• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حضرات علی، جعفر اور زید نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے رقص کیا تھا؟

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اسلام علیکم
بعض صوفیہ مسند احمد کی ایک روایت سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دیکھو رقص اور پاگلوں والا غیر مردانہ مجرہ جائز ہے۔ آج ہم اس روایت کا جائزہ لیں گے ان شاء اللہ۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:

حَدَّثَنَا أَسْوَدُ يَعْنِي ابْنَ عَامِرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَجَعْفَرٌ، وَزَيْدٌ، قَالَ: فَقَالَ لِزَيْدٍ: " أَنْتَ مَوْلَايَ " فَحَجَلَ، قَالَ: وَقَالَ لِجَعْفَرٍ: " أَنْتَ أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي "، قَالَ: فَحَجَلَ وَرَاءَ زَيْدٍ، قَالَ: وَقَالَ لِي: " أَنْتَ مِنِّي، وَأَنَا مِنْكَ "، قَالَ: فَحَجَلْتُ وَرَاءَ جَعْفَرٍ
ترجمہ: اسود بن عامر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا اسرائیل نے ہمیں خبر دی، عن ابو اسحاق، عن ہانی بن ہانی، وہ علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں جعفر، اور زید نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے زید رضی اللہ عنہ سے کہا: "تم میرے آزاد کردہ غلام ہو" تو زید حجل کرنا شروع ہو گئے۔ پھر آپ نے جعفر سے کہا: "تم میرے اخلاق اور دیکھاوٹ میں سب سے زیادہ مشابہ ہو" تو جعفر زید کے پیچھے حجل کرنا شروع ہو گئے۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ سے کہا: "تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں" تو میں بھی جعفر کے پیچھے حجل کرنے لگا۔
(مسند الامام احمد: 2/213 ح 857)​

یہ حدیث درج ذیل وجوہ کی بناء پر ضعیف ومنکر ہے:
1- ابو اسحاق السبیعی اس سند میں، مدلس ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی ہے۔
2- مدلس ہونے کے ساتھ ساتھ ابو اسحاق مختلط بھی ہیں، اور اسرائیل نے آپ سے اختلاط کے بعد سنا ہے۔
3- اس روایت میں لفظ "حجل" کو اس روایت کو بیان کرنے والے دیگر کسی راوی نے نقل نہیں کیا ہے حتی کہ ابو اسحاق نے خود ایک دوسری جگہ اس لفظ کو ذکر نہیں کیا، الغرض اس لفظ کا اضافہ روایت میں منکر ہے۔

پہلی علت کا بیان:
امام ابو اسحاق کا مدلس ہونا محدثین میں مشہور و معروف ہے، چنانچہ، مغیرہ بن مقسم الضبی فرماتے ہیں:
"أهلك أهل الكوفة أبو إسحاق وأعيمشكم هذا"
"اہل کوفہ کو ابو اسحاق اور تمہارے اعمش نے ہلاک کر دیا۔" (احوال الرجال للجوزجانی ص 81، واسنادہ صحیح)

حافظ ابن حجر اس قول کے تحت فرماتے ہیں: "يعني للتدليس" (تہذیب التہذیب: 8/59 و میزان الاعتدال: 2/224)

نیز درج ذیل محدثین نے بھی امام ابو اسحاق کو مدلس قرار دیا ہے:
  • شعبہ بن الحجاج (مسئلہ التسمیہ: ص 47، وسندہ صحیح)
  • ابن حبان (المجروحین ص 91، و صحیح ابن حبان: ص 61)
  • ابن العجمی الحلبی (التبیین: ص 44)
  • ابو محمود المقدسی (فی قصیدتہ)
  • الحاکم (معرفۃ علوم الحدیث: ص 105)
  • الذہبی (فی الارجوزۃ)
  • ابن خزیمہ (فی صحیحہ ح 1096)
  • العلائی (جامع التحصیل: ص 108)
  • السیوطی (اسماء المدلسین: ص 41)
  • ابو زرعہ ابن العراقی (المدلسین 47) وغیرہ
اور اس روایت میں انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی ہے۔ بعض لوگوں نے ان کی سماع کی تصریح درج ذیل حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے:
أخبرنا أبو الحسين بن بشران العدل، ببغداد، أنبأ أبو الحسن علي بن محمد المصري، ثنا عبد الله بن محمد بن أبي مريم، ثنا أسد بن موسى، ثنا يحيى بن زكريا بن أبي زائدة، حدثني أبي وغيره، عن أبي إسحاق حدثني هانئ بن هانئ، وهبيرة بن يريم، عن علي بن أبي طالب، رضي الله عنه
(سنن الکبری للبیہقی: 8/9 ح 15770)​

لیکن اس تصریح کے قابل قبول ہونے سے پہلے یہ لازمی ہے کہ یہ سند خود ابو اسحاق سے ثابت ہو۔ جبکہ اس سند میں عبد اللہ بن محمد بن ابی مریم موجود ہے جو کہ سخت ضعیف ہے، اس کے بارے میں امام ابن عدی فرماتے ہیں:
"وهذا الحديث ليس بمحفوظ، عنِ ابن عُيَينة، وَعَبد الله بْنُ مُحَمد بْنِ سَعِيد بْنِ أبي مريم هذا إما أن يكون مغفلا لا يدري ما يخرج من رأسه أو يتعمد فإني رأيت له غير حديث مما لم أذكره أَيضًا هَاهُنا غير محفوظات"
(الکامل: 5/420)​

لہٰذا یہ سند ہی ابو اسحاق سے ثابت نہیں تو اس سے ان کی سماع کی تصریح کیسے ثابت ہو سکتی ہے؟

دوسری علت کا بیان:
اس حدیث کی دوسری علت یہ ہے کہ ابو اسحاق مختلط تھے اور آخر عمر میں ان کا حفاظہ کمزور ہو گیا تھا، جبکہ اسرائیل نے ان سے اختلاط کے بعد روایت کیا ہے۔

1- امام احمد بن حنبل ان لوگوں کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں جنہوں نے ابو اسحاق سے روایت کیا کہ: "زهير، وإسرائيل، ويونس بن أبي إسحاق بآخرة"
(سؤالات ابن ہانی للامام احمد: 2/220)​

ایک دوسری جگہ ابن رجب الیمونی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے پوچھا کہ کیا ابو اسحاق اختلاط کا شکار ہو گئے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا: "أي والله هؤلاء الصغار زهير، وإسرائيل، يزيدون في الإسناد وفي الكلام."

اسی طرح امام احمد نے فرمایا: "إسرائيل عن أبي إسحاق فيه لين، سمع منه بآخره"
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 2/330)​

2- اس کے علاوہ امام یحیی بن معین نے فرمایا: "زكريا بن أبي زائدة، و زهير بن حرب، وإسرائيل حديثهم عن أبي إسحاق قريب من السواء، وإنما أصحاب أبي إسحاق سفيان و شعبة"
(تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 3/372)​

تیسری علت کا بیان

تیسری بڑی علت جو اس حدیث میں موجود ہے وہ یہ کہ لفظ "حجل" اس روایت میں منکر ہے، اور دیگر کسی راوی نے اس کو ذکر نہیں کیا ہے۔
نیز یہی حدیث مسند احمد میں ایک دوسری جگہ بھی ابو اسحاق سے روایت کی گئی ہے جو درج ذیل ہے:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، وَهُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: لَمَّا خَرَجْنَا مِنْ مَكَّةَ اتَّبَعَتْنَا ابْنَةُ حَمْزَةَ تُنَادِي: يَا عَمِّ، يَا عَمِّ. قَالَ: فَتَنَاوَلْتُهَا بِيَدِهَا، فَدَفَعْتُهَا إِلَى فَاطِمَةَ، فَقُلْتُ: دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ. قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ اخْتَصَمْنَا فِيهَا أَنَا وَجَعْفَرٌ وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، فَقَالَ جَعْفَرٌ: ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا عِنْدِي - يَعْنِي أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ - وَقَالَ زَيْدٌ: ابْنَةُ أَخِي. وَقُلْتُ: أَنَا أَخَذْتُهَا وَهِيَ ابْنَةُ عَمِّي. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَّا أَنْتَ يَا جَعْفَرُ، فَأَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي، وَأَمَّا أَنْتَ يَا عَلِيُّ، فَمِنِّي وَأَنَا مِنْكَ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا زَيْدُ، فَأَخُونَا وَمَوْلَانَا، وَالْجَارِيَةُ عِنْدَ خَالَتِهَا، فَإِنَّ الْخَالَةَ وَالِدَةٌ " قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَلَا تَزَوَّجُهَا؟ قَالَ: " إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ
(مسند احمد: 2/160-161 ح 700)​

اس حدیث میں اس واقعے کا مکمل سیاق موجود ہے لیکن کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کہ ان مذکورہ صحابہ نے حجل کیا۔

اس کے علاوہ یہ حدیث حافظ بزار نے اپنی مسند میں اور ابن ابی عمر نے اپنی مسند میں بھی درج ذیل متن کے ساتھ روایت کی ہے:
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبِي عُمَرَ: وَثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيُّ، عَنْ يَزِيدَ ابن الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ نَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: "خَرَجَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ إِلَى مَكَّةَ، فَقَدِمَ بِبِنْتِ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: أَنَا آخُذُهَا وَأَنَا أَحَقُّ بِهَا، بِنْتُ عَمِّي وَعِنْدِي خَالَتُهَا، وَإِنَّمَا الْخَالَةُ أُمٌّ وَهِيَ أَحَقُّ. وَقَالَ عَلِيٌّ: بَلْ أَنَا أَحَقُّ بِهَا، هِيَ ابْنَةُ عَمِّي وعندي بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَهِيَ أَحَقُّ بِهَا، فَإِنِّي أَرْفَعُ صَوْتِي لِيَسْمَعَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حُجَّتِي قبل أن يخرج. وقال زيد: بل أَنَا أَحَقُّ بِهَا؟ خَرَجْتُ إِلَيْهَا وَسَافَرْتُ وَجِئْتُ بِهَا. فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَ: مَا شَأْنُكُمْ؟ قَالَ عَلِيٌّ: بِنْتُ عَمِّي وَأَنَا أَحَقُّ بِهَا، وَعِنْدِي ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَتَكُونُ مَعَهَا أَحَقُّ بِهَا مِنْ غَيْرِهَا. قَالَ جَعْفَرٌ: أَنَا أَحَقُّ بِهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْنَةُ عَمِّي وعندي خالتها، والخالة أم وفي أَحَقُّ بِهَا مِنْ غَيْرِهَا. وَقَالَ زيد: بَلْ أنا أحق بها يا رسول الله خَرَجْتُ إِلَيْهَا وَتَجَشَّمْتُ السَّفَرَ وَأَنْفَقْتُ، فَأَنَا أَحَقُّ بِهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: سَأَقْضِي بَيْنَكُمْ فِي هَذَا وَفِي غَيْرِهِ. قَالَ عَلِيٌّ: فَلَمَّا قَالَ: فِي غَيْرِهِ، قُلْتُ: نَزَلَ الْقُرْآنُ فِي رَفْعِنَا أَصْوَاتَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: أَمَّا أَنْتَ يَا زَيْدُ بْنَ حَارِثَةَ، فَمَوْلَايَ وَمَوْلَاهُمَا. قَالَ: قَدْ رَضِيتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: وَأَمَّا أنت يا جعفر، فأشبهت خَلقي وخُلقي، وأنخما مِنْ شَجَرَتِي الَّتِي خُلِقْتُ مِنْهَا. قَالَ: رَضِيتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: وَأَمَّا أَنْتَ يَا عَلِيُّ فَصَفِيِّي وَأَمِينِي- قَالَ يَزِيدُ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَسَنٍ فَقَالَ: إِنَّهُ قَالَ: أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ- قَالَ: رَضِيتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: وَأَمَّا الْجَارِيَةُ فَقَدْ قَضَيْتُ بِهَا لِجَعْفَرٍ، تَكُونُ مَعَ خَالَتِهَا وَالْخَالَةُ أُمٌّ. قَالُوا: سَلَّمْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ".
(مسند ابن ابی عمر بحوالہ اتحاف الخیرہ: 5/370 ح 4868 و بحر الزخار بمسند البزار3/105 ح 891)​

اس روایت میں بھی حجل کا کوئی ذکر نہیں جس کا صاف مطلب ہے کہ اس لفظ کا اضافہ سخت منکر ہے۔ اس کے برعکس اس آخری حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب ان صحابہ نے نبی سے یہ بات سنی تو انہوں نے کیا کہا یا کیا۔ اور اس حدیث میں انہوں نے صرف یہی کہا کہ ہم راضی ہوئے یا رسول اللہ، اور ہمیں قبول ہے یا رسول اللہ ﷺ، لیکن حجل کا کوئی ذکر نہیں۔

اسی لئے مسند احمد کے محقق شیخ شعیب الارناؤط بھی کہتے ہیں: "ولفظ الحجل في الحديث منكر غريب" (مسند احمد: 2/214)

اگر یہ روایت ثابت ہو تو۔۔۔

بالفرض اگر یہ روایت ثابت بھی ہو جائے تب بھی اس میں صوفیہ کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہی ثابت کیا جا سکتا ہے کہ کوئی خوشی کی خبر سننے پر چھلانگ لگانا جائز ہے جس کا رقص سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے علاوہ صحابہ نے یہ عمل ہرگز عبادت کی نیت سے نہیں کیا، نہ ہی انہوں نے اسے اللہ کی قربت حاصل کرنے لئے یا ذکر کے مخصوص حلقوے بنا کر کیا۔ بلکہ انہوں نے تو یہ ایسے ہی بلا اختیار خوشی کی وجہ سے کیا آخر کار امام الانبیاء سے ایسے الفاظ کون روز روز سنتا ہے؟ اور پھر صوفی حضرات کس کی تعریف پر رقص کرتے ہیں؟ بلکہ صوفیہ تو جان بوجھ کر بے قابو بھینس کی طرح موسیقی کے سر پر رقص کرتے ہیں اور اسے عبادت کا حصہ سمجھتے ہیں جو کہ اس حدیث کے استدلال کی حدوں سے بہت باہر ہے۔

دیکھیں صوفی رقص کچھ نمونے:

اسی لئے امام ابن الجوزی نے فرمایا: "واما الحجل فهو نوع من المشى يفعل عند الفرح فاين هو من الرقص"
(تلبیس ابلیس: 1/230)​

بلکہ صوفیوں کے ممدوح،ابن حجر الہیتمی المکی بھی اس روایت پر بحث کرتے ہوئے کہتا ہے:



" وتمسكوا أيضا بأنه قال لعلي : ( أنت مني وأنا منك ) ، فحجل . وقال لزيد : ( أنت أخونا ومولانا ) فحجل ... "
قال ابن حجر :
" والجواب : أن هذه كلها أحاديث منكرة ، وألفاظ موضوعة مزورة . ولو سلمت صحتها لم تتحقق حجتها ؛ أي : لأن المحرم هو الرقص الذي فيه تثن وتكسر، وهذا ليس كذلك ". انتهى.
"كف الرعاع عن محرمات اللهو والسماع" (75) .
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اگر کوئی صاحب فَحَجَلَ کا اردو ترجمہ فرمادیں تو میں پھر میں کچھ عرض کروں !
 
Top