سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام
از : الرحیق المختوم
ــــــــــــــــــــــــــ
إسلام حمزة بن عبد المطلب:
خلال هذا الجو الملبد بسحائب الظلم والطغيان أضاء برق نور للمقهورين طريقهم، ألا وهو إسلام حمزة بن عبد المطلب رضي الله عنه، أسلم في أواخر السنة السادسة من النبوة، والأغلب أنه أسلم في شهر ذي الحجة.
وسبب إسلامه أن أبا جهل مر برسول الله صلّى الله عليه وسلم يوما عند الصفا، فآذاه ونال منه، ورسول الله صلّى الله عليه وسلم ساكت لا يكلمه، ثم ضربه أبو جهل بحجر في رأسه فشجه، حتى نزف منه الدم، ثم انصرف عنه إلى نادي قريش عند الكعبة، فجلس معهم، وكانت مولاة لعبد الله بن جدعان في مسكن لها على الصفا ترى ذلك، وأقبل حمزة من القنص متوشحا قوسه، فأخبرته المولاة بما رأت من أبي جهل، فغضب حمزة- وكان أعز فتى في قريش وأشده شكيمة- فخرج يسعى، لم يقف لأحد، معدا لأبي جهل إذا لقيه أن يوقع به، فلما دخل المسجد قام على رأسه، وقال له: يا مصفر استه، تشتم ابن أخي وأنا على دينه؟ ثم ضربه بالقوس فشجه شجة منكرة، فثار رجال من بني مخزوم- حي أبي جهل- وثار بنو هاشم- حي حمزة- فقال: أبو جهل: دعوا أبا عمارة، فإني سببت ابن أخيه سبا قبيحا «1» .
وكان إسلام حمزة أول الأمر أنفة رجل أبى أن يهان مولاه. ثم شرح الله صدره، فاستمسك بالعروة الوثقى «2» ، واعتز به المسلمون أيما اعتزاز
)مختصر سيرة الرسول للشيخ محمد بن عبد الوهاب ص 66، رحمة للعالمين 1/ 68، ابن هشام 1/ 291، 292.
____________________
ترجمہ :
مکہ کی فضاظلم وجور کے ان سیاہ بادلوں سے گھمبیر تھی کہ اچانک ایک بجلی چمکی اور مقہوروں کا راستہ روشن ہوگیا ، یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے۔ ان کے اسلام لانے کا و اقعہ سنۃ 6ھ نبوی کے اخیر کا ہے اور اغلب یہ ہے کہ وہ ماہ ذی الحجہ میں مسلمان ہوئے تھے ،
ان کے اسلام لانے کا سبب یہ ہے کہ ایک روز ابو جہل کو ہِ صفا کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گذر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچائی اور سخت سست کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ، اور کچھ بھی نہ کہا لیکن اس کے بعد اس نے آپ کے سر پر ایک پتھردے ماراجس سے ایسی چوٹ آئی کہ خون بہہ نکلا۔
پھردہ خانہ کعبہ کے پاس قریش کی مجلس میں جا بیٹھا۔
عبد اللہ بن جدعان کی ایک لونڈی کو ہ صفا پر واقع اپنے مکان سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کمان حائل کے شکار سے واپس تشریف لائے تواس لونڈی نے ان سے ابوجہل کی ساری حرکت کہہ سنائی ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ غصہ سے بھڑک اٹھے –
یہ قریش کے سب سے طاقتوراورمضبوط جوان تھے۔ ماجرا سن کر کہیں ایک لمحہ رکے بغیر دوڑتے ہوئےآئے اوریہ تہیہ کیئے ہوئے کہ جونہی ابوجہل کا سامنا ہوگا اس کی مرمت کردیں گے۔
چنانچہ مسجد حرام میں داخل ہوکر سیدھے اس کے سر پر جا کھڑے ہوئے اور بولے: اوسرین پرخوشبو لگانے والے بزدل ! تومیرے بھتیجے کو گالی دیتا ہے حالاں کہ میں بھی اسی کے دین پر ہوں۔
اس کے بعد کمان اس زور کی مارماری کہ اس کے سر پر بدترین قسم کا زخم آگیا۔ اس پر ابوجہل کے قبیلے بنومخزوم اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قبیلے بنو ہاشم کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بھڑک اٹھے،
۔لیکن ابوجہل نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کر دیا کہ ابوعمارہ کو جانے دو۔ میں سے واقعی اس کے بھتیجے کو بہت بڑی گالی دی تھی ۔
ابتداءً حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا اسلام محض اس حمیت کے طور پر تھا کہ ان کے عزیز کی توہین کیوں کی گئی لیکن پھر اللہ نے ان کا سینہ کھول دیا۔ اور انہوں نے اسلام کا کڑامضبوطی سے تھام لیا ،
اور مسلمانوں نے ان کی وجہ سے بڑی عزت وقوت محسوس کی.
(مختصر سیرۃ الرسول از شیخ محمد بن عبدالوہاب ،سیرۃ ابن ہشام )
https://archive.org/stream/ArRahiqUlMakhtoom/Ar Rahiq ul Makhtoom(1)#page/n143