ انہیں کس نگاہ سے دیکھتے تھے ؟ ان سب چیزوں کا جائزہ لے کر علماء کی باتوں کو دیکھیں گے تو آپ کو ان کی احتیاط ضرور سمجھ آجائے گی ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
کیا عید کے چاند والے مسئلہ کے حوالے سے سائنسدانوں نے علماء کو اتنی معلومات بہم پہنچادی ہیں کہ اس کا تعین بھی کیلنڈر کی شکل میں ہفتوں ، مہینوں یا سالوں پہلے کیا جاسکتا ہے ؟
اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر علماء قصور وار ہیں ۔ اگر نہیں تو پھر علماء کو الزام کیسا ؟
نمازوں کا تعلق ”وقت“ سے ہے جب وقت ہو جائے نماز پڑھ لیں۔ کسی نماز کا وقت ہوگیا ہے کہ نہیں اسے جج کرنے کا طریقہ تو شرع نے بتایا مگر اس طریقہ کو متعین نہیں فرمایا۔ لہٰذا نماز کا وقت باوثوق ذریعہ سے معلوم ہو جانا ہی کافی ہے۔
چاند کے بارے میں شرع نے روئیت کی قید لگائی ہے۔ مطلع ابر آلود ہوجانے کی صورت میں 30 دن پورے کرنے کا حکم ہے۔ واللہ اعلم
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ایک عام پڑھا لکھا شخص (جو دین کا مکمل شعور نہیں رکھتا) اس بات کو سمجھنے سے بالعموم قاصر رہتا ہے کہ
  1. جب دنیا بھر کے مسلمان پنج وقتہ نمازوں کے اوقات اور سال بھر کے سحر و افطار کے اوقات کے لئے سائنسدانوں کے بنائے ہوئے چارٹ پر عمل کرسکتے ہیں تو
  2. قمری مہینوں کے آغاز و اختتام کے لئے انہی سائنسدانوں کے بنائے ہوئے چارٹ کو قبول کیوں نہیں کرتے۔
بات یہ نہیں ہے کہ علمائے کرام سائنسدانوں کے پہلے چارٹ کو درست اور دوسرے چارٹ کو غلط سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ پہلے چارٹ کو تو بلا چون و چرا ”اپناتے“ ہیں لیکن دوسرے چارٹ کو ”اپنانے“ سے گریز کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ان چارٹ سے منسلک اسلامی عبادات سے متعلق ”شرعی احکامات“ ہیں۔

  1. پنج وقتہ نمازوں کے لئے حکم ہے کہ جب ان عبادات کے لئے معین وقت ”ہو جائے“ تو نماز ادا کر لو۔ اسی طرح روزہ کے آغاز کے لئے صبح صادق کا وقت ”ہوجائے“ تو کھانے پینے سے رک جاؤ اور آفتاب غروب ”ہوجائے“ تو افطار کرلو۔ ان عبادات کے لئے معین وقت کا علم کس طرح ہو، اس پر شریعت کوئی ”گائیڈ لائن“ نہیں دیتی نہ ہی کوئی شرط لگاتی ہے کہ فلاں ذریعہ کو اپناؤ یا فلاں ذریعہ کو نہ اپناؤ۔ چنانچہ ہم اپنی آنکھوں سے سورج کی گردش کو دیکھ کر بھی، سابقہ تجربات کی روشنی میں بھی، علم فلکیات کی رو سے بھی ان اوقات کو معلوم کرسکتے ہیں اور ان پر عمل کرسکتے ہیں
  2. لیکن جہاں تک قمری مہیںوں کے ”آغاز“ اور قمری تاریخوں سے منسلک عبادات (روزہ، عیدین، قربانی کے ایام، حج کے ایام وغیرہ) کا تعلق ہے۔ تو اس کے بارے میں شریعت کا حکم یہ نہیں ہے کہ جیسے ہی قمر طلوع ”ہوجائے“ نئے قمری ماہ کا آغاز کردیا جائے۔ بلکہ حکم ہے کہ تم ہرماہ کی 29 تاریخ کو ہلال کو ”دیکھو“ اور اگر ”رویت ہلال“ کی تصدیق ہوجائے تو نئے ماہ کا آغاز کردو۔ اور اگر کسی وجہ سے (خواہ مطلع ابر آلود کی وجہ سے یا کسی بھی وجہ سے) تم ”رویت ہلال“ نہ کرسکو تو 30 ایام پورے کرکے نئے ماہ کا آغاز کرو۔ اس حکم کے تحت ہمیں ہر ماہ کی 29 تاریخ کو رویت ہلال کو انسانی آنکھوں سے براہ راست دیکھنا لازمی ہے۔ کسی اور ذریعہ علم (خواہ وہ کتنا ہی معتبر اور مصدقہ کیوں نہ ہو) سے ”اسلامی قمری ماہ“ کا آغاز نہیں کرسکتے۔
واللہ اعلم بالصواب
 
Last edited:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
علماء کے حرمت کے فتووں کی جتنی مثالیں دی گئی ہیں ، آپ اِس دور میں رہ کر سوچنے کی بجائے ، اُن چیزوں کی ایجاد کیسے ہوئی ، کن لوگوں نے کی ؟ اور اُس دور کے لوگ انہیں کس نگاہ سے دیکھتے تھے ؟ ان سب چیزوں کا جائزہ لے کر علماء کی باتوں کو دیکھیں گے تو آپ کو ان کی احتیاط ضرور سمجھ آجائے گی ۔
محترم خضر حیات بھائی
میرے کہنے کا مطلب یہی ہے کہ اگر علماء اس پر فوراً فیصلہ نہ کریں بلکہ کچھ وقت لیں۔تو یہ بہتر ہوگا۔ آپ کے اس جملے سے میں متفق نہیں کہ ایجاد کیسے ہوئی اور کن لوگوں نے کی۔
میں تو انتہائی کم علم آدمی ہوں آپ کے علم میں یقیناًہوگا کہ بر صغیر پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے کچھ علماء کرام نے انگریزی سیکھنے کو بھی حرام قرار دیا تھا۔
اب علماء کرام شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے لئے تصویر جائز قرار دیتے ہیں لیکن تصویر کھینچنے والے کام کو ناجائز کہتے ہیں۔
حدیث نبوی مفہوم"اس کے گھر فرشتے داخل نہیں ہوسکتے جس میں تصویر اور کتا ہو" کو اگر اس کے عام ظاہری معنوں میں لیں تو ہم میں سے تو 100٪ فیصد لوگوں کی جیب میں کسی نہ کسی شکل میں کوئی نہ کوئی تصویر موجو ہوتی ہے ۔ جس کو لے کر ہم مسجدوں میں بھی جاتے ہیں۔تو کیا جہاں ہم بچ نہیں سکتے وہاں وہ چیز حلال جہاں بچ سکتے ہیں وہاں وہ حرام۔

مجھے لگتا ہے ہم مسلمانوں نے اپنے آپ کو ایک دائرے میں مقید کر لیا ہے۔
 
Top