• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا رسول ﷺ پیدائشی نبی تھے ؟

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
کیا رسول ﷺ پیدائشی نبی تھے ؟

جو رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وحی کے نزول سےپہلے نبی مانے وہ کافرھے استغفر اللہ؟ ؟؟

حالانکہ میرے نبی اس وقت بھی نبی تھے جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے دیکھئے ثبوت حوالہ جات مع حدیث نبوت قبل تخلیق آدم علیہ السلام

ومن قال أن النبى صلى الله عليه و سلم كان نبيا قبل أن يوحى إليه فهو كافر بإتفاق المسلمين
مجموع فتاوى شيخ الإسلام أحمد بن تيمية جلد 8 صفحہ 283 الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف

ترجمہ: اور جس نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم وحی نازل ہونے سے پہلے نبی تھے وہ کافر ہے اس پرتمام مسلمانوں کا اتقاق ( اجماع ) ہے.

جواب ؟؟؟؟؟؟،؟
صحیح حدیث میں آیا ہے کہ کسی صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا : آپ کب سے نبی ہیں؟ آپ نے فرمایا جب حضرت آدم ع جسم اور روح کے درمیان تھے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: " وآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ "
مسند الإمام أحمد بن حنبل - ج 34 ص 202 ح 20596

تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح رجاله ثقات رجال الصحيح
ناصر البانی نے اس کوإسناده صحيح رجاله ثقات رجال الصحيح کہا ہے
كتاب السنة ومعه ظلال الجنة في تخريج السنة ح 410 صفحہ 189
نیز اس کو سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها - ج4 ح 1856 صفحہ 471 پر درج کیا ہے۔
قال حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا سريج بن النعمان قال ثنا حماد عن خالد الحذاء عن عبد الله بن شقيق عن رجل قال قلت : يا رسول الله متى جعلت نبيا قال وآدم بين الروح والجسد
ناصر البانی نے اس کوإسناده صحيح کہا ہے
كتاب السنة ومعه ظلال الجنة في تخريج السنة ح 411 صفحہ 189
کاپی پیسٹ​
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
کیا رسول ﷺ پیدائشی نبی تھے ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ کو نبی بنانے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی تقدیر میں جناب آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے تھا ؛
ہاں اس دنیا میں اپنی مبارک عمر کے چالیسویں سال آپ کو وحی بھیج کر نبوت کے عظیم منصب پر سرفراز کیا گیا ،
اور اللہ کے علم و تقدیر میں صرف آپ کی نبوت ہی نہیں بلکہ اس دنیا میں آنے والے ہر انسان کی تقدیر کے فیصلے بہت پہلے سے لکھ رکھے ہیں ،
عن عبد الله بن عمرو بن العاص، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " كتب الله مقادير الخلائق قبل أن يخلق السماوات والأرض بخمسين ألف سنة، قال: وعرشه على الماء " (صحیح مسلم ،کتاب القدر )
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر کو لکھا آسمان اور زمین کے بنانے سے پچاس ہزار برس پہلے، اس وقت پروردگار کا عرش پانی پر تھا۔))

یعنی یہ نبوت اللہ نے نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے لیے تقدیر میں لکھ دی تھی اور تقدیر تو زمین وآسمان کی تخلیق سے بھی بہت پہلے لکھی جاچکی تھی
اور اس تقدیر میں صرف رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا نبی ہونا ہی نہیں اور بہی بہت کچھ ہونا شامل ہے حتی کہ میرا اور آپکا پیداہونا اور نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونا وغیرہ وغیرہ بھی !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جس حدیث شریف کے متعلق آپ نے پوچھا ہے اس کی تحقیق شیخ مکرم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے قلم سے پیش ہے :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟"
لوگوں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی تھی؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ"
اور نبوت اس وقت واجب ہوئی جب آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے۔
(جامع ترمذی،کتاب المناقب ،باب ماجاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ح 3609 دلائل النبوہ للبیہقی 2/130 وابونعیم فی الدلائل ص 8ح8 المستدرک للحاکم 2/609 اخبار الصبہان لابی نعیم 2/226 کتاب القدر للفریابی ح14تاریخ بغداد للخطیب 1/146امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:ھذا حدیث حسن صحیح غریب من حدیث ابی ہریرۃ لانعرفہ الا من ھذا الوجہ)
یہ روایت صحیح ہے۔ولید بن مسلم نے دلائل النبوۃ میں سماع کی تصریح کردی ہے اور اس روایت کے کئی شواہد ہیں۔

2۔سیدنامیسرۃ الفجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا:
"قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَتَى كُتِبَتْ نَبِيًّا؟"
"اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کب نبی لکھے گئے؟"
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ"
"اور آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے"
(مسند احمد 5/59 ح20872،کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد 2/398 ح 864 واللفظ لہ،التاریخ الکبیر للبخاری 7/374 کتاب السنۃ لابن ابی عاصم ح410،کتاب القدر لجعفر بن محمد الفریابی ص 29 ح 17طبقات ابن سعد 7/60 المعجم الکبیر للطبرانی 20/353 ح 822،834 ،ابو یعلیٰ الموصلی اتحاف الخیرۃ المھرۃ للبوصیری 9/8 ح 488 حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبھانی 9/53 الحاکم فی المستدرک 2/608،609 وصححہ ووافقہ الذہبی معجم الصحابہ لعبد الباقی بن قانع ج14 ص 5043 ح 1992ء 1993)“)

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ178

محدث فتویٰ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تو جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے ، اور اس کا مطلب بھی واضح ہے کہ جو دونوں روایتوں میں بیان کیا گیا ہے کہ :
پہلی حدیث کے الفاظ ہیں :
(("قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟"
لوگوں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی تھی؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ"
اور نبوت اس وقت واجب ہوئی جب آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے۔))
اس حدیث میں سوال ہی یہ کیا گیا کہ آپ کی نبوت کب واجب ہوئی ،یعنی آپ کو نبی بنانے کا فیصلہ کب ہوا ،
یہ نہیں پوچھا کہ آپ نبی کب بنے ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دوسری روایت کے الفاظ ہیں :
"قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَتَى كُتِبَتْ نَبِيًّا؟"
"اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کب نبی لکھے گئے؟"
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ"
"اور آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے" ))
یہاں بات اور بھی واضح اور آسان ہے کہ (( آپ تقدیر میں نبی کب لکھے گئے ؟ )

اس لئے امام ابن تیمیہؒ کا یہ کلام بالکل درست ہے کہ :
ومن قال أن النبى صلى الله عليه و سلم كان نبيا قبل أن يوحى إليه فهو كافر بإتفاق المسلمين
مجموع فتاوى شيخ الإسلام أحمد بن تيمية جلد 8 صفحہ 283 الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ترجمہ: اور جس نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم وحی نازل ہونے سے پہلے نبی تھے وہ کافر ہے اس پرتمام مسلمانوں کا اتقاق ( اجماع ) ہے ۔
امام صاحب کا یہ کلام مجموع فتاوی کی کتاب القدر میں ہے
مکمل کلام یہ ہے کہ :


(( ولهذا يغلط كثير من الناس في قول النبي صلى الله عليه وسلم في الحديث الصحيح الذي رواه ميسرة قال: {قلت: يا رسول الله متى كنت نبيا؟ وفي رواية - متى كتبت نبيا؟ قال: وآدم بين الروح والجسد} . فيظنون أن ذاته ونبوته وجدت حينئذ وهذا جهل فإن الله إنما نبأه على رأس أربعين من عمره وقد قال له: {بما أوحينا إليك هذا القرآن وإن كنت من قبله لمن الغافلين} وقال: {ووجدك ضالا فهدى} وفي الصحيحين {أن الملك قال له: - حين جاءه - اقرأ فقال: لست بقارئ - ثلاث مرات -}
ومن قال: إن النبي صلى الله عليه وسلم كان نبيا قبل أن يوحى إليه فهو كافر باتفاق المسلمين وإنما المعنى أن الله كتب نبوته فأظهرها وأعلنها بعد خلق جسد آدم وقبل نفخ الروح فيه ۔۔۔))

یعنی بہت کئی لوگ نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کو سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں ،جو سیدنا میسرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث میں منقول ہے کہ : جناب نبی مکرم ﷺ سے سوال کیا کہ آپ کب نبی لکھے گئے ؟
فرمایا : اس وقت جب سیدنا آدم
روح اور جسد کے درمیان تھے "
تو (نا سمجھ حضرات نے ) اس قول رسول ﷺ سے یہ سمجھا کہ : اس وقت آپ کی ذات اور نبوت موجود تھی ، حالانکہ ایسا سمجھنا جہالت
کیونکہ اللہ عزوجل نے آپ ﷺ کو
چالیس سال کی عمر مبارک میں نبوت عطا فرمائی ، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ﴿3﴾ سورہ یوسف
ہم آپ کے سامنے بہترین بیان پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا اور یقیناً آپ اس سے پہلے بے خبروں میں سے تھے۔ (3 )
اور صحیحین کی حدیث میں وارد ہے کہ :
اللہ کا فرشتہ جب پہلی وحی لے آپ کے پاس آیا اور آپ سے کہا (اقرأ ) پڑھیئے ! آپ نے جواب دیا میں پڑھا ہوا نہیں ، تین مرتبہ یہی مکالمہ ہوا ،
اور جس نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم وحی نازل ہونے سے پہلے نبی تھے وہ کافر ہے اس پرتمام مسلمانوں کا اتقاق ( اجماع ) ہے ۔ انتھیٰ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ کو نبی بنانے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی تقدیر میں جناب آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے تھا ؛
ہاں اس دنیا میں اپنی مبارک عمر کے چالیسویں سال آپ کو وحی بھیج کر نبوت کے عظیم منصب پر سرفراز کیا گیا ،
اور اللہ کے علم و تقدیر میں صرف آپ کی نبوت ہی نہیں بلکہ اس دنیا میں آنے والے ہر انسان کی تقدیر کے فیصلے بہت پہلے سے لکھ رکھے ہیں ،
عن عبد الله بن عمرو بن العاص، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " كتب الله مقادير الخلائق قبل أن يخلق السماوات والأرض بخمسين ألف سنة، قال: وعرشه على الماء " (صحیح مسلم ،کتاب القدر )
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر کو لکھا آسمان اور زمین کے بنانے سے پچاس ہزار برس پہلے، اس وقت پروردگار کا عرش پانی پر تھا۔))

یعنی یہ نبوت اللہ نے نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے لیے تقدیر میں لکھ دی تھی اور تقدیر تو زمین وآسمان کی تخلیق سے بھی بہت پہلے لکھی جاچکی تھی
اور اس تقدیر میں صرف رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا نبی ہونا ہی نہیں اور بہی بہت کچھ ہونا شامل ہے حتی کہ میرا اور آپکا پیداہونا اور نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونا وغیرہ وغیرہ بھی !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جس حدیث شریف کے متعلق آپ نے پوچھا ہے اس کی تحقیق شیخ مکرم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے قلم سے پیش ہے :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟"
لوگوں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی تھی؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ"
اور نبوت اس وقت واجب ہوئی جب آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے۔
(جامع ترمذی،کتاب المناقب ،باب ماجاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ح 3609 دلائل النبوہ للبیہقی 2/130 وابونعیم فی الدلائل ص 8ح8 المستدرک للحاکم 2/609 اخبار الصبہان لابی نعیم 2/226 کتاب القدر للفریابی ح14تاریخ بغداد للخطیب 1/146امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:ھذا حدیث حسن صحیح غریب من حدیث ابی ہریرۃ لانعرفہ الا من ھذا الوجہ)
یہ روایت صحیح ہے۔ولید بن مسلم نے دلائل النبوۃ میں سماع کی تصریح کردی ہے اور اس روایت کے کئی شواہد ہیں۔

2۔سیدنامیسرۃ الفجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا:
"قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَتَى كُتِبَتْ نَبِيًّا؟"
"اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کب نبی لکھے گئے؟"
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ"
"اور آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے"
(مسند احمد 5/59 ح20872،کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد 2/398 ح 864 واللفظ لہ،التاریخ الکبیر للبخاری 7/374 کتاب السنۃ لابن ابی عاصم ح410،کتاب القدر لجعفر بن محمد الفریابی ص 29 ح 17طبقات ابن سعد 7/60 المعجم الکبیر للطبرانی 20/353 ح 822،834 ،ابو یعلیٰ الموصلی اتحاف الخیرۃ المھرۃ للبوصیری 9/8 ح 488 حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبھانی 9/53 الحاکم فی المستدرک 2/608،609 وصححہ ووافقہ الذہبی معجم الصحابہ لعبد الباقی بن قانع ج14 ص 5043 ح 1992ء 1993)“)

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ178

محدث فتویٰ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تو جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے ، اور اس کا مطلب بھی واضح ہے کہ جو دونوں روایتوں میں بیان کیا گیا ہے کہ :
پہلی حدیث کے الفاظ ہیں :
(("قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟"
لوگوں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی تھی؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ"
اور نبوت اس وقت واجب ہوئی جب آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے۔))
اس حدیث میں سوال ہی یہ کیا گیا کہ آپ کی نبوت کب واجب ہوئی ،یعنی آپ کو نبی بنانے کا فیصلہ کب ہوا ،
یہ نہیں پوچھا کہ آپ نبی کب بنے ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دوسری روایت کے الفاظ ہیں :
"قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَتَى كُتِبَتْ نَبِيًّا؟"
"اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کب نبی لکھے گئے؟"
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ"
"اور آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے" ))
یہاں بات اور بھی واضح اور آسان ہے کہ (( آپ تقدیر میں نبی کب لکھے گئے ؟ )

اس لئے امام ابن تیمیہؒ کا یہ کلام بالکل درست ہے کہ :
ومن قال أن النبى صلى الله عليه و سلم كان نبيا قبل أن يوحى إليه فهو كافر بإتفاق المسلمين
مجموع فتاوى شيخ الإسلام أحمد بن تيمية جلد 8 صفحہ 283 الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ترجمہ: اور جس نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم وحی نازل ہونے سے پہلے نبی تھے وہ کافر ہے اس پرتمام مسلمانوں کا اتقاق ( اجماع ) ہے ۔
امام صاحب کا یہ کلام مجموع فتاوی کی کتاب القدر میں ہے
مکمل کلام یہ ہے کہ :


(( ولهذا يغلط كثير من الناس في قول النبي صلى الله عليه وسلم في الحديث الصحيح الذي رواه ميسرة قال: {قلت: يا رسول الله متى كنت نبيا؟ وفي رواية - متى كتبت نبيا؟ قال: وآدم بين الروح والجسد} . فيظنون أن ذاته ونبوته وجدت حينئذ وهذا جهل فإن الله إنما نبأه على رأس أربعين من عمره وقد قال له: {بما أوحينا إليك هذا القرآن وإن كنت من قبله لمن الغافلين} وقال: {ووجدك ضالا فهدى} وفي الصحيحين {أن الملك قال له: - حين جاءه - اقرأ فقال: لست بقارئ - ثلاث مرات -}
ومن قال: إن النبي صلى الله عليه وسلم كان نبيا قبل أن يوحى إليه فهو كافر باتفاق المسلمين وإنما المعنى أن الله كتب نبوته فأظهرها وأعلنها بعد خلق جسد آدم وقبل نفخ الروح فيه ۔۔۔))

یعنی بہت کئی لوگ نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کو سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں ،جو سیدنا میسرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث میں منقول ہے کہ : جناب نبی مکرم ﷺ سے سوال کیا کہ آپ کب نبی لکھے گئے ؟
فرمایا : اس وقت جب سیدنا آدم
روح اور جسد کے درمیان تھے "
تو (نا سمجھ حضرات نے ) اس قول رسول ﷺ سے یہ سمجھا کہ : اس وقت آپ کی ذات اور نبوت موجود تھی ، حالانکہ ایسا سمجھنا جہالت
کیونکہ اللہ عزوجل نے آپ ﷺ کو
چالیس سال کی عمر مبارک میں نبوت عطا فرمائی ، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ﴿3﴾ سورہ یوسف
ہم آپ کے سامنے بہترین بیان پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا اور یقیناً آپ اس سے پہلے بے خبروں میں سے تھے۔ (3 )
اور صحیحین کی حدیث میں وارد ہے کہ :
اللہ کا فرشتہ جب پہلی وحی لے آپ کے پاس آیا اور آپ سے کہا (اقرأ ) پڑھیئے ! آپ نے جواب دیا میں پڑھا ہوا نہیں ، تین مرتبہ یہی مکالمہ ہوا ،
اور جس نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم وحی نازل ہونے سے پہلے نبی تھے وہ کافر ہے اس پرتمام مسلمانوں کا اتقاق ( اجماع ) ہے ۔ انتھیٰ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
qqqqqqqqqqqqqqqqq.gif
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
ایک آسان مثال پیش کرتا ہوں؛
ہر انسان کب پیدا ہوگا، کب اس کی شادی ہو گی کب اس کے گھر اولادپیدا ہوگی!
یہ سب بھی اللہ کے علم میں ہے، اور تقدیرمیں لکھ دیا گیا ہے!
اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ کوئی شخص اولاد کی پیدائش ہونے پر ''ابا'' نہیں بنا بلکہ وہ اپنی پیدائش سے پہلے بھی ''ابا''تھا!
اور شادی کے بعد اپنی بیوی کا شوہر نہیں بنا بلکہ پیدائش سے پہلے ہی وہ اس کاشوہر تھا!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الله رب العزت "عالم الغیب" ہے اور ہر چیز کے بارے میں مکمل علم رکھتا ہے جیسے کہ کس انسان کو نبی بنانا ہے اور کس کو یہ فضیلت عطا نہیں کرنی- نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم کو نبی بنانے کا فیصلہ الله رب العزت نے بہت پہلے ہی کرلیا تھا جیسے باقی انسانوں کے بارے میں مختلف معملات و واقعات ان کی پیدائش سے بہت پہلے تقدیر میں لکھ دیے گئے ہیں- لیکن خود نبی کو اس بات کی خبر نہیں دی جاتی کہ وہ پیدائشی نبی ہے - تاں وقت کہ اس پر وحی کا نزول نہ ہو جائے-

قرآن میں الله رب العزت کا واضح فرمان ہے کہ:

وَمَاکُنْتَ تَرْجُوْٓااَنْ یُّلْقٰٓی اِلَیْکَ الْکِتٰبُ اِلَّارَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ ظَھِیْرًالِّلْکٰفِرِیْنَo سوره القصص ٨٦
ترجمہ: آپ کو تو (اے نبی) کبھی اسکا خیال بھی نہ گزرا تھا کہ آپ کی طرف کتاب نازل فرمائی جائے گی لیکن یہ آپ کے رب کی مہربانی سے اترا ۔ اب آپ کو ہر گز کا فروں کا مدد گار نہ ہو نا چاہئے۔

ماکنت تدری ما الکتٰب ولاالایمان (سورۂ شوری ۵۲)
ترجمہ: تم نہیں جانتے تھے (اے نبی) کہ کتاب ﷲ کیا چیز ہے اور نہ یہ جانتے تھے کہ ایمان کس کو کہتے ہیں -

الله سب کو ہدایت دے (آمین)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سنن الترمذیؒ میں حدیث شریف ہے کہ :

عن ابي هريرة، قال:‏‏‏‏ قالوا:‏‏‏‏ يا رسول الله متى وجبت لك النبوة؟ قال:‏‏‏‏ " وآدم بين الروح والجسد ". قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا حسن صحيح غريب، ‏‏‏‏‏‏من حديث ابي هريرة، ‏‏‏‏‏‏لا نعرفه إلا من هذا الوجه، ‏‏‏‏‏‏وفي الباب، ‏‏‏‏‏‏عن ميسرة الفجر.
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! نبوت آپ کے لیے کب واجب ہوئی؟ تو آپ نے فرمایا: ”جب آدم روح اور جسم کے درمیان تھے“ ۱؎۔ (یعنی ان کی پیدائش کی تیاری ہو رہی تھی) ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں میسرہ فجر سے بھی روایت آئی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1856) ، المشكاة (5758)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

وضاحت: ۱؎: یہی وہ مشہور حدیث ہے جس کی تشریح میں اہل بدعت حد سے زیادہ غلو کا شکار ہوئے ہیں حتیٰ کہ دیگر انبیاء علیہم السلام کی تنقیص تک بات جا پہنچی ہے، حالانکہ اس میں صرف اتنی بات بیان ہوئی ہے کہ آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے میرے لیے نبوت کا فیصلہ (بطور تقدیر) کر دیا گیا تھا، ظاہر بات ہے کہ کسی کے لیے کسی بات کا فیصلہ روز ازل میں اللہ نے لکھ دیا تھا، اور روز ازل آدم علیہ السلام پیدائش سے پہلے، اس حدیث کے ثابت الفاظ یہی ہیں باقی دوسرے الفاظ ثابت نہیں ہیں جیسے «کنت نبیا وآدم بین الماء والطین» ” میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم ابھی اور مٹی کے درمیان تھے “ اسی طرح «کنت نبیا ولاماء ولا طین» ” میں اس وقت نبی تھا جب نہ پانی تھا نہ مٹی، یعنی تخلیق کائنات سے پہلے ہی میں نبی تھا “ ان الفاظ کے بارے میں علماء محدثین نے «لا اصل لہ» فرمایا ہے، یعنی ان الفاظ کے ساتھ اس حدیث کی کوئی صحیح کیا غلط سند تک نہیں اللہ غلو سے بچائے۔
 
Top