• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا ایک کافر کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے برابر ہے؟

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
کیا ایک کافر کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے برابر ہے؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد لله القوي المتين، والصلاة والسلام على مَن بُعث بالسيف رحمةً للعالمين۔ أما بعد
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ "تم پرقتال فرض کردیا گیا حالانکہ وہ تمہارے لیے ناپسندیدہ ہے اور ہو سکتا ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم کوئی چیز پسند کرو حالانکہ وہ تمہارے لئے بد تر ہو اور ﷲ تعالیٰ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔" [سورہ البقرہ، آیت: ۲۱٦]

سنن ابو داؤد کی حدیث ہے: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ عَنِ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:َ لَا يَجْتَمِعُ فِي النَّارِ كَافِرٌ وَقَاتِلُهُ أَبَدًا "سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کافر اور اس کو قتل کرنے والا مسلمان دونوں جہنم میں کبھی بھی اکٹھا نہ ہوں گے۔" [سنن أبي داؤد: كتاب الجهاد، باب في فضل من قتل كافرا: ۲۴۹۵]

اکثر دیکھا گیا ہے کہ سیکولر مشرکین اور ٹی.وی. چینلوں پر جاکر اسلام کو بدنام کرنے والے نام نہاد درباری مولوی جو کہ امت مسلمہ کے ہو رہے قتل عام پر تو خاموش رہتے ہیں پوری دونیا میں مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ہو رہے ہیں برما میں بدھ مذہب والے مسلمان عورتوں اور بچوں تک کا قتل عام کر رہے ہیں انہیں زندہ آگ میں جلا رہے ہیں، فلسطین میں یہودیوں نے مسلمان خواتین اور بچوں کا قتل کیا اور ابھی تک کر رہے ہیں، شام میں شیعہ روافض کفار اہل السنہ کا قتل عام کر رہے ہیں اسی طرح پوری دنیا میں ہونے والے مسلمان عورتوں اور بچوں تک کے قتل عام پر یہ درباری مولوی خاموش رہتے ہیں اور اپنے ممبروں اور درسگاہوں میں استنجاع و تہارت کے مسائل و مسواک کے فضائل تک ہی مسلمانوں کو محدود کیے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی مجاہدین اسلام کفار کو قتل کرتے ہیں تو یہ سیکولر، جمہوری مشرک درباری مولوی اپنے ممبروں سے مجاہدین اسلام و سلفی منہج والوں کے خلاف چیخنا شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھو یہ وہابی، دہشتگرد، خوارج معصوم لوگوں کو اور بے گناہ انسانوں کو قتل کرتے ہیں اور بالخصوص جماعت اسلامی، مدخلی، پرویزی اور قادیانی جیسے زنادیقہ گروہ اکثرسورہ مائدہ کی آیت رقم ۳۲ پیش کر کے یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ جس نے ایک انسان کو قتل کر دیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا ۔

ان سیکولر زنادقہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس آیت سے یہ معنیٰ گھڑ لے کہ جس نے کسی امریکی، اسرائلی فوجی یا صلیبی، یہودی، رافضی، مشرک، مرتد و کافر کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا۔ اور مجاہدین شام و عراق و ہر جگہ روافض کفار اور امریکہ و اس کے اتحادیوں کو قتل کرتے ہیں اور حربی کفار کے شہروں میں عام تباہی مسلط کرتے ہیں یہ تو انسانیت کے خلاف ہے اور یہ تو پوری انسانیت کا قتل ہے وغیرہ تو مشرکین کا یہ اعتراض بھی انکے عقائد و نظریات کی طرح باطل ہے۔ کیو کہ جو آیت یہ پیش کرتے ہیں اور اس آیت سے یہ جو معنیٰ و تشریح گھڑتے ہیں ان کا یہ معنیٰ و تشریحات قرآن، حدیث و منہج سلف کے سراسر خلاف ہے۔ یہ مکمل آیت اس طرح ہے :

مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ "اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچالے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں کہ اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے۔" [سورہ المائدہ، آیت:۳۲]

اس آیت میں کافروں کو قتل کرنے کی ممانعت نہیں ہے بلکہ اس آیت میں مسلمانوں اور مومنوں کی تخصیص ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

وقال سعيد بن جبير: من استحل دم مسلم فكأنما استحل دماء الناس جميعا، ومن حرم دم مسلم فكأنما حرم دماء الناس جميعا حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں ایک مسلمان کا خون حلال کرنے والا تمام لوگوں کا قاتل ہے اور ایک مسلم کے خون کو بچانے والا تمام لوگوں کے خون کو گویا بچا رہا ہے۔

هذا قول، وهو الأظهر، وقال عكرمة والعوفي عن ابن عباس في قول: (فكأنما قتل الناس جميعا) يقول] من قتل نبيا أو إمام عدل ، فكأنما قتل الناس جميعا، ومن شد على عضد نبي أو إمام عدل، فكأنما أحيا الناس جميعا ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور امام عادل کو قتل کرنے والے پر ساری دنیا کے انسانوں کے قتل کا گناہ ہے اور نبی اور امام عادل کے بازو کو مضبوط کرنا دنیا کو زندگی دینے کے مترادف ہے۔

وقال ابن جريج عن الأعرج عن مجاهد في قوله: (فكأنما قتل الناس جميعا) من قتل النفس المؤمنة متعمدا، جعل الله جزاءه جهنم، وغضب الله عليه ولعنه، وأعد له عذابا عظيما، يقول: لو قتل الناس جميعا لم يزد على مثل ذلك العذاب مجاہد فرماتے ہیں مومن کو بے وجہ شرعی مار ڈالنے والا جہنمی دشمن رب، ملعون اور مستحق سزا ہو جاتا ہے، پھر اگر وہ سب لوگوں کو بھی مار ڈالتا تو اس سے زیادہ عزاب اسے اور کیا ہوتا؟ جو قتل سے رک جائے گویا کہ اس کی طرف سے سب کی زندگی محفوظ ہے۔
[​
تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورہ مائدہ آیت​
۳۲​
]​

امام قرطبی فرماتے ہیں : وقال مجاهد : المعنى أن الذي يقتل النفس المؤمنة متعمدا جعل الله جزاءه جهنم وغضب عليه ولعنه وأعد له عذابا عظيما مجاہد نے کہا: اس کا معنی ہے جس نے مومن نفس کو جان بوجھ کر قتل کیا اللہ تعالیٰ نے اس کی جزا جہنم بنائی ہے اور اس پر غضب کیا ہے اسر اس پر لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا عزاب تیار کیا ہے۔ [تفسیر قرطبی، تفسیر سورہ مائدہ آیت ۳۲]

اور اسی آیت کے یہ الفاظ "او فساد فی الارد" کفار و مشرکین کو اس آیت سے مستثنیٰ اور بری کر دیتے ہیں
کیوں کہ سب سے بڑا فساد ہی کفر و شرک ہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں​
:​
أو فساد في الأرض أي: شرك ، وقيل: قطع طريق
او فساد یہاں فساد سے مراد شرک ہے۔ بعض نے فرمایا: ڈاکہ ڈالنا ہے۔
[​
تفسیر قرطبی، تفسیر سورہ مائدہ آیت​
۳۲​
]​

اور بھی متعدد مقامات پر علماء اہل السنہ نے شرک، کفر اور کفار سے دوستی کو فساد فی العرد قرار دیا ہے اور قرآن میں منافقین کو بھی فاسد ہی کہا گیا ہے کیو کہ منافقِ اعتقادی بھی دلی طور پر کافر ہی ہوتے ہیں

اللہ تعالی کا فرمان ہے : وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ "اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔ خبردار ہو !یقیناً یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں لیکن شعور (سمجھ) نہیں رکھتے۔"

امام قرطبی رحمہ اللہ کا فرمان ہے : قوله: لا تفسدوا "لا" نهي والفساد ضد الصلاح، وحقيقته العدول عن الاستقامة إلى ضدها فسد الشيء يفسد فسادا وفسودا وهو فاسد وفسيد والمعنى في الآية: لا تفسدوا في الأرض بالكفر وموالاة أهله، وتفريق الناس عن الإيمان بمحمد صلى الله عليه وسلم اللہ تعالیٰ کا ارشاد: لا تفسدوا اس میں لاء نہی ہے، فساد، صلاح کی ضد ہے، اور فساد کی حقیقت، سیدھے راستہ سے عدل کر کے اس کی ضد کی طرف جانا ہے فسد الشیء یفسد فسادا و فسودا و ہوفاسد و فسید آیت میں اس کا معنی ہے زمیں میں کفر کر کے اور اہل کفر سے محبت کر کے لوگوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور قرآن پر ایمان لانے میں جدائی کر کے فساد نہ کرو۔ [تفسیر قرطبی، تفسیر سورہ البقرہ آیت رقم ۱۱]

شیخ عبد الرحمٰن ابن ناصر السعدي فرماتے ہیں: إذا نهي هؤلاء المنافقون عن الإفساد في الأرض, وهو العمل بالكفر والمعاصي, ومنه إظهار سرائر المؤمنين لعدوهم وموالاتهم للكافرين جب ان منافقوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکا جاتا ہے اور فساد سے مراد اعمال کفر اور معاصی ہیں۔ نیز دشمن کے پاس اہل ایمان کے راز پہنچانا اور کفار کے ساتھ دوستی رکھنا ہے۔ [تفسیر السعدی سورہ البقرہ آیت رقم ۱۱]
لہٰذا کفر، شرک، ارتداد و کفار سے دوستی و محبت ہی سب سے بڑا فساد فی الارد ہوتا ہے اور کافر، مشرک، مرتد و منافقِ اعتقادی ہی سب سے بڑے فسادی ہوتے ہیں۔ اور یہ لوگ کفر، شرک اور کفار سے ولاء کی بنا پر أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ کے زمرے میں داخل ہوتے ہیں اور ان لوگوں کا قتل بھی قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا سے مستثنیٰ ہوتا ہے۔ کچھ اعتراض کرنے والے یہ اعتراض بھی اٹھا سکتے ہیں کہ اعتقادی منافقین کی خبر ہوتے ہوئے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا قتل نہیں کیا تو پھر آپ کیوں منافقِ اعتقادی کے قتل کی بات کر رہے ہو؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کو کیوں قتل نہیں کیا اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عليه السلام عن قتل المنافقين مع علمه بأعيان بعضهم، وذكروا أجوبة عن ذلك منها ما ثبت في الصحيحين: أنه قال لعمر: أكره أن يتحدث العرب أن محمدا يقتل أصحابه ومعنى هذا خشية أن يقع بسبب ذلك تغير لكثير من الأعراب عن الدخول في الإسلام ولا يعلمون حكمة قتله لهم، وأن قتله إياهم إنما هو على الكفر، فإنهم إنما يأخذونه بمجرد ما يظهر لهم فيقولون: إن محمدا يقتل أصحابه، قال القرطبي: وهذا قول علمائنا وغيرهم


"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض منافقوں کو اچھی طرح جاننے کے باوجود بھی قتل نہ کرنے کی وجہ وہی ہے جو بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ لوگوں میں یہ چرچے ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جو اعرابی آس پاس ہیں انہیں یہ تو معلوم نہ ہوگا کہ ان منافقوں کے پوشیدہ کفر کی بنا پر انہیں قتل کیا گیا ہے ان کی نظریں تو صرف ظاہر داری پر ہوں گی جب ان میں یہ بات مشہور ہو جائے گی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں تو خوف ہے کہ کہیں وہ اسلام کے قبول کرنے سے رک نہ جائیں۔ قرطبی فرماتے ہیں ہمارے علماء وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔"


[تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورہ البقرہ آیت رقم ۱۰]

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقنافقین کے قتل سے روکے رہنے کی وجہ یہ تھی کہ عام لوگوں کو یہ بدگمانی نہ ہوجائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے ساتھیوں کو ہی قتل کر ڈالتے ہیں اور وہ اسلام قبول کرنے سے نہ روکیں جیسا کہ بخاری کی حدیث سے بھی واضح ہے اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے مسلمانوں کو منافقین کی چالوں کی خبر دے دیتا تھا اور مسلمان ان کی شرارتوں سے محفوظ رہتے تھے لیکن اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں لہازا اب اگر منافقِ اعتقادی مسلمانوں پر ظاہر ہو جائے اور اس کے چالوں جیسے حربی کفار کے ساتھ دوستی اور ولاء رکھنا، مجاہدین کی مخبری کرنا اور کفار کے پاس اہل ایمان کے راز پہنچانا وغیرہ۔ تو ایسے منافق کو قتل کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ومنها ما قاله بعضهم: أنه إنما لم يقتلهم لأنه كان يخاف من شرهم مع وجوده عليه السلام بين أظهرهم يتلو عليهم آيات الله مبينات، فأما بعده فيقتلون إذا أظهروا النفاق وعلمه المسلمون "بعض محققین نے کہا ہے کہ ان کے قتل نہ کئے جانے کی یہ وجہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ان کی شرارتیں چل نہیں سکتی تھی۔ مسلمانوں کو باری تعالیٰ اپنی وحی کے ذریعہ ان کی برائیوں سے محفوظ کر لیتا تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر اللہ نہ کرے ایسے لوگ ہوں گے ان کا نفاق کھل جائے اور مسلمان بخوبی معلوم کرلیں تو وہ قتل کر دیئے جائیں گے۔"

[تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورہ البقرہ آیت رقم ۱۰]

بہرحال خلاصہ کلام یہ ہے کہ کفار و مشرکین مَنْ قَتَلَ نَفْسًا ا والی آیت میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔ کافر اپنے کفر کی وجہ سے حلال الدم ہوتا ہے کافر کے کفر کی وجہ سے اس کی جان، مال اور عزت مسلمانوں پر حلال ہوتی ہے الا یہ کہ مسلمانوں کا مواحدہ ہو اور کسی مسلمان نے اسے امان دے رکھا ہو یا وہ کافر ذمی ہو اگر کوئی کافر ذمی ہے اور مسلمانوں کو جزیہ دیتا ہے تو اس کافر کا قتل وقتی طور پر حرام ہوتا ہے- لیکن اصل کے اعتبار سے کافر کا خون حلال ہی ہوتا ہے۔

امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ کا فرمان ہے: بأن الله تبارك وتعالیٰ حرم دم المؤمن وماله إلا بواحدة ألزم إیاها وأباح دم الکافر وماله إلا بأن یؤدی الجزیة أو یستأ من إلی مدة "اللہ تبارک وتعالیٰ نے مؤمن کا خون اور مال حرام کیا ہے سوائے ایک الزام کہ جو وہ اپنے اوپر لے (یعنی مرتد ہو جائے) اور کافر کا خون اور مال مباح رکھا ہے سوائے اس کے کہ وہ جزیہ ادا کرے یا اس کو ایک مدت کے لئے امان ما جائے۔" [الأم، جلد ۱، صفہ: ۳۰۱]

شیخ ابو محمد العدنانی الشامی رحمہ اللہ کا فرمان ہے: فإن الدماء لا تُعصم أو تباح بالملابس، فلا الزي المدني يعصم الدم، ولا البزة العسكرية تبيحه، وإنما يُعصم الدم ويُحرّم بالإسلام والأمان، ويُباح بالكفر، فمَنْ سُمي مسلماً عُصِم دمه وماله، ومَنْ سُمي كافراً فماله حلال على المسلم، ودمه مهدور مستباح، دمه دم كلب لا إثم فيه ولا دية عليه "پس کسی کا خون کپڑوں سے حلال اور حرام نہیں ہوتا ہے۔ نہ شہری لباس کسی کا خون حرام کرتی ہے اور نہ ہی فوجی وردی کسی کا خون حلال کرتی ہے، بلکہ کسی کا خون حرام صرف اسلام اور امن کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ کسی کا خون حلال کفر کے ساتھ ہوتا ہے۔ پس جس کو مسلمان کہا جائے تو اس کا خون و مال محفوظ ہو گیا۔ لیکن جس کو کافر کہا جائے تو اس کا مال مسلمان کے لیے حلال ہے اور اس کا خون ایسا جائز ہے کہ اس پر کوئی قصاص نہیں ہے کیوں کہ اس کا خون ایک کتے کا خون ہے، جس میں کوئی گناہ نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی دیت ہے۔"

[كلمة للشيخ أبو محمد العدناني "إن ربك لبالمرصاد" صفہ: ۱۵-۱٦]

شیخ حافظ عبد الجبار شاکر فک الله اسرہ کا فرمان ہے:

"کلمہ پڑهنے والے بهی کافروں کی صف میں کهڑے ہیں کتنا دکھ ہے کتنا افسوس ہوتا ہے! آج کافر کہتے ہیں اور کلمہ پڑهنے والے سکالر بهی کیا کہتے ہیں! او مسلمانوں تلوار چهوڑ دو! اسلام حسن اخلاق سے پهیلا ہے افغانستان، عراق، چچنیہ، فلسطین، سومال کے اندر تلوار نہ چلاو! اسلام اخلاق سے پهیلا ہے!
ان سکالروں سے کہوں کبهی امریکہ کو بهی یہ سبق سکهاو نا وہ تو تلوار لے کر آگیا ،صلیب والے تو گولیاں لیکر آ گئے ایف ١٦ لیکر آ گئے، وہ حملیں کر رہے ہیں وہ بی ٥٢ سے بمباریاں کر رہے ہیں، ان سے کوئی نہیں کہتا! یہودیوں سے کوئی نہیں کہتا!
سبهی مجھ کو کہتے ہیں کہ نیچی رکهوں نگاہ اپنی؛
کوئی ان سے نہیں کہتا نہ نکلوں یوں عیاں ہوکر -"


[شیخ عبد الجبار شاکر حفظہ اللہ کا بیان بعنوان "ملت ابراہیم"]


اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن، حدیث اور منہج سلف پر قائم رکھے اور کفار و مشرکین کے خلاف جہاد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ وصل اللهم على محمد وعلى آله وصحبه أجمعين۔ والحمد لله رب العالمين
 
Top