• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام وکیع بن الجراح امام ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دیتے تھے؟

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
اسلام علیکم،
امام ابو حنیفہ کی مدح میں بعض لوگ اتنے متعصب ہو جاتے ہیں کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ابو حنیفہ کی مخالفت ہو گی تو امام بخاری جیسے محدثین پر بھی تشدد اور عداوت کی تہمت لگائی جائے گی، لیکن اگر ابو حنیفہ کی موافقت ہو گی تو الحارثی اور ابن المغلس جیسے کذاب سے کذاب تر لوگ بھی ائمہ کے لقب سے پکارے جائیں گے۔

کچھ اسی طرح کا قول بعض نے امام وکیع کی طرف بھی منسوب کیا ہے، تا کہ امام ابو حنیفہ کی جھوٹی فضیلت عام لوگوں میں پھیلائی جائے۔ چنانچہ بعض حنفیہ ایک روایت پیش کرتے ہیں جو کچھ اس طرح ہے:

أخبرنَا عمر بن إِبْرَاهِيم قَالَ أنبأ مكرم قَالَ أنبأ عَليّ بن الْحُسَيْن بن حبَان عَن أَبِيه قَالَ سَمِعت يحيى بن معِين قَالَ مَا رَأَيْت أفضل من وَكِيع بن الْجراح قيل لَهُ وَلَا ابْن الْمُبَارك قَالَ قد كَانَ لإبن الْمُبَارك فضل وَلَكِن مَا رَأَيْت أفضل من وَكِيع كَانَ يسْتَقْبل الْقبْلَة ويحفظ حَدِيثه وَيقوم اللَّيْل ويسرد الصَّوْم ويفتي بقول أبي حنيفَة وَكَانَ قد سمع مِنْهُ شَيْئا كثيرا قَالَ يحيى بن معِين وَكَانَ يحيى بن سعيد الْقطَّان يُفْتِي بقول أبي حنيفَة أَيْضا
امام یحیی بن معین فرماتے ہیں: "میں نے وکیع بن الجراح سے افضل کوئی نہیں دیکھا" ان سے کہا گیا، ابن المبارک بھی نہیں؟ انہوں نے جواب دیا: "ابن المبارک بھی فضیلت والے تھے لیکن میں نے وکیع سے افضل کوئی نہیں دیکھا۔ وہ قبلہ کی طرف رخ کرتے، حدیثیں یاد کرتے، راتوں کو جاگتے، کثرت سے روزے رکھتے، اور ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دیتے تھے، انہوں نے ان سے کافی کچھ سنا ہے" یحیی بن معین نے مزید فرمایا: "اور یحیی بن سعید القطان بھی ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دیتے تھے"
(مناقب الامام ابی حنیفۃ للصیمری و تاریخ بغداد)
اس قول کی سند ضعیف ہے کیونکہ علی بن الحسین کے باپ، "حسین بن حبان بن عمار بن واقد" مجھول ہے۔ اس کا ذکر تاریخ بغداد اور تاریخ الاسلام میں بغیر کسی جرح اور تعدیل کے ملتا ہے۔ لہذا وہ لوگ جو اس قول کی صحت کے قائل ہیں ان پر لازمی ہے کہ وہ اس شخص کی صداقت اور ضبط ثابت کریں۔

نہ صرف اس قول کی سند ضعیف ہے بلکہ اس کا متن بھی شاذ اور منکر ہے جس سے یہ روایت مزید ضعف کا شکار ہے۔
اس ضعیف قول میں بتایا گیا ہے کہ امام یحیی بن معین کے مطابق امام وکیع امام ابن المبارک سے بھی زیادہ افضل ہیں، جبکہ امام ابن معین سے اس کے الٹ ثابت ہے۔

امام عثمان بن سعید الدارمی نے ایک دفعہ امام یحیی بن معین سے پوچھا:

فابن المبارك أعجب إليك أو وكيع فلم يفضل
"ابن المبارک کو آپ زیادہ پسند کرتے ہیں یا وکیع کو؟" تو امام ابن معین نے دونوں میں سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں دی۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر 63/92، اسنادہ حسن)
صرف یہی روایت اس ضعیف روایت کو منکر اور مردود ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

امام وکیع بن الجراح خود ایک مجتہد تھے


مزید یہ کہ امام وکیع کسی کے قول پر فتوی نہیں دیتے تھے کیونکہ وہ خود ایک مجتہد و فقیہ تھے۔ چنانچہ امام ابو الحسن العجلی فرماتے ہیں:
ثِقَةٌ، عَابِدٌ، صَالِحٌ، أَدِيْبٌ، مِنْ حُفَّاظِ الحَدِيْثِ، وَكَانَ مُفْتِياً
"وہ ثقہ عابد صالح ادیب حفاظ حدیث میں سے تھے، اور وہ ایک مفتی تھے۔"
(سیر اعلام النبلاء 9/152)
فتاوی عالمگیری میں فقہاء کا اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مفتی کے لیے اہل اجتہاد میں سے ہونا واجب ہے۔

اسی طرح امام ابراہیم بن شماس فرماتے ہیں:
رَأَيْتُ أَفْقَهَ النَّاسِ وَكِيْعاً
"لوگوں میں سب سے بڑے فقیہ میں نے وکیع کو پایا ہے۔"
(سیر اعلام النبلاء 9/155)
امام ابن عمار فرماتے ہیں:
ما كان بالكوفة في زمان وكيع بن الجراح أفقه ولا أعلم بالحديث من وكيع
"وکیع بن الجراح کے زمانے میں کوفہ میں ان سے بڑا کوئی حدیث کا عالم اور فقیہ نہیں تھا۔"
(تاریخ بغداد 13/479، اسنادہ صحیح)
لہذا یہ کہنا کہ امام وکیع قرآن و حدیث کی بجائے ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دیتے تھے، بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔

بلکہ امام وکیع نے الٹا امام ابو حنیفہ کے ایک فتوی کو بدعت اور اہل الرائے کا فتوی قرار دیے کر جھٹلا دیا۔ چنانچہ جب امام ترمذی نے اپنی سنن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی:

«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَلَّدَ نَعْلَيْنِ۔۔۔»
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانیوں کی اونٹنیوں کے گلوں میں جوتیوں کا ہار ڈالا۔۔۔"
تو امام ترمذی نے فرمایا:

سَمِعْتُ يُوسُفَ بْنَ عِيسَى يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ حِينَ رَوَى هَذَا الحَدِيثَ، فَقَالَ: «لَا تَنْظُرُوا إِلَى قَوْلِ أَهْلِ الرَّأْيِ فِي هَذَا، فَإِنَّ الإِشْعَارَ سُنَّةٌ، وَقَوْلُهُمْ بِدْعَةٌ». وَسَمِعْتُ أَبَا السَّائِبِ يَقُولُ: " كُنَّا عِنْدَ وَكِيعٍ، فَقَالَ لِرَجُلٍ عِنْدَهُ مِمَّنْ يَنْظُرُ فِي الرَّأْيِ: أَشْعَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَقُولُ أَبُو حَنِيفَةَ هُوَ مُثْلَةٌ؟ قَالَ الرَّجُلُ: فَإِنَّهُ قَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّهُ قَالَ: الإِشْعَارُ مُثْلَةٌ، قَالَ: فَرَأَيْتُ وَكِيعًا غَضِبَ غَضَبًا شَدِيدًا، وَقَالَ: أَقُولُ لَكَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقُولُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ، مَا أَحَقَّكَ بِأَنْ تُحْبَسَ، ثُمَّ لَا تَخْرُجَ حَتَّى تَنْزِعَ عَنْ قَوْلِكَ هَذَا "
"میں نے یوسف بن عیسیٰ کو یہ حدیث وکیع کے حوالے سے روایت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے فرمایا کہ اس مسئلے میں اہل رائے کا قول نہ دیکھو اس لئے کہ نشان لگانا (یعنی اشعار) سنت ہے اور اہل رائے کا قول بدعت ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ میں نے ابوسائب سے سنا وہ کہتے ہیں ہم وکیع کے پاس تھے کہ انہوں نے اہل رائے میں سے ایک شخص سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشعار کیا (یعنی نشان لگایا) اور امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ یہ مثلہ ہے، اس پر وکیع غصے میں آگئے اور فرمایا میں تم سے کہتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نخعی نے یوں کہا، تم اس قابل ہو کہ تمہیں قید کر دیا جائے یہاں تک کہ تم اپنے اس قول سے رجوع کرلو۔"
(سنن الترمذی 906)
یہ قول صریح طور پر ثابت کرتا ہے کہ:
1- امام وکیع سنت کے تابع تھے، اور وہ قرآن و حدیث پر فتوی دیتے تھے۔
2- امام وکیع ابو حنیفہ کے قول پر فتوی نہیں دیتے تھے۔
3- امام وکیع کے نزدیک تقلید ایک مذموم اور قابل سزا عمل ہے۔

ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دینے کا اصل مطلب


اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ امام ابن معین کا مذکورہ بالا قول ثابت ہے، تب بھی امام وکیع کا ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دینے کا مطلب ہرگز یہ نہیں بنتا کہ وہ ہر مسئلہ میں ان کے قول پر فتوی دیتے تھے۔ بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ وہ صرف کچھ مسئلوں میں ان کے قول پر فتوی دیتے تھے۔

اور ان چند مسائل میں بھی امام وکیع ابو حنیفہ کی تقلید ہرگز نہیں کرتے تھے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے صرف ان کا اجتہاد امام ابو حنیفہ کے قول سے موافقت رکھتا تھا، جس کی وجہ سے لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ امام ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دیتے تھے، اور اس سب کی دلیل امام وکیع کا مذکورہ بالا قول ہے۔

مزید یہ کہ ظاہری طور پر، جس مسئلہ میں امام وکیع نے ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دیا وہ صرف ایک ہی ہے، اور وہ مسئلہ ہے کوفییوں کی نبیذ پینے کے جواز میں۔ چنانچہ امام یحیی کے اس قول کے بیان کرنے کے بعد، امام الجرح والتعدیل شمس الدین الذہبی فرماتے ہیں:

مَا فِيهِ إِلَّا شُرْبُهُ لِنَبِيذِ الْكُوفِيِّينَ وَمُلَازَمَتُهُ لَهُ جَاءَ ذَلِكَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْهُ انتهى
یعنی امام وکیع نے ابو حنیفہ کے صرف ایک ہی قول پر فتوی دیا اور وہ ہے کوفییوں کی نبیذ پینے کے جواز میں۔۔۔
(تذکرۃ الحفاظ 1/224)
اسی طرح امام عبد الرحمن المبارکپوری فرماتے ہیں:


قُلْتُ الْمُرَادُ بِقَوْلِهِ وَيُفْتِي بِقَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ هُوَ الْإِفْتَاءُ بِجَوَازِ شُرْبِ نَبِيذِ الْكُوفِيِّينَ فَإِنَّ وَكِيعًا كَانَ يَشْرَبُهُ وَيُفْتِي بِجَوَازِهِ عَلَى قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ
"میں کہتا ہوں کہ ان کے ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دینے سے مراد کوفییوں کی نبیذ کے جواز پر فتوی سے ہے، کیونکہ بلاشبہ وکیع اس نبیذ کو خود بھی پیتے تھے اور اس کے جواز میں ابو حنیفہ کے قول پر فتوی بھی دیتے تھے"

پھر امام ذہبی کا قول ذکر کرنے کے بعد، امام مبارکپوری فرماتے ہیں:

وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمُرَادَ بِقَوْلِهِ يُفْتِي بِقَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ الْخُصُوصُ لَا الْعُمُومُ وَلَوْ سَلِمَ أَنَّ الْمُرَادَ بِهِ الْعُمُومُ فَلَا شَكَّ أَنَّ الْمُرَادَ أَنَّهُ كَانَ يُفْتِي بِقَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ الَّذِي لَيْسَ مُخَالِفًا لِلْحَدِيثِ وَالدَّلِيلُ عَلَى ذَلِكَ قَوْلَاهُ الْمَذْكُورَانِ
"حاصل یہ ہے کہ ان کے ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دینے سے ان کی مراد خاص ہے (یعنی صرف ایک مسئلہ کے متعلق ہے) نہ کہ عام ہے، اور اگر اسے عام تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں اس سے ان کی مراد صرف یہ ہے کہ ابو حنیفہ کے اس قول پر فتوی دیتے تھے جس میں انہوں نے حدیث کی مخالفت نہیں کی، اور اس کی دلیل وکیع کے مذکورہ بالا دونوں اقوال ہیں۔"
(تحفۃ الاحوذی 3/556)
کیا فتوی دینے کا مطلب توثیق کرنا ہے؟


اگر ہم اس قول کو تسلیم بھی کر لیں تو امام وکیع کے ابو حنیفہ کے قول پر فتوی دینے سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ امام وکیع نے ابو حنیفہ کے توثیق کی ہے؟؟
زیادہ سے زیادہ یہ قول صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ امام وکیع کے نزدیک امام ابو حنیفہ ایک فقیہ تھے، لیکن اس سے ثقاہت کہاں ثابت ہوتی ہےِ؟
بلکہ الٹا امام وکیع نے امام ابو حنیفہ پر شدید جرح کر رکھی ہے۔

امام وکیع کی جرح امام ابو حنیفہ پر


1- امام ابن ابی حاتم اپنے والد امام ابو حاتم الرازی سے روایت کرتے ہیں، وہ امام الحمیدی سے روایت کرتے ہیں، کہ امام وکیع نے فرمایا:

نا أبو حنيفة أنه سمع عطاء إن كان سمعه
"ابو حنیفہ نے ہمیں روایت کی، انہوں نے عطاء سے سنا، اگر واقعی انہوں نے سنا ہے تو"
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم 1/226، تاریخ بغداد 13/425، اسنادہما صحیحان)
2- ابو السائب روایت کرتے ہیں: میں نے وکیع کو کہتے سنا:


وجدنا أبا حنيفة خالف مائتي حديث
"ہم نے ابو حنیفہ کو ایک سو حدیثوں میں مخالفت کرتے پایا"
(تاریخ بغداد 13/407، اسنادہ صحیح)

اس کے علاوہ کچھ دوسرے اقوال بھی امام وکیع سے مروی ہیں جن میں انہوں نے امام ابو حنیفہ کی فقہی اور عقیدے کے مسئلوں میں جرح کی ہے۔

رضا حسن
 
Top