• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی حد نہیں ہے؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
کیا اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی حد نہیں ہے؟

بسم الله الرحمن الرحيم

امام أبو سعيد عثمان بن سعيد بن خالد بن سعيد الدارمي السجستاني (ت ٢٨٠ هـ) فرماتے ہیں:

وَادَّعَى المُعَارِضُ أَيْضًا أَنَّهُ لَيْسَ لله حَدٌّ وَلَا غَايَةٌ وَلَا نِهَايَةٌ. وَهَذَا هُوَ الأَصْلُ الَّذِي بَنَى عَلَيْهِ جَهْمٌ جَمِيعَ ضَلَالَاتِهِ، وَاشْتَقَّ مِنْهَا أُغْلُوطَاتِهِ، وَهِيَ كَلِمَةٌ لَمْ يَبْلُغْنَا أَنَّهُ سَبَقَ جَهْمًا إِلَيْهَا أَحَدٌ مِنَ العَالَمِينَ.

اور اعتراض کرنے والے نے یہ دعوی بھی کیا کہ اللہ کے لیے کوئی حد، غایت اور نہایت نہیں اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر جہم (بن صفوان) نے اپنی تمام تر ضلالات کو قائم کیا اور اپنی غلطیوں کو اسی سے مشتق کیا اور یہ ہم تک نہیں پہنچا کہ عالمین میں جہم سے پہلے کسی نے اس کلمہ کے قائل ہونے میں پیش روی کی ہو۔


[نَقْضُ الإِمَامِ أَبِي سَعِيِدٍ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيِدٍ عَلَى المَرِيْسِيِّ الْجَهْمِيِّ العَنِيدِ فِيْمَا افْتَرَىَ عَلَى اللهِ - عز وجل - مِنَ التَّوْحِيدِ، ص: ٧٦]

اسی طرح امام عثمان بن سعيد الدارمي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَالله تَعَالَى لَهُ حَدٌّ لَا يَعْلَمُهُ أَحَدٌ غَيْرُه، وَلَا يجوزُ لأَحَدٍ أَن يتَوَهَّم لحدِّه غايةً فِي نَفْسِهِ، وَلَكِنْ يُؤْمِنُ بِالحَدِّ ويَكِلُ عِلْمَ ذَلِكَ إِلَى اللهِ، ولِمَكَانِهِ أَيْضًا حَدٌّ، وَهُوَ عَلَى عَرْشِهِ فَوْقَ سَمَاوَاتِهِ، فَهَذَانِ حَدَّانِ اثْنَانِ.

اللہ تعالی کے لیے حد ہے جس کو اللہ کے سوا کوئی اور نہیں جانتا اور کسی کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ اپنے دل میں اللہ کی حد و انتہا کا خیال بھی لائے۔ لیکن ہم اللہ کے لیے حد ہونے پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے علم کو اللہ تعالی کے سپرد کرتے ہیں اور اللہ تعالی کے مکان کی بھی حد ہے اور اللہ تعالی اپنے آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے، تو یہ دو حدیں ہیں۔


[نقض الدارمي على المريسي، ص: ٧٦]

امام عثمان بن سعيد الدارمي رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:

فَمَنِ ادَّعَى أَنَّهُ لَيْسَ للهِ حَدٌّ فَقَدْ رَدَّ القُرْآنَ، وَادَّعَى أَنَّهُ لَا شَيْءٌ؛ لِأَنَّ الله حَدَّ مَكَانَهُ فِي مَوَاضِعَ كَثِيرَةٍ مِنْ كِتَابِهِ فَقَالَ: {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} [طه: ٥]، {أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ} [الملك: ١٦]، {يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ} [النحل:٥٠]، و {إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ} [آل عمران:٥٥] {إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ} [فاطر: ١٠]، فَهَذَا كُلُّهُ وَمَا أَشْبَهَهُ شَوَاهِدُ وَدَلَائِلُ على الحَدِّ.
وَمَنْ لَا يَعْتَرِفُ بِهِ؛ فَقَدْ كَفَرَ بِتَنْزِيلِ الله، وَجَحَدَ آيَاتِ الله.


جس نے بھی یہ دعوی کیا کہ اللہ تعالی کے لیے کوئی حد نہیں اس نے قرآن کا رد کیا اور اس نے دعوی کیا ہے اللہ تعالی کوئی شے نہیں کیوں کہ اللہ تعالی نے اپنے مکان کی حد کا وصف مختلف مقامات پر اپنی کتاب میں کیا۔ پس فرمایا :

الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى [طه 5]
الرحمن عرش پر مستوی ہوا۔

أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاء [الملك 16]
کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے بےخوف ہو۔

يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ [النحل 50]
اپنے رب سے جو اْن کے اوپر ہے، ڈرتے ہیں۔

إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ [آل عمران 55]
(اے عیسیٰ) میں تمہیں لے لوں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا۔

إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [فاطر 10]
اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں۔

یہ تمام آیات اور اس جیسی دوسری آیات اللہ تعالی کے لیے حد پر دلائل و شواہد ہیں اور جو کوئی اس کا اعتراف نہیں کرتا تو اس نے اللہ تعالی کی تنزیل کا کفر کیا اور اللہ تعالی کی آیات کا انکار کیا۔


[نقض الدارمي على المريسي، ص : ٧٦-٧٧]

امام عثمان بن سعيد الدارمي رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:

فَالشَّيْءُ أَبَدًا مَوْصُوفٌ لَا مَحَالَةَ، وَلَا شَيْءٌ يُوصَفُ بِلَا حَدٍّ وَلَا غَايَةٍ. وَقَوْلُكَ: لَا حَدَّ لَهُ يَعْنِي: أَنَّهُ لَا شَيْءٌ.

ہر شے کو لازما موصوف کیا جاتا ہے اور لا شیء کو بلا حد اور بلا غایت موصوف کیا جاتا ہے۔ اور جب تم کہتے ہو اللہ کے لیے حد نہیں تو اس کا مطلب ہے اللہ کوئی شے ہی نہیں۔

[نقض الدارمي على المريسي، ص: ٧٦]

امام عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل الشيبانيّ البغدادي رحمہ اللہ كتاب السنة میں نقل کرتے ہیں کہ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا:

نَعْرِفُ رَبَّنَا عَزَّ وَجَلَّ فَوْقَ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ عَلَى الْعَرْشِ بَائِنٌ مِنْ خَلْقِهِ بِحَدٍّ وَلَا نَقُولُ كَمَا قَالَتِ الْجَهْمِيَّةُ هَاهُنَا وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الْأَرْضِ

ہم اپنے رب عز وجل کو ایسے پہچانتے ہیں کہ وہ ساتوں آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر حد کے ساتھ ہے اپنی مخلوقات سے جدا ہے۔ اور ہم جہمیوں کی طرح نہیں کہتے کہ وہ (اللہ) یہاں پر ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے زمین کی جانب اشارہ کیا۔


[كتاب السنة لعبد الله بن أحمد، ج: ١، ص: ١٧٤]

اسی طرح شيخ الإسلام امام ابن تيمية رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ قُلْت لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ: بِمَاذَا نَعْرِفُ رَبَّنَا؟ قَالَ؛ بِأَنَّهُ فَوْقَ سَمَوَاتِهِ عَلَى عَرْشِهِ بَائِنٌ مِنْ خَلْقِهِ. قُلْت بِحَدِّ؟ قَالَ: بِحَدِّ لَا يَعْلَمُهُ غَيْرُهُ

علی بن حسن بن شقیق نے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے کہا: ہم اپنے رب کو کیسے پہچانیں؟ عبداللہ بن مبارک (رحمہ اللہ) نے کہا: اس طرح کہ وہ ساتوں آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر ہے اور وہ اپنی مخلوقات سے جدا ہے۔ میں (راوی) نے کہا: حد کے ساتھ؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں حد کے ساتھ، جس حد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔


[مجموع الفتاوى لشيخ الإسلام ابن تيمية، ج : ٥، ص: ١٨٤]

ہمارے محترم بھائی عبداللہ درویش حفظہ اللہ فرماتے ہیں :

دو چیزوں میں تفریق کرنے والی چیز حد ہے، دو چیزوں میں فرق حد سے پتہ چلتا ہے اگر آپ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی حد نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ممتزج ہے اللہ تعالیٰ میں سب کچھ پیدا ہوا ہے اللہ تعالیٰ جدا نہیں ہے! تو وجود کے آپ جب قائل ہوئے کہ آپ کا وجود اللہ کے وجود سے جدا ہے مخلوق کا وجود اللہ کے وجود سے جدا ہے جب آپ اس بات کا اقرار کریں گے تو خودبخود حد کا اقرار پو گیا... آپ وجود کے قائل ہو اور وجود تو حد کے ذریعے سے ہی معلوم ہوتا ہے، ایک وجود اور دوسرے وجود میں فرق کیسے ہوتا ہے؟ حد سے۔ تو اللہ تعالیٰ کی حد ہے لیکن اس کی حد کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا ہمیں اس حد کی معرفت نہیں۔ [مفہوم]

والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام۔
 
Top