• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جزء رفع الیدین اور جزء القراءة امام بخاری رح کی کتاب نہیں ہے؟ ایک اعتراض اور اس کا جائزہ

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا جزء رفع الیدین اور جزء القراءة امام بخاری رح کی کتاب نہیں ہے؟ ایک اعتراض اور اس کا جائزہ


اس تحریر کو رومن انگلش میں پڑھنے اور اسکین پیجیس کے لئے یہاں کلک کریں

https://ahlehadithhaq.wordpress.com/2015/11/20/kya-juzz-raful-yadain-aur-juzz-al-qirat-imam-bukhari-rh-ki-kitab-nahi-hai-ek-aiteraz-aur-uska-jaizah/


بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ یہ کتابیں امام بخاری رح سے ثابت نہیں ہے ان لوگوں کے اس اعتراض کی بنیاد یہ ہے کہ ان دونوں کتاب کی سند میں ایک راوی محمود بن اسحاق البخاري الخزاعي القواس رح ہیں ـ اور ان پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ مجہول ہیں اور اسی بنا پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ امام بخاری رح کی کتاب نہیں ہے ـ ان شاء اللہ اس پوسٹ میں اس راوی کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوگی

جنانچہ اب محمود بن اسحاق کا صریح اور غیر صریح حوالہ پیش خدمت ہے

حافظ امام ابن حجر عسقلانی رح نے محمود بن اسحاق کی بیان کردہ ایک روایت کو حسن قرار دیا ہےـ (موافقتہ الخبر الخبر ج ۱ ص ۴۱۷)

تنبیہ: راوی کی منفرد روایت کو حسن یا صحیح کہنا اس راوی کی توثیق ہوتی ہےـ (نصبہ الرایہ ج ۱ ص ۱۹۰،ج ۳ ص ۲۶۴)

امام نووی رح نے جزء رفع الیدین سے ایک روایت بطور جزم نقل کی ہے لکھتے ہیں کہ

وروي البخاري في كتاب رفع اليدين باسناده الصحيح

امام بخاری رح نے اپنی کتاب رفع الیدین میں نافع سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ـ( المجموع ج ۱ ص ۴۰۵)

معلوم ہوا کہ امام نووی رح امام بخاری رح کی جزء رفع الیدین کو صحیح و ثابت شدہ کتاب سمجھتے تھے

امام ابن ملقن رح نے جزء رفع الیدین سے بطور جزم ایک روایت نقل کی ہے لکھتے ہیں کہ

وروي البخاري ايضاً في كتاب رفع اليدين باسناد صحيح

امام بخاری رح نے اس کو اپنی کتاب رفع الیدین میں بھی صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہےـ (البدر المنیر ج ۳ ص ۴۷۸ )

امام زیلعی حنفی رح نے جزء رفع الیدین سے بطور جزم ایک روایت نقل کی ہے لکھتے ہیں کہ

وذكر البخاري الأول معلقاً في كتابه المفرد في رفع اليدين

اور امام بخاری رح نے پہلے معلقاً اپنی کتاب رفع الیدین میں مفرد ذکر کیا ہے ـ( نصب الرایہ ج ۱ ص ۳۹۰،۳۹۳،۳۹۵ )

امام بیہقی رح نے محمود بن اسحاق کی روایت کردہ کتاب جزء القراة کو بطور جزم امام بخاری رح نے نقل کیا ہے لکھتے ہیں کہ


البخاري في كتاب القرأءة خلف الإمام

امام بخاری رح نے اپنی کتاب جزء القراءة میں فرمایاـ( قراءة خلف الامام ص ۲۳ )

امام مزی رح نے جزء القراة کو بطور جزم امام بخاری رح سے نقل کیا ہے لکھتے ہیں کہ

روي له البخاري في كتاب القراءة خلف الإمام

امام بخاری رح نے اپنی کتاب جزء القراءة میں روایت کیا ہےـ ( تہزیب الکمال ج ۱۴ ص ۶۷ )

امام عینی حنفی رح نے جزء رفع الیدین کو بطور جزم امام بخاری رح سے نقل کیا ہے لکھتے ہیں کہ

وقال البخاري في كتابه رفع اليدين في الصلاة

امام بخاری رح نے اپنی کتاب رفع الیدین فی الصلاة میں فرمایاـ( عمدتہ القاری ج ۵ ص ۲۷۲ )
( شرح سنن ابی داود ج ۳ ص ۳۵۰ )
( معانی الاخبار ج ۳ ص ۴۷۶ )

امام بدرالدین بہادر بن عبداللہ الزرکشی رح نے جزء رفع الیدین کو بطور جزم امام بخاری رح نے نقل کیا ہے لکھتے ہیں کہ

البخاري روي في كتابه المفرد في رفع اليدين

کہ امام بخاری رح نے اپنی کتاب رفع الیدین میں مفرد روایت کیا ہےـ ( البحر المحیط فی اصول الفقہ ج ۶ ص ۱۵۶ )

امام محمد الزرقانی رح نے جزء القراءة کو بطور جزم امام بخاری رح سے نقل کیا ہے لکھتے ہیں کہ

البخاري في جزء القراة

امام بخاری رح نے اپنی کتاب جزء القراءة میں فرمایاـ( شرح الزرقانی علی الموطا ج ۱ ص ۱۵۸ )

امام سیوطی رح نے جزء رفع الیدین کو بطور جزم امام بخاری رح سے نقل کیا ہے لکھتے ہیں کہ

قال البخاري في كتاب رفع اليدين في الصلاة

امام بخاری رح نے ااپنی کتاب رفع الیدین فی الصلاة میں فرمایاـ ( فض الوعاء فی احادیث رفع الیدین فی الدعاء ص ۵ )

امام ذہبی رح نے جزء رفع الیدین کو بطور جزم امام بخاری رح سے نقل کیا ہے لکھتے ہیں کہ

رواهُ (خَ) فِي كتابِ " رفعِ الْيَدَيْنِ " نَا محمدُ بنُ مقَاتل عَنهُ

اسے (خ) یعنی (امام بخاری رح) نے اپنی کتاب رفع الیدین میں محمد بن مقاتل کی سند سے روایت کیا ہےـ( تنقیح التحقیق ج ۱ ص ۱۷۰ )

نوٹ: یہاں خ سے مراد امام بخاری رح ہیں

امام علاءالدین مغلطائی حنفی رح نے جزء القراءة کو نطور جزم نقل کیا ہے لکھتے ہیں کہ

قال البخاري في كتاب قراءة خلف الإمام

امام بخاری رح نے اپنی کتاب قراءة خلف الامام میں فرمایاـ( شرح سنن ابن ماجہ ص ۱۴۱۴ )

آل دیوبند و آل بریلوی اور آل تقلید کے کئی علماء نے جزء رفع الیدین اور جزء القراءة کو بطور جزم امام بخاری رح نے نقل کیا ہے

جنانچہ محمد بن علی نیموی حنفی نے جزء رفع الیدین کو بطور جزم امام بخاری رح سے نقل کیا ہے لکھتے ہیں کہ

رواه البخاري في جزء رفع اليدين واسناده صحيح

امام بخاری رح نے اسکو اپنی کتاب جزء رفع الیدین میں روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہےـ( آثار السنن ص ۱۶۹ )

مولانا صوفی عبدالرحمٰن خان سواتی دیوبندی نے جزء رفع الیدین کو بطور جزم امام بخاری رح سے روایت کیا ہے لکھتے ہیں کہ

قنوت وتر میں رفع الیدین کے سلسلہ میں امام بخاری رح اپنے رسالہ جزء رفع الیدین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سند صحیح کے ساتھ نقل کرتے ہیںـ ( نماز مسنون کلاں ص ۶۴۶ )

فیض احمد ملتانی دیوبندی نے جزء القرآءة کو بطور جزم امام بخاری رح سے نقل کیا ہے لکھتے ہیں کہ

امام بخاری رح نے جزء القراءة ص ۱۱ پر فرمایاـ( مدلل نماز ص ۱۱۸ )

مولانا جمیل احمد نزیری دیوبندی نے جزء رفع الیدین کو بطور جزم امام بخاری رح سے نقل کیا ہے لکھتے ہیں کہ

یہی بات امام بخاری رح نے بھی اپنے رسالہ جزء رفع الیدین میں ص ۲۴ پر بھی لکھی ہےـ( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز ص ۲۲۷ )

مولانا سرفراز خان صفدر دیوبندی نے جزء رفع الیدین کو بطور جزم امام بخاری رح سے نقل کیا ہے لکھتے ہیں کہ

قنوت کے وقت رفع الیدین کا ثبوت امام بخاری رح کی کتاب جزء رفع الیدین کے ص ۲۸ میں ہےـ( خزائن السنن ج ۱ ص ۴۱۶ )

علی محمد حقانی دیوبندی نے جزء رفع الیدین کو بطور جزم امام بخاری رح سے نقل کیا ہےـ
( نبوی نماز (سندھی) ج ۱ ص ۲۹۲ )

غلام مصطفی نوری بریلوی نے جزء مزکور کو بطور جزم امام بخاری رح سے نقل کیا ہے ایک روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
امام بخاری رح نے اپنی کتاب رفع الیدین میں ص ۵۶ پر لکھاـ ( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ص ۱۶۲ )

مولانا غلام مرتضی ساقی بریلوی نے جزء رفع الیدین کو بطور جزم امام بخاری رح سے نقل کیا ہے لکھتے ہیں کہ

امام بخاری رح نے بھی یہ روایت نقل کی ہے جس میں صرف دو جگہ پر رفع الیدین کرنے کا ذکر ہے جزء رفع الیدین ص ۶۸ ـ( مسئلہ رفع الیدین ص ۲۶ )

ابو یوسف محمد ولی درویش نے جزء مزکور کو بطور جزم امام بخاری رح سے نقل کیا ہےـ
( پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم (پشتو) ص ۴۱۴ )

عبدالشکور قاسمی دیوبندی نے بھی جزء رفع الیدین کو بطور جزم امام بخاری رح سے نقل کیا ہے لکھتے ہیں کہ

اس کو امام بخاری رح نے روایت کیا ہے اپنی کتاب جزء رفع الیدین میں اور اسکی سند صحیح ہےـ( کتاب الصلاة ص ۱۱۳ )

ان سب نے جزء رفع الیدین یا جزء القراءة کے حوالے بطور جزم و بطور حجت نقل کئے ہیں اور بعض نے تو رفع الیدین سے مزکور ایک روایت کو صحیح سند قرار دیا ہے

ہمارے علم کے مطابق محمود بن اسحاق پر کسی محدث یا مستند عالم نے کوئی جرح نہیں کی اور انکی بیان کردہ کتابوں اور روایتوں کو صحیح قرار دینا یا بالجزم ذکر کرنا (ان پر جرح نہ ہونے کی حالت میں) اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مزکورہ تمام علماء و غیر علماء کے نزدیق ثقہ و صدوق تھے لہذا جزء رفع الیدین اور جزء القراءة دونوں کتابیں امام بخاری رح سے ثابت ہیں اور چودہوی پندرہوی صدی کے بعض الناس کا ان کتابوں پر تعن و اعتراض مردود ہے

بعض الناس کی جہالت یا تجاہل کا رد


چودہویں پندرہویں صدی کے بعض الناس نے محمود بن اسحاق البخاری رح کو مجہول کہہ دیا ہے حالانکہ سات راویوں کی روایت، حافظ ابن حجر رح اور دیگر علماء و غیر علماء کی تحقیق کے بعد مجہول کہنا یہاں باطل و مردود ہےـ ہمارے علم کے مطابق ۳۳۲ ھ میں وفات پانے والے محمود بن اسحاق کو کسی محدث یا مستند عالم نے مجہول العین یا مجہول الحال (مستور) نہیں کہا ـ

امام حافظ ذہبی رح لکھتے ہیں کہ


محمود بن إسحاق البخاري القواس.سمع من: محمد بن إسماعيل البخاريّ، ومحمد بن الحسن بن جعفر صاحب يزيد بن هارون.وحدَّث، وعُمِّر دهرا.أرخه الخليلي، وقال: ثنا عنه محمد بن أحمد الملاحميّ.

محمود بن اسحاق البخاری القواس. انہوں نے محمد بن اسماعیل البخاری اور یزید بن ہارون کے شاگرد محمد بن حسن بن جعفر سے سنا، حدیثیں بیان کی اور ایک (طویل) زمانہ زندہ رہے ،خلیلی نے انکی تاریخ وفات بیان کی اور فرمایا ہمیں محمد بن احمد ملاحمی نے ان سے حدیث بیان کی ہےـ( تاریخ الاسلام ج ۲۵ ص ۸۳ )

اصول حدیث کا مشہور مسئلہ ہے کہ جس راوی سے دو یا دو سے زیادہ ثقہ راوی حدیث بیان کریں تو وہ مجہول العین نہیں ہوتا اور اگر ایسے راوی کی توثیق موجود نہ ہو تو مجہول الحال ہوتا ہے جند حوالے درج ذیل ہیں

امام خطیب بغدادی رح فرماتے ہیں کہ

وَأَقَلُّ مَا تَرْتَفِعُ بِهِ الْجَهَالَةُ أَنْ يَرْوِيَ عَنِ الرَّجُلِ اثْنَانِ فَصَاعِدًا مِنَ الْمَشْهُورِينَ بِالْعِلْمِ كَذَلِكَ

اور آدمی کی جہالت (مجہول العین ہونا) کم از کم اس سے ختم ہو جاتی ہے کہ اس سے علم کے ساتھ مشہور دو یا زیادہ ثقہ راوی روایت بیان کریں،اسی طرح ہےـ( الکفایہ فی علم الروایہ ص ۸۸ و لفظ لہ شرح ملا علی قاری نزہتہ النظر شرح نخبتہ الفکر ص ۵۱۷ )

امام ابن صلاح رح فرماتے ہیں

ومن روي عنه عدلان وعيناه فقد ارتفعت عنه هذه الجهالة

کہ اور جس سے دو ثقہ روات کریں اور اسکا (نام لیکر ) تعین کر دیں تو اس سے یہ جہالت ( مجہول العین ہونا) ختم ہو جاتی ہےـ( مقدمہ ابن صلاح ص ۱۱۲ و شرح ملا علی قاری ص ۵۱۷ )

امام ذہبی رح عثمان بن حفص کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

ليس بمجهول فقد روي عنه أربعة

وہ مجہول نہیں کیونکہ اس سے چار روایوں نے روایت بیان کی ہےـ(ھدی الساری ص ۴۰۸ )

تنبیہ: یہ روایت اس سیاق کے ساتھ میزان الاعتدال کے مطبوعہ نسخوں سے گر گئی ہے

امام ابن تیمیہ رح کے مخالف علی بن عبدالکافی السبکی رح نے اعلانیہ لکھا ہے کہ

وبروابة اثنين تنتفي جهالة العين فكيف برواية سبعة

دو کی روایت سے جہالت عین مرتفع ہو جاتی ہے لہذا سات کی روایت سے کس طرح رفع نہ ہوگیـ( شفاء السقام ص ۹۸ )

امام ابن عبدالبر رح ایک راوی عبدالرحمٰن بن یزید بن عقبہ بن کریم الانصاری الصدوق کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

وَقَدْ رَوَى عَنْهُ ثَلَاثَةٌ وَقَدْ قِيلَ رَجُلَانِ فَلَيْسَ بِمَجْهُولٍ

اس سے تین یا دو آدمیوں نے روایت بیان کی لہذا وہ مجہول نہیں ہےـ( الاستذکار ج ۲ ص ۱۵۳ )

امام ابو جعفر النحاس رح فرماتے ہیں کہ

ومن روي عنه اثنان فليس بمجهول

اور جس سے دو روایت کریں وہ مجہول نہیںـ( الناسخ والمنسوخ ص ۴۷ )

امام عینی حنفی رح ایک راوی ( ابو زید ) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ


والجهالة عند المحدثين تزول برواية اثنين فصاعدا، فأين الجهالة بعد ذلك؟! إلَّا أن يراد جهالة الحال؛

اور محدثین کے نزدیق دو یا زیادہ کی روایت سے جہالت ختم ہو جاتی ہے لہذا اسکے بعد جہالت کہاں رہی؟ الا یہ کہ اس سے جہالت حال مراد لی جائےـ( شرح معانی الآثار للعینی ج ۲ ص ۲۸۲ )

اسی طرح کے اور بھی بہت سے حوالے ہیں دیکھئیےـ( لسان المیزان ج ۲ ص ۲۲۶ و مجمع الزوائد ج ۱ ص ۳۶۲ )

ظفر احمد تھانوی دیوبندی ایک راوی عائشہ بنت عجرد کے بارے میں ایک اصول لکھتے ہیں کہ

وليس بمجهول من روي عنه اثنان

اور جس سے دو ثقہ راوی روایت بیان کریں تو وہ مجہول نہیں ہوتاـ( اعلاء السنن ج ۲ ص ۲۰۷ )

تنبیہ؛: اسکے بعد وعرفها يحيي بن معين فقال : لها صهبة والی عبارت علیحدہ اور اس کا اس اصول سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہےـ

ظفر احمد تھانوی دیوبندی مزید فرماتے ہیں کہ

برواية عدلين ترتفع جهالة العين عند الجمهور ولا تثبت به العدالة

کہ جمہور کے نزدیق دو ثقہ راویوں کہ روایت سے جہالت عین ختم ہو جاتی ہے اور اس سے عدالت ( راوی کی توثیق ) ثابت نہیں ہوتیـ( اعلاء السنن ج ۱۹ ص ۲۱۳ )،( قوائد فی علوم الحدیث ص ۱۳۰ )

مولانا عبدالقیوم حقانی دیوبندی ایک راوی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

اسکے جواب میں شارحین حدیث فرماتے ہیں کہ انکا نام یزید ہے اور ان سے تین راوی روایت کرتے ہیں اور قائدے کے مطابق جس شخص سے روایت کرنے والے دو ہوں اس کی جہالت رفع ہو جاتی ہےـ(توضیح السنن ج ۱ ص ۵۷۱ )،(نیز دیکھئیے توضیح السنن ج ۲ ص ۶۰۵ )

مولانا محمد تقی عثمانی دیوبندی ایک مجہول الحال راوی ابو عائشہ کے بارے میں اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

اور اصول حدیث میں یہ بات طے ہو چکی ہے کہ جس شخص سے دو راوی روایت کریں تو اسکی جہالت مرتفع ہو جاتی ہے لہذا جہالت کا اعتراض درست نہیں اور یہ حدیث حسن سے کم نہیںـ(درس ترمزی ج ۲ ص ۳۱۶،۳۱۵ )

مولانا عبدالحق حقانی اکوڑوی دیوبندی ایک روایت میں مجہول والے اعتراض کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

" تو اس کا جواب یہ ہے کہ مجہول کی دو قسم ہیں (۱) مجہول ذات (۲) مجہول صفات جب کسی راوی نے روایت میں حدثنی رجل کہہ دیا اور وہ رجل معلوم نہیں تو یہ مجہول ذات ہے اگر ایسے غیر معلوم رجل سے دو شاگرد جو ثقہ عادل اور تام الضبط ہوں اور امت کو ان پر اعتماد ہو ) روایت نقل کر دیں تو ایسے دو تلامزہ کا ایک استاد سے روایت نقل کرنا گویا استاد (رجل مجہول) کی ثقاہت کی شہادت ہے کیونکہ باکمال تلامزہ بےکمال استاد سے کبھی بھی سبق حاصل نہیں کرتے"ـ( حقائق السنن ج ۱ ص ۲۰۶ )

مولانا احمد حسنن سمبھلی تقلیدی دیوبندی مظفر نگری ابن ابی شیبہ کے (اپنے مزعوم امام پر) پہلے اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں کہ

پس جب دو شخصوں نے ان سے روایت کی تو جہالت مرتفع ہو گئی سو یہ معروف شمار ہوں گے جیسا کہ یہ قاعدہ اصول حدیث میں ثابت ہو چکا ہےـ(اجوبتہ اللطیفہ ص ۱۹،۱۸ و ترجمان احناف ص ۴۱۹،۴۱۸ )

یہ کتاب چار اشخاص کی پسندیدہ ہے دیکھئے

۱-اشرف علی تھانویـ(ترجمان احناف ص ۴۰۸)

۲-ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندیـ(ترجمان احناف ص ۳ سے۷)

۳-مشتاق علی شاہ دیوبندیـ(ترجمان احناف کا پہلا صفحہ)

۴-الیاس گھمن حیاتی دیوبندیـ(فرقہ اہل حدیث پاک و ہند کا تحقیقی جائزہ ص ۳۹۰)

اگر اس حوالے میں مزکور اصول حدیث کے مسئلہ کا انکار کیا جائے تو آل تقلید کا اپنے مزعوم امام کا،پہلے ہی مسئلے میں دفاع ختم ہو جاتا ہے اور امام ابن ابی شیبہ کا یہ اعتراض صحیح ثابت ہو جاتا ہے کہ ابو حنیفہ احادیث کی مخالفت کرتے تھے

مولانا شبیر احمد عثمانی دیوبندی لکھتے ہیں کہ

ثم من روي عنه عدلان ارتفعت جهالة عين

پھر جس سے دو ثقہ راوی روایت بیان کریں تو اسکی جہالت عین ختم ہو جاتی ہےـ(فتح الملہم ج ۱ ص ۱۶۷ )

مولانا محمد ارشاد قاسمی دیوبندی بھاگلپوری لکھتے ہیں کہ

مجہول العین کی روایت اگر دو عادل سے ثابت ہو جائے تو جہالت مرتفع ہو جائے گیـ(ارشاد اصول الحدیث ص ۹۵ )

مولانا محمد عالم صفدر اوکاڑوی لکھتے ہیں کہ

یہ بات یاد رہے کہ راوی کے ایک ہونے پر جہالت کا مدار دوسرے محدثین کے نزدیق ہے،اور ان کے نزدیق اگر دو روایت کرنے والے ہوں تو جہالت عینی مرتفع ہو جائے گی ہمارے نزدیق مجہول العین وہ ہے جس سے ایک یا دو حدیثیں مروی ہوں اور اسکی عدالت بھی معلوم نہ ہو عام ہے کہ اس سے روایت کرنے والے دو یا دو سے زائد ہوں اس قسم کی جہالت اگر صحابی میں ہے تو مضر نہیں اور غیر میں ہے تو پھر اگر اسکی حدیث قرن ثانی یا قرن ثالث مییں ظاہر ہو جائے تو اس پر عمل جائز ہوگا اور اگر ظاہر ہو اور سلف اسکی صحت کی گواہی دیں،تعن سے خاموش رہیں تو قبول کر لی جائے گی اور اگر رد کریں تو رد کر دی جائے گی اور اگر اختلاف کریں تو اگر موافق قیاس ہوگی تو قبول ورنہ رد کر دی جائے گیـ(قطرات العطر شرح نخبتہ الفکر ص ۲۳۸ )

تنبیہ: محمعد عالم صفدر کے اس دیوبندی کے اصول سے محمود بن اسحاق اور نافع بن محمود المقدسی وغیرہما کہ روایت مقبول (صحیح یا حسن) ہو جاتی ہے اس طرح کے مزید حوالے بھی تلاش کئے جا سکتے ہیں اور ان سے ثابت ہوا کہ سات شاگردوں والے راوی محمود بن اسحاق البخاری الخزاعی رح کو مطلقاً مجہول یا مجہول العین کہنا بالکل غلط و مردود ہے

رہا مجہول الحال یا مستور قرار دینا تو یہ صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب راوی کی توثیق سرے سے موجود ہی نہ ہو (یا ناقابل اعتماد ہو) جیسا کہ امام حافظ ابن حجر رح فرماتے ہیں کہ

أَوْ إنْ روى عنهُ اثنانِ فصاعِداً، ولم يُوَثَّقْ1 فهو مَجْهولُ الحالِ، وهُو المَسْتورُ.
وقد قَبِلَ رِوَايَتَهُ جَمَاعَةٌ بغيرِ قيدٍ، وردَّها الجمهورُ.

اگر اس سے دو یا دو سے زائد نے روایت کی ہو اور اسکی توثیق نہ ہو تو وہ مجہول الحال ہے اور مستور ہے اسے بغیر کسی قید کے ایک جماعت نے قبول کیا ہے اور جمہور نے رد کر دیا ہےـ( نزہتہ النظر فی توضیح نخبتہ الفکر ص ۱۲۶ )،( قطرات العطر شرح اردو نخبتہ الفکر ص ۲۳۶ )

ایک جماعت نے قبول کیا ہے کہ تشریح میں ملا علی قاری حنفی رح فرماتے ہیں کہ

منهم ابو حنيفة....

ان میں ابو حنیفہ... ہیںـ( شرح شرح نخبتہ الفکر ص ۵۱۸ )

مولانا شبیر احمد عثمانی دیوبندی لکھتے ہیں کہ

ومنهم أبو بكر بن فورك وكذا قبله أبو حنيفة خلافاً للشافعي، ومن عذاه إليه فقد وهم

اور ان( مستور کی روایت قبول کرنے ) میں ابو بکر بن فورک ہیں اور ان سے پہلے ابو حنیفہ ہیں (یہ اصول) شافعی کے خلاف ہے اور جس نے اسے ان) شافعی) کی طرف منسوب کیا ہے (کہ مستور کی روایت مقبول ہے) تو اسے غلطی لگی ہےـ( فتح الملہم ج ۱ ص ۱۶۶ )

حبیب الرحمٰن اعظمی دیوبندی کی پسندیدہ کتاب اصول الحدیث میں مولا عبیداللہ اسعدی لکھتے ہیں کہ

امام ابو حنیفہ کے نزدیق مجہول کے احکام کی بابت تفصیل یہ ہے
(الف ) مجہول العین: یہ حال جرح نہیں ہے اسکی حدیث اس صورت میں غیر مقبول ہوگی جبکہ سلف نے اسکو مردود قرار دیا ہو یا یہ کہ اسکا ظہور عہد تبع تابعین کے بعد ہو اور اگر اسکے پہلے ہو خواہ سلف نے اسکی تقویت کی ہو یا بعض نے موافقت کی ہو یا کہ سب نے سکوت کیا ہو اس پر عمل درست ہے
(ب) مجہول الحال: راوی مقبول ہے، خواہ عدل الظاہر حنفی الباطن ہو یا دونوں کی رو سے مجہول ہو

(ح) مجہول الاسم: بھی مقبول ہے بشرطیکہ قرون ثالثہ سے تعلق رکھتا ہو اس تفصیل سے یہ بھی ظاہر ہے کہ امام صاحب کے نزدیق بھی مجہول مطلقاً مقبول نہیں کم از کم قرون ثالثہ سے تعلق کی قید ضرور ملحوظ ہے جیسا کہ تشریح کی گئی ہےـ( علوم الحدیث ص ۲۰۰ )

مولانا ابو سعد شیرازی دیوبندی لکھتے ہیں کہ

جو راوی مجہول العین نہ ہو اور اسکی توثیق بھی کسی سے منقول نہ ہو اسے مستور کہتے ہیں اسکی روایت مقبول ہےـ( قافلہ حق ج ۳ شمارہ ۲ ص ۲۹ )

شیرازی دیوبندی نے اپنے سلطان المحدثین ملا علی قاری سے نقل کیا ہے کہ

اور مستور کی روایت کو ایک جماعت نے بغیر زمانہ کی قید کے قبول کیا ہے اور انہیں میں سے ابو حنیفہ رح بھی ہیں ـسخاوی نے اسکو ذکر کیا ہے اور اس قول کو امام اعظم رح کی اتباع کرتے ہوئے ابن حبانن نے اختیار کیا ہےـ( قافلہ حق ج ۳ شمارہ ۲ ص ۳۵ )

تنبیہ یہ دعوہ کہ اس اصول میں امام ابن حبان نے حنفیت کے امام ابو حنیفہ کی اتباع کی ہے بے سند و بے دلیل ہے

مولانا مفتی شبیر احمد دیوبندی (جدید) لکھتے ہیں کہ

تیسرے راوی ہیں امام ابو عصمہ سعد بن معاض المروزی، ان پر علی زئی نے مجہول ہونے کی جرح نقل کی ہے حالانکہ اصول حدیث کی رو سے یہ جرح بھی مردود ہے،کیونکہ مجہول کی دو قسمیں ہیں: ۱- مجہول الحال ۲- مجہول العین مجہول کا مطلب جس کی عدالت ظاہر نہ ہو،مسلمان ہوـ امام اعظم ابو حنیفہ رح اور آ پ کے متبعین کے نزدیق مجہول الحال کی روایت قبول کی جائے گی یعنی راوی کا مسلمان ہونا اور فسق سے بچنا اسکی روایت کی قبولیت کے لئے کافی ہےـ مجہول العین کا مطلب یہ ہے کہ علماء اس راوی اور اسکی روایت کو نہ پہچانتے ہوں ـ اس سے صرف ایک راوی نے نقل کیا ہو بالفاظ دیگر اس سے ایک شاگرد نے روایت نقل کی ہو ـ مجہول کی اقسام میں سے ایک قسم بھی ابو عصمہ پر صادق نہیں آتی نہ مجہول الحال نہ ہی مجہول العین ـ احناف کے اصول کے مطابق تو اسکی روایت قبول ہے ہی دیگر ائمہ کے اصول کے مطابق بھی اسکی روایت قبول ہے کیونکہ ان کے شاگرد کئی ہیں اور یہ ہیں بھی مسلمان ـ لہذا ان کی روایت قبول ہوگی ـ(قافلہ حق ج ۵ شمارہ ۴ ص ۲۴)

انصاف پسند قارئین اکرام غور کریں کہ ابو عصمہ سے چند راویوں نے روایت بیان کی اور کسی ایک محدث یا مستند عالم نے اسکی صریح یا غیر صریح توثیق نہیں کی بلکہ امام ذہبی رح صاف لکھتے ہیں کہ

مجهول و حديثه باطل

وہ مجہول ہے اور اسکی حدیث باطل ہےـ( میزان الاعتدال ج ۲ ص ۱۲۵ )

اس ابو عصمہ کو تو ثقہ و صدوق ثابت کیا جا رہا ہے اور محمود بن اسحاق البخاری الخزاعی و نافع بن محمود المقدسی کو مجہول و مستور کہا جا رہا ہے اللہ ہدایت دے آمین

خلاصتہ التحقیق: -> محمود بن اسحاق البخاری الخزاعی مجہول و مستور نہیں بلکہ ثقہ و صدوق صحیح الحدیث و حسن الحدیث تھے لہذا ان پر اوکاڑوی اور مقلدین اوکاڑوی کی جرح مردود ہے

اللہ ہم سب کو حق سمجھنے کی توفیق دے آمین





 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
مضمون نگار کا نام ذکر نہیں ہے، انداز تحریر قریب قریب زبیر علی زئی یاانہی کے شاگردوں کا ہے،بہرحال کسی کا بھی ہو،کسی کتاب کے اثبات کیلئے اہل علم نے جن باتوں کوضروری قراردیاہے اگران کو نگاہ میں رکھیں تو کوئی مسئلہ پیدانہیں ہوتاہے،مسئلہ تب پیداہوتاہے جب کسی غرض سے (جس کا منشااللہ ہی معلوم ہے ) خود ساختہ نئی نئی شرطیں عائد کی جاتی ہیں۔
زبیر علی زئی صاحب اوران کے حواریین ایک جانب کتاب المدونہ جو فقہ مالکی کی مشہور اورمعتبر کتاب ہے اور کسی بھی معتبر عالم نے اس کو غیرمستند قراردنہیں دیاہےمحض اپنی ذہنی اپج سے اسے غیرمستند قراردیتے ہیں اوربھی کئی دیگر کتب جن کو اہل علم تسلیم کرتے آرہے ہیں زبیر علی زئی نے غیرمستند قراردیاہے ۔
عمل کا ردعمل ہوتاہے،دوسری جانب سے بھی امام بخاری کی ان کتابوں اورکتاب السنہ لعبداللہ بن احمد وغیرہ پر سوال ہونے شروع ہوگئے کہ ان کتابوں کی سند کہاں ہے اوراس کتاب کی روایت کرنے والوں کی توثیق کس نے کی ہے؟
جہاں تک امام بخاری علیہ الرحمہ کے مذکورہ دونوں رسالوں کی بات ہے تو زبیر علی زئی کے اصول پر ان کا اثبات مشکل ہی ہے کیونکہ حافظ ابن حجرنےمحمود بن اسحاق کی جس روایت کو حسن قراردیاہے، اس کے بارے میں تفصیل طلب امر یہ ہے کہ اسے حسن لذاتہ قراردیاہے یاحسن لغیرہ قراردیاہے،اگر حسن لغیرہ قراردیاہے تب توپھر اس کو اپنے مدعا کے اثبات میں پیش کرنامشکل ہے اوراگر حسن لذاتہ قراردیاہے تو سوال یہ ہے کہ محمود بن اسحاق جن کاسنہ وفات 332ہجری بقول مضمون نگار ہے تواس وقت سے لے کر حافظ ابن حجر تک آٹھویں صدی تک کسی سے ان کی توثیق منقول نہ ہونے کے کیامعنی ہیں؟
دوسراسوال مضمون نگار سے یہ ہے کہ حافظ ابن حجر جس حدیث کو حسن یاصحیح قراردیں تواس کے تمام راوی کی ضمنی توثیق ہوجاتی ہے کیایہ قاعدہ محض محمود بن اسحاق کیلئے خاص ہے یاعام ہے؟
اگرعام ہے توپھرحافظ ابن حجر نے امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے ضمن میں ان کو حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھنے کی روایت کو صحیح قراردیاہے(ملاحظہ ہو حسن نہیں بلکہ صحیح)لیکن اس کے باوجود ضمنی طورپراس روایت کے راویوں کی توثیق کو تسلیم نہیں کیاجاتاہے اورکہاجاتاہے کہ فلاں فلاں اس میں مجہول ہے؟۔
حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری کے مذکورہ رسالوں سے کسی کو انکارنہیں ہے ہاں زبیر علی زئی کے خود ساختہ اصولوں پر انکار کی گنجائش ضرور پیداہوتی ہے۔
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
مضمون نگار کا نام ذکر نہیں ہے، انداز تحریر قریب قریب زبیر علی زئی یاانہی کے شاگردوں کا ہے،بہرحال کسی کا بھی ہو،کسی کتاب کے اثبات کیلئے اہل علم نے جن باتوں کوضروری قراردیاہے اگران کو نگاہ میں رکھیں تو کوئی مسئلہ پیدانہیں ہوتاہے،مسئلہ تب پیداہوتاہے جب کسی غرض سے (جس کا منشااللہ ہی معلوم ہے ) خود ساختہ نئی نئی شرطیں عائد کی جاتی ہیں۔
زبیر علی زئی صاحب اوران کے حواریین ایک جانب کتاب المدونہ جو فقہ مالکی کی مشہور اورمعتبر کتاب ہے اور کسی بھی معتبر عالم نے اس کو غیرمستند قراردنہیں دیاہےمحض اپنی ذہنی اپج سے اسے غیرمستند قراردیتے ہیں اوربھی کئی دیگر کتب جن کو اہل علم تسلیم کرتے آرہے ہیں زبیر علی زئی نے غیرمستند قراردیاہے ۔
عمل کا ردعمل ہوتاہے،دوسری جانب سے بھی امام بخاری کی ان کتابوں اورکتاب السنہ لعبداللہ بن احمد وغیرہ پر سوال ہونے شروع ہوگئے کہ ان کتابوں کی سند کہاں ہے اوراس کتاب کی روایت کرنے والوں کی توثیق کس نے کی ہے؟
جہاں تک امام بخاری علیہ الرحمہ کے مذکورہ دونوں رسالوں کی بات ہے تو زبیر علی زئی کے اصول پر ان کا اثبات مشکل ہی ہے کیونکہ حافظ ابن حجرنےمحمود بن اسحاق کی جس روایت کو حسن قراردیاہے، اس کے بارے میں تفصیل طلب امر یہ ہے کہ اسے حسن لذاتہ قراردیاہے یاحسن لغیرہ قراردیاہے،اگر حسن لغیرہ قراردیاہے تب توپھر اس کو اپنے مدعا کے اثبات میں پیش کرنامشکل ہے اوراگر حسن لذاتہ قراردیاہے تو سوال یہ ہے کہ محمود بن اسحاق جن کاسنہ وفات 332ہجری بقول مضمون نگار ہے تواس وقت سے لے کر حافظ ابن حجر تک آٹھویں صدی تک کسی سے ان کی توثیق منقول نہ ہونے کے کیامعنی ہیں؟
دوسراسوال مضمون نگار سے یہ ہے کہ حافظ ابن حجر جس حدیث کو حسن یاصحیح قراردیں تواس کے تمام راوی کی ضمنی توثیق ہوجاتی ہے کیایہ قاعدہ محض محمود بن اسحاق کیلئے خاص ہے یاعام ہے؟
اگرعام ہے توپھرحافظ ابن حجر نے امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے ضمن میں ان کو حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھنے کی روایت کو صحیح قراردیاہے(ملاحظہ ہو حسن نہیں بلکہ صحیح)لیکن اس کے باوجود ضمنی طورپراس روایت کے راویوں کی توثیق کو تسلیم نہیں کیاجاتاہے اورکہاجاتاہے کہ فلاں فلاں اس میں مجہول ہے؟۔
حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری کے مذکورہ رسالوں سے کسی کو انکارنہیں ہے ہاں زبیر علی زئی کے خود ساختہ اصولوں پر انکار کی گنجائش ضرور پیداہوتی ہے۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ بھاٰئی جان

بھائی جان آ پنے جو سوالات کئے ہیں اس کا جواب تو اہل علم ہی دے سکتے ہیں

اور یہ تحریر میں نے الحدیث حضرو سے ہی نقل کی ہے

جزاک اللہ خیرا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کیا اس کا تحقیقی جواب کوئی بھائی دیں گے؟
میں نے کافی عرصہ پہلے غالبا تدریب الراوی میں یہ اصول پڑھا تھا کہ جس کتاب کی شہرت ہو جائے اس کی سند ضروری نہیں ہوتی.
 
شمولیت
فروری 01، 2012
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
85
پوائنٹ
54
مضمون نگار کا نام ذکر نہیں ہے، انداز تحریر قریب قریب زبیر علی زئی یاانہی کے شاگردوں کا ہے،بہرحال کسی کا بھی ہو،کسی کتاب کے اثبات کیلئے اہل علم نے جن باتوں کوضروری قراردیاہے اگران کو نگاہ میں رکھیں تو کوئی مسئلہ پیدانہیں ہوتاہے،مسئلہ تب پیداہوتاہے جب کسی غرض سے (جس کا منشااللہ ہی معلوم ہے ) خود ساختہ نئی نئی شرطیں عائد کی جاتی ہیں۔
زبیر علی زئی صاحب اوران کے حواریین ایک جانب کتاب المدونہ جو فقہ مالکی کی مشہور اورمعتبر کتاب ہے اور کسی بھی معتبر عالم نے اس کو غیرمستند قراردنہیں دیاہےمحض اپنی ذہنی اپج سے اسے غیرمستند قراردیتے ہیں اوربھی کئی دیگر کتب جن کو اہل علم تسلیم کرتے آرہے ہیں زبیر علی زئی نے غیرمستند قراردیاہے ۔
عمل کا ردعمل ہوتاہے،دوسری جانب سے بھی امام بخاری کی ان کتابوں اورکتاب السنہ لعبداللہ بن احمد وغیرہ پر سوال ہونے شروع ہوگئے کہ ان کتابوں کی سند کہاں ہے اوراس کتاب کی روایت کرنے والوں کی توثیق کس نے کی ہے؟
جہاں تک امام بخاری علیہ الرحمہ کے مذکورہ دونوں رسالوں کی بات ہے تو زبیر علی زئی کے اصول پر ان کا اثبات مشکل ہی ہے کیونکہ حافظ ابن حجرنےمحمود بن اسحاق کی جس روایت کو حسن قراردیاہے، اس کے بارے میں تفصیل طلب امر یہ ہے کہ اسے حسن لذاتہ قراردیاہے یاحسن لغیرہ قراردیاہے،اگر حسن لغیرہ قراردیاہے تب توپھر اس کو اپنے مدعا کے اثبات میں پیش کرنامشکل ہے اوراگر حسن لذاتہ قراردیاہے تو سوال یہ ہے کہ محمود بن اسحاق جن کاسنہ وفات 332ہجری بقول مضمون نگار ہے تواس وقت سے لے کر حافظ ابن حجر تک آٹھویں صدی تک کسی سے ان کی توثیق منقول نہ ہونے کے کیامعنی ہیں؟
دوسراسوال مضمون نگار سے یہ ہے کہ حافظ ابن حجر جس حدیث کو حسن یاصحیح قراردیں تواس کے تمام راوی کی ضمنی توثیق ہوجاتی ہے کیایہ قاعدہ محض محمود بن اسحاق کیلئے خاص ہے یاعام ہے؟
اگرعام ہے توپھرحافظ ابن حجر نے امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے ضمن میں ان کو حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھنے کی روایت کو صحیح قراردیاہے(ملاحظہ ہو حسن نہیں بلکہ صحیح)لیکن اس کے باوجود ضمنی طورپراس روایت کے راویوں کی توثیق کو تسلیم نہیں کیاجاتاہے اورکہاجاتاہے کہ فلاں فلاں اس میں مجہول ہے؟۔
حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری کے مذکورہ رسالوں سے کسی کو انکارنہیں ہے ہاں زبیر علی زئی کے خود ساختہ اصولوں پر انکار کی گنجائش ضرور پیداہوتی ہے۔

رحمانی بهائی کہتے ہیں: زبیر علی زئی صاحب اوران کے حواریین ایک جانب کتاب جو فقہ مالکی کی مشہور اورمعتبر کتاب ہے اور کسی بھی معتبر عالم نے اس کو غیرمستند قراردنہیں دیاہےمحض اپنی ذہنی اپج سے اسے غیرمستند قراردیتے ہیں اوربھی کئی دیگر کتب جن کو اہل علم تسلیم کرتے آرہے ہیں زبیر علی زئی نے غیرمستند قراردیاہے ۔

آپ کا الزام غلط ہے

البرذعي في "سؤالاته" (۲|۵۳۳): وذكرت لأبي زرعة (الرازي) مسائل عبد الرحمن بن القاسم عن مالك، فقال: «عنده ثلاثمئة جلدة أو نحوه عن مالك مسائل أسدية». قلت: «وما الأسدية»؟ فقال: «كان رجل من أهل المغرب يقال له أسد، رحل إلى محمد بن الحسن (صاحب أبي حنيفة) فسأله عن هذه المسائل. ثم قدم مصر، فأتى عبد الله بن وهب فسأله أن يسأله عن تلك المسائل: مما كان عنده فيها عن مالك أجابه، وما لم يكن عنده عن مالك قاس على قول مالك. فأتى عبد الرحمن بن القاسم، فتوسع له، فأجابه على هذا. فالناس يتكلمون في هذه المسائل»


سير أعلام النبلاء للإمام الذهبي: وأصل " المدونة " أسئلة . سألها أسد بن الفرات لابن القاسم . فلما ارتحل سحنون بها عرضها على ابن القاسم ، فأصلح فيها كثيرا ، وأسقط ، ثم رتبها سحنون ، وبوبها . واحتج لكثير من مسائلها بالآثار من مروياته ، مع أن فيها أشياء لا ينهض دليلها ، بل رأي محض . وحكوا أن سحنونا في أواخر الأمر علم عليها ، وهم بإسقاطها وتهذيب " المدونة " ، فأدركته المنية رحمه الله . فكبراء المالكية ، يعرفون تلك المسائل ، ويقڑون منها ما قدروا عليه ، ويوهنون ما ضعف دليله
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
رحمانی بهائی کہتے ہیں: زبیر علی زئی صاحب اوران کے حواریین ایک جانب کتاب جو فقہ مالکی کی مشہور اورمعتبر کتاب ہے اور کسی بھی معتبر عالم نے اس کو غیرمستند قراردنہیں دیاہےمحض اپنی ذہنی اپج سے اسے غیرمستند قراردیتے ہیں اوربھی کئی دیگر کتب جن کو اہل علم تسلیم کرتے آرہے ہیں زبیر علی زئی نے غیرمستند قراردیاہے ۔

آپ کا الزام غلط ہے

البرذعي في "سؤالاته" (۲|۵۳۳): وذكرت لأبي زرعة (الرازي) مسائل عبد الرحمن بن القاسم عن مالك، فقال: «عنده ثلاثمئة جلدة أو نحوه عن مالك مسائل أسدية». قلت: «وما الأسدية»؟ فقال: «كان رجل من أهل المغرب يقال له أسد، رحل إلى محمد بن الحسن (صاحب أبي حنيفة) فسأله عن هذه المسائل. ثم قدم مصر، فأتى عبد الله بن وهب فسأله أن يسأله عن تلك المسائل: مما كان عنده فيها عن مالك أجابه، وما لم يكن عنده عن مالك قاس على قول مالك. فأتى عبد الرحمن بن القاسم، فتوسع له، فأجابه على هذا. فالناس يتكلمون في هذه المسائل»


سير أعلام النبلاء للإمام الذهبي: وأصل " المدونة " أسئلة . سألها أسد بن الفرات لابن القاسم . فلما ارتحل سحنون بها عرضها على ابن القاسم ، فأصلح فيها كثيرا ، وأسقط ، ثم رتبها سحنون ، وبوبها . واحتج لكثير من مسائلها بالآثار من مروياته ، مع أن فيها أشياء لا ينهض دليلها ، بل رأي محض . وحكوا أن سحنونا في أواخر الأمر علم عليها ، وهم بإسقاطها وتهذيب " المدونة " ، فأدركته المنية رحمه الله . فكبراء المالكية ، يعرفون تلك المسائل ، ويقڑون منها ما قدروا عليه ، ويوهنون ما ضعف دليله
کہتے ہیں کہ اہل المکۃ ادری بما فیہا. اہل مکہ, مکہ میں موجود چیزوں کو زیادہ جانتے ہیں.

ایک جگہ سے دو مالکی علماء کے اقوال بحوالہ مواہب الجلیل اور مقدمات ابن رشد نقل کر رہا ہوں
قال الحطاب: « المدونة أشرف ما ألف في الفقه من الدواوين، وهي أصل المذهب وعمدته»، وقال أبو الوليد بن رشد (ت520ﻫ): «أصل علم المالكيين، وهي مقدمة على غيرها من الدواوين بعد موطإ مالك رحمه الله، ويروى أنه ما بعد كتاب الله أصح من موطإ مالك، ولا بعد الموطإ ديوان في الفقه أفيد من المدونة، هي عند أهل الفقه ككتاب سيبويه عند أهل النحو، وككتاب إقليدس عند أهل الحساب، وموضعها في الفقه موضع أم القرآن من الصلاة، تجزئ من غيرها ولا يجزئ غيرها منها».
حطاب کہتے ہیں: فقہ میں مدون دواوین میں مدونہ سب سے عمدہ ہے. یہ اصل مذہب اور ستون ہے.
ابن رشد کہتے ہیں: مالکیوں کے علم کی اصل ہے..... مروی ہے کہ کتاب اللہ کے بعد موطا مالک سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں ہے اور فقہ میں مدونہ سے زیادہ مفید کوئی کتاب ہے. یہ اہل فقہ کے ہاں نحو میں سیبویہ کی کتاب کی طرح ہے.......
 
Top