ہم اس فورم پر یہی سوال بڑے ادب اور احترام سے دھراتے ہیں اور آپ سے جواب کی امید رکھتے ہیں
پہلی بات تو یہ ہے کہ جب ’’ ادب و احترام ‘‘ والی گفتگو مقصود ہو تو اس کا اسلوب اور انداز یہ نہیں ہوتا ، یہ ایسے ہی ہے کہ آپ سرخ آنکھیں ، اونچی آواز اور ماتھے پر بل ڈال کر کسی کو کہیں میں آپ کا بہت ادب و احترام کرتا ہوں ۔ خیر یہ ایک غیر متعلقہ بات ہے ۔
جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ اس کا کوئی ثبوت بھی دیجیے کہ آپ نے مثلا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کونسی بات مانی ہے
ایک مثال ابن قدامہ بھائی نے پیش کی ، میں ایک اضافہ کروں گا کہ چلتے پھر تے جوتے کو گندگی وغیرہ لگ جاتی ہے ، چلتے وقت زمین کے ساتھ رگڑ کھانے سے وہ پاک ہوجاتے ہے یا نہیں ؟
امام ابوحنیفہ اور یوسف کا قول یہ ہے کہ اس طرح جوتی پاک ہوجاتی ہے ، جبکہ امام شافعی اور محمد کے نزدیک پاک نہیں ہوتی ، اہل حدیث کے نزدیک راجح پہلے والا موقف ہے ۔
دلیل :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا وَطِئَ أَحَدُكُمْ بِنَعْلِهِ الْأَذَى، فَإِنَّ التُّرَابَ لَهُ طَهُورٌ» ( رواہ أبوداؤد )
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب تم میں سے کوئی اپنے جوتے سے نجاست کو روندے تو مٹی اسے پاک کرنے والی ہے ۔ “
س کی دلیل اور ان کے مقابلہ میں جتنے ائمہ کے اقوال ہیں وہ پیش کریں اور ان کو چھوڑنے کی وجہ اور امام صاحب رحمہ اللہ کے فقہ کے مسئلے کو اختیار کرنے کی وجہ بھی لکھیں
دلیل ذکر کردی ہے ، ائمہ کے اقوال بھی ذکر کردیے ہیں اور دیگر اقوال کو نہ لینے کی وجہ یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے موقوف کی تائید احادیث سے ہوتی ہے ۔
کتب فقہ بھری پڑی ہیں ، اور ان میں جتنے مسائل میں ائمہ کے اقوال ذکر کیے گئے ہیں ، ان پیش آمدہ مسائل میں اہل حدیث کا موقف بھی واضح ہے ، جس اہل حدیث نے جس امام کے موقف کو اختیار کیا ہے ، اس میں وجہ ترجیح ذکر کردی ہے ۔
اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اہل حدیث نے سب سے ہٹ کر اپنا نیا کچھ متعارف نہیں کروایا ، بلکہ اکثر و بیشتر کسی نے کسی امام سے دلیل کی بنا پر موافقت کی ہے ۔