• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا استخارہ غیرثابت شدہ امر ہے؟

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ہمارے ایک اہل حدیث بھائی کو استخارہ کے غیرثابت شدہ ہونے پر عاطف نامی شخص کی یہ نام نہاد تحقیق حاصل ہوئی ہے۔ اب وہ اسکے جواب کے طالب ہیں۔ ملاحظہ ہو:

اللہ تعالی فرماتا ہے۔
'' اے نبی ﷺ ! معاملات میں مشورہ کریں ان (اصحاب) سے ، پھر جب آپﷺ پکّا ارادہ کر لیں تو اللہ پر توکّل کریں'' (آلِ عمران:۱۵۹) نہ کہ آپس کے مشورے کو ترک کر کے استخارہ کے نام پر خوابوں اور غیبی اشاروں پر بھروسہ کرنے لگیں ۔ اللہ نے اس آیت میں اس پر توکّل کرنے کاحکم فرمایا ہے۔ یہ نہیں کہ ہر کام کے کرنے سے پہلے دو رکعات پڑھی جائیں اور استخارہ کیا جائے ۔ اس طرح تو کوئی کام کیا ہی نہیں جا سکتا کیوں کہ استخارہ کی روایت میں کسی مخصوص کام کی قید نہیں ہے اور نہ ایسا رسول ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے جو کام کیا ہو تو اس سے پہلے استخارہ کیا ہو۔

استخارہ کی روایت کچھ یوں ہے ۔
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول ﷺ ہمیں معاملات میں خیر طلب کرنے (استخارہ) اس طرح سکھاتے تھے جیسے ہمیں قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔ کہتے تھے کہ جب بھی تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو اُسے چاہیئے کہ وہ فرض کے علاوہ دو رکعات پڑھے پھر کہے(پھر استخارہ کی دعاء سکھائی)(صحیح بخاری حدیث نمبر ۱۱۶۶)۔

اس روایت کو امام احمد بن حنبل نے (الکامل، صفحہ نمبر ۱۶۱۶) میں منکر کہا ہے ۔ اس روایت پر امام احمد کی جرح کو ابنِ عدی، امام ذہبی (میزان، ترجمہ نمبر ۴۹۹۰)، علامہ عینی (عمدۃ القاری) ، شوکانی (نیل الاوطار،حدیث نمبر ۹۶۵) وغیرہ نے اپنی اپنی کتب میں نقل کیا ہے اور امام احمد کی جرح کا کوئی جواب نہیں دیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تمام علماء اس روایت کے منکر ہونے پر متفق ہیں۔ اس روایت کے راوی عبدالرحمن بن ابی الموال میں ضعف ہے۔ (میزان ، ترجمہ نمبر ۴۹۹۰) ابنِ عدی اس روایت کو منکر بتاکر کہتے ہیں ''اسے کچھ اور صحابہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا گیا ہے'' جن میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت مسند بزار حدیث نمبر ۱۵۸۳)میں ہے جس کا راوی عمران بن ابی لیلہ مجہول اور محمد بن عبدالرحمن منکر الحدیث ہے۔ (میزان، ترجمہ نمبر ۷۸۳۱)

ایک سند مسند بزار، حدیث نمبر ۱۵۲۸ میں ہے جس کا راوی عباس بن ہیثم مجہول ، صالح بن موسیٰ منکر الحدیث (میزان ، ترجمہ نمبر ۳۸۳۵ ) اور سلیمان بن ماہران مدلّس ہے۔

ایک سند مسند بزار، حدیث نمبر ۱۸۳۵ میں ہے جس کا راوی عاصم بن ابی نوجد ضعیف (میزان ، ترجمہ نمبر ۴۰۷۳) اور مبارک بن فضالہ ضعیف مدلّس ہے (میزان ، ترجمہ ۷۰۵۴) ۔

ایک سند مسند ابو حنیفہ روایت ابو نعیم، صفحہ نمبر ۸۱ میں ہے جس کا راوی نعمان بن ثابت
( ضعفاء عقیلی ، ترجمہ نمبر ۱۸۸۰) اور محمد بن سلیمان (میزان ، ترجمہ نمبر ۲۲۵۶) منکر الحدیث ہیں۔

ایک سند مصنف ابن ابی شیبہ ، حدیث نمبر ۲۸۸۲۷ میں ہے جس کا ایک راوی ابراھیم نخعی کی ملاقات ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے اور ابو معاویہ ابراھیم سے روایت کرنے میں ضعیف اور مدلّس ہے (میزان ، ترجمہ نمبر ۱۰۶۲۶)

ایک سند (الجامع معمار بن راشد ، حدیث نمبر ۲۰۲۱۰) میں ہے جس کا راوی قتادہ بن دیامہ کی ملاقات ابنِ مسعودرضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے ۔ پھر قتادہ اور عبدالرّزاق دونوں مدلّس ہیں۔

ایک سند طبرانی صغیر ، صفحہ نمبر ۱۹۰ میں ہے جس کا راوی عبدالرّحمن بن عبداللہ منکر الحدیث (میزان ، ترجمہ نمبر ۴۹۱۲) اور اسمعٰیل بن عیاش کی روایت اس سے منکر ہے (میزان ، ترجمہ نمبر ۹۲۴) ۔

ایک سند اسماء والصفات ، صفحہ نمبر ۱۲۱ میں ہے جس کا راوی یحییٰ بن یامان منکر الحدیث ہے (میزان ، ترجمہ نمبر ۹۶۶۹) ۔

ایک سند اخباراصبہان ، جلد نمبر۲صفحہ نمبر ۳۳۲) میں ہے جس کا راوی نوح بن منصور مجہول اور سفیان ثوری مدلّس ہیں۔

استخارہ کے حوالے سے ایک روایت ابی ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے صحیح ابنِ حبان، حدیث نمبر ۴۰۴۰ میں ہے جس کا ایک راوی خالد بن ابی ایوب مجہول ہے۔

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت سنن ترمذی ، حدیث نمبر ۳۵۱۶ میں ہے جس کا ایک راوی زنفل مکّی منکر الحدیث ہے (میزان ، ترجمہ نمبر ۲۹۰۹) ۔ ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت مسند ابی یعلیٰ، حدیث نمبر ۱۳۴۲ میں ہے جس کا ایک راوی محمد بن اسحاق منکر الحدیث (ترجمہ نمبر ۷۲۰۳) اور عیسیٰ بن عبداللہ مجہول ہے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت مسند احمد حدیث نمبر ۱۴۴۴ میں ہے کہ ''ابنِ آدم کی سعادت میں سے ہے اللہ سے استخارہ کرنا اور جو فیصلہ اللہ فرما دے اس پر راضی ہونا''

اس روایت کا ایک راوی محمد بن ابی حُمیدمنکر الحدیث ہے (تاریخ کبیر بخاری، ترجمہ نمبر ۱۶۸) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے طبرانی کبیر ، حدیث نمبر ۱۱۴۷۷ میں ہے جس کا ایک راوی عبداللہ بن ہانی کذاب (میزان ، ترجمہ نمبر ۴۶۷۰( اور ہانی بن عبدالرّحمن مجہول ہے۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت طبرانی اوسط ، حدیث نمبر ۹۳۵ میں ہے جس کا راوی عمروبن سلٰمہ(میزان، ترجمہ نمبر ۶۳۸۵) حفاص بن غیلان (میزان ، ترجمہ نمبر ۲۱۶۵) منکر الحدیث اور حکم بن عبداللہ کذّاب ہے (میزان، ترجمہ حدیث نمبر ۲۱۸۳) ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت صحیح ابن حبان ، حدیث نمبر ۸۸۶ میں ہے جس کا راوی اعلیٰ بن عبدالرّحمن منکر الحدیث (میزان ، ترجمہ نمبر ۵۷۴۱) اور شِبل بن اعلیٰ مجہول ہے۔

اس کی ایک سند مسند ابی حنیفہ روایت ابن یعقوب ، حدیث نمبر ۸۳۵ میں ہے جس کا راوی احمد بن صالح ، محمد بن قاسم مجہول ، اور قاسم بن حکم (میزان ، ترجمہ نمبر ۶۸۰۷) ، ناصح بن عبداللہ (میزان ، ترجمہ نمبر ۸۹۹۵) منکر الحدیث ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت میں ہے ''جس نے استخارہ کیا وہ ناکام نہیں ہوا، اور جس نے مشورہ کیا وہ نادم نہیں ہو ا اور جس نے میانہ روی اختیار کی وہ محتاج نہیں ہوا'' (طبرانی اوسط ، حدیث نمبر ۶۶۲۷) اس کا راوی عبدالقدّوس بن حبیب (میزان ، ترجمہ نمبر ۶۶۲۷) اور عبدالسلام بن عبدالقدّوس (میزان، ترجمہ نمبر ۵۰۵۹) کذّاب ہیں۔ لہٰذا اس بارے میں کچھ ثابت نہیں ہے۔

تحقیق از قلم عاطف احمد خان۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
چونکہ استخارہ کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے ۔
اس لئے بقیہ روایات پر بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔


ذیل میں بخاری کی روایت پرکئے گئے اعتراض کا جواب پیش خدمت ہے:
سب سے پہلے اعتراض ملاحظہ ہو:

استخارہ کی روایت کچھ یوں ہے ۔
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول ﷺ ہمیں معاملات میں خیر طلب کرنے (استخارہ) اس طرح سکھاتے تھے جیسے ہمیں قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔ کہتے تھے کہ جب بھی تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو اُسے چاہیئے کہ وہ فرض کے علاوہ دو رکعات پڑھے پھر کہے(پھر استخارہ کی دعاء سکھائی)(صحیح بخاری حدیث نمبر ۱۱۶۶)۔

اس روایت کو امام احمد بن حنبل نے (الکامل، صفحہ نمبر ۱۶۱۶) میں منکر کہا ہے ۔ اس روایت پر امام احمد کی جرح کو ابنِ عدی، امام ذہبی (میزان، ترجمہ نمبر ۴۹۹۰)، علامہ عینی (عمدۃ القاری) ، شوکانی (نیل الاوطار،حدیث نمبر ۹۶۵) وغیرہ نے اپنی اپنی کتب میں نقل کیا ہے اور امام احمد کی جرح کا کوئی جواب نہیں دیا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تمام علماء اس روایت کے منکر ہونے پر متفق ہیں۔
اس روایت کے راوی عبدالرحمن بن ابی الموال میں ضعف ہے۔ (میزان ، ترجمہ نمبر ۴۹۹۰) ابنِ عدی اس روایت کو منکر بتاکر کہتے ہیں ''اسے کچھ اور صحابہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا گیا ہے'' جن میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت مسند بزار حدیث نمبر ۱۵۸۳)میں ہے جس کا راوی عمران بن ابی لیلہ مجہول اور محمد بن عبدالرحمن منکر الحدیث ہے۔ (میزان، ترجمہ نمبر ۷۸۳۱)
اس اعتراض میں دو وجوہات کی بناپر بخاری کی استخارہ والی حدیث کو ضعیف کہاگیا ہے۔

  • امام احمدرحمہ اللہ نے اسے منکر کہا ہے۔
  • اس کے راوی ”عبدالرحمن بن ابی الموال“میں ضعف ہے۔

پہلی وجہ ضعف کا جواب


الکامل میں امام احمد رحمہ اللہ سے یہ بات ضرورمنقول ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو منکر کہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امام احمدرحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
سب سے پہلے ہم الکامل کی پوری عبارت دیکھ لیتے ہیں:

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
حدثنا ابن أبي عصمة، حدثنا أبو طالب سألت أحمد بن حنبل عن عبد الرحمن بن أبي الموالي قال عبد الرحمن لا بأس به، قال: كان محبوسا في المطبق حين هزم هؤلاء يروي حديثا لابن المنكدر عن جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم في الاستخارة ليس يرويه أحد غيره هو منكر قلت هو منكر؟ قال: نعم ليس يرويه غيره لا بأس به وأهل المدينة إذاكان حديث غلط يقولون بن المنكدر عن جابر وأهل البصرة يقولون ثابت، عن أنس يحيلون عليهما[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 5/ 500]

یہاں اما م احمدرحمہ اللہ نےتفرد کے معنی میں ”منکر“استعمال کیا ہے ۔
امام احمدرحمہ اللہ کی نظر میں اس حدیث کو بیان کرنے میں” عبد الرحمن بن أبي الموالي“منفرد ہے لہٰذا یہ حدیث منکر ہے۔
لہذا اس مفہوم میں امام احمدرحمہ اللہ کا اس حدیث کو منکر کہنا اس حدیث کی تضعیف نہیں ہے۔
چنانچہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے امام احمدرحمہ اللہ کے کے اس قول کی یہی تشریح پیش کی ہے چنانچہ:
مقدمہ الفتح میں ”عبد الرحمن بن أبي الموالي“کاترجمہ پیش کرنے کے بعد امام احمدکا قول نقل کرکے کہا:
وأنكر أحمد حديثه عن محمد بن المنكدر عن جابر في الاستخارة قلت هو من أفراده[مقدمة فتح الباري: ص: 417]

یعنی حافظ ابن حجررحمہ اللہ ان کی حدیث کو فرد بول کریہی کہنا چاہتے ہیں کہ امام احمدر حمہ اللہ نے فر د کے معنی میں یہاں منکرکہا ہے جیساکہ ابن حجررحمہ اللہ کی دوسری عبارت سے یہ واضح ہے چنانچہ ایک دوسرےمقام پر ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
المنكر أطلقه أحمد بن حنبل وجماعة على الحديث الفرد الذي لا متابع له فيحمل هذا على ذلك[فتح الباري لابن حجر 1/ 437]

واضح رہے کہ اہم ہرجگہ امام احمد کے اقوال میں منکر کی یہ تفسیر نہیں کرسکتے بلکہ اس کے لئےسیاق وسباق کو دیکھناہوگاکیونکہ عمومی طور پر فن حدیث میں منکر جرح فاسدہی کے لئے بولاجاتاہے۔
اورسیاق وسباق میں یہ ہے کہ کہ اما م احمد نے اس روایت میں منفرد ہونے والے راوی کو ثقہ (لاباس بہ) کہا ہے۔
یہ تو اما م احمد کے قول کی وضاحت ہوئی۔

رہی بات امام ابن عدی رحمہ اللہ کی توانہوں نے بھی اس روایت کوضعیف نہیں کہا ہے بلکہ انہوں نے اس راوی کی روایات نقل کرنے کے بعدکہا ہے:

ولعبد الرحمن بن أبي الموالي أحاديث غير ما ذكرت، وهو مستقيم الحديث والذي أنكر عليه حديث الاستخارة وقد روى حديث الاستخارة غير واحد من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم كما رواه ابن أبي الموالي.[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 5/ 501]

اس عبارت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ امام ابن عدی راوی مذکور کو ثقہ مانتے ہیں اور ان کی اس حدیث کو بھی صحیح مانتے ہیں۔

بلکہ علامہ عینی نقل کرتے ہیں:
وقال شيخنا زين الدين: كأن ابن عدي أراد بذلك أن لحديثه هذا شاهدا من حديث غير واحد من الصحابة، فخرج بذلك أن يكون فردا مطلقا[عمدة القاري شرح صحيح البخاري 7/ 222]

رہی بات امام ذہبی کی تو ان کی عبارات سے بھی یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ اس حدیث کو ضعیف کہتے بلکہ انہوں نے امام احمد کا قول نقل کرنے کے بعد کہا ہے:
قلت: قد أخرجه البخاري، ثم قال أحمد: لا بأس به.[ميزان الاعتدال للذهبي: 2/ 593]

اوراس کے بعد امام ذہبی نے ابن عدی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے:
قال ابن عدي: هو مستقيم الحديث، والذي أنكر عليه حديث الاستخارة قدرواه غير واحد من الصحابة.[ميزان الاعتدال للذهبي: 2/ 593]

اس سے صاف ظاہر ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ بھی اس حدیث کوضعیف نہیں کہتے ۔

رہی بات علامہ عینی کی تو انہوں نے گرچہ امام احمدکی طرف اس حدیث کی تضعیف کی نسبت کی ہے جو درست نہیں لیکن اس کے بعد انہوں نے جو کچھ نقل کیا اس سے بھی یہ اشارہ ملتا ہے کہ علامہ عینی کے نزدیک بھی یہ حدیث صحیح ہے چنانچہ علامہ عینی نے کہا:


بلکہ استخارہ والی ایک حدیث نقل کرکے اس کی تصحیح بھی نقل کی ہے چنانچہ کہا:
۔۔۔۔وأما حديث أبي سعيد: فأخرجه أبو يعلى الموصلي من طريق ابن إسحاق: حدثني عيسى بن عبد الله بن مالك عن محمد بن عمرو بن عطاء بن يسار (عن أبي سعيد الخدري، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إذا أراد أحدهم أمرا فليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك. .) الحديث على نحو حديث جابر، وقال في آخره: (ثم قدر لي الخير أينما كان، لا حول ولا قوة إلا بالله) . إسناده صحيح. ورواه ابن حبان أيضا في (صحيحه) من هذا الوجه۔۔۔[عمدة القاري شرح صحيح البخاري 7/ 222]

نیزسنن ابوداؤد کی شرح میں بھی علامہ عینی نے اس حدیث کی تشریح کی اور اسے ضعیف نہیں کہا ہے [شرح أبي داود للعيني 5/ 451]

رہی بات امام شوکانی کی تو ان کا بھی یہی معاملہ ہے کہ انہوں نے امام احمد کی طرف تضعیف کی نسبت کرنے کے ساتھ ساتھ اس روایت کی تائید میں بھی اقوال نقل کئے ہیں۔

نیز امام شوکانی نے دوسرے مقام پر کہا:
وَأخرجه أَيْضا أهل السّنَن وَصَححهُ التِّرْمِذِيّ وَابْن أبي حَاتِم وَمَعَ كَونه صَحِيح البُخَارِيّ فقد ضعفه أَحْمد وَقَالَ إِنَّه مُنكر لكَون فِي إِسْنَاده عبد الرَّحْمَن بن أبي الموال قَالَ ابْن عدي فِي الْكَامِل فِي تَرْجَمَة عبد الرَّحْمَن بن أبي الموال أَنه أنكر عَلَيْهِ حَدِيث الاستخارة قَالَ وَقد رَوَاهُ غير وَاحِد من الصَّحَابَة وَقد وثق عبد الرَّحْمَن جُمْهُور أهل الْعلم كَمَا قَالَ الْعِرَاقِيّ وَفِي الْبَاب أَحَادِيث قد ذَكرنَاهَا فِي شرحنا للمنتقى[تحفة الذاكرين بعدة الحصن الحصين ص: 206]

یہاں پر امام شوکانی نے امام احمد کی تضعیف کے ساتھ کئی اہل علم کی تصحیح بھی نقل کی ہے۔
اورآخر میں جوکچھ نقل کیا ہے اس سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ وہ اس حدیث کوصحیح ہی سمجھتے ہیں ۔


دوسری وجہ ضعف کاجواب

رہی بات یہ کہ ”عبدالرحمن بن ابی الموال“میں ضعف ہے ۔
تو اول تو یہ ثابت نہیں نیز محض اتنی سی بات ہی اس روایت کی تضعیف کے لئے کافی نہیں ہے ۔
کیونکہ ان کے اندر ضعف مان لیا جائے تو بھی یہ ثقہ تھے اور یہاں پر انہوں نے کسی کی مخالفت نہیں کی ہے ۔
اور نہ ہی ان کے تفرد کے رد کرنے پر قرائن ملتے ہیں۔

واضح رہے کہ ان کی توثیق پر اہل علم کا اتفاق ہے ، چند اہل علم کے اقول ملاحظہ ہوں:

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ثقة[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 3/ 158]

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
لا بأس به[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 5/ 292 واسنادہ صحیح]

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
لا باس به صدوق[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 5/ 292]

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى:275)نے کہا:
ثقة[تهذيب الكمال للمزي: 17/ 448]

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
لا بأس به وهو أحب الي من أبي معشر[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 5/ 292]

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279):
وهو شيخ مديني ثقة[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 346]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ثقة[سؤالات الحاكم للدارقطني: ص: 235]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ثقة مشهور[ميزان الاعتدال للذهبي: 2/ 592]

واضح رہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ (کمافی التقریب)کے علاوہ کسی نے بھی ان کے اندر ضعف کی بات نہیں یہی وجہ ہے کہ تحرير التقريب كي مؤلفين (دكتور بشار عواد اور شعيب ارنؤوط)نے ابن حجررحمہ اللہ پرتعاقب کرتے ہوئے اس راوی کی توثیق پر ائمہ کا اتفاق نقل کیا ہے[تحرير التقريب: رقم4021]
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
خلاصہ کلام

خلاصہ یہ کہ بخاری کی یہ حدیث صحیح وثابت ہے ۔اس پر اعتراض کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔
اسے کسی نے ضعیف نہیں کہا بلکہ اس کی وجہ سے استخارہ کی مشروعیت پر اہل علم کا اتفاق ہے۔
 
Top