• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حدیثِ سبعہ أحرف متشابہات میں سے ہے؟ اِمام سیوطی﷫ کے موقف کا تجزیہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیا حدیثِ سبعہ أحرف متشابہات میں سے ہے؟
اِمام سیوطی﷫ کے موقف کا تجزیہ

عمران اسلم​
حدیث سبعہ أحرف کے بارے میں منکرین قراء ات بالخصوص حلقہ اشراق کا خیال یہ ہے کہ یہ متشابہات میں سے ہے۔ لہٰذا اس حدیث کی بنیاد پر ثابت ہونے والی قراء ات کی کوئی حقیقت نہیں، ہماری اس سلسلہ میں رائے یہ ہے کہ اہل علم کے ہاں محکم و متشابہ کی تین مختلف قسمیں ہیں جن میں سے ایک وہ ہے جو من وجہ محکم اور من وجہ متشابہ ہو، پس یہ حدیث اوّل تو متشابہات میں سے ہے نہیں اور اگر بعض اہل علم نے اسے متشابہ کہا بھی ہے تو بھی ان کا یہ قول محکم ومتشابہ کی مذکورہ تیسری قسم سے تعلق رکھتا ہے۔ اس حدیث کا یہ معنی تو سب آئمہ کے نزدیک متفق علیہ اور محکم ہے کہ یہ حدیث قرآن کریم کے الفاظ کے بارے میں ہے اور قرآن کو پڑھنے کے اختلافات کے ثبوت کے بارے میں متعین طور پر دلالت کرتی ہے، لیکن وہ اختلافات کس طرح ۷ کے عدد میں سموئے جاتے ہیں؟ اس بارے میں اختلاف ہے اور بعض اہل علم نے اس پہلو کے اعتبار سے اس حدیث کو متشابہ یا ظنی الدلالہ قرار دیاہے۔ پس اس حدیث کو من وجہ متشابہ قرار دینے سے اس حدیث کی صحت یا ثبوت قراء ات سے متعلق دلالت کس طور پرمتشابہ یا غیر متعین نہیں۔ قارئین رُشد کو انہی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے زیر نظر موضوع کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ یاد رہے کہ اس موضوع پر اس سے قبل ماہنامہ رُشد قراء ات نمبر کے حصہ اوّل میں صفحہ ۴۹۹ تا ۵۰۳ اور ۵۱۲ تا ۵۱۴ اور حصہ دوم کے صفحہ ۳۴۷ تا ۳۵۱ اور شیخ القراء قاری محمد طاہر رحیمی صاحب کامستقل مضمون صفحہ نمبر ۲۴۳ شامل اشاعت ہے۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حدیث سبعہ أحرف کے بارے میں متجددین کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ یہ حدیث متشابہات میں سے ہے، اور اس کا مفہوم ایک ایسا معمہ ہے جسے کوئی شخص اس اُمت کی پوری تاریخ میں کبھی حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اور اِستدلال کیا جاتا ہے اِمام سیوطی﷫کے اس قول سے کہ جس میں انہوں نے فرمایا:
’’إن ہذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فالمراد بہ أکثر من ثلاثین قولا حکیتہا في الإتقان والمختار عندي أنہ من المتشابہ الذي لا یدری تأویلہ‘‘(زہر الربی شرح سنن النسائي: ۱؍۱۵۰)
’’قرآن کریم کا نزول سات حروف پر ہوا ہے، اور اس کی مراد میں تیس سے زیادہ اَقوال بیان کئے گئے ہیں جن کو میں نے اپنی کتاب ’الإتقان‘ میں رقم کیا ہے۔ میرے نزدیک ان میں سے مختار قول یہ ہے کہ حدیث سبعہ اَحرف متشابہات میں سے ہے جس کی تاویل معلوم نہیں ہوسکی۔‘‘
اس میں تو دو رائے نہیں ہیں کہ امام سیوطی﷫نے سبعہ اَحرف کے مفہوم کو منجملہ متشابہات میں سے قرار دیا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اُنہوں نے اسے متشابہ کہا ہے تو کس اِعتبار سے؟ کیا متشابہ اُمور سے آگاہ ہونا ممکن ہے یا نہیں؟ اور کیا امام صاحب کا حدیث سبعہ کو متشابہات میں سے قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ پور ی اُمت متنوع قراء اتِ قرآنیہ سے بیک جنبش قلم صرف نظر کر لے؟ اس کی وضاحت کے لیے ہمیں امام موصوف کی کتاب ’الإتقان فی علوم القرآن‘ کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جس میں اُنہوں نے محکم و متشابہ سے متعلق تفصیلی بحث کرتے ہوئے اس مسئلے پر متعدد اَقوال کا تذکرہ کیا ہے۔ جن میں سے کچھ یہ ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ المحکم ما عرف المراد منہ، إما بالظہور وإما بالتأویل، والمتشابہ: ما استأثر اﷲ بعلمہ، کقیام الساعۃ، وخروج الدجال، والحروف المقطعۃ في أوائل السور۔
’’جس اَمر کی مراد صاف طور پر یا تاویل کے ذریعہ سے معلوم ہوجائے وہ محکم ہے اور جس چیز کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی لئے خاص کیا ہے جیسے قیامت کا قائم ہونا اور دجال کا خروج اور سورتوں کے اَوائل کے حروف مقطعہ یہ سب متشابہ ہیں۔‘‘
٭ المحکم ما وضح معناہ، والمتشابہ نقیضہ
’’جس چیز کے معنی واضح اور کھلے ہیں وہ محکم ہے اور جو اس کے بر عکس ہے وہ متشابہ ہے۔‘‘
٭ المحکم ما لا یحتمل من التأویل إلا وجہا واحدا، والمتشابہ ما احتمل أوجہا۔
’’جس امر کی ایک ہی وجہ پر تاویل ہو سکے وہ محکم ہے اور جس کی تاویل کی کئی وجوہ کا احتمال رکھتی ہو وہ متشابہ ہے۔‘‘
٭ المحکم ما کان معقول المعنی، والمتشابہ: بخلافہ، کإعداد الصلوات، واختصاص الصیام برمضان دون شعبان۔
’’جس بات کے معنی عقل میں آتے ہیں(یعنی ان کو عقل قبول کرتی ہے) وہ محکم ہے۔ اور جو اَمر اس کے خلاف ہو وہ متشابہ ہے مثلاً نمازوں کی تعداد اور روزوں کا ماہ رمضان ہی کے لیے خاص ہونا اور شعبان میں نہ ہونا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پھر اس میں بھی تفصیلی بحث موجود ہے کہ آیا متشابہ اُمور سے آگاہ ہونا ممکن ہے یا نہیں؟
یہ اِختلاف دراصل قرآنی آیت ’’ وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہٗ إِلاَّ اللّٰہُ…‘‘ (آل عمران:۷) پر وقف کرنے یا نہ کرنے کی صورت میں رونما ہوا ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ ’ والراسخون فی العلم‘ معطوف ہے اور ’یقولون‘ اس کا حال واقع ہوا ہے۔ اس صورت میں اس کا معنی ہوگا کہ متشابہات کی تاویل اللہ تعالیٰ اور راسخون فی العلم جانتے ہیں۔ اور دوسرا خیال یہ ہے کہ ’ والراسخون فی العلم‘ مبتدا اور ’یقولون‘اس کی خبر ہے۔ اور ’والراسخون‘ میں جو ’واؤ‘ ہے وہ عاطفہ نہیں بلکہ استینافیہ ہے۔ اس صورت میں اس کا معنی ہوگا کہ متشابہات کی مراد اصلی کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
الإتقان کا جائزہ لیں تو ہمیں اس سے متعلق تین طرح کے اَقوال ملتے ہیں۔
(١) متشابہ قرآن کے علم پر آگاہ ہونا ممکن ہے۔
(٢) اس کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں۔
(٣) متشابہ اُمور سے بعض راسخون فی العلم آگاہ ہوسکتے ہیں۔
اِمام سیوطی﷫ نے دلائل کی روشنی میں ان تینوں اَقسام کی تفصیلی وضاحت کی ہے اور اخیر میں علامہ راغب﷫ کا قول نقل کیا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں :
’’جمیع المتشابہ علی ثلاثۃ أضرب: ضرب لا سبیل إلی الوقوف علیہ، کوقت الساعۃ، وخروج الدابّۃ، ونحو ذلک۔ وضرب للإنسان سبیل إلی معرفتہ، کالألفاظ الغریبۃ والأحکام القلقۃ۔ وضرب متردد بین الأمرین، یختص بمعرفتہ بعض الراسخین في العلم ویخفی علی من دونہم، وہو المشار إلیہ بقولہ ﷺ لابن عباس: اللہم فقہّہ فی الدین۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’متشابہ تین اَقسام میں منقسم ہیں:
(١) جس کو معلوم کر سکنے کی کوئی سبیل ہی نہیں۔ مثلاً قیامت کا وقت اور دابۃ الأرض کے نکلنے کا زمانہ یا اَیسے اور اُمور۔
(٢) متشابہات کی دوسری قسم وہ ہے کہ انسان ان کی معرفت کا راستہ پا سکتا ہے جیسے غریب الفاظ اور دقت میں ڈالنے والے اَحکام۔
(٣) متشابہات کی تیسری قسم وہ ہے جو مذکورہ بالا قسموں کے مابین تذبذب کی حالت میں پائی جاتی ہے۔
اس کی شناخت بعض راسخین فی العلم کے لئے مخصوص ہے اور جو ان سے علم و فضل میں کمتر ہوتے ہیں، ان پر اس کے معانی منکشف نہیں ہوتے۔‘‘
امام سیوطی﷫ نے اگر حدیث سبعہ اَحرف کو متشابہات میں سے قرار دیا ہے تو متشابہات کی اس تیسری قسم میں سے کہ جن کی شناخت بعض راسخین فی العلم کے لیے خاص ہے۔ نہ کہ متشابہات کی اس قسم میں سے کہ جس کو معلوم کر سکنے کی کوئی سبیل ہی نہیں۔ ان کے قول سے یہ اِستدلال کرنا کہ اُنہوں نے اُسے متشابہات میں سے قرار دے کر یہ معنی مراد لیا ہے کہ دنیا کا کوئی شخص سبعہ کے معانی کی وضاحت نہیں کر سکتا تو یقینی طور پر یہ بدیہی حقائق سے چشم پوشی ہے۔اِمام سیوطی نے اپنی کتاب میں متشابہات کے جو فوائد گنوائے ہیں متجددین حضرات اگر وقت نکال کر ان پر ایک نگاہ ڈالنے کی زحمت گوارا کر لیں تو ممکن ہے امام صاحب کا مؤقف سمجھنے میں مدد ملے۔ امام سیوطی﷫ متشابہات کے فوائد کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
متشابہات کا ایک فائدہ یہ ہے :
’’الحث للعلماء علی النظر الموجب للعلم بغوامضہ، والبحث عن دقائقہ، فإن استدعاء الہمم لمعرفتہ ذلک من أعظم القرب۔‘‘
’’یہ علماء کو ایسے غور پر آمادہ کرنے کا موجب ہے جس سے قرآن شریف کی مخفی باتوں کا علم حاصل ہوتا اور اس کی باریکیوں کی کرید کرنے کا شوق پیدا ہوا کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دقائق قرآن شریف کی طرف ہمتوں کا مائل ہونا بہت بڑا قرب ہے۔‘‘
دوسرا فائدہ یہ ہے : ’’ظہور التفاضل، وتفاوت الدرجات إذا لوکان القرآن کلہ محکما لا یحتاج إلی التاویل ونظر لا ستوت منازل الخلق، ولم یظہر فضل العالم علی غیرہ۔‘‘
’’ متشابہ اُمور سے انسانوں کا فہم میں باہم کم و بیش ہونا اور ان کے درجوں کا تفاوت عیاں ہوتا ہے ورنہ اگر تمام قرآن شریف اسی طرح کا محکم ہوتا جس میں تاویل اور غور کی حاجت نہ پڑتی تو اس کے سمجھنے کے بارے میں تمام خلق کا درجہ یکساں اور مساوی ہو جاتا اور عالم کی بزرگی غیر عالم پر ظاہر نہ ہو سکتی۔‘‘
اسی طرح ایک فائدہ یہ ہے :
’’أنہ یوجب مزید المشقۃ في الوصول إلی المراد، وزیادۃ المشقۃ توجب مزید الثواب۔‘‘(الإتقان:۲؍۲۲،۲۳)
’’متشابہات کا وارد کرنا معنی مراد کی تہہ تک پہنچنے میں مزید مشقت کرنے کا موجب ہے اور جتنی مشقت زیادہ ہو اتنا ہی ثواب بھی زیادہ ملے گا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سابقہ بحث سے اس بات کی تو وضاحت ہوگئی کہ ان کے ہاں متشابہات میں متعدد اِحتمالات موجود ہوتے ہیں، ان میں سے جہاں ایک احتمال یہ ہوتا ہے کہ متشابہات کی شناخت بعض راسخین فی العلم کے لئے مخصوص ہے تو وہیں ایک احتمال یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور اس قسم کے متشابہات میں پڑنے کو سخت ناپسند اور اَہل زیغ کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ حضور نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا:
’’فإذا رأیت الذین یتبعون ما تشابہ منہ، فأولئک الذین سمی اﷲ فاحذروہم۔‘‘
’’تم جب ان لوگوں کو دیکھو جو قرآن مجید کی متشابہ آیات کی پیروی کرتے ہیں تو یہ وہی لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے نام لیا ہے، لہٰذا تم ان سے بچ جاؤ۔‘‘
جبکہ علامہ سیوطی﷫ نے سبعہ اَحرف کے مفہوم سے متعلق اپنی آراء کا اِظہار فرمایا ہے۔علامہ موصوف صحیح بخاری کی شرح ’التوشیح‘ میں حدیث سبعہ اَحرف کے ذیل میں رقمطراز ہیں:
’’اختلف في المراد بہا علی نحو أربعین قولا بسطتہا في الإتقان وأقربہا قولان: أحدہما: أن المراد سبع لغات وعلیہ أبو عبید، وثعلب، والأزہری، وآخرون، وصححہ ابن عطیۃ، والبیہقی۔
والثانی: أن المراد سبعۃ أوجہ من المعانی المتفقۃ بألفاظ مختلفۃ نحو: أقبل، وتعال، وہلم، وعجل، وأسرع۔‘‘
(التوشیح شرح جامع الصحیح:۷؍۳۱۷۲)
’’اَحرف سبعہ کی مراد سے متعلق چالیس کے قریب اَقوال بیان کئے گئے ہیں جن کو میں نے الإتقان میں ذکر کیا ہے۔ میرے نزدیک ان میں سے اَقرب ترین دو قول ہیں:
(١) یہ کہ اس سے مراد سات لغات ہیں۔ یہ قول ابو عبید﷫، ثعلب﷫، اَزہری﷫ اور دیگر حضرات کا ہے، جسے ابن عطیہ﷫ اور بیہقی﷫ نے صحیح کہا ہے۔
(٢) یہ کہ اس سے مختلف اَلفاظ کے ساتھ متفق معانی کی سات وُجوہ مراد ہیں۔ جیسا کہ : أقبل، وتعال، وہلم، وعجل، وأسرع۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کے ساتھ ہی لکھتے ہیں:
’’والمختار أن ہذا الحدیث من المشکل الذي لا یدری معناہ، کمتشابہ القرآن والحدیث، وعلیہ ابن سعدان النحوي۔‘‘(ایضاً)
’’میرے نزدیک مختار قول یہ ہے کہ یہ حدیث ان مشکلات میں سے ہے جس کا معنی معلوم نہیں کیا جا سکا، یہ قرآن کریم اور حدیث کے متشابہ کے مانند ہے اور یہی مذہب ابن سعدان النحوی کا ہے۔‘‘
اِمام سیوطی﷫ نے اگرچہ یہاں یہ تو کہہ دیا ہے کہ اس کا معنی مجھے معلوم نہیں ہوسکا ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ حدیث سبعہ کے مفہوم میں بیان کیے جانے والے اَقوال میں سے قریب ترین کی طرف اِشارہ بھی کر رہے ہیںجس کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ امام موصوف کے ہاں یہ ان متشابہات میں سے نہیں جس کو معلوم کرنے کی کوئی سبیل ہی نہیں ہے۔ اگر اِمام صاحب کی مراد متشابہات کی پہلی قسم ہوتی تو وہ حدیث سبعہ کی وضاحت کر کے نبی کریم ﷺ کی بیان کردہ مذکورہ بالا وعید کایقینی مصداق ٹھہرتے ہیں۔
لہٰذا امام سیوطی﷫ کے قول کو بنیاد بنا کر متنوع قراء اتِ قرآنیہ کا اِنکار کرنا کسی طور بھی درست نہیں ہے۔ امام موصوف تو قراء ات قرآنیہ کے متبحر عالم اور عشرہ قراء ات کی بھر پور تائید کرنے والے ہیں۔اپنی کتاب الإتقان میں انہوں نے زید بن ثابتt کا یہ قول نقل کیا ہے :
’’القراء ۃ سنۃ متبعۃ یأخذہا الآخر عن الأول۔‘‘(۱؍۷۵)
’’قراء ت سنتِ متبعہ(سنتِ متواترہ) ہے جسے بعد میں آنے والے متقدمین سے حاصل کریں گے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح الإتقان ہی میں متنوع قراء اتِ قرآنیہ سے متعلقہ اِمام جزری﷫کے قول کو نقل فرماتے ہیں:
’’کل قرائۃ وافقت العربیۃ ولو بوجہ، ووافقت أحد المصاحف العثمانیۃ ولو احتمالا، وصح سندہا، فہي القرائۃ الصحیحۃ التي لا یجوز ردہا ولا یحل إنکارہا، بل ہی الأحرف السبعۃ التي نزل بہا القرآن، ووجب علی الناس قبولہا سواء کانت عن الأئمۃ السبعۃ، أم عن العشرۃ، أم عن غیرہم من الأئمۃ المقبولین‘‘۔ (الإتقان:۱؍۱۵۲)
’’ہر ایک ایسی قراء ت جو کسی وجہ سے بھی عربی زبان کے موافق ہو اور مصاحفِ عثمانیہ میں سے کسی مصحف کے ساتھ خواہ اِحتمالی طور بھی مطابق ہو۔ پھر اس کی سند صحیح ثابت ہو تو ایسی قراء ت کو ناقابل رد اور صحیح قراء ت شمار کیا جائے گا۔ اس کے ماننے سے اِنکار کرنا جائز نہیں ہوگا بلکہ وہ قراء ت انہی حروف سبعہ میں شامل ہوگی جن پر قرآن کا نزول ہوا ہے اور لوگوں پر اس کا قبول کرنا واجب ہوگا۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ قراء ت ساتویں یا دسوں اماموں کی طرف مروی ہوئی ہے یا ان کے ما سوا دوسرے مقبول اماموں کی جانب سے۔‘‘
اِمام سیوطی﷫ نے اس قول کو قراء اتِ قرآنیہ سے متعلق سب سے بہتر کلام قرار دیا ہے۔
اور تو اور امام صاحب کی قراء اتِ قرآنیہ پر لکھی جانے والی متعدد کتب اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ سبعہ اَحرف کی تعیین سے متعلق مختلف تشریحات کے باوصف ثابت شدہ قراء ات قرآنیہ سے سرمو انحراف قرآنی آیات سے اِنحراف کے مترادف ہے۔ ان کی قراء ات پر لکھی جانے والی کتب درج ذیل ہیں:
(١) شرح الاستعاذۃ والبسملۃ (٢) الإنصاف في تمییز الأوقاف
(٣) الدر النشیر في قراء ۃ ابن کثیر (٤) الألفیۃ في القراء ات العشرۃ۔
(٥) شرح حرز الأماني ووجہ التھاني (للشاطبي)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علاوہ اَزیں امام سیوطی﷫ نے اپنی کتاب’ التحبیر فی علم التفسیر‘ میں ایک مستقل نوع ’قراء ات النبی صلی اﷲ علیہ وسلم‘ کے نام سے قائم کی ہے جس میں نبی اکرم ﷺسے بیان کردہ متعدد قراء ات کو لائے ہیں۔ جن میں سے چند ذیل میں ملاحظہ ہوں:
(١) خارجہ کے طریق سے حضرت زید﷜سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے مجھے بغیر الف کے’’فرُہُنٌ مَقْبُوضَۃٌ‘‘(البقرۃ:۲۸۳) پڑھایا۔
(٢) داود بن الحصین کے طریق سے حضرت ابن عباس﷜ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے یا کے فتح کے ساتھ ’’وَمَا کَانَ لِنَبیٍّ أَنْ یَغُلَّ‘‘(آل عمران:۱۶۱) پڑھا۔
(٣) زہری﷫ کے طریق سے حضرت اَنس﷜ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے رفع کے ساتھ ’’وَکَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیہَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالعَیْنُ بِالعَیْنِ‘‘(المائدۃ:۴۵) پڑھا۔
(٤) عبد الرحمن بن غنم الأشعری کے طریق سے ایک روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے معاذ بن جبل﷜ سے ’’ہَلْ یَسْتَطیعُ رَبُّکَ‘‘ اور’’ہَلْ تَسْتَطیعُ رَبَک‘‘(المائدۃ:۱۱۲)سے متعلق سوال کیا تو آپ﷜ نے فرمایا ہمیں رسول اللہﷺنے تا کے ساتھ ’’ہَلْ تَسْتَطیعُ ‘‘ پڑھایا تھا۔
(٥) ابن زبیر کے طریق سے حضرت جابر بن عبداللہ﷜ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے صاد کے ساتھ ’’لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ‘‘(الغاشیۃ:۲۲) پڑھا۔
 
Top