آئینہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی موجود تھا، اگر آئینہ کا جواز بنا کر تصاویر کو جائز قرار دیا جائے تو ذیل کی احادیث کا کیا ہوگا؟
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : غیر جاندار چیزوں کی تصویر بیچنا اور اس میں کون سی تصویر حرام ہے
حدیث نمبر : 2225
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، حدثنا يزيد بن زريع، أخبرنا عوف، عن سعيد بن أبي الحسن، قال كنت عند ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ إذ أتاه رجل فقال يا أبا عباس إني إنسان، إنما معيشتي من صنعة يدي، وإني أصنع هذه التصاوير. فقال ابن عباس لا أحدثك إلا ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول سمعته يقول "من صور صورة فإن الله معذبه، حتى ينفخ فيها الروح، وليس بنافخ فيها أبدا". فربا الرجل ربوة شديدة واصفر وجهه. فقال ويحك إن أبيت إلا أن تصنع، فعليك بهذا الشجر، كل شىء ليس فيه روح. قال أبو عبد الله سمع سعيد بن أبي عروبة من النضر بن أنس هذا الواحد.
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انہو ں نے کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، انہیں عوف بن ابی حمید نے خبر دی، انہیں سعید بن ابی حسن نے، کہا کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا، او رکہا کہ اے ابوعباس ! میں ان لوگوں میں سے ہوں، جن کی روزی اپنے ہاتھ کی صنعت پر موقوف ہے اور میں یہ تصاویر بناتا ہوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس پر فرمایا کہ میں تمہیں صرف وہی بات بتلاؤں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ انہو ں نے کہا کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ جس نے بھی کوئی مورت بنائی تو اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک عذاب کرتا رہے گا جب تک وہ شخص اپنی مورت میں جان نہ ڈال دے اور وہ کبھی اس میں جان نہیں ڈال سکتا ( یہ سن کر ) اس شخص کا سانس چڑھ گیا اور چہرہ زرد پڑ گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ افسوس ! اگر تم مورتیں بنانی ہی چاہتے ہو تو ان درختوں کی اور ہر اس چیز کی جس میں جان نہیں ہے مورتیں بناسکتے ہو۔ ابوعبداللہ امام بخاری نے کہا کہ سعید بن ابی عروبہ نے نضر بن انس سے صرف یہی ایک حدیث سنی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو کتاب اللباس میں عبدالاعلیٰ سے، انہوں نے سعید بن ابی عروبہ سے، انہوں نے نضر سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نکالا۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مورتوں کی کراہت اور حرمت نکالی۔
«اِنَّ الْمَلَائِکَةَ لَا تَدْخُلُ بَيْتًا فِيْهِ صُوْرَةٌ»
صحیح البخاری، اللباس، باب من کرہ القعود علی الصور، ح: ۵۹۵۸ وصحیح مسلم، اللباس والزینة، باب
تحریم تصویر صورة الحيوان، ح: ۲۱۰۶۔
’’بلا شبہ فرشتے ایسے کسی گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر ہو۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ گھروں میں تصویروں کو رکھنا حرام ہے اور انہیں دیواروں پر لٹکانا بھی حرام ہے اور اس گھر میں فرشتے داخل ہی نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر ہو۔
تصاویر کی حرمت کو آئینہ کے ساتھ تشبیہ کی وجہ سے ہی مذکورہ حدیث آئینہ بیان کی تھی۔
تصویر کے ناجائز ہونے کے دلائل متحرک ، ساکن ، ہاتھ والی ، کیمرے والی ، عکسی ، غیر عکسی ، وڈیو والی، غیر وڈیو والی ، ورق نقدی والی ، بطاقۃ المعرفۃ والی ، جواز والی ، رخصہ والی تذکرات البرید وغیرہ والی، کتب وصحائف والی ، اختیارات وامتحانات والی ، معاہدات و وظائف والی تصویروں پر اور بچوں کے کھلونوں والی تصاویر کے علاوہ سب تصویروں پر صادق آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم ۱۳/۸/۱۴۲۰ہـ
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ