- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,552
- پوائنٹ
- 641
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْوَاسِطِيُّ , أَخْبَرَنَا هَارُونُ الْحَمَّالُ , أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ , أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ , أَخْبَرَنَا مَطَرٌ الْوَرَّاقُ قَالَ: سَأَلْتُ الْحَسَنَ عَنْ مَسْأَلَةٍ , فَقَالَ فِيهَا , فَقُلْتُ: يَا أَبَا سَعِيدٍ يَأْبَى عَلَيْكَ الْفُقَهَاءُ وَيُخَالِفُونَكَ , فَقَالَ: «ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ مَطَرُ , وَهَلْ رَأَيْتَ فَقِيهًا قَطُّ؟ وَهَلْ تَدْرِي مَا الْفَقِيهُ؟ الْفَقِيهُ الْوَرِعُ الزَّاهِدُ الَّذِي لَا يَسْخَرُ مِمَّنْ أَسْفَلَ مِنْهُ , وَلَا يَهْمِزُ [ص:74] مَنْ فَوْقَهُ , وَلَا يَأْخُذُ عَلَى عِلْمٍ عَلَّمَهُ اللَّهُ حُطَامًا» اخلاق العلماء للآجری: ص۷۳
مطر وراق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے ایک مسئلہ پوچھا تو انہوں نے اس بارے جو مناسب سمجھا، جواب دے دیا۔ میں نے کہا: اے ابو سعید، فقہاء تو اس مسئلے میں آپ کا رد اور مخالفت کرتے ہیں۔ تو حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: اے مطر، تیری ماں تجھے گم پائے، کیا تم کوئی فقیہ دیکھا بھی ہے؟ اور تجھے معلوم ہے کہ فقیہ کسے کہتے ہیں؟ فقیہ تو وہ ہے جو اللہ سے ڈرنے والا اور دنیا سے بے رغبتی رکھنے والا ہے۔ جو اپنے سے کم علم رکھنے والوں کا مذاق نہیں اڑاتا اور اپنے سے بڑے علماء کو لعن طعن نہیں کرتا۔ اور نہ ہی اس علم کے ذریعے کہ جو اللہ نے اسے عطا کیا ہے، وہ لوگوں کو رگڑا لگاتا ہے۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا یہ قول بہت ہی خوبصورت ہے کہ جس میں انہوں نے فقاہت اور علم کے جوہر کو بیان کر دیا ہے اور وہ تقوی اور زہد ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّـهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ
اللہ کے بندوں میں سے علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔
اور تقوی اور زہد کے بغیر تو یہ علم کسی کام کا نہیں، نرا کتابوں کا بوجھ ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ
مثال ان لوگوں کی جنہیں تورات دی گئی اور پھر انہوں نے اسے اٹھانے کا حق ادا نہ کیا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے کہ جس پر کتابوں کا بوجھ لاد گیا ہو۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ ایک فقیہ اور عالم کی فقاہت اور علم کا اس وقت پتہ چلتا ہے، جب وہ دوسروں پر نقد کرتا ہے۔ جن پر وہ نقد کرتا ہے، یا تو وہ اس سے علم میں بہتر ہوں گے تو وہ ان پر طنز نہیں کرتا یا وہ اس سے علم میں کم ہوں گے تو وہ ان کا مذاق نہیں اڑاتا۔ اور وہ اپنے علم کو اللہ کی نعمت سمجھتا ہے لہذا اس علم کو دوسروں کی تنقیص اور عیب جوئی کے لیے استعمال نہیں کرتا۔ کسی فقیہ یا عالم کو یہ صفت اسی صورت حاصل ہوتی ہے جبکہ وہ متقی اور زاہد ہو۔ وہ اپنے علم کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا ہو اور اپنے علم کے حوالے سے دنیا سے بے رغبت ہو کہ اس علم کو خودنمائی کا ذریعہ نہ بننے دے۔
وَهَلْ رَأَيْتَ فَقِيهًا قَطُّ؟
کیا تم نے کبھی کوئی فقیہ دیکھا ہے؟
بہت خوب،
مطر وراق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے ایک مسئلہ پوچھا تو انہوں نے اس بارے جو مناسب سمجھا، جواب دے دیا۔ میں نے کہا: اے ابو سعید، فقہاء تو اس مسئلے میں آپ کا رد اور مخالفت کرتے ہیں۔ تو حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: اے مطر، تیری ماں تجھے گم پائے، کیا تم کوئی فقیہ دیکھا بھی ہے؟ اور تجھے معلوم ہے کہ فقیہ کسے کہتے ہیں؟ فقیہ تو وہ ہے جو اللہ سے ڈرنے والا اور دنیا سے بے رغبتی رکھنے والا ہے۔ جو اپنے سے کم علم رکھنے والوں کا مذاق نہیں اڑاتا اور اپنے سے بڑے علماء کو لعن طعن نہیں کرتا۔ اور نہ ہی اس علم کے ذریعے کہ جو اللہ نے اسے عطا کیا ہے، وہ لوگوں کو رگڑا لگاتا ہے۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا یہ قول بہت ہی خوبصورت ہے کہ جس میں انہوں نے فقاہت اور علم کے جوہر کو بیان کر دیا ہے اور وہ تقوی اور زہد ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّـهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ
اللہ کے بندوں میں سے علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔
اور تقوی اور زہد کے بغیر تو یہ علم کسی کام کا نہیں، نرا کتابوں کا بوجھ ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ
مثال ان لوگوں کی جنہیں تورات دی گئی اور پھر انہوں نے اسے اٹھانے کا حق ادا نہ کیا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے کہ جس پر کتابوں کا بوجھ لاد گیا ہو۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ ایک فقیہ اور عالم کی فقاہت اور علم کا اس وقت پتہ چلتا ہے، جب وہ دوسروں پر نقد کرتا ہے۔ جن پر وہ نقد کرتا ہے، یا تو وہ اس سے علم میں بہتر ہوں گے تو وہ ان پر طنز نہیں کرتا یا وہ اس سے علم میں کم ہوں گے تو وہ ان کا مذاق نہیں اڑاتا۔ اور وہ اپنے علم کو اللہ کی نعمت سمجھتا ہے لہذا اس علم کو دوسروں کی تنقیص اور عیب جوئی کے لیے استعمال نہیں کرتا۔ کسی فقیہ یا عالم کو یہ صفت اسی صورت حاصل ہوتی ہے جبکہ وہ متقی اور زاہد ہو۔ وہ اپنے علم کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا ہو اور اپنے علم کے حوالے سے دنیا سے بے رغبت ہو کہ اس علم کو خودنمائی کا ذریعہ نہ بننے دے۔
وَهَلْ رَأَيْتَ فَقِيهًا قَطُّ؟
کیا تم نے کبھی کوئی فقیہ دیکھا ہے؟
بہت خوب،
Last edited: