• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسری شادی نہ کرنے کی دھمکی دینے والی درست ہے؟ ؟؟

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
السلام علئیکُم ورحمتُ اللہ وبرکاتہ

مہربانی فرما کر تحقیق فرما دیں کہ کیا، پیغمبر صلی اللہ علئیہ وآلہ وسلم کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں اُنکے علاوہ کسی اور عورت سے حضرت علی کودوسری شادی سے منع کرنا اور اُن سے ناراضگی کی دھمکی دینا درست ھے ؟

جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔
محترم بھائی @اسحاق سلفی @خضر حیات
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکُم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مہربانی فرما کر تحقیق فرما دیں کہ کیا، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں اُنکے علاوہ کسی اور عورت سے حضرت علی کودوسری شادی سے منع کرنا اور اُن سے ناراضگی کی دھمکی دینا درست ھے ؟
آپﷺکا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دوسری شادی سے منع فرمانا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
سوال :
بخاری شریف میں حدیث ہے کہ حضرت علی
رضی اللہ عنہنے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے جو کہ ابوجہل کی بیٹی تھی شادی کرنے کا ارادہ کیا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو پتہ چلا تو انہوں نے حضور سے شکایت کی انہوں نے علیرضی اللہ عنہ کو دوسری شادی سے منع فرمایا کہ تم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے دوسری شادی نہیں کر سکتے اس پر اعتراض پیدا ہوتا ہے حضورﷺ خود تو گیارہ بارہ بیویاں رکھیں اوراپنی بیٹی کی ایک سوکن بھی برداشت نہ کر سکیں حالانکہ چار بیویاں رکھنے کا حق اللہ پاک نے ہر مسلمان کو دیا ہے معترض کہتا ہے یا حدیث جھوٹی ہے یا حضور منصف نہیں حضور کے انصاف کے مخالف بھی قائل ہیں صادق اور امین جانتے تھے لہٰذا حدیث ہی غلط ہو سکتی ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال


وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہﷺ بھی منصف ہیں اور حدیث بھی غلط یا جھوٹی نہیں صحیح متفق علیہ ہے۔ توضیح کے لیے ایک مثال پیش خدمت ہے۔ ایک شخص کی اپنی چار بیویاں ہیں اس کے ایک بیوی والے داماد نے پروگرام بنا لیا اپنے سسر کی ہمشیرہ سے بھی شادی کر لی جائے دو بیویاں ہو جائیں گی۔ اس پر چار بیویوں والے سسر اپنے ایک بیوی والے داماد کو کہتے ہیں ایسا نہ کرو اگر ضرور کرنا ہی ہے تو میری بیٹی کو طلاق دے دو آگے سے داماد اور اس کے ہمنوا کہتے ہیں دیکھو صاحب آپ کی اپنی چار بیویاں ہیں قرآن مجید انسان کو چار بیویاں کرنے کا حق دیتا ہے تو پھر آپ اپنی بیٹی کی ایک سوکن برداشت کرنے کو بھی تیار نہیں آخر کیوں ؟ یہ ناانصافی ہے وغیرہ وغیرہ باتیں کرتے ہیں حالانکہ داماد اور اس کے ہمنوائوں کی یہ سب باتیں فضول اورنامعقول ہیں کیونکہ سسر صاحب کے اپنے داماد کو اپنی ہمشیرہ کے ساتھ شادی کرنے سے منع کرنے میں بیٹی کی سوکنوں کو برداشت نہ کرنا سبب نہیں سبب فقط یہ ہے کہ پھوپھی بھتیجی دونوں کو بیک وقت ایک شخص کی بیویاں بنانا شریعت میں ناجائز ہے ۔
اسی طرح رسول اللہﷺکے اپنے داماد حضرت علیرضی اللہ عنہ کو حضرت جویریہ بنت ابی جہل سے نکاح کرنے سے منع کرنے میں سبب یہ نہیں کہ آپﷺنے اپنی بیٹی کی ایک سوکن کو بھی برداشت نہیں کیا سبب فقط یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہﷺ کی بیٹی ہے اور جویریہ رضی اللہ عنہا عدو اﷲ کی بیٹی ہے اور شریعت میں رسول اللہﷺ کی بیٹی اور عدو اﷲ کی بیٹی دونوں کو ایک شخص کے نکاح میں بیک وقت جمع کرنا جائز نہیں چنانچہ صحیح بخاری ہی میں اسی موقعہ پر رسول اللہﷺ کا فرمان موجود ہے:
«اِنِّیْ لَسْتُ اُحَرِّمُ حَلاَلاً ، وَلاَ اُحِلُّ حَرَامًا ، وَلٰکِنْ وَاﷲِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُوْلِ اﷲِ وَبِنْتُ عَدُوِّ اﷲِ اَبَدًا»جلد اول كتاب الجهاد باب ما ذكر من درع النبىﷺ وعصاه و سيفه الخ ص438

’’بلا شبہ میں حلال کو حرام نہیں کرتا اور نہ ہی حرام کو حلال کرتا ہوں لیکن بخدا رسول اللہ کی بیٹی اور عدواﷲکی بیٹی دونوں کبھی جمع نہیں ہوتیں‘‘
وباللہ التوفیق
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
صحیح البخاریؒ
كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ

مَا ذُكِرَ مِنْ دِرْعِ النَّبِيِّ ﷺ وَعَصَاهُ، وَسَيْفِهِ وَقَدَحِهِ، وَخَاتَمِهِ


3110 (حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الجَرْمِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، أَنَّ الوَلِيدَ بْنَ كَثِيرٍ، حَدَّثَهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ الدُّؤَلِيِّ، حَدَّثَهُ أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ، حَدَّثَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ حُسَيْنٍ، حَدَّثَهُ: أَنَّهُمْ حِينَ قَدِمُوا المَدِينَةَ مِنْ عِنْدِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ مَقْتَلَ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ، لَقِيَهُ المِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ، فَقَالَ لَهُ: هَلْ لَكَ إِلَيَّ مِنْ حَاجَةٍ تَأْمُرُنِي بِهَا؟ فَقُلْتُ لَهُ: لاَ، فَقَالَ لَهُ: فَهَلْ أَنْتَ مُعْطِيَّ سَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَغْلِبَكَ القَوْمُ عَلَيْهِ، وَايْمُ اللَّهِ لَئِنْ أَعْطَيْتَنِيهِ، لاَ يُخْلَصُ إِلَيْهِمْ أَبَدًا حَتَّى تُبْلَغَ نَفْسِي، إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ عَلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ، فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ النَّاسَ فِي ذَلِكَ عَلَى مِنْبَرِهِ هَذَا وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ، فَقَالَ: «إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي، وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا»، ثُمَّ ذَكَرَ صِهْرًا لَهُ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، فَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي مُصَاهَرَتِهِ إِيَّاهُ، قَالَ: «حَدَّثَنِي، فَصَدَقَنِي وَوَعَدَنِي فَوَفَى لِي، وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلاَلًا، وَلاَ أُحِلُّ حَرَامًا، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ أَبَدًا»

کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
باب : نبی کریم ﷺ کی زرہ‘ عصاء مبارک ‘ آپ ﷺ کی تلوار ‘ پیالہ اورانگوٹھی کا بیان

ترجمہ : سیدنا علی بن حسین ( زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ ) نے بیان کیا کہ جب ہم سب حضرات حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے ملاقات کی ‘ اور کہا اگر آپ کو کوئی ضرورت ہو تو مجھے حکم فرما دیجئے ۔ ( حضرت زین العابدین نے بیان کیا کہ ) میں نے کہا ‘ مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ پھر مسورص نے کہا تو کیا آپ مجھے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار عنایت فرمائیں گے ؟ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کچھ لوگ اسے آپ سے نہ چھین لیں اور خدا کی قسم ! اگر وہ تلوار آپ مجھے عنایت فرما دیں تو کوئی شخص بھی جب تک میری جان باقی ہے اسے چھین نہیں سکے گا ۔ پھر مسور رضی اللہ عنہ نے ایک قصہ بیا ن کیا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ابو جہل کی ایک بیٹی ( جمیلہ نامی رضی اللہ عنہ ) کو پیغام نکاح دے دیا تھا ۔ میں نے خود سنا کہ اسی مسئلہ پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسی منبر پر کھڑے ہو کر صحابہ کو خطاب فرمایا ۔ میں اس وقت بالغ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہ مجھ سے ہے ۔ اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ ( اس رشتہ کی وجہ سے ) کسی گناہ میں نہ پڑجائے کہ اپنے دین میں وہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان بنی عبد شمس کے ایک اپنے داماد ( عاص بن ربیع ) کا ذکر کیا اوردامادی سے متعلق آ پ نے ان کی تعریف کی ‘ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جوبات کہی سچ کہی ‘ جو وعدہ کیا ‘ اسے پورا کیا ۔ میں کسی حلال ( یعنی نکاح ثانی ) کو حرام نہیں کرسکتا اور نہ کسی حرام کو حلال بناتا ہوں ‘ لیکن اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گی ۔"
ــــــــــــــــــــــــــ

تشریح: (انا اخاف ان تفتن فی دینھا )سے مراد یہ کہ علی رضی اللہ عنہ دوسری بیوی لائیں اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سوکن پنے کی عداوت سے جوہر عورت کے دل میں ہوتی ہے‘ کسی گناہ میں مبتلا ہو جائیں۔ مثلاً خاوند کو ستائیں‘ ان کی نافرمانی کریں یا سوکن کو برا بھلا کہہ بیٹھیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ کا نکاح ثانی یوں ممکن ہے کہ وہ میری بیٹی کو طلاق دے دیں اور ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرلیں۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کا یہ ارشاد سنا تو فوراً یہ ارادہ ترک کیا اور جب تک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ زندہ رہیں انہوں نے دوسری بیوی نہیں کی۔ قسطلانی نے کہا آپ کے ارشاد سے یہ معلوم ہوا کہ پیغمبر کی بیٹی اور عدواللہ کی بیٹی میں جمع کرنا حرام ہے۔
مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے یہ قصہ اس لئے بیان کیا کہ حضرت زین العابدین کی فضیلت معلوم ہو کہ وہ کس کے پوتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ کے‘ جن کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر عتاب فرمایا اور جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بدن کا ایک ٹکڑا قرار دیا۔ اس سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی۔

وفی الفتح قال الکرمانی مناسبۃ ذکر المسورلقصۃ خطبۃ بنت ابی جہل عند طلبہ للسیف من جھۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ن یحترز عما یوجب وقوع التکدیر بین الاقرباءفکذالک ینبغی ان تعطینی السیف حتیٰ لا یحصل بینک وبین اقربائک کدورۃ بسببہ
یعنی مسور رضی اللہ عنہ نے بنت ابوجہل کی منگنی کا قصہ اس لئے بیان کیا جبکہ انہوں نے حضرت زین العابدین سے تلوار کا سوال کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی چیزوں سے پرہیز فرمایا کرتے تھے جن سے اقراباءمیں باہمی کدورت پیداہو۔ پس مناسب ہے کہ آپ یہ تلوار مجھ کو دے دیں تاکہ آپ کے اقرباءمیں اس کی وجہ سے آپ سے کدورت نہ پیداہو۔
http://maktaba.pk/hadith/bukhari/3110/
 
Last edited:
Top