• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا دور حاضر میں جہاد کرنا فتنہ ہے؟

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
کیا دور حاضر میں جہاد کرنا فتنہ ہے؟
ترجمہ: انصار اللہ اردو
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: ہمارے عالی قدر اور با بصیرت امام ابو ہمام الاثری اللہ کی قسم میں آپ سے اللہ کی خاطر محبت کرتا ہوں۔ اللہ تعالی طواغیت کے دلوں میں آپکا رعب و دبدبہ قائم و دائم رکھے اور مرجئہ کی زبانوں کے لئے آپکو لاجواب کر دینے والی کاٹ دار تلوار بنائے رکھے۔

ہمارے ہاں عراق میں مرجئہ لوگوں کے سامنے جب کبھی بھی جہاد و غزوہ کا مسئلہ بیان ہوتا ہے تو یہ اسکو رد کر دیتے ہیں، اس حجت کی بناء پر کے ہم فتنے کے دور میں رہ رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم فتنوں سے کنارہ کشی اور دوری اختیار کریں۔ اپنے اس نظریہ پر وہ احادیثِ فتن سے استدلال کرتے ہیں۔

اس شبہے کے ذریعے سے ان لوگوں نے بہت سے نوجوانوں کو جہاد ترک کرنے پر اکسایا ہے۔ ہم آپ سے اس شبہے کا لاجواب رد کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ ہمارے محبوب شیخ ! اللہ آپکو جزائے خیرعطا فرمائے۔ سائل: داحر الطواغیت

جواب شیخ ابو ہمام بن عبد العزیز الاثری:

میں اس ذات کی خاطر آپ سے محبت کرتا ہوں کہ جس کی خاطر آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ میرے سائل بھائی ! یقیناَ اللہ اور اسکے رسول کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے سرکشوں، حملہ آوروں اور ان کے مددگاروں کے خلاف جہاد کرنا فتنہ نہیں بلکہ فتنہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں ہے۔

اللہ تعالی نے فرمایا:


فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
"رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آ جائے۔"

[سورۃ النور، آیت: ٦۳]

اس لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک مرفوع حدیث ذکر کی ہے جس میں ہے کہ:

ألا وإنه يُجَاء برجال من أمتي فيؤخذ بهم ذات الشمال، فأقول: يا رب أصيحابي، فيقال: إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك.. "خبردار میری امت کے کچھ نوجوان آئیں گے تو انہیں جانب شمال سے پکڑ لیا جائےگا تو میں کہوں گا اے میرے پرودگار! یہ میرے امتی ہیں تو کہا جائے گا آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کرلیں تھیں۔"

امام بخاری نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں کتاب الفتن میں ذکر کیا ہے (یہ ان کی طرف سے اشارہ ہے جیسا کہ اپنے تراجم ابواب میں ان کی عادت ہے) دین میں نئے کام ایجاد کرنا، دین کو بدل دینا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کرنا فتنوں کا سب سے بڑا سبب اور وہ اس کی ایسی بنیاد ہے جو زمانہ قدیم اور دور جدید میں بھی ہے۔

میرے سائل بھائی جان لیں کہ جہاد جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے، فتنہ نہیں جیساکہ جہاد کو چھوڑنے والے کہتے ہیں بلکہ جہاد کو ترک کرنا فتنہ ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:


وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذَنْ لِي وَلَا تَفْتِنِّي أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا
"ان میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے کہ "مجھے رخصت دے دیجیے اور مجھ کو فتنے میں نہ ڈالیے۔ سن رکھو! فتنے ہی میں تو یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں۔"

[سورۃ الفاضحة، آیت: ۴۹]

جہاد فتنہ کو دور کرنے کا شرعی طریقہ ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:


وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ
"تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے پھر اگر وہ باز آ جائیں، تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں۔"

[سورۃ البقرة، آیت: ۱۹۳]

نیز فرمایا: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ "(اے ایمان لانے والو!) تم ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے پھر اگر وہ فتنہ سے رُک جائیں تو ان کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے۔
"

[سورۃ الأنفال، آیت: ۳۹]

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:


الجهاد وإنفاق الأموال؛ قد تكون مضرة، لكن لما كانت مصلحته راجحة على مفسدته؛ أمر به الشارع
جہاد کرنا اور مال خرچ کرنا کبھی کبار باعث نقصان ہوتا ہے لیکن چونکہ اس کی مصلحت (فائدہ) اسکی خرابی پر مقدم ہے۔ تو شریعت نے اس کا حکم دیا ہے۔

[مجموعة الفتاوى لشيخ الإسلام ابن تيمية، ۱/۲٦۵]

اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

الجهاد؛ هو دفع فتنة الكفر، فيحصل فيها من المضرة ما هو دونها۔ "جہاد فتنہ کفر کو دور کرنے کا نام ہے چنانچہ اس میں کچھ نقصان بھی ہوتا ہے جو فتنہ کفر کے نقصان سے کم ہوتا ہے۔"

[مجموعة الفتاوى لشيخ الإسلام ابن تيمية، ۲۰/۵۲]

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:


الشريعة تأمر بالمصالح الخالصة والراجحة، كالإيمان والجهاد، فإن الإيمان مصلحة محضة، والجهاد – وإن كان فيه قتل النفوس – فمصلحته راجحة، وفتنة الكفر أعظم فسادا من القتل، كما قال تعالى: (وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ) البقرة: ۲۱۷


"شریعت خالص اور راجح مصلحتوں کا حکم دیتی ہے جیساکہ ایمان وجہاد۔ چنانچہ ایمان خالص مصلحت ہے اور جہاد (اگرچہ اس میں جانوں کی ہلاکت ہے) تو اسکی مصلحت مقدم ہے اور فتنہ کفر قتل سے بڑا فساد ہے جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا: "اور فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے۔"

[مجموعة الفتاوى لشيخ الإسلام ابن تيمية،۲۷/۲۳۰]

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:


(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ…)، فأمر بالجهاد، وهو مكروه للنفوس، لكن مصلحته ومنفعته راجحة على ما يحصل للنفوس من ألمه، بمنزلة من يشرب الدواء الكريه لتحصل له العافية، فإن مصلحة حصول العافية له؛ راجحة على ألم شرب الدواء


"تمہیں قتال کا حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔ (البقرة: ۲۱٦) لہذا جہاد کا حکم انسانی جانوں کے لئے ناپسند شے ہے لیکن اس کی مصلحت اور اس کا فائدہ جانوں کو ملنے والی تکالیف پر مقدم ہے۔ اس شخص کی طرح جو بدذائقہ (کڑوی) دوا پیتا ہے تاکہ اسے عافیت مل جائے تو اسے عافیت ملنے کی مصلحت دوا پینے کی تکلیف پر مقدم ہے۔"

[مجموعة الفتاوى لشيخ الإسلام ابن تيمية، ۲۴/۲۷۹]

اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:


الله سبحانه إنما حرم علينا الخبائث لما فيها من المضرة والفساد، وأمرنا بالأعمال الصالحة لما فيها من المنفعة والصلاح لنا، وقد لا تحصل هذه الأعمال إلا بمشقة – كالجهاد والحج والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر وطلب العلم – فيحتمل تلك المشقة ويُثاب عليها، لما يعقبه من المنفعة


"اللہ تعالی نے ہمارے پر خبیث (گندی) چیزوں کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ اس میں نقصان اور خرابی ہے، اور ہمیں صالح اعمال کا حکم دیا ہے کیونکہ اس میں ہمارے لیے فائدہ اور بہتری ہے۔ بسااوقات یہ اعمال صرف مشقت سے حاصل ہوتے ہیں (جیسا کہ جہاد، حج، امر بالمعروف ونھی عن المنکر اور حصول علم) ہیں۔ اس مشقت کو برداشت کیا جائے اور اس پر ثواب حاصل کیا جائے کیونکہ اس میں فائدہ ہے۔"

[مجموعة الفتاوى لشيخ الإسلام ابن تيمية، ۲۵/۲۸۲]

شیخ علامہ سلیمان بن سحمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

إذا عرفت أن التحاكم إلى الطاغوت كفر، فقد ذكر الله في كتابه: أن الكفر أكبر من القتل, قال: (والفتنة أكبر من القتل) (البقرة: ۲۱۷) وقال: (والفتنة أشد من القتل) (البقرة: ۱۹۱) والفتنة: هي الكفر؛ فلو اقتتلت البادية والحاضرة حتى يذهبوا، لكان أهون من أن ينصبوا في الأرض طاغوتاً, يحكم بخلاف شريعة الإسلام، التي بعث الله بها رسوله صلى الله عليه وسلم۔"

"جب آپ یہ جان چکے کہ طاغوت کی طرف فیصلہ لے جانا کفر ہے تو اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ کفر قتل وغارت سے زیادہ بڑا ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا: "فتنہ قتل سے زیادہ شدید تر ہے۔" فتنہ سے مراد کفر ہے۔ پس اگر گاؤں والے اور شہر والے باہم لڑیں حتی کہ مرجائیں یہ اس سے ہلکا اور معمولی ہے کہ لوگ زمین پر ایسے طاغوت کو نامزد کریں جو اس شریعتِ اسلام کے خلاف فیصلہ کرے جس کے ساتھ اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے۔"

[الدرر السنية في الأجوبة النجدية، ۱۰/۵۱۰]

شیخ علامہ عبد القادر بن عبد العزیز (اللہ آپکو رہائی عطا فرمائے) فرماتے ہیں کہ:

ولا شك أن الضرر النازل بالمسلمين من تسلط الحكام المرتدين عليهم، وما في ذلك من الفتنة العظيمة، هذا الضرر يفوق أضعافا مضاعفة قتل بعض المسلمين المكرهين في صف العدو أو المخالطين له عن غير قصد حال القتال، إن كثيرا من بلدان المسلمين تسير في طريق الردة الشاملة من جراء هؤلاء، فأي فتنة أعظم من هذا، هذه فتنة تفوق ما يصيب المسلمين بالجهاد من قتل أو سجن أو تعذيب أو تشريد، قال تعالى: (وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنْ الْقَتْلِ)، وقال تعالى: (وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنْ الْقَتْلِ). فيجب دفع المفسدة العظمى (فتنة الكفر والردة) بتحمل المفسدة الأخف (وهو ما يترتب على الجهاد من قتل وغيره) وهذا هو المقرر في القواعد الفقهية الخاصة بدفع الضرر، كقاعدة (الضرورات تبيح المحظورات) وقاعدة (يُتحمل الضرر الخاص لدفع الضرر العام) وقاعدة (الضرر الأشد يُزال بالضرر الأخف) وقاعدة (إذا تعارض مفسدتان روعي أعظمهما ضررا) وقاعدة (يُختار أهون الشرين) وغيرها

"بلاشبہ مسلمانوں پر مرتدین کے تسلط کی صورت میں انہیں پیش آنے والا نقصان اور اس میں موجود فتنہ عظیم کا نقصان قتال کی صورت میں دشمن کی صف میں زبردستی لائے گئے مسلمانوں یا بغیر ارادے کے ان سے مل جل کر رہنے والے مسلمانوں کے قتل سے کئی گناہ زیادہ بڑھ کر ہے۔ یقینا بہت سے مسلمان ممالک ان کی وجہ سے ہمہ گیر ارتداد کے راستے پرچل رہے ہیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا فتنہ ہوسکتاہے۔ یہ فتنہ جہاد کی وجہ سے قتل، قید و سزا اور جلا وطنی کی صورت میں مسلمانوں پر نازل ہونے والے مصائب سے زیادہ بڑاہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: "فتنہ قتل وغارت سے بڑاہے۔" چنانچہ چھوٹی خرابی (جو قتل وغارت کی صورت میں جہاد کرنے کے نتیجے میں برآمد ہوتی ہے) کو برداشت کرتے ہوئے بڑی خرابی کو دور کرنا واجب ہوتا ہے اور یہ دفع ضرر(نقصان کو دور کرنے) سے متعلق خاص فقہی قواعد میں مقرر ہے جیسا کہ یہ قاعدہ "ضرورتیں ناجائز امور کو جائز کر دیتی ہیں۔" اسی طرح یہ قاعدہ "کہ عام نقصان کو دور کر نے کے لئے خاص نقصان کو برداشت کیا جائے۔"
اس کے علاوہ یہ قاعدہ "کہ بڑے نقصان کا چھوٹے نقصان کے ذریعے ازالہ ہوتا ہے۔" علاوہ ازیں یہ قاعدہ "کہ جب دو خرابیاں آپس میں ٹکرائیں (متعارض ہوں) تو اس میں سے زیادہ نقصان دہ خرابی کو دور کیا جائے۔" نیز یہ قاعدہ "دو برائیوں میں سے ہلکی و معمولی کو اختیار کیا جائے۔"

[لعمدۃ فی اعداد العدۃ ص: ۳۲۰]

آخر میں میرے سائل بھائی آپ اور آپکے ارد گرد رہنے والے لوگ جان لیں کہ آپ نے اپنے سوال کے اندر جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا، دراصل ان کا یہ کلام ہی فتنہ ہے پس آپ اسے ماننے سے انکار اور قتال کو ترک کرنے والے سے بچیں۔ اللہ ذو الجلال نے ہمیں اس طرح کے لوگوں سے آگاہ کیا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :

لَوْ خَرَجُوا فِيكُمْ مَا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ حَتَّى جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ

"اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے وہ تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے، اور تمہارے گروہ کا حال یہ ہے کہ ابھی اُس میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو اُن کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں، اللہ اِن ظالموں کو خوب جانتا ہے۔"

[سورۃ الفاضحة، آیت: ۴۷-۴۸]

لہذا جو شخص یہ فتویٰ دے کہ جہاد کرنا غیر مشروع ہے اس حجت سے کہ جہاد فتنہ ہے یا ہم فتنوں کے دور میں ہیں یا مجاہدین فتنوں میں مبتلا ہیں تو وہ مفتی نہیں مفتن (فتنے میں مبتلا) ہے۔

صحیح مسلم میں صحیح روایت موجود ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: (من قال هلك الناس فهو أهلكهم) "جو شخص یہ کہے کہ لوگ ہلاکت میں پڑگئے تو وہ ان میں سب سے زیادہ ہلاکت میں ہے۔
"

میرے سائل بھائی کیا ہی خوب ہوگا کہ آپ کسی کہنے والے کی یہ مثال پیش کریں کہ:


سأغسلُ عنّي العارَ بالسيفِ جالباً ... عليَّ قضاء اللهِ ما كانَ جالباً
وأذهل عن داري وأجعلُ هدمها ... (لديني) من باقي المذمَّةِ حاجباً

مفہوم اشعار: میں اللہ تعالی کے ہر فیصلے پر راضی ہوتے ہوئے عنقریب تلوار سے اپنے عیب کو دھو ڈالوں گا اور عنقریب اپنے گھر سے بے پرواہ ہوکر دین کی خاطر اس کے منہدم ہو جانے کو دیگر برائیوں کے لئے رکاوٹ بنا دوں گا۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ آپکی مدد فرمائے اور آپکے ذریعے اسلام و مسلمانوں کی مدد فرمائے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
 
Top