• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا حیض کی حالت میں سانس توڑ کر قرآن کریم کی تلاوت کرنا ہے؟؟

ام حسان

رکن
شمولیت
مئی 12، 2015
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
32
پوائنٹ
32
کیا حیض کی حالت میں سانس توڑ کر قرآن کریم کی تلاوت کرنا ہے؟؟

جزاکم اللہ خیرا
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنبی صحابی سے مخاطب ہوکر کہا کہ مومن کبھی ناپاک نہیں ہوتا۔ ایک مومن غسل یا وضو ”ناپاک“ (گندگی کی حالت) سے ”پاک“ (صفائی کی حالت) ہونے کے لئے نہیں بلکہ ”حکم کی بجا آوری“ کے لئے کرتا ہے۔ حکم ہے کہ فلاں فلاں ”حالت“ میں مبتلا ہوجاؤ تو غسل کرلو اور فلاں فلاں حالت میں مبتلا ہوجاؤ تو وضو کرلو۔ ہم تو حکم کے غلام ہیں۔ حسب حکم غسل یا وضو کرلیتے ہیں۔ اگر اصلاً ہم ”ناپاکی“ کی حالت سے پاک صاف ہونے کے لئے غسل کر رہے ہوتے تو پھر ناپاکی کی حالت میں چہرہ اور ہاتھوں کو خاک آلودہ (تیمم) کرکے ہم مزید گندے (ناپاک) ہوتے یا پاک ہوتے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مجھے صرف نماز کے لئے وضو کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک دوسری حدیث کا مفہوم ہے کہ طواف کعبہ بھی ایک طرح سے نماز ہی ہے البتہ حالت نماز میں تو گفتگو کرنا منع ہے لیکن دوران طواف ضرورت پڑنے پر گفتگو کی جاسکتی ہے۔ گویا صرف اور صرف نماز اور طواف کے لئے وضو ضروری ہے کسی اور کام یا عبادت کے لئے نہیں۔

اسی طرح غسل بھی چند مخصوص حالت کے بعد فرض ہے جیسے جنابت، حیض، نفاس وغیرہ۔ یہ تصور ”غلط“ ہے کہ بلا وضو یا بلا غسل ذکر اذکار، تلاوت یا کوئی عبادت ادا نہیں کی جاسکتی۔ صرف نماز اور طواف کے لئے ہی غسل اور وضو لازمی ہے۔ روزہ ایک عبادت ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ حالت جنابت میں بھی بلا کراہت روزہ رکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح حالت روزہ میں احتلام ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا (گو کہ غسل ”ٹوٹ“ جاتا ہے) ۔ وقوف عرفات حج جیسی عظیم عبادت کا رکن اعظم ہے۔ اس وقوف کے لئے بھی ”مروجہ پاکی“ ضروری نہیں ہے۔ حائضہ خواتین بھی بلا کراہت وقوف عرفات کرتی ہیں اور ان کے حج پر کوئی ”اثر“ نہیں پڑتا۔ حتیٰ کہ کوئی دم وغیرہ بھی نہیں دینا پڑتا۔

احادیث میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ تلاوت قرآن مجید کے ”با غسل“ یا ”با وضو“ ہونا لازمی ہے۔ نہ ہی تلاوت روزہ اور حج جیسی عبادت سے مرتبہ و فضیلت میں ”افضل“ ہے۔ پھر ہم تلاوت کے لئے مروجہ پاکی، غسل یا وضو کو کیسے لازم قرار دے سکتے ہیں؟ یہ بعض مولویوں کی اپنی ”ہدایت“ ہے کہ ”ناپاکی“ کی حالت میں قرآن کو ہاتھ سے نہ چھوئیں بلکہ کپڑے وغیرہ سے چھوئیں۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ مجھے مسجد کے اندر سے جائے نماز لا کر دو۔ آپ نے کہا یا رسول اللہ میں تو حائضہ ہوں (یعنی ”مروجہ ناپاکی“ کی حالت میں ہوں تو مسجد کے اندر کیسے جاسکتی ہوں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا حیض تمہارے ہاتھوں میں ہے (بخاری)۔ اسی طرح بعض مولوی ”اپنی طرف“ سے یہ ہدایت دیتے ہیں کہ حائضہ عورت سانس توڑ کر تلاوت کرے ۔ بعض تو یہ کہتے ہیں کہ حائضہ قرآن کی صرف وہ آیات پڑھ سکتی ہے جو ”دعائیہ“ ہے۔ بقیہ آیات کی تلاوت نہیں کرسکتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تو حائضہ خواتین بھی عید گاہ جایا کرتی تھیں خطبہ عید اور دعا میں شریک ہوتی تھیں البتہ نماز نہیں پڑھتی تھیں۔ تلاوت قرآن کے لئے ایسی کوئی ہدایت صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب

نوٹ: اگر مندرجہ بالا عبارت میں کوئی غلطی یا کمی نظر آئے تو اہل علم سے تصحیح کی درخواست ہے۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
کیا حیض کی حالت میں سانس توڑ کر قرآن کریم کی تلاوت کرنا ہے؟؟

جزاکم اللہ خیرا
’’ قراءة القرآن أثناء الحيض
هل يمكن للمرأة أن تقرأ القرآن أثناء فترة الحيض أو الدورة الشهرية ؟
الحمد لله
هذه المسألة مما اختلف فيه أهل العلم رحمهم الله :
فجمهور الفقهاء على حرمة قراءة الحائض للقرآن حال الحيض حتى تطهر ، ولا يستثنى من ذلك إلا ما كان على سبيل الذّكر والدّعاء ولم يقصد به التلاوة كقول : بسم الله الرحمن الرحيم ، إنا لله وإنا إليه راجعون ، ربنا آتنا في الدنيا حسنة … الخ مما ورد في القرآن وهو من عموم الذكر .
واستدلوا على المنع بأمور منها :
1- أنها في حكم الجنب بجامع أن كلاً منها عليه الغسل ، وقد ثبت من حديث علي بن أبي طالب رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعلمهم القرآن وكان لا يحجزه عن القرآن إلا الجنابة " رواه أبو داود (1/281) والترمذي (146) والنسائي (1/144) وابن ماجه (1/207) وأحمد (1/84) ابن خزيمة (1/104) قال الترمذي : حديث حسن صحيح ، وقال الحافظ ابن حجر : والحق أنه من قبيل الحسن يصلح للحجة .
2- ما روي من حديث ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " لا تقرأ الحائض ولا الجنب شيئاً من القرآن " رواه الترمذي (131) وابن ماجه (595) والدارقطني (1/117) والبيهقي (1/89) وهو حديث ضعيف لأنه من رواية إسماعيل بن عياش عن الحجازيين وروايته عنهم ضعيفة ، قال شيخ الإسلام ابن تيمية (21/460) : وهو حديث ضعيف باتفاق أهل المعرفة بالحديث أ.هـ . وينظر : نصب الراية 1/195 والتلخيص الحبير 1/183 .
وذهب بعض أهل العلم إلى جواز قراءة الحائض للقرآن وهو مذهب مالك ، ورواية عن أحمد اختارها شيخ الإسلام ابن تيمية ورجحه الشوكاني واستدلوا على ذلك بأمور منها :
1- أن الأصل الجواز والحل حتى يقوم دليل على المنع وليس هناك دليل يمنع من قراءة الحائض للقرآن ، قال شيخ الإسلام ابن تيمية : ليس في منع الحائض من القراءة نصوص صريحة صحيحة ، وقال : ومعلوم أن النساء كن يحضن على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ولم يكن ينههن عن قراءة القرآن ، كما لم يكن ينههن عن الذكر والدعاء .
2- أن الله تعالى أمر بتلاوة القرآن ، وأثنى على تاليه ووعده بجزيل الثواب وعظيم الجزاء فلا يمنع من ذلك إلا من ثبت في حقه الدليل وليس هناك ما يمنع الحائض من القراءة كما تقدم .
3- أن قياس الحائض على الجنب في المنع من قراءة القرآن قياس مع الفارق لأن الجنب باختياره أن يزيل هذا المانع بالغسل بخلاف الحائض ، وكذلك فإن الحيض قد تطول مدته غالباً ، بخلاف الجنب فإنه مأمور بالإغتسال عند حضور وقت الصلاة .
4- أن في منع الحائض من القراءة تفويتاً للأجر عليها وربما تعرضت لنسيان شيء من القرآن أو احتاجت إلى القراءة حال التعليم أو التعلم .
فتبين مما سبق قوة أدلة قول من ذهب إلى جواز قراءة الحائض للقرآن ، وإن احتاطت المرأة واقتصرت على القراءة عند خوف نسيانه فقد أخذت بالأحوط .
ومما يجدر التنبيه عليه أن ما تقدم في هذه المسألة يختص بقراءة الحائض للقرآن عن ظهر قلب ، أما القراءة من المصحف فلها حكم آخر حيث أن الراجح من قولي أهل العلم تحريم مس المصحف للمُحدث لعموم قوله تعالى : ( لا يمسه إلا المطهرون ) ولما جاء في كتاب عمرو بن حزم الذي كتبه النبي صلى الله عليه وسلم إلى أهل اليمن وفيه : " ألا يمس القرآن إلا طاهر " رواه مالك 1/199 والنسائي 8/57 وابن حبان 793 والبيهقي 1/87 قال الحافظ ابن حجر : وقد صحح الحديث جماعة من الأئمة من حيث الشهرة ، وقال الشافعي : ثبت عندهم أنه كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وقال ابن عبدالبر : هذا كتاب مشهور عند أهل السير معروف عند أهل العلم معرفة يستغني بشهرتها عن الإسناد لأنه أشبه المتواتر لتلقي الناس له بالقبول والمعرفة .أ.هـ وقال الشيخ الألباني عنه : صحيح .التلخيص الحبير 4/17 وانظر : نصب الراية 1/196 إرواء الغليل 1/158 .
حاشية ابن عابدين 1/159 المجموع 1/356 كشاف القناع 1/147 المغني 3/461 نيل الأوطار 1/226 مجموع الفتاوى 21/460 الشرح الممتع للشيخ ابن عثيمين 1/291 .
ولذلك فإذا أرادت الحائض أن تقرأ في المصحف فإنها تمسكه بشيء منفصل عنه كخرقة طاهرة أو تلبس قفازا ، أو تقلب أوراق المصحف بعود أو قلم ونحو ذلك ، وجلدة المصحف المخيطة أو الملتصقة به لها حكم المصحف في المسّ ، والله تعالى أعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد
--------------------------------
ترجمہ :
دوران حيض قرآن مجيد كى تلاوت
كيا عورت دوران حيض قرآن مجيد كى تلاوت كر سكتى ہے ؟
الجواب :
الحمد للہ:

اہل علم كے ہاں يہ مسئلہ اختلافى ہے:

جمہور فقھاء كرام حالت حيض ميں قرآن مجيد كى تلاوت كى حرمت كے قائل ہيں، اس ليے عورت حيض ميں تلاوت نہيں كر سكتى، اس سے صرف ذكر و اذكار اور دعاء مستثنى ہے جس سے تلاوت كا قصد نہ ہو، مثلا بسم اللہ الرحمن الرحيم، انا للہ و انا اليہ راجعون، ربنا آتنا فى الدنيا حسنۃ و فى الآخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار الخ اس كے علاوہ دوسرى دعائيں جو قرآن مجيد ميں وارد ہيں وہ عمومى ذكر ميں شامل ہيں.

فقھاء نے ممانعت كے كئى ايك امور اور دلائل بيان كيے ہيں:

1 - يہ عورت جماع سے جنابت والے كے حكم ميں ہے كہ دونوں پر غسل فرض ہوتا ہے، اور حديث ميں ثابت ہے كہ:

على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں قرآن مجيد كى تعليم ديا كرتے تھے، اور جنابت كے علاوہ كوئى اور چيز انہيں ايسا كرنے سے نہيں روكتى تھى "

سنن ابو داود ( 1 / 281 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 146 ) سنن نسائى ( 1 / 144 ) سنن ابن ماجہ ( 1 / 207 ) مسند احمد ( 1 / 84 ) صحيح ابن خزيمۃ ( 1 / 104 ) امام ترمذى نے اسے حسن صحيح كہا ہے، اور حافظ ابن حجر كہتے ہيں:

حق يہى ہے كہ يہ حسن كے درجہ كى ہے اور قابل حجت ہے.

2 - ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" حائضہ عورت اور جنبى شخص قرآن ميں سے كچھ بھى نہ پڑھے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 131 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 595 ) سنن دار قطنى ( 1 / 117 ) سنن البيھقى ( 1 / 89 ).

ليكن يہ حديث ضعيف ہے كيونكہ اسماعيل بن عياش حجازيوں سے روايت كرتے ہيں، اور اس كا حجازيوں سے روايت كرنا ضعيف ہے، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: حديث كا علم ركھنے والوں كے ہاں بالاتفاق يہ حديث ضعيف ہے. اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميۃ ( 21 / 460 ) اور نصب الرايۃ ( 1 / 195 ) اور التلخيص الحبير ( 1 / 183 ).

اور بعض اہل علم حائضہ عورت كے ليے قرآن مجيد كى تلاوت جائز قرار ديتے ہيں، امام مالك كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد سے بھى ايك روايت ہے جسے شيخ الاسلام ابن تيميہ نے اختيار كيا اور امام شوكانى نے راجح قرار ديا ہے، انہوں نے كئى ايك امور سےاستدلال كيا ہے:

1 - اصل ميں اس كا جواز اور حلت ہى ہے حتى كہ اس كى ممانعت ميں كوئى دليل مل جائے، ليكن ايسى كوئى دليل نہيں ملتى جو حائضہ عورت كو قرآن كى تلاوت سے منع كرتى ہو.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

حائضہ عورت كى تلاوت كى ممانعت ميں كوئى صريح اور صحيح نص نہيں ملتى.

اور ان كا كہنا ہے: يہ تو معلوم ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى عورتوں كو حيض آتا تھا، ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں قرآن كى تلاوت سے منع نہيں كيا، جس طرح كہ انہيں ذكر و اذكار اور دعاء سے منع نہيں فرمايا.

2 - اللہ سبحانہ وتعالى نے قرآن مجيد كى تلاوت كا حكم ديا اور قرآن مجيد كى تلاوت كرنے والے كى تعريف كى اور اسے عظيم اجروثواب دينے كا وعدہ فرمايا ہے، چنانچہ اس سے منع اسى وقت كيا جا سكتا ہے جب كوئى دليل مل جائے، ليكن كوئى دليل ايسى نہيں جو حائضہ عورت كو قرآن مجيد كى تلاوت سے منع كرتى ہو، جيسا كہ بيان بھى ہو چكا ہے.

3 - قرآن مجيد كى تلاوت منع كرنے ميں حائضہ عورت كا جنبى پر قياس كرنا صحيح نہيں بلكہ يہ قياس مع الفارق ہے، كيونكہ جنبى شخص كے اختيار ميں ہے كہ وہ اس مانع كو غسل كر كے زائل كر لے، ليكن حائضہ عورت ايسا نہيں كر سكتى، اور اسى طرح غالبا حيض كى مدت بھى لمبى ہوتى ہے، ليكن جنبى شخص كو نماز كا وقت ہونے پر غسل كرنے كا حكم ہے.

4 - حائضہ عورت كو قرآن مجيد كى تلاوت سے منع كرنے ميں اس كے ليے اجروثواب سے محرومى ہے، اور ہو سكتا ہے اس كى بنا پر وہ قرآن مجيد ميں سے كچھ بھول جائے، يا پھر اسے تعليم كے دوران قرآن مجيد پڑھنے كى ضرورت ہو.

مندرجہ بالا سطور سے حائضہ عورت كے ليے قرآن مجيد كى تلاوت كے جواز كے قائلين كے دلائل كى قوت ظاہر ہوتى ہے، اور اگر عورت احتياط كرتے ہوئے قرآن مجيد كى تلاوت صرف اس وقت كرے جب اسے بھول جانے كا خدشہ ہو تو اس نے محتاط عمل كيا ہے.

يہاں ايك تنبيہ كرنا ضرورى ہے كہ جو كچھ اوپر كى سطور ميں بيان ہوا ہے وہ حائضہ عورت كے ليے زبانى قرآن مجيد كى تلاوت كے متعلق ہے.

ليكن قرآن مجيد ديكھ كر تلاوت كرنے كا حكم اور ہے، اس ميں اہل علم كا راجح قول يہ ہے كہ قرآن مجيد سے تلاوت كرنا حرام ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اسے پاكبازوں كے علاوہ اور كوئى نہيں چھوتا ﴾.

اور اس خط ميں بھى ذكر ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمرو بن حزم كو دے كر يمن كى طرف بھيجا تھا اس ميں ہے:

" پاك شخص كے علاوہ قرآن مجيد كو كوئى اور نہ چھوئے "

موطا امام مالك ( 1 / 199 ) سنن نسائى ( 8 / 57 ) ابن حبان حديث نمبر ( 793 ) سنن بيھقى ( 1 / 87 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

شہرت كے اعتبار سے علماء كى ايك جماعت نے اس حديث كو صحيح كہا ہے.

اور امام شافعى كہتے ہيں: ان كے ہاں ثابت ہے كہ يہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خط ہے.

اور ابن عبد البر كہتے ہيں:

سيرت نگاروں اور اہل معرفت كے ہاں يہ خط مشہور ہے اپنى شہرت كى بنا پر يہ اسناد سے مستغنى ہے، كيونكہ لوگوں كا اس خط كو قبوليت دينا تواتر كے مشابہ ہے. اھـ

اور شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

يہ صحيح ہے.

ديكھيں: التلخيص الحبير ( 4 / 17 ) اور نصب الرايۃ ( 1 / 196 ) اور ارواء الغليل ( 1 / 158 )، حاشيۃ ابن عابدين ( 1 / 159 ) المجموع ( 1 / 356 ) كشاف القناع ( 1 / 147 ) المغنى ( 3 / 461 ) نيل الاوطار ( 1 / 226 ) مجموع الفتاوى ابن تيميۃ ( 21 / 460 ) الشرح الممتع للشيخ ابن عثيمين ( 1 / 291 ).

اس ليے اگر حائضہ عورت قرآن مجيد ديكھ كر پڑھنا چاہے تو وہ اسے كسى منفصل چيز كے ساتھ پكڑے مثلا كسى پاك صاف كپڑے يا دستانے كے ساتھ، يا قرآن كے اوراق كسى لكڑى اور قلم وغيرہ كے ساتھ الٹائے، قرآن كى جلد كو چھونے كا حكم بھى قرآن جيسا ہى ہے.

واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد
http://islamqa.info/ur/2564

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محدث فتوی

فتاویٰ جات: احکام و مسائل فتویٰ نمبر : 970

حالت حیض میں عورت کا قرآن پاک کی تلاوت کرنا
شروع از بتاریخ : 03 June 2012 09:57 AM

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عورت حالت حیض میں قرآن پاک کی تلاوت دیکھ کر یا حفظ شدہ آیات پڑھ سکتی ہے؟ ازراہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔جزاکم اللہ خیرا
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حائضہ عورت قرآن کریم کی زبانی تلاوت کر سکتی ہے۔ حائضہ کی تلاوتِ قرآن کریم کی ممانعت پر بعض روایات تو موجود ہیں لیکن وہ تمام روایات یا تو ضعیف ہیں یا ان میں حرمت کا واضح ثبوت موجود نہیں ہے۔
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبىﷺ نے فرمايا:
" حائضہ عورت اور جنبى شخص قرآن ميں سے كچھ بھى نہ پڑھے " سنن ترمذى حديث نمبر ( 131 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 595 ) سنن دار قطنى ( 1 / 117 ) سنن البيھقى ( 1 / 89 ).
ليكن يہ حديث ضعيف ہے كيونكہ اسماعيل بن عياش حجازيوں سے روايت كرتے ہيں، اور اس كا حجازيوں سے روايت كرنا ضعيف ہے، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: حديث كا علم ركھنے والوں كے ہاں بالاتفاق يہ حديث ضعيف ہے۔
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
حائضہ عورت كى تلاوت كى ممانعت ميں كوئى صريح اور صحيح نص نہيں ملتى۔
اور ان كا كہنا ہے: يہ تو معلوم ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى عورتوں كو حيض آتا تھا، ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں قرآن كى تلاوت سے منع نہيں كيا، جس طرح كہ انہيں ذكر و اذكار اور دعاء سے منع نہيں فرمايا۔
فلہٰذا حائضہ عورت زبانی تلاوت کر سکتی ہے۔ البتہ یہ امر کراہت سے خالی نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
’’إني كرهت أن أذكر الله إلي علي طهر‘‘ (ابوداؤد :17)
’’بے شک مجھے یہ بات پسند ہے کہ پاکیزگی کی حالت کے سوا اللہ کا ذکر کروں۔‘‘
جہاں تک قرآن کو دیکھ کر پڑھنے کا تعلق ہے تو راجح قول کے مطابق حائضہ عورت قرآن کو دیکھ کر پڑھ تو سکتی ہے لیکن وہ قرآن مجید کو چھونے سے گریز کرے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ﴾
’’ اسے پاكبازوں كے علاوہ اور كوئى نہيں چھوتا‘‘
اس کا اس خط ميں بھى ذكر ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمرو بن حزم كو دے كر يمن كى طرف بھيجا تھا اس ميں ہے:
" پاك شخص كے علاوہ قرآن مجيد كو كوئى اور نہ چھوئے " موطا امام مالك ( 1 / 199 ) سنن نسائى ( 8 / 57 ) ابن حبان حديث نمبر ( 793 ) سنن بيھقى ( 1 / 87 )
اس ليے اگر حائضہ عورت قرآن مجيد ديكھ كر پڑھنا چاہے تو وہ اسے كسى منفصل چيز كے ساتھ پكڑے مثلا كسى پاك صاف كپڑے يا دستانے كے ساتھ، يا قرآن كے اوراق كسى لكڑى اور قلم وغيرہ كے ساتھ الٹائے، قرآن كى جلد كو چھونے كا حكم بھى قرآن جيسا ہى ہے۔
وبالله التوفيق
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
خلاصہ یہ کہ :
حائضہ عورت قرآن کریم کی زبانی تلاوت کر سکتی ہے۔ حائضہ کی تلاوتِ قرآن کریم کی ممانعت پر بعض روایات تو موجود ہیں لیکن وہ تمام روایات یا تو ضعیف ہیں یا ان میں حرمت کا واضح ثبوت موجود نہیں ہے۔
سانس توڑ کر پڑھنے کی کوئی پابندی نہیں ؛
اور لیکن وہ قرآن مجید کو چھونے سے گریز کرے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
 
Top