• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا داود بن الحصین عن عکرمہ والا طریق منکر ہے؟

شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
کیا داود بن الحصین عن عکرمہ والا طریق منکر ہے

جواب:


داود بن حصین عن عکرمہ والا طریق منکر نہیں ہے۔ صرف امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نے اس طریق پر یہ اعتراض کیا ہے کہ داود بن حصین عن عکرمہ والا طریق منکر ہے۔
لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔
پہلے امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کے کلام کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کہا کیا ہے
امام ابو حاتم کہتے ہیں کہ
سئل على ابن المديني عن داود بن حصين فقال: ما روى عكرمة فمنكر الحديث ومالك روى عن داود بن حصين عن غير عكرمة
میں نے امام علی بن مدینی سے داود بن حصین کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ عکرمہ سے روایت کرنے میں منکر الحدیث ہے اور امام مالک نے داود بن حصین سے عکرمہ کے طریق سے روایت نہیں لی
[الجرح والتعدیل 409/3]

پہلا جواب

امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نے جو دلیل پیش فرمائی ہے داود بن حصین کو عکرمہ سے روایت میں منکر الحدیث کہنے میں وہ یہ تھی کہ امام مالک نے داود سے عکرمہ کے طریق سے روایت نہیں لی۔
حالانکہ یہاں امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کو غلطی لگی۔ کیوں کہ امام مالک رحمہ اللہ نے داود بن حصین سے عکرمہ کے طریق سے ہی روایت لی ہے لیکن عکرمہ کو مبھم بنا دیا ہے۔
چنانچہ امام مالک فرماتے ہیں کہ
عن داود بن الحصين قال أخبرني مخبر أن عبد الله بن عباس كان يقول دلوك الشمس إذا فاء الفيء وغسق الليل اجتماع الليل وظلمته
[دیکھیے مؤطا امام مالک ت عبد الباقی 11/1]
یہاں داود بن حصین نے جس مخبر سے روایت کی وہ عکرمہ ہی ہے۔
چنانچہ امام ابن عبد البر اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
المخبر ها هنا عكرمة
یعنی یہاں مخبر سے مراد عکرمہ ہے
[الاستذکار 64/1]
قارئین غور فرمائیں امام مالک نے دواد بن حصین عن عکرمہ کے طریق سے روایت بیان کی ہے لیکن عکرمہ کو مبھم بنا دیا ہے۔ یعنی عکرمہ کو مخبر سے تبدیل کر دیا ہے تاکہ یہ واضح نا ہو کہ وہ مخبر کون تھا جس سے داود بن حصین روایت کر رہا ہے۔ واضح ہوا کہ امام علی بن مدینی کے فیصلے کی بنیاد ہی غلط ہے۔ تو بھلا ان کا فیصلہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔
اب امام مالک کا عکرمہ کو مبھم بنانے کا سبب صرف یہ تھا کہ چونکہ عکرمہ پر بعض لوگوں نے کلام کیا تھا جس کے سبب انہوں نے عکرمہ کو مبھم بنا دیا ۔
چنانچہ امام ابن عبد البر کہتے ہیں کہ
وكان مالك يكتم اسمه لكلام سعيد بن المسيب فيه
اور امام مالک نے ان کا نام اس لئے چھپا لیا (یعنی مبھم بنا دیا) کیوں کہ سعید بن المسیب نے ان پر کلام کیا تھا
[ دیکھیے الاستذکار 64/1]
معلوم ہوا امام مالک کو داود بن حصین عن عکرمہ والے طریق سے کوئی مسئلہ نہیں تھا بلکہ وہ محض عکرمہ کو پسند نہیں کرتے تھے بعض لوگوں کے کلام کے سبب۔
اب امام علی بن مدینی نے جو دعوی کیا کہ داود بن حصین عن عکرمہ والا طریق منکر ہے اپنے اس دعوی کی جو دلیل پیش کی وہ یہ تھی کہ امام مالک نے داود بن حصین عن عکرمہ کے طریق سے روایت نہیں لی
تو جب ان کے دعوی کی دلیل ہی غلط ہے بھلا ان کا دعوی کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔

دوسرا جواب:

امام علی بن مدینی نے جو داود بن حصین عن عکرمہ کے طریق میں نکارت کی بات کہی ہے لیکن اس کی کوئی معتبر وجہ بیان نہیں کی۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ داود بن حصین عن عکرمہ والے طریق میں نکارت کب ہوتی ہے۔
چنانچہ امام ابن عدی نے داود بن حصین عن عکرمہ کے طریق سے ایک روایت ذکر کی اور پھر اس پر تفصیلی کلام کیا وہ کہتے ہیں کہ
وهذا الحديث ليس البلاء من داود فإن داود صالح الحديث إذا روى عنه ثقة والراوي عنه بن أبي حبيبة وقد مر ذكره في هذا الكتاب في ضعفاء الرجال وداود هذا له حديث صالح، وإذا روى عنه ثقة فهو صحيح الرواية إلا أنه يروي عنه ضعيف فيكون البلاء منهم لا منه
اور اس حدیث میں داود کی طرف سے کوئی نکارت نہیں ہے۔ جب داود سے ثقہ راوی روایت کریں اس وقت تو وہ صالح الحدیث ہیں۔ اور یہاں داود سے روایت کرنے والے ابن ابی حبیبة ہیں اور ان کا تذکر اسی کتاب میں ضعیف راویوں میں ہو چکا ہے (یعنی یہ ابن عدی کے نزدیک ضعیف ہے)۔ اور داود کی حدیث صالح ہوتی ہے۔ اور جب داود سے ثقہ راوی روایت کریں تو وہ صحیح روایت والے ہیں مگر جب ان سے روایت کرنا والا ضعیف ہو تو نکارت ان (ضعیف رایوں ) کی طرف سے ہوتی ہے نا کہ داود کی طرف سے۔
[دیکھیے الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی 516/3]

جس روایت پر ابن عدی نے کہا کہ یہاں داود کی طرف سے کوئی نکارت نہیں وہ طریق داود عن عکرمہ والا تھا۔ اور انہوں نے پھر بتایا کہ نکارت تو اس وقت ہوتی ہے جب داود سے روایت کرنے والا ضعیف راوی ہو۔ یعنی داود عن عکرمہ کے طریق میں نکارت کی وجہ داود نہیں بلکہ اس نیچے کے راوی ہیں جو اس سے روایت کرنے والے ہیں اگر تو وہ ضعیف ہیں تو اس طریق میں بلا شبہ نکارت ہے لیکن اگر ثقہ ہیں تو داود بن حصین صالح روایت والے ہیں۔ خواہ عکرمہ سے ہی کیوں نا ہو کیوں کہ امام ابن عدی نے یہ جتنی بحث کی ہے وہ داود عن عکرمہ کے طریق سے روایت کے ہی متعلق ہے
معلوم ہوا امام علی بن مدینی نے جو اس طریق کو منکر کہا ہے پہلی بات اس کی بنیاد ہی غلط ہے دوسرا یہ نکارت بھی تب ہے جب ضعیف رواۃ روایت کریں۔ لیکن جب ثقہ روایت کریں داود سے تو پھر تو وہ صحیح روایت والے ہیں۔ والحمدللہ
معلوم ہوا امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کا یہ اعتراض بالکل باطل ہے۔

امام ابو داود کہتے ہیں کہ
أحاديثه عن عكرمة مناكير
داود عکرمہ سے مناکیر بیان کرتا ہے۔
[میزان الاعتدال 5/2]
یہ حوالہ بے سند و مردود ہے۔ اور ثابت نہیں ہے۔
بالفرض اگر ثابت بھی ہوتا تو امام ابن عدی کی طرف سے یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ نکارت تب ہوتی ہے جب داود سے روایت کرنے والا ضعیف راوی ہوتا ہے لیکن جب ثقہ روایت کریں تو نکارت نہیں ہوتی بلکہ تب وہ صالح روایت والا ہوتا ہے۔

اس طریق کو صحیح قرار دینے والے محدثین


1) امام احمد بن حنبل:
امام احمد نے داود بن حصین عن عکرمہ کے طریق سے مسند احمد بن حنبل میں ایک روایت ذکر کی ہے۔ چنانچہ امام احمد فرماتے ہیں کہ:
حدثنا محمد بن سلمة عن ابن إسحاق، عن داود بن حصين، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: " رد رسول الله صلى الله عليه وسلم زينب ابنته على زوجها أبي العاص بن الربيع بالنكاح الأول، ولم يحدث شيئا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہ کو ابو العاض رضی اللہ عنہ کو پہلے نکاح پر ہی واپس لوٹا دیا دوبارہ سے نکاح نہیں کیا
[دیکھیے مسند احمد 369/3]
اور اس حدیث کے متعلق امام احمد کہتے ہیں کہ
والحديث الصحيح الذي روي: أن النبي صلى الله عليه وسلم أقرهما على النكاح الأول
”اس سلسلے میں جو صحیح حدیث مروی ہے وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں (زینب اور ابوالعاص رضی اللہ عنہما) کو پہلے نکاح پر باقی رکھا“
[دیکھیے مسند احمد ط الرسالہ 530/11]
امام احمد بن حنبل نے داود بن حصین عن عکرمہ کے طریق والی روایت کو صحیح کہا جس کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ داود بن حصین عن عکرمہ والا طریق ان کے نزدیک صحیح ہے۔ والحمدللہ

2) امام ترمذی رحمہ اللہ داود بن حصین عن عکرمہ والی سند کی ایک منفرد روایت کے متعلق فرمایا کہ:
ھذا حدیث لیس بإسناده باس
اس حدیث کی سند میں کوئی حرج نہیں
[دیکھیے سنن ترمذی حدیث 1143]
بعض کہتے ہیں ترمذی متساہل ہیں۔ عرض ہے کہ یہاں امام ترمذی کی موافقت دیگر ناقدی

3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس داود بن حصین عن عکرمہ والے طریق کی منفرد روایت کو أصح قرار دیا
[دیکھیے علل الکبیر للترمذی 166/1]

4) امام دار قطنی داود بن حصین عن عکرمہ کے طریق سے ایک منفرد روایت کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
والصواب حديث ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم ردها بالنكاح الأول
صحیح حدیث وہ ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسم نے اپنی بیٹی زینب کو ان کے شوہر کے پاس پہلے نکاح پر ہی بھیج دیا
[دیکھیے سنن الدارقطنی 373/4]
اور یہ حدیث داود بن حصین عن عکرمہ کے طریق سے ہی ہے
[دیکھیے سنن دارقطنی 374/4]

5) امام حاکم رحمہ اللہ نے داود بن الحصین عن عکرمہ والے طریق کی روایت کی سند کو کہیں جگہ صحیح کہا ہے
[دیکھیے مستدرک للحاکم حدیث 2325، 2921، 4029، 6694 وغیرہ]

6) امام ذھبی رحمہ اللہ نے بھی اس طریق سے مروی ایک منفرد روایت کو صحیح کہا ہے۔
[دیکھیے تلخیص المستدرک حدیث 2811]

7) امام ضیاء المقدسی رحمہ اللہ نے داود بن الحصین عن عکرمہ کے طریق سے مروی روایت اپنی کتاب المختارہ میں ذکر کی ہے۔
[ المختارة للضیا المقدسی 11/ 363 ]
اور یاد رہے امام ضیاء المقدسی رح نے اپنے نزدیک اس کتاب میں صرف صحیح اسناد والی روایات کا انتخاب کیا ہے تفصیل کے لئے اس کتاب کا مقدمہ دیکھیے۔

8) امام بن القیم رحمہ اللہ نے بھی داود بن الحصین عن عکرمہ کے طریق سے مروی ایک روایت کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے
[دیکھیے زاد المعاد لابن القیم 241/5]

9) امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں داود بن حصین عن عکرمہ کے طریق سے مروی ایک روایت فتح الباری میں لی اور اس پر کوئی جرح نہیں کی
[دیکھیے فتح الباری 362/9]
اور جس روایت پر امام حافظ ابن حجر سکوت کریں وہ ان کے نزدیک حسن ہے۔
گویا یہ طریق امام حافظ ابن حجر کے نزدیک حسن ہے

نوٹ:

امام حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں یہ کہا ہے کہ داود بن حصین عکرمہ سے روایت کرنے میں ثقہ نہیں ہے۔ لیکن عرض ہے انہوں نے یا تو اپنی اس جرح سے رجوع کر لیا یا دونوں اقوال باہم متعارض ہو کر ساقط ہیں
اور ایسی صورت میں ترجیح جمہور کو ہی ہو گی
اس تحقیق سے ثابت ہوا داود بن حصین عن عکرمہ والا طریق بالکل صحیح ہے۔ اس میں کوئی نکارت نہیں جب داود سے ثقہ روایت کریں البتہ جب ضعیف راوی روایت کریں تو نکارت ہوتی ہے
والحمدللہ
 
Top