• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا سیدنا معاویہؓ نے مالِ غنیمت میں سونا چاندی کے سلسلے میں خیانت کی تھی؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
کیا سیدنا معاویہؓ نے مالِ غنیمت میں سونا چاندی کے سلسلے میں خیانت کی تھی؟

تحریر: محمد فھد حارث

چند غیر مستند تاریخی روایات کے تحت ہمارے بعض بزرگوں نے اپنی کتاب میں یہ بات لکھ دی کہ سیدنا معاویہؓ نے مالِ غنیمت کے معاملے میں کتاب اللہ و سنتِ رسول اللہﷺ کے صریح احکام کی خلاف ورزی کی ۔کتاب و سنت کی رو سے پورے مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال میں داخل ہونا چاہیئے اور باقی چار حصے اس فوج پر تقسیم کئے جانے چاہیئں جو لڑائی میں شریک ہوئی ہو لیکن حضرت معاویہؓ نے حکم دیا کہ مالِ غنیمت میں سونا چاندی ان کے لیے الگ نکال لیا جائے ، پھر باقی مال شرعی قاعدے کے مطابق تقسیم کیا جائے۔

اس سے پہلے کہ ہم اس روایت کے ماخذ، سند اور متن پر کلام کریں سب سے پہلے ہم کو یہ جاننا ہوگا کہ مالِ غنیمت کی تقسیم سے متعلق وہ کون سے "صریح احکام" تھے جن کی خلاف ورزی سیدنا معاویہؓ نے کی۔کسی متعلق عمومی احکامات کا بیان ہونا الگ بات ہے اور انکا "صریح و دو ٹوک" ہونا بالکل الگ بات ہے۔ اب مالِ غنیمت کے بارے میں کوئی "صریح " احکامات کتاب و سنت میں منصوص ہوتے تو پھر علماء و فقہا کے مابین مالِ غنیمت کی تقسیم کو لے کر اختلاف کیو نکر ہوسکتا تھا اور قواعدِ اصولیہ کی کتب پر اس پر بحثیں کیونکر ہوتیں۔ اب جیسا کہ اوپر کے اقتباس سے مترشح ہوتا ہے کہ مالِ غنیمت کی پانچ حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد چار حصے "صراحت" کے ساتھ مجاہدین میں تقسیم ہونے چاہیئے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا معاویہؓ سے عرصہ دراز یعنی تقریباً تیس سال سے زائد عرصہ قبل خود سیدنا عمرؓ نے ان احکامات کو "صریح" نہ جانا۔ سیدنا عمرؓ کے عہدِ مبارک سے پہلے دستور یہ تھا کہ مفتوحہ زمین مجاہدوں میں تقسیم کی جاتی تھی اور ان کے باشندے مجاہدوں کی غلامی میں دے دئیے جاتے تھے۔ سیدنا عمرؓ نے عراق کی فتح کے بعد سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کو وہاں کی مردم شماری کرنے کا حکم دیا۔ سیدنا سعدؓ نے مردم شماری کرکے نتائج بھیجے تو کل باشندوں اور فوج کی تعداد کا موازنہ کرنے کے بعد ایک ایک مسلمان کے حصہ میں تین تین آدمی آرہے تھے۔ سیدنا عمرؓ نے اس بات کو درست نہ جانا اور ان کی رائے یہ بنی کہ زمین مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بجائے باشندوں کو آزاد چھوڑ کے ان قبضہ میں رہنے دی جائیں اور ان پر خراج عائد کردیا جائے۔ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور سیدنا بلالؓ سیدنا عمرؓ کی اس رائے کے سخت مخالف تھے۔ جبکہ سیدنا عمرؓ کا کہنا تھا کہ اگر ممالکِ مفتوحہ فوج کو تقسیم کردئیے جائیں تو آئندہ افواج کی تیاری، بیرونی حملوں کی حفاظت، ملک کے امن و امان قائم رکھنے کے مصارف کہاں سے آئیں گے۔ پس سیدنا عمرؓ نے یہ معاملہ شوریٰ میں رکھ کر اپنی تجویز پیش کی جس کو جمہور صحابہ نے قبولیت کا شرف بخش دیا اور یوں پہلے جو زمینیں مجاہدین میں تقسیم کی جاتی تھی، سیدنا عمرؓ نے اپنے اجتہاد سے ان کو مجاہدوں میں تقسیم کرنا بند کرواکران کے مالکان کے پاس رہنے دیں اور ان سے جو خراج آتا تھا اس کو حکومت کے مصارف پر خرچ کرنا شروع کردیا۔ سو سب سے اول تو یہ عرض ہے کہ مالِ غنیمت کی تقسیم کا کوئی "صریح حکم" موجود نہیں جس میں اجتہاد کے ذریعے تبدیلی نہ کی جاسکتی ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو مالِ غنیمت کی تقسیم کے ضمن میں فقہاء کے مابین کبھی اختلاف نہ ہوتا۔

اب آتے ہی اس روایت کی طرف۔ اس روایت کا بنیادی ماخذ تاریخ طبری ہے اور طبری نے اس واقعہ کی جو سند نقل کی ہے وہ کچھ یوں ہے حدثنی عمر، قال حدثنی حاتم بن قبیصہ قال حدثنا غالب ابن سلیمان عن عبدالرحمٰن بن صبح۔ اب اتفاق دیکھئے کہ اس سند کے تین رواۃ یعنی حاتم بن قبیصہ، غالب بن سلیمان اور عبدالرحمٰن بن صبح تینوں مجھول الحال ہے۔ ان کا کوئی ذکر رجال کی کتب میں موجود نہیں۔ گویا یہ روایت ایک نہیں، دو نہیں تین مجھول الحال رواۃ کے سبب سخت ترین ضعیف و ناقابل حجت ٹھہرتی ہے ۔ پس روایتاً یہ حکایت ناقابلِ اعتبار ٹھہری۔ اب ذرا اس روایت کا متن بھی دیکھ لیتے ہیں۔ اس روایت کے متن میں مذکور ہے کہ عراق کے گورنر زیاد کے ماتحت خراسان میں سیدنا حکم بن عمروؓ حاکم تھے۔ انہوں نے وہاں کفار سے جہاد کیا جس میں ان کو فتح حاصل ہوئی اور بہت سا مالِ غنیمت ہاتھ لگا۔ انہوں نے گورنر عراق زیاد کو اس کی اطلاع دی۔ زیا د نے ان کو غنیمت کی تقسیم کے معاملے میں لکھا امیر المومنین کی طرف سے یہ خط آیا ہے کہ مالِ غنیمت میں سے ان کے لیے سونا چاندی الگ کرلیا جائے۔ یہ سونا چاندی سب بیت المال میں جمع کردیا جائے گا (یجمع کلہ من ھذہ الغنیمۃ لبیت المال)۔ لیکن حکم بن عمروؓ نے یہ حکم ماننے سے انکار کردیا اور ۱/۵ حصہ الگ کرکے تمام مالِ غنیمت لوگوں میں تقسیم کردیا۔

اب دیکھیے کہ اس روایت میں ایسی کوئی تصریح نہیں ملتی کہ سیدنا معاویہؓ نےاز خود یہ حکم زیاد کو دیا تھا بلکہ یہ تاثر ابھرتا ہےکہ زیاد نے خود ہی یہ بات اپنی طرف سے کہی تھی ورنہ حاکمِ خراسان سیدنا حکم بن عمر‍وؓ اتنی آسانی سے اس حکم کی خلاف ورزی نہ کرتے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خود حکمؓ کو بھی معلوم تھا کہ سیدنا معاویہؓ کا ایسا کوئی حکم نہیں ہے، اسی وجہ سے انہوں نے یک جنبش اس حکم کو مسترد کردیا تھا۔ اور قرائن بھی اسی کی تائید کرتے ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو سیدنا معاویہؓ اکیلے خراسان کے مالِ غنیمت کے لیے یہ حکم جاری نہ کرتے بلکہ یہ حکم ان تمام جنگی لشکروں پر بھی نافذ کرتے جو خود انہوں نے مرکزِ خلافت سے مختلف علاقوں میں جہاد کے لیے بھیجے تھے اور دوسرے تمام گورنروں کو بھی اس کی ہدایت کرتے۔ لیکن تاریخ میں ایسا کچھ نہیں ملتا۔ گویا صرف ایک واقعہ جو خراسان کے مالِ غنیمت سے متعلق تاریخ میں مذکور ہے اور صرف ایک دفعہ ملتا ہے اور جس پر خود مالِ غنیمت پر دسترس رکھنے والے گورنر نے عمل نہ کیا اس کو بنیاد بنا کر یہ تاثر کیسے دیا جاسکتا ہے کہ گویا پوری مملکتِ اسلامیہ میں اس پر عمل ہورہا تھا اور کھلم کھلا قرآن و سنت کی خلاف ورزی کی جارہی تھی۔ چنانچہ ایک واقعہ جس کی استنادی حیثیت مشکوک کجا از حد ناقابلِ اعتبار و حجت ہے اور اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کے واقع ہونے کی نفی خود اس واقعہ میں موجود ہے تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ سیدنا معاویہؓ نے "سنت" بدل دی تھی۔ یہاں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہؓ نے سنت بدلنے کی کوشش کی لیکن سیدنا حکمؓ نے اس کو ناکام بنادیا۔ اس ایک واقعہ کے علاوہ اور کوئی واقعہ تاریخ میں اس متعلق مذکور نہیں سو پس ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہؓ پر یہ محض الزام ہے کہ وہ مالِ غنیمت کی تقسیم کے سلسلے میں ردوبدل کرپائے تھے۔

اس کو بالکل ایسے سمجھئے جیسے سیدنا عمرؓ سے متعلق تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے مجمع عام میں عورتوں کے مہر کو چار سو درہم تک مقید کرنے کا فیصلہ دیا جس پر ایک بڑھیا نے ان کو ٹوک دیا کہ قرآن تو قنطار یعنی ڈھیر سا کی بات کرتا ہے تو عمرؓ تم کون ہوتے ہو مہر کو مقید کرنے والے جس پر سیدنا عمرؓ اپنا فیصلہ واپس لے لیتے ہیں۔ اب کوئی اس واقعہ کو بنیاد بنا کر کہے کہ سیدنا عمرؓ نے مہر سے متعلق نے ایسا حکم دیا جس سے قرآن و سنت کے "صریح " احکام کی خلاف ورزی ہوتی تھی اور اس بات سے صرفِ نظر کرلے کہ یہ حکم ایک دن کو بھی نافذ نہ ہوا تو اس کو کیا کہا جائے گا۔ بعینہ مالِ غنیمت والی اس روایت کے ضعف کے باوجود اگر یہ مان لیا جائے کہ زیاد کو حقیقت میں سیدنا معاویہ ؓ نے ہی خط لکھ کر ایسا کرنے کو کہا تھا تو تب بھی سیدنا حکم بن عمروؓ کے انکار پر اس حکم پر عمل نہ ہوسکا اور پھر سیدنا معاویہؓ نے زیاد یا حکمؓ کو بھی اس فرمان کے بجا لانے پر کچھ نہیں کہا گویا دوسرے لفظوں میں انہوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا اور ایک دن کے لیے بھی اس حکم پر عمل نہ ہوسکا ۔ چنانچہ یہ کیسے کہا جاسکتا ہےکہ سیدنا معاویہ ؓ نے مالِ غنیمت کے سلسلے میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کی صریح خلاف ورزی کی۔

پھر ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہ مال الگ کرواکر بیت المال میں جمع کروادیا گیا جس پر ایک رافضی الفکر شخص کا کہنا ہے کہ یہ جمع کروانا بھی خلیفہ کے ذاتی استعمال کے لیےہی تھا۔ جبکہ یہ استدلال بھی جہالت اور امورِ جہانبانی سے ناواقفیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جیسے سیدنا عمرؓ نے اپنے زمانے میں حکم دیا تھا کہ مفتوحہ زمینیں مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بجائے ان پر خراج عائد کرکے ان کی آمدن بیت المال میں داخل کردی جائے تاکہ وہ دیگر مصارف میں خرچ ہوں۔ بعینہٖ اسی طرح سیدنا معاویہؓ کے دور سے پہلے فوجی خدمت رضاکارانہ ہوتی تھی، اس لیے مالِ غنیمت کے چار حصہ فوج میں تقسیم کردئیے جاتے تھے لیکن جب رضاکارانہ کے بجائے تنخواہ دار فوج کا رواج ہوا تو فوج کا تمام سازو سامان اور سارے اخراجات حکومت کے ذمہ ہوگئے تو مالِ غنیمت کو فوج پر تقسیم کرنے کا اصول بھی اس طرح کا نہ رہا جیسے پہلے تھا۔ کیا معترض حضرات یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے سیدنا معاویہؓ پر اس سلسلے میں کوئی نقد یا اعتراض کیا ہو؟ پھر سیدنا معاویہؓ کے عہدِ مبارک اور اس کے بعد پورے اموی دور میں باقاعدہ فوج کے علاوہ رضاکار مجاہد بھی ہوتے تھے اس لیے ضروری ہوگیا تھا کہ سونا چاندی بیت المال کے لیے نکال لیا جائے اور باقی مال فوج پر تقسیم کردیا جائے تاکہ فوج کے مصارف پورے کئے جاسکیں ۔ پھر معترضین کی یہ بات بھی عجیب ہے کہ جب مالِ غنیمت میں سے سونا چاندی خلافِ شریعت نکال لیا گیا تو پھر باقی تقسیم شرعی کیسے رہ گئی کہ سیدنا معاویہؓ اس کی شرعی تقسیم کا حکم دے رہے ہیں۔

پھر یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ اگر سیدنا معاویہؓ مالِ غنیمت میں بے جا تصرف کرتے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ امہات المومنین سیدہ عائشہؓ، سیدہ ام سلمہؓ اور دیگر ازواج النبیﷺ، سیدنا حسنؓ، سیدنا حسینؓ،سیدنا عبداللہ بن جعفرؓ ، سیدنا عبداللہ بن عباسؓ اور دیگر اصحابِ رسولﷺ سیدنا معاویہؓ سے وظائف و عطیات وصول کرتے رہتے۔ اب کوئی کہے کہ یہ حضرات وظائف سیدنا معاویہؓ کی ذاتی دولت سے نہیں بیت المال سے لیتے تھے تو معترضین کے استدلال کے تحت ہی بیت المال میں بھی خلافِ شریعت مالِ غنیمت کی تقسیم سے آنے والے سونے چاندی کے سبب ناپاک و حرام مال کی آمیزش ہوگئی تھی تو یہ ممکن نہ تھا کہ امہات المومنین اور جمیع اصحابِ رسول ﷺ حرام مال کی آمیزش والا مال حرام مال کی آمیزش کرنے والے خلیفہ کے ہاتھوں لیتے۔ ان حضرات کا سیدنا معاویہؓ سے عطیات و وظائف قبول کرنا ہی اس بات کو مستلزم ہے کہ مالِ غنیمت اور بیت المال میں خرد برد کرنے والی یہ روایت وضعی و ناقابلِ قبول ہیں۔

یاد رہے کہ اس سلسلے میں مستدرک حاکم کی ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ سیدنا معاویہ ؓ نے مالِ غنیمت کی تقسیم سے متعلق حکم نہ ماننے کی پاداش میں سیدنا حکم بن عمروؓ کو قید کردیا تھا اور اسی حال میں ۴۵ھ ان کا اتنقال ہوگیا تھا۔ لیکن اس روایت کو عموماً مورخین و محدثین نے قبول نہیں کیا کیونکہ اس کو صرف امام حاکم نے روایت کیا ہے اور تشیع میں ان کا غلو معروف ہے سو اس سبب کم از کم سیدنا معاویہؓ کی کردار کشی پر مبنی ان کی کوئی منفرد روایت قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ الاصابہ میں ابن حجر عسقلانی اور دیگر محدثین نے سیدنا حکم بن عمروؓ سے متعلق اس روایت کو قبول نہیں کیا اور اس کے بجائے آپ کی طبعی موت کا ذکر کیا ہے جو کہ ۵۰ ھ میں ہوئی تھی اور آپ نے اپنی موت سے قبل انس بن ابی ایاس کو اپنے کام کا نگراں مقرر کیا تھا (الاصابہ جلد اول تحت الترجمہ حکم بن عمروؓ) ۔

پس اس اعتراض کے سلسلے میں درج ذیل باتیں غور کرنے لائق ہیں:

اول۔ یہ قصہ کسی مستند تاریخی روایت سے ثابت نہیں بلکہ ضعیف و مجھول راویوں سے مروی ہے سو اپنی اصل میں سنداً یہ قطعی قابلِ قبول نہیں۔

دوم۔ اگر اس قصہ کی استنادی حیثیت سے صرف نظر کر بھی لیا جائے تو اس سلسلے میں دو احتمال ہیں۔ پہلا یہ کہ ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں کہ سیدنا معاویہؓ نے یہ حکم دیا تھا کیونکہ اگر وہ حکم دیتے تو پوری بلادِ اسلامیہ کے گورنروں کو دیتے۔ صرف ایک گورنر کو یہ حکم دینا اور اسکا بھی انکار کردینا اس بات کا غماز ہے کہ یہ حکم سیدنا معاویہؓ کی جانب سے نہیں بلکہ زیاد کی جانب سے تھا۔

سوم۔ اگر اس کی نسبت سیدنا معاویہؓ سے مانی بھی جائے تو اس کی حیثیت بالکل ویسے ہی ہے جیسا کہ سیدنا عمرؓ کی مہر کی تحدید کے واقعہ کی حیثیت کہ سیدنا عمرؓ نے ایک تجویز دی جو غیر منظور کردی گئی اور ایک دن کو بھی اس پر عملدر آمد نہ ہوا۔ بعینہٖ مالِ غنیمت کی تقسیم کے سلسلے میں بھی یہی ہوا کہ اگر سیدنا معاویہؓ نے ایسا کوئی حکم دیا بھی تھا تو خراسان کے عامل کے انکار پر وہ تجویز رد ہوگئی اور ایک دن کے لیے بھی اس پر عمل نہ ہوسکا۔

چہارم۔ اگر اس تجویز پر عمل ہو بھی جاتا تو عراق کی مفتوحہ زمینوں والے معاملے کی طرح یہ معاملہ بھی اجتہادی مسائل میں سے تھا جس کو مصالح امت کی خاطر سیدنا معاویہؓ نے تجویز کیا اور اس پر عملدر آمد کروانا چاہا جس میں فقہی نقطۂ نظر سے قطعی کوئی قباحت نہیں تھی۔ اگر یہ معاملہ غیر شرعی ہوتا تو بیت المال میں حرام مال کی آمیزش کے تحت اصحاب رسولﷺ و امہات المومنین ؓ کبھی بھی سیدنا معاویہؓ سے عطیات و وظائف وصول نہ کرتیں۔

پنجم۔ تاریخ طبری میں ہی ایک روایت ملتی ہے جس سے یہ مترشح ہوتا ہےکہ خلیفہ کو اختیار ہوتا ہےکہ وہ جس مصرف میں چاہے حکومت و افواج پر بیت المال کی رقم خرچ کرے۔ جیسا کہ سیدنا علیؓ سے متعلق ملتا ہے کہ جب وہ اہل بصرہ کی بیعت سے قارغ ہوئے تو بیت المال کا جائزہ لیا۔ اس میں ساٹھ لاکھ درہم سے زائد رقم موجود تھی جو سیدنا علیؓ نے ان لوگوں میں تقسیم کردی جو آپ کے ساتھ جنگ میں شریک تھے۔ ہر شخص کے حصے میں پانچ پانچ سو کی رقم آئی۔ پھر ان سے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ شام میں آپ لوگوں کو فتح یاب کرے تو اتنی ہی رقم عطیات کے علاوہ تمہیں ملے گی۔ (طبری ۲/۳ صفحہ ۱۶۰)
 
Top