• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جنت میں جانے کے لیے ایمان بالرسالت ضروری نہیں؟

شمولیت
دسمبر 21، 2015
پیغامات
137
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
جاوید احمد غامدی نے مجلہ مصعبی 2008-2009 کے شمارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ '' جنت میں داخل ہونے کے لیے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت ہی کافی ہے اور جس کا یہ ایمان ہو گا، چاہے وہ یہودی ہو یا نصرانی یا ہندو، اگر اس نے دنیا میں اچھے کام کیے ہوں گے تو وہ جنت میں داخل ہو گا،،
عموماً اس بارے میں منکرین حدیث و رسالت سورہ بقرہ کی آیت نمبر 26،سورہ مائدہ کی آیت نمبر 69 سے دلیل پکڑتے ہیں،،
میرا سوال اہل علم سے یہ ہے کہ سلف صالحین نے ان آیات کو کیسے سمجھا کیا انھوں نے وہ معنی کیے جو جاوید احمد غامدی جیسے لوگ کر رہے ہیں، میری عرض ہے کہ تفاسیر کے حوالہ جات بھی ساتھ دیے جائیں،،
اسحاق سلفی صاحب
رفیق طاہر صاحب
خضر حیات صاحب حفظھم اللہ
 
شمولیت
دسمبر 21، 2015
پیغامات
137
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
یاددہانی، علماء کرام کے لیے [emoji115]
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
جاوید احمد غامدی نے مجلہ مصعبی 2008-2009 کے شمارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ '' جنت میں داخل ہونے کے لیے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت ہی کافی ہے اور جس کا یہ ایمان ہو گا، چاہے وہ یہودی ہو یا نصرانی یا ہندو، اگر اس نے دنیا میں اچھے کام کیے ہوں گے تو وہ جنت میں داخل ہو گا،،
عموماً اس بارے میں منکرین حدیث و رسالت سورہ بقرہ کی آیت نمبر 26،سورہ مائدہ کی آیت نمبر 69 سے دلیل پکڑتے ہیں،،
میرا سوال اہل علم سے یہ ہے کہ سلف صالحین نے ان آیات کو کیسے سمجھا کیا انھوں نے وہ معنی کیے جو جاوید احمد غامدی جیسے لوگ کر رہے ہیں، میری عرض ہے کہ تفاسیر کے حوالہ جات بھی ساتھ دیے جائیں،،
اسحاق سلفی صاحب
رفیق طاہر صاحب
خضر حیات صاحب حفظھم اللہ
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ګ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ 62۝
جو لوگ (بظاہر) ایمان لائے ہیں اور جو یہودی ہیں یا عیسائی [٨٠] یا صابی (بے دین) ہیں، ان میں سے جو بھی (فی الحقیقت) اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور عمل بھی اچھے کرے تو ایسے ہی لوگوں کو اپنے رب کے ہاں سے اجر ملے گا۔ اور ان پر نہ تو کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔ یہ آیت جس سیاق و سباق میں آئی ہے اس سے اس کا منشاء بالکل واضح ہے۔ یہاں یہودیوں کی اس غلط فہمی کو دور کرنا مقصود ہے کہ یہودی ایک نجات یافتہ گروہ ہیں اس بنا پر کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ قرآن اس کی پر زور تردید کرتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ اللہ کے ہاں نجات کا دارو مدار کسی خاندان یا گروہ یا فرقہ (Community) سے وابستگی کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس کا دارومدار اوصاف (Virtues) پر ہے۔ جو شخص ایمان و عمل صالح کے اوصاف کا حامل ہوگا وہ آخرت میں نجات پائے گا لیکن جو شخص ان اوصاف سے عاری ہوگا وہ نجات اخروی سے محروم رہے گا۔ خواہ وہ مسلمان گروہ ہی کا فرد کیوں نہ ہو۔
یہاں ایمان اور عمل صالح کی تفصیل بیان کرنا مقصود نہیں ہے کیوں کہ یہ تفصیل قرآن نے دوسرے مقامات پر واضح کردی ہے اور اس کی رو سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد آپ کی نبوت پر اور جو کتاب آپ لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس کے بغیر اللہ کے ہاں ایمان معتبر نہیں ہے۔ اسی طرح شریعت محمدیہ کی پیروی عمل صالح کے مفہوم میں شامل ہے۔ اس لیے آیت کا یہ مطلب نکالنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے کہ قرآن کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ " اپنے اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے خدا اور آخرت کو مانو اور اچھا عمل کرو۔ " مذکورہ آیت سے یہ مطلب نکالنا قرآن میں سراسر تحریف کرنا ہے کیوں کہ اس سورۃ کا مرکزی مضمون ہی قرآن کے کتاب الٰہی ہونے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دینا ہے جس کے بغیر ساری دینداری بے معنی ہوجاتی ہے۔ مزید برآں قرآن نے دوسرے مقامات پر یہ بات صراحت کے ساتھ بیان کردی ہے کہ اللہ کے نزدیک مقبول دین صرف اسلام ہے۔
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (آل عمران ١٩) " اللہ کے نزدیک مقبول دین صرف اسلام ہے۔ "
وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی اْلآ خِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ " جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا خواہاں ہوگا تو اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ گھاٹے میں رہے گا۔ " (آل عمران ٨٥)
(دعوت القرآن شمس پیزادہ )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حافظ صلاح الدین یوسف صاحب لکھتے ہیں :
اس سے پہلے بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور بےاعتدالیوں پر عذاب کا ذکر تھا یہاں ان میں سے جو لوگ نیک تھے ان کے اجر وثواب کا بیان ہے ، یہودیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو توریت کو مانتا ہو اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سنت پر عمل کرتا ہو ، پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آنے کے بعد ان کی اتباع کرے اور ان کی نبوت کو برحق سمجھے ، اگر وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آنے کے بعد بھی توریت اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر قائم رہا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا اور انکی اتباع نہ کی تو وہ بےدین ہوجائیگا ، پھر ان میں سے جو لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ پائیں اور نہ تو آپ (علیہ السلام) کی نبوت کو مانیں اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کریں تو وہ بھی بےدین ہیں ، اسی طرح نصرانیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو انجیل کو اللہ تعالیٰ کا کلام مانے ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر عمل کرے ، پھر وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ پائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق کرے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت پر عمل کرے ، اگر اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ پایا اور پھر بھی انجیل اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اتباع چھوڑ آپ (علیہ السلام) کی تصدیق اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کی اتباع نہ کی تو وہ ہلاک ہوگا ، مختصر یہ کہ ہر نبی کا تابعدار اور اس کا ماننے والا ، ایماندار اور صالح ہے ، اور اللہ تعالیٰ کے ہاں نجات پانے والا ہے لیکن جب دوسرا نبی آجائے اور وہ اس کا انکار کرے تو کافر ہوجائیگا (ابن کثیر ١٠٣۔ ١)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ ہدایت کا دروازہ سب کے لئے کھلا ہوا ہے ، اس کے لئے کسی قوم اور شخص کی خصوصیت نہیں ، بنی اسرائیل نے بھی ایک زمانے میں اپنے ایمان اور اچھے اعمال کی بدولت دنیا پر فضیلت حاصل کی تھی پھر یہی لوگ بےایمانی اور بدکاری کے سبب ذلیل اور مغضوب ہوگئے ۔ (حقانی
٤٣٢۔ ١)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
امام طبری لکھتے ہیں :
وقال ابن عباس بما:-
حدثني المثنى قال، حدثنا أبو صالح قال، حدثني معاوية بن صالح، عن ابن أبي طلحة، عن ابن عباس قوله: (إن الذين آمنوا والذين هادوا والنصارى والصابئين) إلى قوله: (ولا هم يحزنون) . فأنزل الله تعالى بعد هذا: (وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ) [آل عمران: 85]
وهذا الخبر يدل على أن ابن عباس كان يرى أن الله جل ثناؤه كان قد وعد من عمل صالحا - من اليهود والنصارى والصابئين - على عمله، في الآخرة الجنة، ثم نسخ ذلك بقوله: (ومن يبتغ غير الإسلام دينا فلن يقبل منه)

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس آیت کے بعد آیت ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ من الخاسرین۔ نازل ہوئی، یعنی دین اسلام آجانے کے بعد دیگر تمام ادیان منسوخ ہوگئے۔
اور اس آیت میں یہود و نصاریٰ اور صائبین کے لیے جو اجر بتایا گیا ہے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کے لوگوں کے لیے ہے۔ آپ کے زمانے کے یہود و نصاری اور صابئین میں سے جو لوگ آپ پر ایمان لائے، انہی کو یہ حکم شامل ہوگا، جو لوگ آپ پر ایمان نہیں لائے ان کے لیے یہ وعدہ نہیں ہے۔
 
شمولیت
دسمبر 21، 2015
پیغامات
137
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
الشیخ اسحاق سلفی جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
 
Top