• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کو دیکھ کر اپنی الصحیح کو تالیف کیا ہے؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

کیا امام مسلم رحمہ اللہ نے ”صحیح بخاری“ کو دیکھ کر اپنی ”الصحیح” کو تالیف کیا ہے؟

تحریر : ابو المحبوب سید انور شاہ راشدی


نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم، امابعد !
حلقوں میں یہ بات مشہور ومعروف ہے کہ امام مسلم نے اپنی الصحیح کو صحیح بخاری کو دیکھ کر تالیف کیاہے، یعنی صحیح مسلم کا سن تالیف صحیح بخاری کے بعد کا ہے، اس حوالے سے مختلف محدثین کے اقوال سامنے آئے ہیں،ذیل میں ان اقوال کو درج کرکے ان کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے، ملاحظہ فرمائیں:

1- علامہ بقاعی رحمہ اللہ ”النکت الوفیۃ“ میں لکھتے ہیں : ”وقال بعض اصحابنا : قال الحافظ ابوعلی سعید بن عثمان بن سعید بن السکن فی خطبۃ کتابہ المسمی ”بالسن الصحاح المأثورۃ“ : أول من نصب نفسہ لطلب صحیح الآثار وتابعہ مسلم وابو داؤد والنسائی“.(النکت الوقفیۃ :1/ 110)
سب سے پہلے امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کوجمع کرنا شروع کیا، پھر ان کی پیروی میں امام مسلم ، امام ابو داؤد، اور امام ترمذی نے بھی کتابیں لکھیں۔

2 - حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام ابو احمد الکبیر سے نقل کرتے ہیں : ”رحم الله محمد بن إسماعيل الإمام فإنه الذي ألف الأصول وبين للناس وكل من عمل بعده فإنما أخذه من كتابه كمسلم فرق أكثر كتابه في كتابه وتجلد فيه حق الجلادة حيث لم ينسبه إليه“.
”اللہ تعالی امام بخاری رحمہ اللہ پر رحم فرمائے کہ انہوں نے اصول بناکر لوگوں کے لیے انہوں نے بیان کیے، اور جس کسی نے ان کے بعد کام کیاہے اس نے انہیں کی کتاب سے اخذ کیا ہے، جیسا کہ امام مسلم رحمہ اللہ ہیں، انہوں نے امام بخاری کی کتاب کے اکثر حصے کو اپنی کتاب میں جابجا ذکر کر دیا ہے اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ کام لیتے ہوئے اسے امام بخاری کی طرف منسوب نہیں کیا۔“
.

”النکت“ میں اس کے بعد یہ اضافی الفاظ بھی نقل کیے ہیں : ”فان عاند الحق معاند فلیس یخفی صورۃ ذالک علی اولی الالباب“.
”اگر کوئی جان بوجھ کر حق کا منکر ہو تو (وہ الگ بات ہے، ورنہ )عقلمندوں پر یہ صورت مخفی نہیں ۔“

امام ابو احمد رحمہ اللہ کا یہ کلام ان کی کتاب الاسماء والکنی اور الارشاد للخلیلی (3 / 262 - 263) و دیگر کئی ایک مصادر میں مذکور ہے۔

3 - اسی طرح امام دار قطنی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں : ”لولا البخاري لما راح مسلم ولا جاء“. وقال أيضا : ”إنما أخذ مسلم كتاب البخاري فعمل فيه مستخرجا وزاد فيه احادیث“.
(مقدمہ فتح الباری :490)
”اگر بخاری نہ ہوتے تو مسلم بھی نہ آتے ۔۔۔۔مسلم نے تو بخاری کی کتاب کو لیکر استخراج کیا ہے اور اس میں مزید چند احادیث کا اضافہ کر دیا ہے۔“

”مقدمہ فتح الباری“ میں ”وزاد فیہ احادیث“ لکھا ہے، جبکہ النکت میں ”احادیث“ کے بجائے ”زیادات“ کے الفاظ ہیں، چنانچہ امام ابو احمد الحاکم کے درج بالا قول کی تائید میں یوں لکھا ہے :”ویؤید ھذا مارویناہ عن الحافظ الفرید ابی الحسن الدارقطنی انہ قال فی کلام جری عندہ فی ذکر الصحیحین :”وای شئ صنع مسلم ؟ انما اخذ کتاب البخاری وعمل علیہ مستخرجا وزاد فیہ زیادات“.
(ھدی الساری)
اس کے بعد حافظ ابن حجر رح فرماتے ہیں : ”وھذا المحکی عن الدارقطنی جزم بہ ابو العباس القرطبی فی اول کتابہ ”المفھم فی شرح صحیح مسلم“
”امام دارقطنی کی اس حکایت کو امام ابو العباس قرطبی نے ”المفھم فی شرح صحیح مسلم“ کی ابتدا میں بالجزم بیان کیاہے۔“
(النکت)

4 - خطيب بغدادي رحمہ اللہ اپنی تاريخ میں لکھتے ہیں: ”قفا مسلم طريق البخاري، ونظر في علمه، وحذا حذوه، ولما ورد البخاري نيسابور في آخر أمره، لازمه مسلم وأدام الاختلاف إليه" . اهـ.
”امام مسلم امام بخاری کے نقش قدم پر چلے ہیں، اور ان کے علوم کو مد نظر رکھا ہے، امام بخاری آخر میں جب نیشاپور تشریف لے گئے تو امام مسلم انہی کے ہوکر رہ گئے اور ہمیشہ ان کے پاس آنا جانا رہتا“.
(تاریخ بغداد )

5 - خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ”شرح نخبۃ الفکر“ میں صحیح بخاری کو صحیح مسلم پر ترجیح دینے کے ضمن میں لکھا ہے : ”هذا على اتفاق العلماء على أن البخاري كان أجل من مسلم وأعرف بصناعة الحديث منه وإن مسلما تلميذه وخريجه ولم يزل يستفيد منه ويتبع آثاره حتى قال الدارقطني: "لولا البخاري لما راح مسلم ولا جاء“.
”علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امام بخاری ، امام مسلم سے صناعۃ الحدیث کی معرفت میں بڑھ کر ہیں، اور وہ امام بخاری کے شاگرد ہیں، اور انہی کے خریج ہیں، مسلسل ان سے استفادہ کرتے رہے، اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے تھے، امام دار قطنی نے تو یہاں تک کہہ دیاہے :”اگر بخاری نہ ہوتے تو مسلم بھی نہ ظاہر ہوتے۔“
(شرح نخبۃ الفکر)

ان اقوال کے علاوہ متاخرین ائمہ جیساکہ حافظ ابن الصلاح، علامہ عراقی، امام سخاوی، امام سیوطی رحمہم اللّٰہ وغیرہم کی بھی اس قسم کی آراء ملتی ہیں جن میں امام مسلم کی کتاب کو امام بخاری کی الصحیح کے بعد تالیف ہونا قرار دیا گیا ہے، اور صحیح بخاری کو دیکھ کر اس جیسی کتاب لکھنے کا عزم ہونا بیان کیا ہے۔

تجزیہ ! حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ موقف ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کو دیکھ کر انہیں صحیح احادیث پر مشتمل اس جیسی کتاب تالیف کرنے کا ارادہ اور خیال پیدا ہوا، اس پر انہوں نے درج بالا محدثین کے اقوال پیش فرمائے، جبکہ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ غلطی کا شکار ہوگئے ہیں، ذیل میں اس کی مکمل تفصیل ملاحظہ فرمائیں :

اولا: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو امام ابو احمد الحاکم اور امام دارقطنی کے کلام سے تائید لینے کی کوشش فرمائی ہے تو یہ بات شدید محل نظریے!

امام ابو احمد الحاکم یہاں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی بابت یہ رائے نہیں دے رہے، بلکہ یہاں ان کی نقطہء نگاہ امام مسلم کی کتاب الکنی ہے، چنانچہ ان کا پورا کلام ہم یہاں درج کر رہے ہیں تاکہ قارئین حقیقت سے آگاہ ہو سکیں، ملاحظہ فرمائیں، ان کا کہنا ہے :

« عبد الله بن الديلمي أبو بسر ، وقال البخاري ومسلم فيه : أبو بشر ـ بشين معجمة ـ.
قال الحاكم : وكلاهما أخطأ في علمي ، إنما هو أبو يسر ، وخليق أن يكون محمد بن إسماعيل مع جلالته ومعرفته بالحديث اشتبه عليه ، فما نقله مسلم في كتابه تابعه على زلته. ومن تأمل كتاب مسلم في الأسماء والكنى علم أنه منقول من كتاب محمد بن إسماعيل حذو القذّة بالقذّة ، حتى لا يزيد عليه فيه إلاّ ما يسهل عدّه ، وتجلد في نقله حق الجلادة إذ لم ينسبه إلى قائله.

وكتاب محمّد بن اسماعيل في التاريخ كتاب لم يسبق اليه ، ومن ألّف بعده شيئا في التاريخ أو الأسماء أو الكنى لم يستغن عنه ، فمنهم من نسبه إلى نفسه مثل أبي زرعة وأبي حاتم ومسلم ، ومنهم من حكاه عنه ، فالله يرحمه فإنه الذي أصّل الأصول ».

دیکھیں! یہاں امام صاحب نے صاف صاف لکھا ہے کہ :”امام مسلم کی ”الاسماء والکنی “ امام بخاری کی ”التاریخ الکبیر“ سے منقول ہے، بلکہ امام مسلم کے ساتھ ساتھ امام ابو حاتم رازی اور امام ابوزرعہ رازی پر بھی انہوں نے یہی الزام عائد کر دیا ہے کہ انہوں نے بھی امام بخاری کی اسی کتاب سے نقل ماری ہے اور امام بخاری کا نام تک نہ لیا، بلکہ اسے اپنی کتاب کے طور پر پیش کیا، حالانکہ سارا مواد انہوں نے امام بخاری کی ”التاریخ“ سے ہی لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ علماء ومحدثین نے امام ابو احمد الحاکم رحمہ اللہ کے اس الزام کو اسی پیرایے میں سمجھتے ہوئے اس کا جواب دینے کی کوشش فرمائی ہے، لہذا امام صاحب کے اس قدر صاف اور شفاف کلام کے ہوتے ہوئے معلوم نہیں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کیونکر غلطی کھا گئے! بہرکیف! امام ابو احمد الحاکم رحمہ اللہ نے یہاں صحیح بخاری وصحیح مسلم کی بابت کوئی رائے نہیں دی، بلکہ امام بخاری کی ”التاریخ الکبیر“ اور امام مسلم کی ”الکنی “ کے متعلق انہوں نے یہ سب کچھ فرمایا ہے، لہذا اسے ”صحیح مسلم“ پر فٹ کرنا درست نہیں، واللہ اعلم۔

امام دارقطنی رحمہ اللہ کا قول اور اس کی توضیح۔

اس حوالے سے یہاں دو باتیں پیش خدمت ہیں :
پہلی : یہ کہ ابن حجر نے امام دارقطنی کے اس کلام کے لیے امام ابو العباس قرطبی کی شرح صحیح مسلم کا حوالہ دیا ہے، جبکہ شرح صحیح مسلم میں یہ الفاظ نہیں۔ بلکہ اس میں امام دارقطنی کے صرف یہ الفاظ :”لولا البخار ماجاء“ ہیں، لگتا یوں ہے کہ امام دارقطنی کے اپنے الفاظ بھی فقط اتنے ہی ہیں، باقی ”إنما أخذ مسلم كتاب البخاري فعمل فيه مستخرجا وزاد فيه احادیث“. اور اسی طرح ”وای شئ صنع مسلم ؟ انما اخذ کتاب البخاری وعمل علیہ مستخرجا وزاد فیہ زیادات“. امام دارقطنی کے نہیں۔

تو معلوم یہی ہوتا ہے کہ یہ ابن حجر کا وہم ہے، ان کے علاوہ کسی بھی کتاب میں امام دارقطنی کے یہ الفاظ موجود نہیں، بلکہ ان کے تلامذہ ، علامہ بقاعی، سخاوی اور ان کے علاوہ امام سیوطی نے بھی ان سے یہ الفاظ نقل نہیں کیے۔ یہ الفاظ اگر امام دارقطنی سے منقول ہوتے تو ابن حجر کےدیے گئے حوالے امام قرطبی کی شرح میں ضرور ہوتے، لہذا وہاں ان الفاظ کا نہ ہونا ثابت کر رہاہے ہے کہ یہاں کچھ گڑبڑ ضرور ہے، واللہ اعلم۔

مجھے یوں لگتا ہے کہ امام دارقطنی کی طرف منسوب یہ الفاظ دراصل امام ابو احمد الحاکم ہی کے ہیں، جو ایک تو مؤخر ہوگئے دوسرا الفاظ میں کچھ تبدیلی ہوگئی ہے، کیونکہ امام ابو احمد الحاکم کی امام مسلم کی الکنی کے متعلق قائم کردہ رائے کا مفہوم ہوبہو وہی بنتا ہے جو امام دارقطنی کی طرف منسوب کردہ ان الفاظ کا ہے۔ بعید نہیں اپنے حافظے پر اعتماد کرتے ہوئے ابن حجر سے یہ وہم سرزد ہوگیا، واللہ اعلم۔

دوسری : یہ کہ جیسا ماقبل میں گذرا کہ اگر چہ فتح الباری کے مقدمہ میں امام دارقطنی سے ابن حجر کے نقل کردہ الفاظ ”وزاد فیہ احادیث“، ہیں جبکہ ”النکت“ میں ”زیادات“ لکھا ہوا، اس کا مطلب بھی وہی ہے جو امام ابو احمد الکبیر کے کلام کا ہے، یعنی امام دار قطنی کے نزدیک، امام مسلم کی ”الکنی“ امام بخاری کی ”التاریخ“ سے بعض اضافہ جات کے ساتھ منقول ہے، لہذا اس کو صحیح مسلم اور صحیح بخاری کے ساتھ مقید کرنا درست نہیں۔

حافظ ابن حجر کے مقدمہ فتح البخاری کی ابتدا میں امام دارقطنی کے کلام کو کچھ تبدیلی کے ساتھ ذکر کیا ہے، وہاں ان کا کہناہے : ”وقال الدارقطنی لماذکرعندہ الصحیحان : ”لولاالبخاری لماذھب مسلم ولاجاء“. وقال مرۃ اخری :وای شئ صنع مسلم !انما اخذ کتاب البخاری فعمل علیہ مستخرجا وزاد فیہ زیادات“۔وھذاالذی حکیناہ عن الدارقطنی جزم بہ ابوالعباس القرطبی فی شرح صحیح مسلم “.(ھدی الساری :11)

حافظ ابن حجر کے امام دارقطنی کے نقل کردہ اس کلام میں ”وقال مرۃ اخری“ کے الفاظ ہیں جن میں یہ صراحت نہیں کہ امام دارقطنی کے یہ الفاظ آیا صحیحین سے متعلق تھے یا غیر صحیحین سے متعلق۔ لہذا امام دارقطنی سے یہ الفاظ درست اور ثابت ہونا بھی مان لیا جائے تب بھی یقینی طور پر انہیں صحیحین پر فٹ نہیں کیا جا سکتا ۔ کیونکہ ممکن ہے ان کی مراد امام بخاری کی التاریخ اور امام مسلم کی الکنی ہو۔واللہ اعلم۔

تیسری : یہ کہ تسلیم کرلیا کہ یہ الفاظ امام دارقطنی کے ہی ہیں اور ”زیادات“ کے بجائے درست الفاظ ”احادیث“ ہیں، تب بھی ان کی یہ بات قابل قبول نہیں، جیساکہ آگے اس کی تفصیل بیان ہوگی۔

خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے کلام کی توضیح۔

اول تو ان کے الفاظ صریح نہیں، دوسرا ان کے کلام سے یہ تاثر ملتا ہے کہ دراصل امام مسلم رحمہ اللہ نے ایک لمبا عرصہ امام بخاری کے ساتھ گزارا ہے، حالانکہ یہ بات درست نہیں، امام مسلم رحمہ اللّٰہ امام بخاری کے ساتھ پانچ سال ساتھ رہے، اور وہ تب ہے جب امام بخاری رحمہ اللہ دوسری مرتبہ جب نیشاپور میں مسلسل پانچ سال رہے، امام مسلم رحمہ اللہ اسی عرصہ میں امام بخاری کے ساتھ تعلق قائم کیے رکھا، مزید تفصیل آئندہ سطور میں ۔ان شاء اللہ العزیز ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول۔

حافظ ابن حجر بھی امام مسلم کے طویل عرصہ ساتھ رہنے اور امام بخاری سے بہت زیادہ استفادہ کرنے کا موقف رکھتے ہیں، جبکہ یہ بات درست نہیں۔کمامروکماسیأتی۔

امام ابن السکن رحمہ اللہ کا قول

امام ابن السکن کے قول کو اگر اس پر صریح مانا جائے تو دلائل اور مشاہدہ اس بات کی مکمل نفی کرتے ہیں۔
ثانیا : امام مسلم رحمہ اللہ در اصل امام بخاری رحمہ اللہ سے ملاقات کرنے سے قبل ہی اپنی الصحیح کی تالیف کی ابتدا کر چکے تھے(بلکہ تالیف سے فارغ بھی ہو چکے تھے، جیساکہ آگے آرہا ہے) امام مسلم کے رفیق احمد بن سلمہ نیشاپوری کا کہنا ہے : میں امام مسلم کی الصحیح کی تالیف میں پندرہ سال ساتھ رہا ہوں، چنانچہ ان کا کہناہے : ” کنت مع مسلم بن الحجاج الحجاج فی تالیف صحیحہ خمس عشرة سنۃ‘‘ ،’’ کہ میں مسلم کے ساتھ اسکی تالیف میں پندرہ (۱۵) سال رہا”(السیر:۱۲ / ۵۶۶)

امام مسلم رحمہ اللہ کا سن وفات 261 ھ ہے، پندرہ سال تالیف میں رہنے کے اعتبار سے پھر بھی ابتدائے تالیف 246 ھ بنتا ہے، یعنی امام بخاری کے ورود بخارا سے پانچ سال قبل امام مسلم اپنی الصحیح کی ابتدا کر چکے تھے، لہذا امام مسلم کی امام بخاری سے ملاقات ہی جب 250ھ کو ہوئی ہے تو پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ امام مسلم نے اس کے بعد امام بخاری کی الصحیح کو دیکھ کر پھر لکھنا شروع کیا، اس طرح تو تالیف کے پندرہ سال مکمل ہی نہیں ہو سکتے۔

بعض اہل علم نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ امام مسلم نے سنہ 250 ھ سے قبل ہی اپنی الصحیح کو تالیف کر چکے تھے، یہ بات علامہ عراقی رحمہ اللہ نے النکت میں فرمائی ہے، انہوں نے جس بات کو بنیاد بناکر یہ موقف پیش کیا ہے اگرچہ وہ بنیاد تو درست نہیں(جس کی مکمل تفصیل میری غیر مطبوع کتاب میں میں نے ذکر کردی ہے)

جہاں تک میری تحقیق ہے تو اس بنا پر قرائن کی بدولت میں کہہ سکتا ہوں کہ امام مسلم رحمہ اللہ اپنی الصحیح کو سنہ 251 یا 252 ھ کے لگ بھگ مکمل کر چکے تھے، جو نص پیش کر کے میں نتیجہ بیان کرنے جا رہا ہوں وہ واقعتا دل خوش کرنے والی ہے، ملاحظہ فرمائیں:

معلوم شد کہ صحیح مسلم میں محدث ابو عبداللہ احمد بن عبد الرحمن وہبی کی بطور احتجاج کئی احادیث مروی ہیں، امام مسلم سے جب اس حوالے سے جب محدث البراہین بن ابی طالب نے کہا : ” قد أكثرت الرواية في كتابك الصحيح عن أحمد بن عبد الرحمن الوهبي وحاله قد ظهر فقال: إنما نقموا عليه بعد خروجي من مصر“ .
”آپ نے اپنی کتاب ”الصحیح“ میں اس سے اس قدر زیادہ احادیث کیوں روایت کی ہیں جبکہ اس کے حال سے تو آپ خوب واقف ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ : میرے مصر سے جانے کے بعد اس پر کلام کیا گیا ہے“۔

(السیر:12 /568)

دراصل احمد بن عبد الرحمان بن وہب پر اختلاط اور تغیر کا الزام تھا، اس کلام میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔اور وہ اختلاط کے شکار 250ھ کے بعد ہوئے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے کہ وہ 250 ھ کے بعد مختلط ہوگئے تھے،”اختلط بعد الخمسین ومائتین بعد خروج مسلم من مصر“.
(صیانۃ صحیح مسلم : ص 96)

یہاں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ احمد بن عبد الرحمان کے حوالے سے محدث ابراہیم کا اعتراض اس کے اختلاط کے دوران کا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس کا یہ اختلاط محدود وقت کے لیے تھا، پھر وہ اپنے اصل حال پر آگئے۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ ان کا اختلاط کیا معروف معنوں والا تھا یا کچھ اور؟ تو عرض ہے کہ معروف معنوں والے اختلاط سے رجوع نہ انسان کے قصد وارادے سے ہوتاہے اور نہ ہی اس کے بس کی بات ہے،احمد بن عبد الرحمان کے ساتھ صرف یہ ہواکہ ان کی احادیث دوسروں کی احادیث کے ساتھ خلط ملط ہوگئیں،اور وہ غیر کی احادیث کو اپنی سمجھ کرنے روایت کرنا شروع ہوگیا، اس پر دوسروں کی احادیث داخل کی جاتیں جنہیں وہ اپنا سمجھ کر روایت کرنا شروع دیتا، جیساکہ انہوں نے خود کہا ہے : ”لیس ھذا الحدیث من حدیثی، ولاحدیث عمی، وانما وضعہ لی اصحاب الحدیث ، ولست اعود الی روایتہ حتی القی اللہ“.(سیراعلام النبلاء :13 /266)

اب بات کو سمجھیں احمد بن عبد الرحمن کا یہ عارضی اختلاط 250ھ کے بعد ہوا، اسی اختلاط کے دوران میں ہی محدث ابراہیم رحمہ اللہ نے امام مسلم سے اوپر والا سوال کیا کہ آپ نے اس سے اپنی الصحیح میں اس سے کثرت سے احادیث کیوں بیان کی ہیں جبکہ اس کا یہ حال ہے ؟ پھر امام مسلم نے جواب دیا کہ میں اس کے اختلاط سے قبل ہی روایت لے چکا تھا، پھر تھوڑے ہی عرصے میں احمد لوگوں کی ان احادیث سے رجوع کرگئے جنہیں وہ اپنی احادیث سمجھ کر روایت کر رہا تھا، اگر ابراہیم کے درج بالا سوال احمد کے اختلاط کے بہت عرصے بعد ہوا ہوتا تو اس وقت تو احمد کی حالت ٹھیک تھی، ایسے وقت میں تو محدث ابراہیم کا اعتراض بنتا ہی نہیں کہ وہ اس طرح کی بات کہیں۔

اس سے ثابت ہوتاہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ سے محدث ابراہیم کا یہ سوال احمد کے اختلاط والے دورانیہ کا ہی ہے، اور یہ زمانہ بھی لگ بھگ 251 یا 252 ھ کا بنتا ہے۔ اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ 251 یا 252 ھ کے بھگ اپنی الصحیح کی تالیف سے فارغ ہوچکے تھے۔ واللہ اعلم.

شیخ محمد عوامہ کا موقف!

ان کا موقف بھی اگرچہ یہی ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ امام بخاری سے ملنے سے قبل ہی اپنی الصحیح کی تالیف سے فارغ ہوچکے تھے، لیکن تالیف میں امام مسلم رحمہ اللہ نے امام بخاری کی الصحیح کو ضرور مد نظر رکھا ہے، ان کا یہ کہنا ہے کہ انہوں نے ملاقات سے قبل ہی امام بخاری کی کتابوں سے استفادہ کر رکھا تھا، چنانچہ وہ فرماتے ہیں : ”فاستفادۃ مسلم العظمی من البخاری کانت من کتب البخاری۔۔۔فان غالب الظن أن مسلما انتھج منھجہ فی صحیحہ - وھوالتزام الصحۃ فیہ - من معرفۃ کتاب البخاری قبل ان یلقاہ ،وکذالک حذا حذوہ فی کتابہ الکنی وغیرھما“.(تعلیق علی تدریب الراوی :2 /295)

عرض ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ ملاقات سے قبل امام بخاری کی کتابوں اور ان کے منہج سے واقف تھے یا نہیں ! یہ الگ مسئلہ ہے، لیکن واقف ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ انہوں نے الصحیح کی تالیف بھی ان سے مطلع ہونے اور ان کو مد نظر رکھنے کے بعد شروع کی، ویسے بھی الصحیحین کے طرز تالیف میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے جیساکہ کتابوں میں اس کی کافی ساری تفصیل موجود ہے ۔ بہرحال ان سب کو رہنے دیجئے! خود امام مسلم رحمہ اللہ نے ہی وضاحت کردی ہے کہ الصحیح کی تالیف کا سبب کیا ہے؟چنانچہ ہم انہی کے اپنے الفاظ درج کردیتے ہیں۔

فرماتے ہیں : ”أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّكَ يَرْحَمُكَ اللهُ بِتَوْفِيقِ خَالِقِكَ، ذَكَرْتَ أَنَّكَ هَمَمْتَ بِالْفَحْصِ عَنْ تَعَرُّفِ جُمْلَةِ الْأَخْبَارِ الْمَأْثُورَةِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سُنَنِ الدِّينِ وَأَحْكَامِهِ، وَمَا كَانَ مِنْهَا فِي الثَّوَابِ وَالْعِقَابِ، وَالتَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيبِ، وَغَيْرِ ذَلِكَ مِنْ صُنُوفِ الْأَشْيَاءِ بِالْأَسَانِيدِ الَّتِي بِهَا نُقِلَتْ، وَتَدَاوَلَهَا أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَا بَيْنَهُمْ، فَأَرَدْتَ، أَرْشَدَكَ اللهُ أَنْ تُوَقَّفَ عَلَى جُمْلَتِهَا مُؤَلَّفَةً مُحْصَاةً، وَسَأَلْتَنِي أَنْ أُلَخِّصَهَا لَكَ فِي التَّأْلِيفِ بِلَا تَكْرَارٍ يَكْثُرُ، فَإِنَّ ذَلِكَ زَعَمْتَ مِمَّا يَشْغَلُكَ عَمَّا لَهُ قَصَدْتَ مِنَ التَّفَهُّمِ فِيهَا، وَالِاسْتِنْبَاطِ مِنْهَا، وَلِلَّذِي سَأَلْتَ أَكْرَمَكَ اللهُ حِينَ رَجَعْتُ إِلَى تَدَبُّرِهِ، وَمَا تَؤُولُ بِهِ الْحَالُ إِنْ شَاءَ اللهُ عَاقِبَةٌ مَحْمُودَةٌ وَمَنْفَعَةٌ مَوْجُودَةٌ، وَظَنَنْتُ حِينَ سَأَلْتَنِي تَجَشُّمَ ذَلِكَ أَنْ لَوْ عُزِمَ لِي عَلَيْهِ، وَقُضِيَ لِي تَمَامُهُ، كَانَ أَوَّلُ مِنْ يُصِيبُهُ نَفْعُ ذَلِكَ إِيَّايَ خَاصَّةً قَبْلَ غَيْرِي مِنَ النَّاسِ لِأَسْبَابٍ كَثِيرَةٍ يَطُولُ بِذِكْرِهَا الْوَصْفُ، إِلَّا أَنَّ جُمْلَةَ ذَلِكَ أَنَّ ضَبْطَ الْقَلِيلِ مِنْ هَذَا الشَّأْنِ، وَإِتْقَانَهُ، أَيْسَرُ عَلَى الْمَرْءِ مِنْ مُعَالَجَةِ الْكَثِيرِ مِنْهُ، وَلَا سِيَّمَا عِنْدَ مَنْ لَا تَمْيِيزَ عِنْدَهُ مَنِ الْعَوَامِّ، إِلَّا بِأَنْ يُوَقِّفَهُ عَلَى التَّمْيِيزِ غَيْرُهُ، فَإِذَا كَانَ الْأَمْرُ فِي هَذَا كَمَا وَصَفْنَا، فَالْقَصْدُ مِنْهُ إِلَى الصَّحِيحِ الْقَلِيلِ أَوْلَى بِهِمْ مِنَ ازْدِيَادِ السَّقِيمِ، وَإِنَّمَا يُرْجَى بَعْضُ الْمَنْفَعَةِ فِي الِاسْتِكْثَارِ مِنْ هَذَا الشَّأْنِ، وَجَمْعِ الْمُكَرَّرَاتِ مِنْهُ لِخَاصَّةٍ مِنَ النَّاسِ مِمَّنْ رُزِقَ فِيهِ بَعْضُ التَّيَقُّظِ، وَالْمَعْرِفَةِ بِأَسْبَابِهِ وَعِلَلِهِ، فَذَلِكَ إِنْ شَاءَ اللهُ يَهْجُمُ بِمَا أُوتِيَ مِنْ ذَلِكَ عَلَى الْفَائِدَةِ فِي الِاسْتِكْثَارِ مِنْ جَمْعِهِ، فَأَمَّا عَوَامُّ النَّاسِ الَّذِينَ هُمْ بِخِلَافِ مَعَانِي الْخَاصِّ مِنْ أَهْلِ التَّيَقُّظِ وَالْمَعْرِفَةِ، فَلَا مَعْنَى لَهُمْ فِي طَلَبِ الْكَثِيرِ، وَقَدْ عَجَزُوا عَنْ مَعْرِفَةِ الْقَلِيلِ‘ثُمَّ إِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ مُبْتَدِئُونَ فِي تَخْرِيجِ مَا سَأَلْتَ وَتَأْلِيفِهِ، عَلَى شَرِيطَةٍ سَوْفَ أَذْكُرُهَا لَكَ“

”بعد حمد اور صلوٰۃ کے، اللہ تجھ پر رحم کرے تو نے اپنے پروردگار کی توفیق سے ذکر کیا تھا کہ تیرا قصہ یہ ہے کہ تلاش کرے ان سب حدیثوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہیں دین کے طریقوں اور حکموں میں (‏‏‏‏یعنی مسائل کی حدیثیں جو فقہ سے متعلق ہیں) اور ان حدیثوں کو جو ثواب اور عقاب اور خوشخبری اور ڈرانے کے لیے ہیں (‏‏‏‏یعنی فضائل اور اخلاق کی حدیثیں) اور ان کے سوا اور باتوں کی سندوں کے ساتھ جن کی رو سے وہ حدیثیں نقل کی گئی ہیں اور جن کو علمائے حدیث نے جاری رکھا ہے اپنے میں (‏‏‏‏یعنی مشہور و معروف سندیں) تو تیرا مطلب یہ تھا اللہ تجھ کو ہدایت کرے کہ تو ان سب حدیثوں سے واقف ہو جائے اس طرح سے کہ وہ سب حدیثیں ایک جگہ جمع ہوں اور تو نے یہ سوال کیا تھا کہ میں ان سب حدیثوں کو اختصار کے ساتھ تیرے لئے جمع کروں اور اس میں تکرار نہ ہو کیونکہ اگر تکرار ہو گی (‏‏‏‏اور طول ہو گا) تو تیرا مقصد جو حدیثوں کو سمجھنا اور ان میں غور کرنا ہے اور ان سے مسائل نکالنا ہے وہ جاتا رہے گا اور تو نے جس بات کا سوال کیا اللہ تجھ کو عزت دے جب میں نے اس میں غور کیا اور اس کے انجام کو دیکھا تو اللہ چاہے اس کا انجام اچھا ہو گا اور بالفعل بھی اس میں فائدہ سے (‏‏‏‏یعنی حال اور مآل دونوں کے فائدے کی بات ہے) اور میں نے یہ خیال کیا جب تو نے مجھے اس بات کی تکلیف دی کہ اگر یہ کام مجھ سے ہو جائے تو سب سے پہلے دوسروں کو تو خیر مجھے خود ہی فائدہ ہو گا کئی اسباب کی وجہ سے جن کا بیان کرنا طول ہے مگر خلاصہ یہ ہے کہ اس طول سے تھوڑی حدیثوں کو یاد رکھنا مضبوطی اور صحت کے ساتھ آسان ہے آدمی پر بہت سی حدیثوں کو روایت کرنے سے (‏‏‏‏بغیر ضبط اور اتقان کے کیونکہ اس میں ایک طرح کا خلجان پیدا ہوتا ہے) خاص کر عوام کو بڑا فائدہ ہو گا جن کو تمیز نہیں ہوتی کھوٹی کھری حدیث کی بغیر دوسرے کے بتلائے ہوئے اور جب حال ایسا ہوا جیسا ہم نے اوپر بیان کیا تو تھوڑی صحیح حدیثوں کا بیان کرنا ان کے لیے بہتر ہے بہت ضعیف حدیثوں سے اور بہت سی حدیثیں بیان کرنا اور مکررات کو جمع کرنا خاص خاص شخصوں کو فائدہ دیتا ہے جن کو علم حدیث میں کچھ واقفیت ہے اور حدیث کے اسباب اور علتوں کو وہ پہچانتے ہیں ایسا شخص البتہ بوجہ اپنی واقفیت اور معرفت کے بہت حدیثوں کے جمع کرنے سے فائدہ اٹھائے گا لیکن عام لوگ جو برخلاف ہیں خاص لوگوں کے جو صاحب واقفیت و معرفت ہیں ان کو کچھ حاصل نہیں بہت حدیثوں کے طلب کرنے میں جب کہ تھوڑی حدیثوں کے پہچاننے سے عاجز ہیں (‏‏‏‏یعنی جس قدر کم حدیثیں انہوں نے دیکھی ہیں ان ہی کے پہچاننے کی اور صحیح کو ضعیف سے تمیز کرنے کی استعداد ان میں نہیں تو بہت حدیثوں سے وہ کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان سب حدیثوں کی طرف قصد کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسنداً (‏‏‏‏یعنی متصلاً) ایک راوی نے دوسرے سے سنا ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک روایت کی گئی ہیں”.

( مقدمہ صحیح مسلم )

اس کے بعد آگے لکھتے ہیں : ”وَبَعْدُ، يَرْحَمُكَ اللهُ، فَلَوْلَا الَّذِي رَأَيْنَا مِنْ سُوءِ صَنِيعِ كَثِيرٍ مِمَّنْ نَصَبَ نَفْسَهُ مُحَدِّثًا، فِيمَا يَلْزَمُهُمْ مِنْ طَرْحِ الْأَحَادِيثِ الضَّعِيفَةِ، وَالرِّوَايَاتِ الْمُنْكَرَةِ، وَتَرْكِهِمُ الِاقْتِصَارَ عَلَى الْأَحَادِيثِ الصَّحِيحَةِ الْمَشْهُورَةِ مِمَّا نَقَلَهُ الثِّقَاتُ الْمَعْرُوفُونَ بِالصِّدْقِ وَالْأَمَانَةِ، بَعْدَ مَعْرِفَتِهِمْ وَإِقْرَارِهِمْ بِأَلْسِنَتِهِمْ أَنَّ كَثِيرًا مِمَّا يَقْذِفُونَ بِهِ إِلَى الْأَغْبِيَاءِ مِنَ النَّاسِ هُوَ مُسْتَنْكَرٌ، وَمَنْقُولٌ عَنْ قَوْمٍ غَيْرِ مَرْضِيِّينَ مِمَّنْ ذَمَّ الرِّوَايَةِ عَنْهُمْ أَئِمَّةُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِثْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَشُعْبَةَ بْنِ الْحَجَّاجِ، وَسُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، وَغَيْرِهِمْ مِنَ الْأَئِمَّةِ، لِمَا سَهُلَ عَلَيْنَا الِانْتِصَابُ لِمَا سَأَلْتَ مِنَ التَّمْيِيزِ، وَالتَّحْصِيلِ، وَلَكِنْ مِنْ أَجْلِ مَا أَعْلَمْنَاكَ مِنْ نَشْرِ الْقَوْمِ الْأَخْبَارِ الْمُنْكَرَةِ بِالْأَسَانِيدِ الضِّعَافِ الْمَجْهُولَةِ، وَقَذْفِهِمْ بِهَا إِلَى الْعَوَامِّ الَّذِينَ لَا يَعْرِفُونَ عُيُوبَهَا، خَفَّ عَلَى قُلُوبِنَا إِجَابَتُكَ إِلَى مَا سَأَلْتَ“۔

”کہ بعد ان سب باتوں کے جو اوپر گزریں اللہ تجھ پر رحم کرے اگر ہم نہ دیکھتے وہ برا کام جو کر رہا ہے وہ شخص جس نے اپنے تئیں محدث بنایا ہے۔ یعنی لازم ہے ایسے شخص کو کہ ضعیف حدیثوں اور منکر روایتوں کو نقل نہ کرے اور صرف انہی حدیثوں کو روایت کرے جو صحیح اور مشہور ہیں جن کو ثقہ لوگوں نے، جن کی سچائی اور امانت مشہور ہے، نقل کیا ہے اور وہ جانتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ بہت سی حدیثیں جن کو وہ عام لوگوں کو سناتا ہے منکر ہیں اور ان لوگوں سے مروی ہیں جن کی مذمت حدیث کے اماموں نے کی ہے جیسے مالک بن انس اور شعبہ بن حجاج اور سفیان بن عیینہ اور یحییٰ بن سعید القطان اور عبدالرحمٰن بن مہدی وغیرہم نے (‏‏‏‏یہ سب حدیث کے بڑے امام اور پیشوا ہیں) البتہ ہم کو یہ تکلیف اٹھانا تیری خواہش کے مطابق جو تو نے صحیح حدیثوں کو جدا کرنے کے لیے کی تھی دشوار ہوتی۔ (‏‏‏‏کیوں کہ جب سب لوگ یہی طریقہ اختیار کرتے کہ صرف صحیح حدیثیں نقل کیا کرتے تو عوام کے دھوکہ کھانے کا ڈر نہ ہوتا اور صحیح حدیثوں کے جدا کرنے کی بھی ضرورت نہ پڑتی) لیکن اسی وجہ سے جو ہم نے بیان کی کہ لوگ منکر حدیثوں کو ضعیف اور مجہول سندوں سے بیان کیا کرتے ہیں اور عوام کو سنا دیتے ہیں جن کو عیبوں کے پہچاننے کی لیاقت نہیں تیری خواہش کا قبول کرنا ہم پر آسان ہو گیا (‏‏‏‏اس لیے کہ جس کام کی ضرورت ہوتی ہے اس کا کرنا آسان ہوتا ہے)۔


امام مسلم رحمہ اللہ کے رفیق اور شاگرد احمد بن سلمہ رحمہ اللہ نے ان سے درخواست کی کہ آپ ایسی کوئی کتاب تالیف کریں جو ضعیف وسق یم کے بجائے صحیح احادیث پر مشتمل ہو، پھر آگے خود امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ذکر کیا کہ لوگوں کے ہاں ضعیف اور منکر احادیث عام ہوگئی ہیں، لہذا ایسی کتاب تالیف کرنا اب ہمارے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔

محترم قارئین ! اس قدر واضح نص کے باوجود یہ کہنا کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کو بنیاد بناکر اپنی الصحیح کو تالیف کیا ہے تعجب میں ڈال دیتا ہے۔ یہاں امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کا نام تک نہ لیا، اور پھر احمد بن سلمہ کے سامنے بھی صحیح بخاری جیسی کتاب ابھی سامنے نہیں تھی اسی لیے صحیح احادیث پر مشتمل کتاب لکھنے کی گذارش کر رہے ہیں، اور پھر امام مسلم بھی انہیں ہاں میں جواب دے رہے ہیں، گویا اس وقت صحیح بخاری بھی ابھی وجود میں نہیں آئی تھی، لگتا ایسے ہے کہ جس وقت امام بخاری صحیح بخاری تالیف کر رہے تھے اسی دوران امام مسلم بھی اپنی الصحیح کی تالیف میں مشغول تھے، لہذا ایسے میں شیخ محمد عوامہ کا یہ کہنا کہ امام مسلم رحمہ اللہ کو امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب الصحیح پر مطلع ہونے کے بعد ہی الصحیح کو تالیف کرنے کی رغبت پیدا ہوئی خود امام مسلم رحمہ اللہ کے اپنے قول کے ہی خلاف ہے۔

بہرحال ! امام مسلم رحمہ اللہ کو نہ امام بخاری رحمہ اللہ کو الصحیح کو دیکھ کر اس جیسی کتاب تالیف کرنے کا خیال ہوا اور نہ ہی ان سے ملاقات کرنے کے بعد ایسی کتاب لکھنے کا عزم کیا، بلکہ ان کے پیش نظر ایسی کتاب لکھنے کی دوسری وجوہات تھیں جیسا کہ درج بالا سطور میں انہیں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس تمام آراء غیر درست ٹھہرتی ہیں، واللہ اعلم۔
 
Top