• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو گالی دی تھی؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
کیا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو گالی دی تھی؟

مرزا جہلمی اور اس جہلمی کے اندھے مقلدین کی جانب سے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو گالیاں دینے کا الزام لگایا جاتا ہے جو کہ تاریخ کائنات کے بڑے جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ ہے۔

‏گوئبلز کہتا تھا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ وہ سچ لگنے لگے
‏گوئبلز کے پیروکاروں نے یہ جھوٹ اتنا پھیلا دیا کہ سیدنا خالد بن ولید‏ رضی اللہ عنہ نے گالیاں دیں کو لوگ سچ مچ حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں لیکن وہ یہ بات بھول گئے سچ امر ہے، بقا ہے اور جھوٹ کو فنا ہے, جھوٹ کو ایک دن ختم تو ہونا ہی ہے۔

اب ہم اس جھوٹ کا وہ حشر کرنے والے ہیں جو سویت یونین کا افغانستان میں ہوا تھا۔

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا جب ہم یہ حدیث پیش کرتے ہیں
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تسبوا اصحابي"
میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو۔ تو مرزے جہلمی کے پیروکار کہتے ہیں پوری حدیث پیش کرو, تم آدھی حدیث پیش کر رہے ہو, تم خیانت کر رہے ہو وغیرہ وغیرہ

حالنکہ یہ جہلاء جانتے نہیں کہ امام بخاری نے خود یہ حدیث اتنی ہی لکھی یے:

حدثنا مسدد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تسبوا اصحابي فوالذي نفسي بيده لو انفق احدكم مثل احد ذهبا ما بلغ مد احدهم ولا نصيفه".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی احد (پہاڑ) کے برابر سونا خرچ کر دے تو وہ ان کے ایک مد یا نصف مد کے برابر بھی نہ ہو گا۔

(صحیح بخاری:3673)
FB_IMG_1664249792948.jpg


یعنی انکا الزام ہم پر نہیں بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ پر جا رہا ہوتا ہے۔ ہاں یہ ایسا کہہ سکتے ہیں کہ بھائی آپ جو حدیث پیش کر رہے ہیں یہ بخاری کی ہے آپ صحیح مسلم کی حدیث پیش کریں جس میں زیادہ وضاحت ہے!

خیر جو یہ کہتے ہیں کہ پوری حدیث پیش کرو, پوری حدیث پیش کرو وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں اگر ہم پوری حدیث پیش کریں گے تو شاید کوئی اٹیم بمب ہے جو اہلسنت پر گر جائے گا یا پتہ نہیں کیا ہے ایسا جو اپنے گمان میں سمجھ رہے ہوتے ہیں۔

صحیح مسلم کی حدیث 6488 میں ذرا وضاحت ہے کہ سیدنا خالد بن ولید ؓ اور سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ کے درمیان جھگڑا ہو گیا تو خالد بن ولیدؓ نے عبدالرحمن بن عوفؓ کو برا بھلا کہا تو رسول اللہ ﷺ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے کہا: تم میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو۔
FB_IMG_1664249912455.jpg


اب مرزا محمد علی انجینئر اور اسحاق جھالوی اس میں دو اعتراضات اٹھاتے ہیں:
  1. خالد بن ولید نے گالیاں نکالی
  2. خالد بن ولید کو صحابی نہیں کہا رسول اللہ ﷺ نے

گالیاں نکالی الزام کا جواب

صحیح مسلم کی اس حدیث میں یہ الفاظ ہیں فَسَبَّهُ خَالِدٌ خالد نے سب کیا، مرزا اور اسحاق جھالوی اسکا ترجمہ "گالیاں" کرتے ہیں۔ جبکہ یہ سفید جھوٹ ہے کیوں کہ یہی روایت ایک اور جگہ بھی موجود یے جس میں وہ جملہ بھی موجود ہے جو سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف کو کہا تھا:

(عَنْ أَنَسٍ قَالَ: کَانَ بَیْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ وَبَیْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ کَلَامٌ، فَقَالَ خَالِدٌ لِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ: تَسْتَطِیلُونَ عَلَیْنَا بِأَیَّامٍ سَبَقْتُمُونَا بِہَا، فَبَلَغَنَا أَنَّ ذٰلِکَ ذُکِرَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((دَعُوا لِی أَصْحَابِی، فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ أَنْفَقْتُمْ مِثْلَ أُحُدٍ أَوْ مِثْلَ الْجِبَالِ ذَہَبًا مَا بَلَغْتُمْ أَعْمَالَہُمْ۔)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ما بین کچھ تلخ کلامی سی ہوگئی، سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عبدالرحمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ ہمارے اوپر محض اس لیے (لمبے) اکڑتے ہو کہ آپ ہم سے پہلے اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ جب اس بات کا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میرے لیے ہی میرے صحابہ کو کچھ نہ کہا کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم احد پہاڑ یا کئی پہاڑوں کے برابر سونا بھی خرچ کردو تم ان کے اعمال یعنی درجوں تک نہیں پہنچ سکتے۔
(مسند احمد حدیث نمبر 11523)
FB_IMG_1664249914927.jpg


یعنی سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے درمیان جھگڑا ہوا اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہ دیا "تم ہمارے اوپر محض اس لیے (لمبے ہوتے ہو) اکڑتے ہو کہ ہم سے پہلے اسلام لے آئے ہو"

بس یہ وہ الفاظ تھے جو سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہے تھے جسے مرزا نے اور اسحاق جھالوی نے "گالیاں" بنا دیا
انصاف کا اگر خون نہیں ہو گیا تو بتائیں کہ ان الفاظ میں کوئی گالی کا ذکر ہے؟

اس جملہ میں تو کوئی الیکٹران مائکرو سکوپ لے کر بھی گالی ڈھونڈنے نکلے تو بھی گالی نہیں ڈھونڈ سکتا

لیکن بابے تو بابے ہی ہوتے ہیں چاہے کسی کے بھی ہوں کون اتنی جلدی چھوڑتا ہے چاہے نعرہ کسی کا یہی ہو کہ میں بابی نہیں بلکہ علمی کتابی ہوں!

اب جو علمی کتابی ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے بابوں (اسحاق جھالوی اور مرزا علی انجینئر) کی بات کا رد کریں اور تسلیم کریں انہوں نے کوئی گالیاں نہیں دی تھیں۔

ایک اور بات آج ہم بلکل رحم کے موڈ میں نہیں ہیں اگر کوئی یہ کہتا یے یہ جملہ سخت ہے اس لیے اسے گالیاں کہا ہوگا تو اسکے لیے بھی آج بری خبر ہے کہ اس سے کئی گنا سخت جملہ تو سیدنا عباسؓ نے سیدنا علیؓ کو کہا تھا۔

صحیح مسلم 4577 اور صحیح بخاری 7305 میں سیدنا عباسؓ نے سیدنا علیؓ کو باغ فدک کے کسی جھگڑے پر گناہ گار, عہد شکن, خائن اور ظالم تک کہ دیا تھا تو پھر اسکا بھی ترجمہ گالیاں ہونا چاہیے تھا کیوں کہ یہ تو اس جملے سے بھی سخت جملے ہیں جو سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو کہے تھے اکڑنے والے.
اب اکڑتے ہو زیادہ سخت جملہ ہے یا کسی کو گناہ گار, عہد شکن, خائن اور ظالم کہنا؟

ثابت ہوا مرزا علی انجینئر اور اسحاق جھالوی کی طرف سے گالیاں دیں کا الزام محض ایک دھوکہ ہے اور ہاں گالیاں ترجمہ کیوں کیا انہوں نے وہ ہم آخر میں بتا دیں گے۔

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو صحابی نہیں کہا! سے کیا مراد ہے؟

تم میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو سے مرزا علی انجینئر اور اسحاق جھالوی یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ نے صحابی نہیں کہا!

یہ بلکل بچوں والی بات ہے یہ ہم کسی کو بطور محاوراتا بھی بات کہ دیتے ہیں جیسے کسی شخص کے کئی بیٹے ہوں وہ سب مل کر اپنے کسی ایک بھائی کو تنگ کر رہے ہوں وہ بچہ اپنے باپ سے شکایت کرے اور باپ اپنے باقی بیٹوں سے کہ دے میرے بیٹے کو تنگ مت کرو اسکا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ جسکو بیٹا کہ دیا یے وہی اب بیٹا ہے باقی اب بیٹے نہیں رہے یا وہ قانونا بیٹے ہیں سارے بیٹے ہی ہیں بس یہ محاوراتا باتیں ہوتی ہیں جو ہم کہ دیتے ہیں۔

یہ تو عام مثال پیش کی ہم نے اب ہم صحیح بخاری سے مثال پیش کرتے ہیں۔ صحیح بخاری 4640 میں ہے کہ حضرت عمر ؓ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کے درمیان جھگڑا ہو گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمرؓ پر ناراض ہوئے اور فرمایا:
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي صَاحِبِی کیا تم مجھے میرے "صحابی" سے جدا کرنا چاہتے ہو؟

اب ہم پوچھتے ہیں کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ صحابی نہیں تھے؟ انکو صحابی نہیں کہا رسول اللہ ﷺ نے بلکہ دو دفعہ فرمایا:
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي "صَاحِبِي" هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي "صَاحِبِي"
کیا تم مجھے میرے صحابی سے دور کرنا چاہتے ہو؟
تم میرے صحابی کو میرے لیے ستانا چھوڑ نہیں سکتے؟
کیا اب صرف ابوبکر صحابی ہیں؟
اب کیا حضرت عمرؓ صحابی نہیں رہے؟
یا اب وہ صرف قانونا صحابی ہو گئے ہیں؟

امید ہے آپکو حقیقت پتہ چل چکی ہو گی کہ جو یہ مرزا محمد علی انجینئر اور اسحاق جھالوی آپ کو یہ بتاتے رہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے گالیاں دیں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو صحابی نہیں کہا یہ سب جھوٹ تھا آپ ساری حقیقت پڑھ چکے ہیں۔

اب ہم آپ کو یہ بھی بتا دیتے ہیں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر انہوں نے گالیاں دینے کا الزام آخر کیوں لگایا ہے
دراصل یہ اپنی ڈاکٹرائن سیدھی کرنا چاہتے تھے۔

پہلے صحیح مسلم 6220 میں عربی لفظ سب کا ترجمہ گالیاں کر کے یہ جھوٹ مشہور کیا گیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتے تھے، پھر یہ جھوٹ مشہور کر دیا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے گالیاں دیں جب یہ جھوٹ پھیل گیا تب عوام کو کہا گیا دیکھو سیدنا خالد بن ولیدؓ نے گالیاں دیں تو رسول اللہ ﷺ ناراض ہوئے کہ دیا کہ میرے صحابی کو گالیاں مت دو۔ تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتے تھے اور دلواتے تھے تو ان سے رسول اللہ ﷺ کتنے ناراض ہوں گے؟

اب یہ وہ مقام ہوتا ہے جب انکی پھینکیں گئیں رسیاں سانپ نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں لوگوں کو جبکہ گالیوں والی حقیقت کیا ہے یہ آپ پڑھ چکے ہیں اور آپکو اب اندازہ ہو جانا چاہیے کہ یہ اہلبیت کی محبت کی آڑ لے کر کس قدر دھوکے سے کام چلاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف پروپیگنڈہ سے اپنی پناہ میں رکھے آمین۔

(منقول)
 
Top