• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جماعۃ الدعوۃ مرجئہ ہے ؟

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
کیا جماعۃ الدعوۃ مرجئہ ہے ؟


علمی استفادہ از : فضیلۃ الشیخ محمد رفیق طاہر​

یہ تو بالکل وہی بات ہے کہ چور بھی کہے چور چور۔۔۔ کیونکہ دوسروں کو مرجئہ گرداننے والے درا صل خود مرجئہ ہیں ۔ ویسے آجکل یہ لفظ یعنی "مرجئہ" بکثرت استعمال ہو رہا ہے ۔ بہت سے گروہ ایک دوسرے کو ارجاء کی تہمت بڑے شوق سے دیتے نظر آتے ہیں ۔ حتی کہ اس دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کو بھی ہمارے ایک معاصر مجلہ "الإحیاء " نے مرجئہ قرار دے کر "معرکہ" سر کرنے کی مذموم سعی کی ہے ۔ ان بے لگام زبانوں سے خالص اہل الحدیث لوگ -کہ جنکی ساری زندگیاں قال اللہ وقال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا درس دیتے گزریں -بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ اس بات کا تعین کر لیا جائے کہ مرجئہ کسے کہا جاتا ہے اور مرجئہ کون ہوتا ہے ؟

اہل السنۃ کے نزدیک مسئلہ ایمان میں مرجئہ کی چار اقسام ذکر کی جاتی ہیں
1) فقہاء مرجئہ۔
2) جہمیہ ۔
3) کرامیہ۔
4) ما تریدیہ۔


(1) .... مرجئہ فقہاء
جو کہتے ہیں کہ ایمان دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار ہے، وہ مرجئہ فقہا ہیں۔ اُنہوں نے اعمال کو مسمی ایمان سے خارج کردیا جس کے نتیجہ میں انہوں نے کہا کہ ایمان نہ بڑھتا ہے نہ کم ہوتا ہے ۔
امام ابن تیمیہ راقم ہیں:
والمرجئۃ الذین قالوا: الإیمان تصدیق القلب وقول اللسان والأعمال لیست منہ کان منہم طائفۃ من فقہاء الکوفۃ وعبادہا ولم یکن قولہم مثل قول جہم(الایمان لابن تیمیہ: ص 154)
وہ مرجئہ جنہوں نے کہا کہ ایمان دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار ہے اور اعمال ایمان میں سے نہیں ہیں، ان میں کوفہ کے فقہا و عبّاد کا ایک گروہ بھی ہے اور ان کا (یہ) قول جہم کے قول جیسا نہیں ہے ۔
مزید فرماتے ہیں:
وکان أکثرہم من أہل الکوفۃ ولم یکن أصحاب عبد اللہ من المرجئۃ ولا إبراہیم النخعی وأمثالہ. فصاروا نقیض الخوارج والمعتزلۃ، فقالوا: إن الأعمال لیست من الإیمان وکانت ہذہ البدعۃ أخف البدع، ولم أعلم أحدًا منہم نطق بتکفیرہم بل ہم متفقون علیٰ أنہم لا یکفرون فی ذلک وقد نص أحمد وغیرہ من الأئمۃ علیٰ عدم تکفیر ہؤلاء المرجئۃ
(مجموع الفتاویٰ:7507)

اور ان کی اکثر یت اہل کوفہ میں سے تھی البتہ عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد اور ابراہیم نخعی اور ان جیسے لوگ مرجئہ میں سے نہیں تھے۔ اور یہ مرجئہ خوارج اور معتزلہ کی نقیض تھے۔ انہوں نے کہا کہ اعمال ایمان میں سے نہیں ہیں او ریہ بدعت (مرجئہ کی) بدعتوں میں سے سب سے زیادہ ہلکی ہے (سلف اورأئمہ نے ان پر سخت نکیر و تغلیظ کی ہے) البتہ میں کسی کو نہیں جانتا جس نے ان کی تکفیر کی ہو بلکہ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی تکفیر نہیں کی جائے گی اور ان مرجئہ کی عدم تکفیر پر امام احمد وغیرہ أئمہ سے نص ہے۔
(2)...... جہمیہ:
ایمان کی تعریف اور مفہوم ومراد کے لحاظ سے ایک گروہ جہمیہ کا ہے ۔یہ لوگ جہم بن صفوان کے پیروکار ہیں جو 128ھ میں قتل ہوا ،اسے مسلم بن احوذ مازنی نے مرو کے مقام پر قتل کرا دیا تھا۔ ان کا اعتقاد ہے کہ ایمان صرف معرفت ہے اور اسی نظریہ کے نتیجہ میں یہ لوگ ابلیس اور فرعون کو بھی مومن، کامل ایمان والے سمجھتے ہیں، اور ان کے نزدیک کفر صرف ربّ تعالیٰ سے جہالت کا نام ہے اور یہ قسم اِرجا کی قسموں میں سے سب سے زیادہ سخت اور خطرناک ترین ہے۔
امام ابن تیمیہ ان کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
وعند الجہمیۃ إذا کان العلم فی قلبہ فہو مؤمن کامل الإیمان إیمانہ کإیمان النبیین ولوقال وعمل ماذا (مجموع الفتاویٰ:7143)
جہمیہ کے نزدیک جب دل میں (ربّ کے متعلق) علم ہے تو وہ کامل ایمان والا مؤمن ہے۔ اس کا ایمان نبیوں کے ایمان کی طرح ہے اگرچہ وہ کچھ بھی کہے اور کرے۔
ان کے نزدیک عمل قلب بھی ایمان میں شامل نہیں ہے ۔
ایک اور جگہ آپ لکھتے ہیں:
ومنہم من لا یدخلہا فی الإیمان کجہم ومن اتبعہ کالصالحی(الایمان لابن تیمیہ:ص 155)
عمل قلب کو ایمان میں داخل نہ کرنے والوں میں جہم اور اس کے پیروکار صالحی وغیرہ ہیں ۔
مزید فرماتے ہیں:
الإیمان مجرد معرفۃ القلب وإن لم یقر بلسانہ واشتد نکیرہم لذلک حتی أطلق وکیع بن الجراح وأحمد بن حنبل وغیرہما کفر من قال ذلک فإنہ من أقوال الجہمیۃ(مجموع الفتاویٰ:7508)
(ایک قول یہ ہےکہ ) ایمان صرف معرفتِ قلب ہے اگرچہ زبان سے اقرار نہ بھی کرے۔ (أئمہ سلف نے) بڑی شدت سے ان کی تردید کی ہے حتیٰ کہ وکیع بن جراح اور احمد بن حنبل نے ایسے لوگوں پر کفر کا اطلاق کیا ہے او ربلا شبہ یہ جہمیہ کے اَقوال میں سے ہے۔
ان کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں:
نظرت فی کلام الیہود والنصاریٰ والمجوس فما رأیت قومًا أضل فی کفرہم من الجہمیۃ وإنی لأستجہل من لا یکفرہم إلا من یعرف کفرہم وقال: ما أبالی صلیت خلف الجہمی والرافضی أم صلیت خلف الیہود والنصاریٰ ( شرح السنۃ للبغوی:1194،195؛ خلق افعال العباد: رقم 31، 51)
میں نے یہود و نصاریٰ او رمجوس کے کلام میں غورو فکر کیا ہے پس میں نے کسی ایسی قوم کو نہیں دیکھا جو اپنے کفر میں جہمیہ سے بڑھ کر گمراہ ہو اور جو ان کی تکفیر نہیں کرتا میں اس کو جاہل سمجھتا ہوں سوائے اس کے، جسے ان کے کفر کا علم ہی نہ ہو، اور (مزید) فرماتے ہیں : مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میں جہمی اور رافضی کے پیچھے نماز پڑھ لوں یا یہودی اور عیسائی کے پیچھے۔
(3)..... کرامیہ:
یہ لوگ ابوعبداللہ محمد بن کرام المتوفی 255ھ کے پیروکار ہیں۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ایمان دل سے تصدیق کرنے اور تمام اعمال کے بجائے صرف زبان سے اقرار کا نام ہے۔
ان کے نزدیک منافق بھی باعتبار دنیا مؤمن ہے بلکہ کامل مؤمن ہے، البتہ وہ آخرت میں عذابِ ابدی کا مستحق ہے۔
چنانچہ شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے:
فالمنافقون عندہم مؤمنون کاملوا الإیمان(شرح العقیدۃ الطحاویۃ :ص 332)
پس منافقین ان کے نزدیک مؤمن ، کامل ایمان والے ہیں۔
(4)......ماتریدیہ:
اَبومنصور محمد بن محمد بن محمود ماتریدی سمرقندی کی طرف منسوب ایک کلامی فرقہ ہے۔
شارح عقیدہ طحاویہ امام ابن ابی العزحنفی راقم ہیں:
أوالتصدیق کما قالہ أبومنصور الماتریدی(شرح العقیدہ الطحاویۃ لابن ابی العز الحنفی :ص 333)
یا (ایمان صرف) تصدیق ہے جیسا کہ ابومنصور ماتریدی کا قول ہے۔
اور ان میں سے کچھ نے کہا کہ زبان سے اقرار (ایمان کے لیے) رکن زائد ہے، اصلی نہیں ہے اور ابومنصورماتریدی اسی کے قائل ہیں۔

یہ مرجئہ کی کل چار اقسام ہیں جو کہ اہل السنہ نے بیان کی ہیں ۔
لیکن آج لفظ "مرجئہ" صرف ایک گالی کےطور پر استعمال ہو رہا ہے ۔ اور کہنے والے کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ جس شخص پر میں مرجئہ کا اطلاق کر رہا ہوں وہ مرجئہ ہے بھی یا نہیں ؟! ۔

اور اللہ تعالی کے فضل وکرم سے اہل الحدیث کی جماعتوں میں سے کوئی بھی جماعت یا تنظیم ایسی نہیں ہے جو یہ اعتقاد نہ رکھتی ہو کہ ایمان اقرار باللسان , تصدیق بالقلب , اور عمل بالجوارح کا نام ہے ۔ یعنی تمام تر اہل الحدیث جماعتیں زبانی اقرار , دلی تصدیق , اور ارکان ا یمان واسلام پر عمل کے مجموعہ کو ہی ایمان قرار دیتی ہیں ۔
جبکہ غیر اہل الحدیث جماعتوں میں ارجاء کی بیماری پائی جاتی ہے , کوئی صرف زبانی جمع خرچ کو ایمان کا نام دیتا ہے تو کوئی ساتھ تصدیق کو بھی ایمان میں شامل کر لیتا ہے , لیکن عمل کو یہ لوگ ایمان کاحصہ نہیں سمجھتے ۔ مگر صد افسوس کہ آج کے مرجئہ لوگ اہل السنہ کو ارجاء کا الزام دے کر "الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے" کی عمل تفسیر بنے ہوئے ہیں ۔
بحمد اللہ تعالی ہماری جماعت کا عقیدہ ہے کہ
ایمان اقرار باللسان ، تصدیق بالجنان، اور عمل بالارکان کے مجموعہ کا نام ہے ۔ اور کسی بھی شخص میں ایمان اس وقت تک متحقق نہیں ہوتا جب تک وہ ارکان ایمان واسلام کو اپنے اندر جمع نہ کر لے ۔ ارکان اسلام وایمان حدیث جبریل میں نبی کریم نے بیان فرمائے ہیں ملاحظہ فرمائیں :
َ الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْہَدَ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتُقِیمَ الصَّلَاۃَ وَتُؤْتِیَ الزَّکَاۃَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ إِنْ اسْتَطَعْتَ إِلَیْہِ سَبِیلًا ۔۔۔ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ
اسلام یہ ہے : کہ تو گواہی دے کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور تو نماز قائم کرے ، زکاۃ ادا کرے ، رمضان کے روزے رکھے ، اور اگر طاقت ہو بیت اللہ کا حج کرے
اور ایمان کے بارہ میں فرمایا : کہ تو اللہ پر اور اسکے فرشتوں ، کتابوں، رسولوں ، یوم آخرت، اور اچھی وبری تقدیر پر ایمان لائے ۔ (صحیح مسلم : ٨)
اور اللہ پر ایمان لانے کا معنی بیان کرتے ہوئے رسول اللہ نے حدیث وفد عبد القیس میں وضاحت فرمائی :
َ شَہَادَۃُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ وَإِقَامُ الصَّلَاۃِ وَإِیتَاء ُ الزَّکَاۃِ وَصِیَامُ رَمَضَانَ وَأَنْ تُعْطُوا مِنْ الْمَغْنَمِ الْخُمُسَ (صحیح البخاری : ٥٣)
صرف اور صرف اللہ تعالی ہی کے معبود برحق ہونے اور محمد e کے رسول خدا ہونے کی گواہی دینا ، نماز قائم کرنا ، زکاۃ ادا کرنا ، رمضان کے روزے رکھنا ، اور مال غنیمت میں سے خمس ادا کرنا ۔
یعنی جس شخص میں یہ کل گیارہ چیزیں جمع ہو جائیں وہ مؤمن ہوتا ہے :
١۔ توحید ورسالت کی گواہی ٢۔ نماز کا قیام ٣۔ زکاۃ کی ادائیگی ٤۔ رمضان کے روزے رکھنا ٥۔ حج بیت اللہ کرنا ٦۔ مال غنیمت میں سے خمس ادا کرنا ٧۔اللہ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان لانا ٨۔ اللہ کے بھیجے گئے رسولوں پر ایمان لانا ٩۔ فرشتوں پر ایمان لانا ١٠۔ اچھی وبری تقدیر پر ایمان لانا ١١۔ یوم آخرت پر ایمان لانا۔
ان میں سے ان تما م تر کاموں کو برحق ماننا عمل قلب ہے ، اور نماز کا قیام ، زکاۃ کی ادائیگی ، رمضان کے روزے رکھنا، حج بیت اللہ کرنا ، مال غنیمت سے خمس ادا کرنا عمل جوارح میں داخل ہے ۔
ہمارا اعتقاد ہے کہ یہ اعمال تحقق ایمان کے لیے ضروری ہیں ۔ اور ایمان کے ستر سے زائد شعبہ جات ہیں انکے علاوہ باقی شعبہ جات ایمان کو کمال تک پہنچاتے ہیں ۔
لہذا جماعۃ الدعوۃ کو مرجئہ کہنا عین نصف النہار کے وقت دن کو رات کہنے کے مترادف ہے ۔کیونکہ اہل ارجاء میں سے کوئی بھی گروہ عمل جوارح کو ایمان کا حصہ نہیں سمجھتا ۔ جبکہ ہمارے ہاں عمل جوارح حقیقت ایمان میں داخل ہے ۔​

بشکریہ: جابر علی عسکری، ملتقی اہلحدیث فورم
 
Top