ناصر نواز خان
رکن
- شمولیت
- ستمبر 07، 2020
- پیغامات
- 111
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 54
کیا حضرت طلحة بن عبید الله, علی رضی الله عنه کے خلاف جنگ جمل سے پیچھے ھٹ گئے تھے؟؟
مرزا جہلمی اور نیم رافضیوں کی پیش کردہ دلیل کی حالت ملاحظه فرمائیں !!
اس سلسلے میں مرزا جہلمی اور طاہر القادری کینیڈا والے نے المستدرك کا حواله دیا ہے۔
امام الحاکم نے کہا:
٥٥٩٤ - أخبرني الوليد، وأبو بكر بن قريش، ثنا الحسن بن سفيان، ثنا محمد بن عبدة، ثنا الحسن بن الحسين، ثنا رفاعة بن إياس الضبي، عن أبيه، عن جده، قال: كنا مع علي يوم الجمل، فبعث إلى طلحة بن عبيد الله أن القني فأتاه طلحة، فقال: نشدتك الله، هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ يقول: «من كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من ولاه، وعاد من عاداه» ؟ قال: نعم، قال: فلم تقاتلني؟ قال: لم أذكر، قال: فانصرف طلحة
[التعليق - من تلخيص المستدرك للذهبي:رقم/5594] - الحسن هو العرني ليس بثقة
۔
ترجمه:
جنگ جَمل کے دن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھاکہ اُنہوں نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو بھیجا کہ وہ آپ سے ملاقات کریں۔ جب حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ آئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! جو اُسے محبوب رکھے تو اُسے محبوب رکھ اور جو اس سے دشمنی کرے تو اُس سے دشمنی کر؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ فرمایا: پھرتم مجھ سے جنگ کیوں کر رہے ہو؟ اُنہوں نے کہا: مجھے یہ حدیث یاد نہیں رہی تھی۔ پھر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ سے رجوع کرتے ہوئے) واپس لوٹ گئے۔
.
تبصرہ:
مرزا جی یتیم فی العلم کے لئے عرض ہے کہ اس قدر مکاری کس کو خوش کرنے کے لئے؟؟؟؟ ھر وقت صحیح الاسناد کا رونا پیٹنا اور خود کذاب اور مجھولین کی روایات سے حجت لینا منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟
۔
اس روایت کو گھڑنے والا
"محمد بن عبدة بن حرب کذاب ھے".
اسکے بارے میں محدثین کی رائے ملاحظه کریں:
(1) امام الذھبی نے کہا:
٣٨٦٠ - محمد بن عبدة بن حرب القاضي: بعد الثلاثمائة، كذبه ابن عدي
یہ قاضی تھا۔ اس کو ابن عدی نے کذاب قرار دیا ہے".
[دیوان الضعفاء للذھبي: صفحة364]
.
امام الدارقطنی نے کہا:
(2) قال السهمي: سألت الدارقطني عن محمد بن عبدة بن حرب القاضي؟ فقال: لا شيء آفة.
[سؤالاته الدارقطني للسهمي:٤٤]
۔
(3) امام ابن الجوی نے کہا:
٣١٠٧ - محمد بن عبدة بن حرب أبو عبيد الله العباداني القاضي قال ابن عدي كان يحدث من كتب الناس عن قوم لم يرهم ويدعي قوما لم يلحقهم وقال لي ((كتبت عن بكر بن عيسى الراسبي)) هذا كذب عظيم لأنه كان يقول ((ولدت سنة ثماني عشرة)) وبكر مات سنة أربع ومائتين
[الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي: جزء3/صفحة82]
۔
(4) امام الذھبی نے دوسری کتاب میں کہا:
٥٧٨٨ - محمد بن عبدة بن حرب القاضي متأخر كذبه أبو أحمد بن عدي
[المغنى في الضعفاء للذهبي: جزء/صفحة610]
۔
(5) امام الذھبی نے تیسری بار اپنی تیسری کتاب میں کہا:
والقاضي أبو عبيد الله محمد بن عبدة بن حرب - وليس بثقة
[سير اعلام النبلاء للذهبي: جزء14/صفحة398]
۔
(6) امام الذھبی نے چوتھی بار کہا:
[٧٩٠٢ - محمد بن عبدة بن حرب، أبو عبيد الله القاضي البصري.]
عن علي ابن المديني، وهدبة.
وعنه أبو حفص الزيات، وعلى بن عمر الحربي، وطائفة.
قال البرقانى وغيره: هو من المتروكين.
وقال ابن عدي: كذاب، حدث عمن لم يرهم.
توفى سنة ثلاث عشرة وثلاثمائة ببغداد.
وقال الدارقطني: لا شئ، كان آفة ، سمعت السبيعى يقول: انكشف أمره.
قلت: كان ولى قضاء مصر، وله مائة مملوك، وكان خمارويه قرر له على القضاء في كل شهر ثلاثة آلاف دينار، قاله ابن زولاق، وطول ترجمته.
وفي أمالى الخطيب من طريق الحسن بن أحمد بن سعدان: حدثنا محمد بن عبدة، حدثنا إبراهيم بن الحجاج، حدثنا حماد بن سلمة، عن قتادة، عن أنس، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: في الجنة دار يقال لها دار الفرح لا يدخلها إلا من يفرح الصبيان.
هذا كذب
[ميزان الاعتدال للذهبي: جزء3/صفحة634]
۔
(7) امام ابن حجر نے کہا:
٧١٢٩ - محمد بن عبدة بن حرب أبو عبيد الله القاضي المصري.
عن علي بن المديني وهدبة.
وعنه أبو حفص الزيات وعلي بن عمر الحربي وطائفة.
قال البرقاني، وغيره: هو من المتروكين.
وقال ابن عدي: كذاب حدث عن من لم يرهم.
توفي سنة ثلاث عشرة وثلاث مئة ببغداد.
وقال الدارقطني: لا شيء كان آفة سمعت السبيعي يقول: انكشف أمره.
قلت: كان ولي قضاء مصر وله مئة مملوك وكان خمارويه قرر له على القضاء في كل شهر ثلاثة آلاف دينار قاله ابن زولاق وطول ترجمته.
وفي أمالي الخطيب من طريق الحسن بن أحمد بن سعدان حدثنا محمد بن عبدة حدثنا إبراهيم بن الحجاج حدثنا حماد بن سلمة عن قتادة، عن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: في الجنة دار يقال لها: دار الفرح لا يدخلها إلا من يفرح الصبيان. هذا كذب. انتهى.
وقد اعتذر ابن زولاق عما نسب إليه من الكذب بعذر فيه نظر.
وقال أبو علي حامد بن محمد الهروي: كان أبو عبيد الله أولا يحدث، عن أبي الأشعث وطبقته ثم ارتقى إلى بندار والزمن ثم حدث عن إبراهيم بن الحجاج السامي، وأبي الربيع الزهراني وطبقتهما، فقال لي يوما: يا أبا علي عزمت أن أحدث، عن أبي الوليد الطيالسي والحوضي ومسدد فقلت: الله الله أيها القاضي كنا نرجم. ⦗٣٢٧⦘
وقال ابن عدي: أخبرني إبراهيم بن محمد بن عيسى عنه قال: كتبت عن بكر بن عيسى الراسبي.
قال ابن عدي: وبكر هذا حدث عنه أحمد بن حنبل ومات سنة أربع ومئتين فدعوى ابن حرب أنه كتب عنه كذب عظيم لأنه يقول: إنه ولد سنة ثماني عشرة ومئتين فكيف يكتب عنه بعد أن يموت بثمان سنين.
قال: ورأيت أنا كتبه التي يحدث منها محكوكة الظهر وقد حدث بأحاديث لم يحدث بها إلا الحفاظ الأجلاد من أصحاب الحديث والضعف على حديثه بين
[لسان الميزان لابن حجر: جزء7/صفحة326]ت- أبي غدة
۔
معلوم ہوا کہ محمد بن عبدة بن حرب مشھور کذاب ھے۔ یہ اُن لوگوں سے روایت بیان کرتا جو اُس کی پیدائش سے بھی پہلے وفات پاچکے ہوتے تھے۔ اور یہ خبر بھی اسی کذاب کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔
۔
محمد بن عبدہ بن حرب نے اس روایت کو الحسن بن الحسين العرني سے بیان کیا۔ جو ضعیف بھی ہے اور اپنے وقت کا شیعوں کا سردار بھی ہے ملاحظه ھو:
الحسن (٣) بن الحسين العرني الكوفي روى عن شريك والمعلى ابن عرفان وكادح بن جعفر روى عنه ابنه الحسين وأحمد بن عثمان بن حكيم الأودي سمعت أبي يقول ذلك.
۔
حدثنا عبد الرحمن قال سألت أبي عنه فقال: لم يكن بصدوق عندهم كان من رؤساء الشيعة
ترجمه:
امام العلل امام ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے والد سے الحسن بن الحسین العرنی کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے کہا - یہ ہمارے نزدیک سچوں میں سے نہیں یہ شیعوں کے سرداروں میں سے ہے".
[الجرح والتعدیل لابن ابي حاتم الرازي: جزء3/صفحة6]
۔
امام ابن عدی نے کہا:
٤٦٦- الحسن بن الحسين العرني الكوفي.
روى أحاديث مناكير
یہ منکر خبریں بیان کرتا ھے".
.
پھر امام ابن عدی نے الحسن بن الحسین سے مروی روایات ذکر کیں اور فرمایا:
وهذان الحديثان ليسا بمحفوظين يرويهما حسن بن الحسين وللحسن بن الحسين أحاديث كثيرة، ولا يشبه حديثه حديث الثقات
ترجمه: مذکورہ احادیث محفوظ نہیں ہیں۔ الحسن بن الحسین سے اکثر احادیث مروی ہیں۔ اور اِس کی حدیث سچے حافظ ضابط (ثقة) راویوں کے جیسی حدیث نہیں ہے".
[الکامل في الضعفاء الرجال لابن عدي: جزء3/صفحة181]
.
اس سند میں رفاعة بن أياس کے والد "ایاس بن نذیر" مجھول ہیں۔
اور ایاس بن نذیر کے والد "نذیر" بھی مجھول ہیں۔
یہ حالت ہے اس خبر کی اور مرزا اس روایت کو گلاب جامن کی شیرنی سمجھ کر چاٹ رہا ہے
۔
اصل میں رافضیوں کی طرف سے اس کہانی کو گھڑنے کے کئی مقاصد تھے۔
1- اگر طلحة بن عبید الله (عشرة مبشرة میں سے ہیں) رضی الله عنه کا جنگ سے رجوع ثابت ہوگیا۔ تو معاویه رضى الله عنه کا مؤقف (قصاص عثمان کا مطالبه) بیکار چلا جائے گا۔ کیونکه طلحه جو بڑے عالم فقیہ اور محدث ہیں وہ رجوع کر رھے ہیں۔ تو معاویه کو بھی رجوع کرنا چاھیئے تھا۔ لہذا معاویہ سراسر غلطی (زیادتی) پر تھے۔
2- اگر ھم (رافضی) طلحة رضی الله عنه کا رجوع ثابت کردیں۔ تو مروان بن الحکم کو ہی طلحة کا قاتل بنادیں گے۔ تاکہ ایک تیر سے تین چار شکار ہوجائیں۔ یعنی طلحه بھی مرجائیں ، مروان کو قاتل بھی بنادیں۔ اور معاویه کو سرارسر غلط اور زیادتی کرنے والا بھی ثابت کردیں گے۔
3- پھر طلحه کا جنگ سے رجوع والی خبر گھڑنے کے بعد رافضیوں نے مروان کے بارے میں روایات گھڑنا شروع کردیں کہ مروان نے ہی طلحة بن عبید الله کو قتل کیا گھٹنے میں تیر مار کر۔ (بلکل بھی ثابت نہیں)
اتنے سارے قرائن اور شواھد کے ہوتے ہوئے مرزا چو چو کہتا ھے المستدرك میں روایت لائے ہیں امام حاکم
مقصد یہی ھے کہ معاویه رضی الله عنه کے گروہ کو بدنام کیا جائے۔
۔
____________________________________________
اس سے ملتی جلتی ایک اور روایت بھی امام الحاکم نے زکر کر رکھی ھے
ملاحظه ھو:
٥٦٠١ - أخبرنا علي بن المؤمل بن الحسن بن عيسى، ثنا محمد بن يونس، ثنا جندل بن والق، ثنا محمد بن عمر المازني (هو واقدي مشهور بالكذب)، عن أبي عامر الأنصاري، عن ثور بن مجزأة، قال: مررت بطلحة بن عبيد الله يوم الجمل وهو صريع في آخر رمق، فوقفت عليه فرفع رأسه، فقال: إني لأرى وجه رجل كأنه القمر، ممن أنت؟ فقلت: من أصحاب أمير المؤمنين علي، فقال: ابسط يدك أبايعك، فبسطت يدي وبايعني، ففاضت نفسه، فأتيت عليا فأخبرته بقول طلحة، فقال: «الله أكبر الله أكبر صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم أبى الله أن يدخل طلحة الجنة إلا وبيعتي في عنقه»
ترجمه:
ثور بن مجزأہ سے روایت کیاہے کہ اُنہوں نے کہا: میں جَمل کے دن حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے قریب سے گزرا جبکہ وہ آخری لمحات کی غنودگی میں تھے۔ میں اُن کے پاس کھڑا ہوا تو اُنہوں نے سر اٹھاتے ہوئے فرمایا: میں ایساچہرہ دیکھ رہاہوں گویا وہ چاند ہے، تم کون ہو؟ میں نے کہا: امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے ہوں۔ فرمانے لگے: ہاتھ بڑھاؤ تاکہ میں تمہاری بیعت کروں، میں نے ہاتھ بڑھایاتو اُنہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی، پھر اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آ کر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے اس معاملے کی خبر دی تو اُنہوں نے فرمایا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا تھا (کہ طلحہ جنتی ہے) اور اللہ تعالیٰ طلحہ کو جنت میں داخل نہ فرماتا اگر اُس کی گردن میں میری بیعت نہ ہوتی۔
[أخرجه الحاكم في المستدرك، 5601، التعليق - من تلخيص الذهبي:5601 - سكت عنه الذهبي في التلخيص]
تبصرہ:
® محمد بن يونس بن موسىٰ بن سليمان بن عبيد أبو العباس الکدیمي كذاب ہے۔
(1) امام الذھبي نے کہا:
١٣٩ - الكديمي محمد بن يونس بن موسى *
الشيخ، الإمام، الحافظ، الكبير، المعمر، أبو العباس محمد بن يونس بن موسى بن سليمان بن عبيد بن ربيعة بن كديم القرشي، السامي، الكديمي، البصري، الضعيف
قال ابن عدي: اتهم الكديمي بوضع الحديث.
وقال ابن حبان: لعله قد وضع أكثر من ألف حديث.
قال ابن عدي: وادعى رؤية قوم لم يرهم، ترك عامة مشايخنا الرواية عنه.
وقال أبو الحسين بن المنادي: كتبنا عن الكديمي، ثم بلغنا كلام أبي داود فيه، فرمينا بما سمعنا منه
قال أبو عبيد الآجري: رأيت أبا داود يطلق في محمد بن يونس الكذب، وكان موسى بن هارون ينهى الناس عن السماع من الكديمي.
وقال موسى، وهو متعلق بأستار الكعبة: اللهم! إني أشهدك أن الكديمي كذاب، يضع الحديث
قال القاسم بن زكريا المطرز: أنا أجاثي الكديمي بين يدي الله
[سیر اعلام النبلاء للذھبي: جزء13/صفحة302]
.
(2) امام ابن حجر نے کہا:
٦٤١٩ - محمد بن يونس بن موسى بن سليمان الكديمي، بالتصغير، أبو العباس السامي، بالمهملة، البصري: ضعيف، ولم يثبت أن أبا داود روى عنه، من صغار الحادية عشرة، مات سنة ست وثمانين. (د)
[تقریب التھذیب لابن حجر: جزء3/صفحة338]
.
(3) امام ابن عدی نے کہا:
١٧٨٠- محمد بن يونس بن موسى أبو العباس الكديمي البصري.
اتهم بوضع الحديث وبسرقته وادعى رؤية قوم لم يرهم ورواية عن قوم لا يعرفون وترك عامة مشايخنا الرواية عنه ومن حدث عنه نسبه إلى جده موسى بأن لا يعرف
[الکامل في الضعفاء الرجال لابن عدي: جزء7/صفحة553]
.
(4) امام ابن حبان نے کہا:
١٠٢٠ - محمد بن يونس بن موسى
أبو العباس البصري الذي يقال له: الكديمي، من أهل بغداد، يروي عن روح بن عبادة والخريبي والعقدي، وكان يضع على الثقات الحديث وضعا، ولعله قد وضع أكثر من ألف حديث
[المجروحین لابن حبان: جزء2/صفحة332]
.
(5) امام الذھبي نے کہا:
[٨٣٥٣ - محمد بن يونس بن موسى القرشي السامى الكديمى البصري الحافظ أحد المتروكين.]
[میزان الاعتدال للذھبي: جزء4/صفحة74]
.
(6) امام الدارقطنی نے اپنی الضعفاء میں درج کیا اس کو
(٤٨٦) محمد بن يونس بن موسى الشامي الكديمي
[[الضعفاء والمتروکون للدارقطني: جزء3/صفحة131]
.
(7) امام ابن الجوزی نے کہا:
٣٢٥٧ - محمد بن يونس بن موسى أبو العباس الشامي الكديمي البصري يروي عن أبي نعيم وغيره
قال الدراقطني ضعيف
وقال ابن عدي أتهم الكديمي بوضع الحديث وسرقته وادعى برؤية قوم لم يرهم وامتنع عامة مشايخنا من الرواية عنه ومن حدث عنه ينسبه إلى جده لئلا يعرف
قال هارون الحمال تقرب إلى الكديمي بالكذب وعرض على أبي حاتم الرازي شيء من حديثه فقال ليس هذا حديث أهل الصدق
وقال ابن حبان كان يضع الحديث على الثقات لعله قد وضع أكثر من ألف حديث
وقال الأزدي متروك الحديث
[الضعفاء والمتروکون لابن الجوزي: جزء3/صفحة109]
.
(8) امام الدارقطنی نے کہا:
٧٤ سمعت الدارقطني يقول كان الكديمي يتهم بوضع الحديث". [سؤالات السلمي للدارقطني: 308]
.
® نیز اس روایت کا دوسرا راوی "محمد بن عمر المازنی (الواقدی) جو مشھور کذاب ھے۔ بچوں کو بھی علم ھے اس بات کا۔
® أبي عامر الأنصاري مجھول ھے
® ثور بن مجزأة مجھول ہے۔
یہ حال ھے مرزائی انجینیئر کا۔ عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھک سجائے اکیلے ھی صبح شام یوٹیوب پر یبڑیاں مار رہا ہوتا ھے۔ اور حال اس کا یہ ھے کہ اس قسم کی اسناد جو ظلم سے بھری ھوئی ھیں، سے حجت لے رہا ھے۔
مرزا جہلمی اور نیم رافضیوں کی پیش کردہ دلیل کی حالت ملاحظه فرمائیں !!
اس سلسلے میں مرزا جہلمی اور طاہر القادری کینیڈا والے نے المستدرك کا حواله دیا ہے۔
امام الحاکم نے کہا:
٥٥٩٤ - أخبرني الوليد، وأبو بكر بن قريش، ثنا الحسن بن سفيان، ثنا محمد بن عبدة، ثنا الحسن بن الحسين، ثنا رفاعة بن إياس الضبي، عن أبيه، عن جده، قال: كنا مع علي يوم الجمل، فبعث إلى طلحة بن عبيد الله أن القني فأتاه طلحة، فقال: نشدتك الله، هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ يقول: «من كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من ولاه، وعاد من عاداه» ؟ قال: نعم، قال: فلم تقاتلني؟ قال: لم أذكر، قال: فانصرف طلحة
[التعليق - من تلخيص المستدرك للذهبي:رقم/5594] - الحسن هو العرني ليس بثقة
۔
ترجمه:
جنگ جَمل کے دن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھاکہ اُنہوں نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو بھیجا کہ وہ آپ سے ملاقات کریں۔ جب حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ آئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! جو اُسے محبوب رکھے تو اُسے محبوب رکھ اور جو اس سے دشمنی کرے تو اُس سے دشمنی کر؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ فرمایا: پھرتم مجھ سے جنگ کیوں کر رہے ہو؟ اُنہوں نے کہا: مجھے یہ حدیث یاد نہیں رہی تھی۔ پھر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ سے رجوع کرتے ہوئے) واپس لوٹ گئے۔
.
تبصرہ:
مرزا جی یتیم فی العلم کے لئے عرض ہے کہ اس قدر مکاری کس کو خوش کرنے کے لئے؟؟؟؟ ھر وقت صحیح الاسناد کا رونا پیٹنا اور خود کذاب اور مجھولین کی روایات سے حجت لینا منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟
۔
اس روایت کو گھڑنے والا
"محمد بن عبدة بن حرب کذاب ھے".
اسکے بارے میں محدثین کی رائے ملاحظه کریں:
(1) امام الذھبی نے کہا:
٣٨٦٠ - محمد بن عبدة بن حرب القاضي: بعد الثلاثمائة، كذبه ابن عدي
یہ قاضی تھا۔ اس کو ابن عدی نے کذاب قرار دیا ہے".
[دیوان الضعفاء للذھبي: صفحة364]
.
امام الدارقطنی نے کہا:
(2) قال السهمي: سألت الدارقطني عن محمد بن عبدة بن حرب القاضي؟ فقال: لا شيء آفة.
[سؤالاته الدارقطني للسهمي:٤٤]
۔
(3) امام ابن الجوی نے کہا:
٣١٠٧ - محمد بن عبدة بن حرب أبو عبيد الله العباداني القاضي قال ابن عدي كان يحدث من كتب الناس عن قوم لم يرهم ويدعي قوما لم يلحقهم وقال لي ((كتبت عن بكر بن عيسى الراسبي)) هذا كذب عظيم لأنه كان يقول ((ولدت سنة ثماني عشرة)) وبكر مات سنة أربع ومائتين
[الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي: جزء3/صفحة82]
۔
(4) امام الذھبی نے دوسری کتاب میں کہا:
٥٧٨٨ - محمد بن عبدة بن حرب القاضي متأخر كذبه أبو أحمد بن عدي
[المغنى في الضعفاء للذهبي: جزء/صفحة610]
۔
(5) امام الذھبی نے تیسری بار اپنی تیسری کتاب میں کہا:
والقاضي أبو عبيد الله محمد بن عبدة بن حرب - وليس بثقة
[سير اعلام النبلاء للذهبي: جزء14/صفحة398]
۔
(6) امام الذھبی نے چوتھی بار کہا:
[٧٩٠٢ - محمد بن عبدة بن حرب، أبو عبيد الله القاضي البصري.]
عن علي ابن المديني، وهدبة.
وعنه أبو حفص الزيات، وعلى بن عمر الحربي، وطائفة.
قال البرقانى وغيره: هو من المتروكين.
وقال ابن عدي: كذاب، حدث عمن لم يرهم.
توفى سنة ثلاث عشرة وثلاثمائة ببغداد.
وقال الدارقطني: لا شئ، كان آفة ، سمعت السبيعى يقول: انكشف أمره.
قلت: كان ولى قضاء مصر، وله مائة مملوك، وكان خمارويه قرر له على القضاء في كل شهر ثلاثة آلاف دينار، قاله ابن زولاق، وطول ترجمته.
وفي أمالى الخطيب من طريق الحسن بن أحمد بن سعدان: حدثنا محمد بن عبدة، حدثنا إبراهيم بن الحجاج، حدثنا حماد بن سلمة، عن قتادة، عن أنس، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: في الجنة دار يقال لها دار الفرح لا يدخلها إلا من يفرح الصبيان.
هذا كذب
[ميزان الاعتدال للذهبي: جزء3/صفحة634]
۔
(7) امام ابن حجر نے کہا:
٧١٢٩ - محمد بن عبدة بن حرب أبو عبيد الله القاضي المصري.
عن علي بن المديني وهدبة.
وعنه أبو حفص الزيات وعلي بن عمر الحربي وطائفة.
قال البرقاني، وغيره: هو من المتروكين.
وقال ابن عدي: كذاب حدث عن من لم يرهم.
توفي سنة ثلاث عشرة وثلاث مئة ببغداد.
وقال الدارقطني: لا شيء كان آفة سمعت السبيعي يقول: انكشف أمره.
قلت: كان ولي قضاء مصر وله مئة مملوك وكان خمارويه قرر له على القضاء في كل شهر ثلاثة آلاف دينار قاله ابن زولاق وطول ترجمته.
وفي أمالي الخطيب من طريق الحسن بن أحمد بن سعدان حدثنا محمد بن عبدة حدثنا إبراهيم بن الحجاج حدثنا حماد بن سلمة عن قتادة، عن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: في الجنة دار يقال لها: دار الفرح لا يدخلها إلا من يفرح الصبيان. هذا كذب. انتهى.
وقد اعتذر ابن زولاق عما نسب إليه من الكذب بعذر فيه نظر.
وقال أبو علي حامد بن محمد الهروي: كان أبو عبيد الله أولا يحدث، عن أبي الأشعث وطبقته ثم ارتقى إلى بندار والزمن ثم حدث عن إبراهيم بن الحجاج السامي، وأبي الربيع الزهراني وطبقتهما، فقال لي يوما: يا أبا علي عزمت أن أحدث، عن أبي الوليد الطيالسي والحوضي ومسدد فقلت: الله الله أيها القاضي كنا نرجم. ⦗٣٢٧⦘
وقال ابن عدي: أخبرني إبراهيم بن محمد بن عيسى عنه قال: كتبت عن بكر بن عيسى الراسبي.
قال ابن عدي: وبكر هذا حدث عنه أحمد بن حنبل ومات سنة أربع ومئتين فدعوى ابن حرب أنه كتب عنه كذب عظيم لأنه يقول: إنه ولد سنة ثماني عشرة ومئتين فكيف يكتب عنه بعد أن يموت بثمان سنين.
قال: ورأيت أنا كتبه التي يحدث منها محكوكة الظهر وقد حدث بأحاديث لم يحدث بها إلا الحفاظ الأجلاد من أصحاب الحديث والضعف على حديثه بين
[لسان الميزان لابن حجر: جزء7/صفحة326]ت- أبي غدة
۔
معلوم ہوا کہ محمد بن عبدة بن حرب مشھور کذاب ھے۔ یہ اُن لوگوں سے روایت بیان کرتا جو اُس کی پیدائش سے بھی پہلے وفات پاچکے ہوتے تھے۔ اور یہ خبر بھی اسی کذاب کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔
۔
محمد بن عبدہ بن حرب نے اس روایت کو الحسن بن الحسين العرني سے بیان کیا۔ جو ضعیف بھی ہے اور اپنے وقت کا شیعوں کا سردار بھی ہے ملاحظه ھو:
الحسن (٣) بن الحسين العرني الكوفي روى عن شريك والمعلى ابن عرفان وكادح بن جعفر روى عنه ابنه الحسين وأحمد بن عثمان بن حكيم الأودي سمعت أبي يقول ذلك.
۔
حدثنا عبد الرحمن قال سألت أبي عنه فقال: لم يكن بصدوق عندهم كان من رؤساء الشيعة
ترجمه:
امام العلل امام ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے والد سے الحسن بن الحسین العرنی کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے کہا - یہ ہمارے نزدیک سچوں میں سے نہیں یہ شیعوں کے سرداروں میں سے ہے".
[الجرح والتعدیل لابن ابي حاتم الرازي: جزء3/صفحة6]
۔
امام ابن عدی نے کہا:
٤٦٦- الحسن بن الحسين العرني الكوفي.
روى أحاديث مناكير
یہ منکر خبریں بیان کرتا ھے".
.
پھر امام ابن عدی نے الحسن بن الحسین سے مروی روایات ذکر کیں اور فرمایا:
وهذان الحديثان ليسا بمحفوظين يرويهما حسن بن الحسين وللحسن بن الحسين أحاديث كثيرة، ولا يشبه حديثه حديث الثقات
ترجمه: مذکورہ احادیث محفوظ نہیں ہیں۔ الحسن بن الحسین سے اکثر احادیث مروی ہیں۔ اور اِس کی حدیث سچے حافظ ضابط (ثقة) راویوں کے جیسی حدیث نہیں ہے".
[الکامل في الضعفاء الرجال لابن عدي: جزء3/صفحة181]
.
اس سند میں رفاعة بن أياس کے والد "ایاس بن نذیر" مجھول ہیں۔
اور ایاس بن نذیر کے والد "نذیر" بھی مجھول ہیں۔
یہ حالت ہے اس خبر کی اور مرزا اس روایت کو گلاب جامن کی شیرنی سمجھ کر چاٹ رہا ہے
۔
اصل میں رافضیوں کی طرف سے اس کہانی کو گھڑنے کے کئی مقاصد تھے۔
1- اگر طلحة بن عبید الله (عشرة مبشرة میں سے ہیں) رضی الله عنه کا جنگ سے رجوع ثابت ہوگیا۔ تو معاویه رضى الله عنه کا مؤقف (قصاص عثمان کا مطالبه) بیکار چلا جائے گا۔ کیونکه طلحه جو بڑے عالم فقیہ اور محدث ہیں وہ رجوع کر رھے ہیں۔ تو معاویه کو بھی رجوع کرنا چاھیئے تھا۔ لہذا معاویہ سراسر غلطی (زیادتی) پر تھے۔
2- اگر ھم (رافضی) طلحة رضی الله عنه کا رجوع ثابت کردیں۔ تو مروان بن الحکم کو ہی طلحة کا قاتل بنادیں گے۔ تاکہ ایک تیر سے تین چار شکار ہوجائیں۔ یعنی طلحه بھی مرجائیں ، مروان کو قاتل بھی بنادیں۔ اور معاویه کو سرارسر غلط اور زیادتی کرنے والا بھی ثابت کردیں گے۔
3- پھر طلحه کا جنگ سے رجوع والی خبر گھڑنے کے بعد رافضیوں نے مروان کے بارے میں روایات گھڑنا شروع کردیں کہ مروان نے ہی طلحة بن عبید الله کو قتل کیا گھٹنے میں تیر مار کر۔ (بلکل بھی ثابت نہیں)
اتنے سارے قرائن اور شواھد کے ہوتے ہوئے مرزا چو چو کہتا ھے المستدرك میں روایت لائے ہیں امام حاکم
مقصد یہی ھے کہ معاویه رضی الله عنه کے گروہ کو بدنام کیا جائے۔
۔
____________________________________________
اس سے ملتی جلتی ایک اور روایت بھی امام الحاکم نے زکر کر رکھی ھے
ملاحظه ھو:
٥٦٠١ - أخبرنا علي بن المؤمل بن الحسن بن عيسى، ثنا محمد بن يونس، ثنا جندل بن والق، ثنا محمد بن عمر المازني (هو واقدي مشهور بالكذب)، عن أبي عامر الأنصاري، عن ثور بن مجزأة، قال: مررت بطلحة بن عبيد الله يوم الجمل وهو صريع في آخر رمق، فوقفت عليه فرفع رأسه، فقال: إني لأرى وجه رجل كأنه القمر، ممن أنت؟ فقلت: من أصحاب أمير المؤمنين علي، فقال: ابسط يدك أبايعك، فبسطت يدي وبايعني، ففاضت نفسه، فأتيت عليا فأخبرته بقول طلحة، فقال: «الله أكبر الله أكبر صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم أبى الله أن يدخل طلحة الجنة إلا وبيعتي في عنقه»
ترجمه:
ثور بن مجزأہ سے روایت کیاہے کہ اُنہوں نے کہا: میں جَمل کے دن حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے قریب سے گزرا جبکہ وہ آخری لمحات کی غنودگی میں تھے۔ میں اُن کے پاس کھڑا ہوا تو اُنہوں نے سر اٹھاتے ہوئے فرمایا: میں ایساچہرہ دیکھ رہاہوں گویا وہ چاند ہے، تم کون ہو؟ میں نے کہا: امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے ہوں۔ فرمانے لگے: ہاتھ بڑھاؤ تاکہ میں تمہاری بیعت کروں، میں نے ہاتھ بڑھایاتو اُنہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی، پھر اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آ کر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے اس معاملے کی خبر دی تو اُنہوں نے فرمایا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا تھا (کہ طلحہ جنتی ہے) اور اللہ تعالیٰ طلحہ کو جنت میں داخل نہ فرماتا اگر اُس کی گردن میں میری بیعت نہ ہوتی۔
[أخرجه الحاكم في المستدرك، 5601، التعليق - من تلخيص الذهبي:5601 - سكت عنه الذهبي في التلخيص]
تبصرہ:
® محمد بن يونس بن موسىٰ بن سليمان بن عبيد أبو العباس الکدیمي كذاب ہے۔
(1) امام الذھبي نے کہا:
١٣٩ - الكديمي محمد بن يونس بن موسى *
الشيخ، الإمام، الحافظ، الكبير، المعمر، أبو العباس محمد بن يونس بن موسى بن سليمان بن عبيد بن ربيعة بن كديم القرشي، السامي، الكديمي، البصري، الضعيف
قال ابن عدي: اتهم الكديمي بوضع الحديث.
وقال ابن حبان: لعله قد وضع أكثر من ألف حديث.
قال ابن عدي: وادعى رؤية قوم لم يرهم، ترك عامة مشايخنا الرواية عنه.
وقال أبو الحسين بن المنادي: كتبنا عن الكديمي، ثم بلغنا كلام أبي داود فيه، فرمينا بما سمعنا منه
قال أبو عبيد الآجري: رأيت أبا داود يطلق في محمد بن يونس الكذب، وكان موسى بن هارون ينهى الناس عن السماع من الكديمي.
وقال موسى، وهو متعلق بأستار الكعبة: اللهم! إني أشهدك أن الكديمي كذاب، يضع الحديث
قال القاسم بن زكريا المطرز: أنا أجاثي الكديمي بين يدي الله
[سیر اعلام النبلاء للذھبي: جزء13/صفحة302]
.
(2) امام ابن حجر نے کہا:
٦٤١٩ - محمد بن يونس بن موسى بن سليمان الكديمي، بالتصغير، أبو العباس السامي، بالمهملة، البصري: ضعيف، ولم يثبت أن أبا داود روى عنه، من صغار الحادية عشرة، مات سنة ست وثمانين. (د)
[تقریب التھذیب لابن حجر: جزء3/صفحة338]
.
(3) امام ابن عدی نے کہا:
١٧٨٠- محمد بن يونس بن موسى أبو العباس الكديمي البصري.
اتهم بوضع الحديث وبسرقته وادعى رؤية قوم لم يرهم ورواية عن قوم لا يعرفون وترك عامة مشايخنا الرواية عنه ومن حدث عنه نسبه إلى جده موسى بأن لا يعرف
[الکامل في الضعفاء الرجال لابن عدي: جزء7/صفحة553]
.
(4) امام ابن حبان نے کہا:
١٠٢٠ - محمد بن يونس بن موسى
أبو العباس البصري الذي يقال له: الكديمي، من أهل بغداد، يروي عن روح بن عبادة والخريبي والعقدي، وكان يضع على الثقات الحديث وضعا، ولعله قد وضع أكثر من ألف حديث
[المجروحین لابن حبان: جزء2/صفحة332]
.
(5) امام الذھبي نے کہا:
[٨٣٥٣ - محمد بن يونس بن موسى القرشي السامى الكديمى البصري الحافظ أحد المتروكين.]
[میزان الاعتدال للذھبي: جزء4/صفحة74]
.
(6) امام الدارقطنی نے اپنی الضعفاء میں درج کیا اس کو
(٤٨٦) محمد بن يونس بن موسى الشامي الكديمي
[[الضعفاء والمتروکون للدارقطني: جزء3/صفحة131]
.
(7) امام ابن الجوزی نے کہا:
٣٢٥٧ - محمد بن يونس بن موسى أبو العباس الشامي الكديمي البصري يروي عن أبي نعيم وغيره
قال الدراقطني ضعيف
وقال ابن عدي أتهم الكديمي بوضع الحديث وسرقته وادعى برؤية قوم لم يرهم وامتنع عامة مشايخنا من الرواية عنه ومن حدث عنه ينسبه إلى جده لئلا يعرف
قال هارون الحمال تقرب إلى الكديمي بالكذب وعرض على أبي حاتم الرازي شيء من حديثه فقال ليس هذا حديث أهل الصدق
وقال ابن حبان كان يضع الحديث على الثقات لعله قد وضع أكثر من ألف حديث
وقال الأزدي متروك الحديث
[الضعفاء والمتروکون لابن الجوزي: جزء3/صفحة109]
.
(8) امام الدارقطنی نے کہا:
٧٤ سمعت الدارقطني يقول كان الكديمي يتهم بوضع الحديث". [سؤالات السلمي للدارقطني: 308]
.
® نیز اس روایت کا دوسرا راوی "محمد بن عمر المازنی (الواقدی) جو مشھور کذاب ھے۔ بچوں کو بھی علم ھے اس بات کا۔
® أبي عامر الأنصاري مجھول ھے
® ثور بن مجزأة مجھول ہے۔
یہ حال ھے مرزائی انجینیئر کا۔ عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھک سجائے اکیلے ھی صبح شام یوٹیوب پر یبڑیاں مار رہا ہوتا ھے۔ اور حال اس کا یہ ھے کہ اس قسم کی اسناد جو ظلم سے بھری ھوئی ھیں، سے حجت لے رہا ھے۔