• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا شریعت میں اس طرح کا مزاح جائز ہے ؟

شمولیت
مارچ 11، 2016
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
58
کسی نے ایک مولانا صاحب سے سوال کیا کہ اگر نماز کی حالت میں میرے سامنے شیر آ جائے تو میں اپنی نماز مکمل کروں یا توڑ دوں ؟

مولانا نے جواب دیا : اگر تمہارا وضو باقی رہ جائے تو نماز مکمل کر سکتے ہو،
کیا اس قسم‌کا مذاق کر سکتے ہیں ؟
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,587
پوائنٹ
791
کسی نے ایک مولانا صاحب سے سوال کیا کہ اگر نماز کی حالت میں میرے سامنے شیر آ جائے تو میں اپنی نماز مکمل کروں یا توڑ دوں ؟
مولانا نے جواب دیا : اگر تمہارا وضو باقی رہ جائے تو نماز مکمل کر سکتے ہو
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اسلام میں مزاح کے متعلق ہمارے محترم فاضل بھائی @محمدفیض الابرار صاحب کے ایک مضمون سے اقتباس پیش ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزاح اور زندہ دلی وخوش طبعی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے، اور جس طرح اس کا حد سے متجاوز ہوجانا نازیبا اور مضر ہے،اسی طرح اس لطیف احساس سے آدمی کا بالکل خالی ہونا بھی ایک نقص ہے۔ جو بسا اوقات انسان کو خشک محض بنادیتاہے۔ بسا اوقات ہمجولیوں اور ہمنشینوں اور ماتحتوں کے ساتھ لطیف ظرافت و مزاح کا برتاؤ ان کے لیے بے پناہ مسرت کے حصول کا ذریعہ اور بعض اوقات عزت افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام تر عظمت و رفعت اور شان وشوکت کے باوجود، بسا اوقات اپنے جاں نثاروں اور نیازمندوں سے مزاح فرماتے تھے۔ ذیل کی احادیث سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ آپ کا پرشفقت مزاح کس طرح ہواکرتا تھا۔

سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مزاح کی چند مثالیں :
سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہم سے مزاح فرماتے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایاکہ :’’میں مزاح میں بھی حق بات ہی کہتا ہوں (یعنی اس میں کوئی بات غلط اور باطل نہیں ہوتی)‘‘۔[المعجم الاوسط للطبرانی: باب میم (حسن لغیرہ) و معجم الزوائد ص 8/303]

٭سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایاکہ’ ’بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی۔ اس بے چاری نے عرض کیا ان بوڑھیوں میں کیا ایسی بات ہے جس کی وجہ سے وہ جنت میں نہیں جاسکیں گی۔ وہ بوڑھی قرآن خواں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی ؟[الشمائل المحمدیہ للترمذی: باب الجنۃ لا تدخلھا عجوز]

[إنَّا أنْشْأنَاہُنَّ انْشَاءً ا فَجَعَلْنَاہُنَّ أبْکَارًا] [الواقعہ:36]
کہ جنت کی عورتوں کی ہم نئے سرے سے نشوونما کریں گے اور ان کو نوخیز دوشیزائیں بنادیں گے۔

٭جناب انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لیے اونٹ مانگا، تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ہاں! میں تم کو سواری کے لیے اونٹ کا بچہ دوں گا، اس شخص نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچےکا کیا کروں گا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: اونٹ بھی تو اونٹنی ہی کے بچے ہوتے ہیں‘‘۔ [جامع ترمذی: کتاب البر و صلۃ، باب ماجاء فی المزاح]

٭سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں (ازراہِ مزاح وشفقت) "یا ذالأذنین"اے دو کان والے کہہ کر مخاطب کیا۔ (حالاں کہ ہر شخص دوکان والا ہوتاہے)۔ [سنن أبی داود: کتاب الأدب، باب ماجاء فی المزاح]

٭سیدنا نعمان بن بشیر سے روایت ہے :
" اسْتَأْذَنَ أَبُو بَكْرٍ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَ صَوْتَ عَائِشَةَ عَالِيًا ، فَلَمَّا دَخَلَ تَنَاوَلَهَا لِيَلْطِمَهَا، وَقَالَ : أَلَا أَرَاكِ تَرْفَعِينَ صَوْتَكِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْجِزُهُ ، وَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ مُغْضَبًا ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ : كَيْفَ رَأَيْتِنِي أَنْقَذْتُكِ مِنَ الرَّجُلِ ؟ قَالَ : فَمَكَثَ أَبُو بَكْرٍ أَيَّامًا ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَوَجَدَهُمَا قَدِ اصْطَلَحَا ، فَقَالَ لَهُمَا : أَدْخِلَانِي فِي سِلْمِكُمَا ، كَمَا أَدْخَلْتُمَانِي فِي حَرْبِكُمَا . فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قَدْ فَعَلْنَا ، قَدْ فَعَلْنَا )
کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت چاہی۔ اسی درمیان آپ کو گھریلومعاملات میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی آواز بلند محسوس ہوئی۔ جب آپ گھر میں داخل ہوئے توسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف مارنے کے لیے لپکے اور اپنی بیٹی عائشہ کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھ رہا ہوں؟!
یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ کو ان کے والد کی مار سے بچانے کی کوشش کرنے لگے۔ اسی دوران ابوبکررضی اللہ عنہ غصّہ کی حالت میں گھر سے نکل گئے۔ ابوبکررضی اللہ عنہ کونکلتے دیکھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: کیا خیال ہے؟ میں نے تمہیں اس شخص (الرجل)سے بچایا کہ نہیں؟ راوی کہتے ہیں کہ ابوبکررضی اللہ عنہ کچھ دنوں تک ناراض رہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں حاضر ہوکر اندر آنے کی اجازت چاہی، گھر جاکر محسوس کیا کہ آپ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے مابین صلح ہوچکی ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ: ’’ آپ دونوں مجھے اپنی صلح میں شامل کرلیجیے،جس طرح آپ دونوں نے مجھے اپنے جھگڑے میں شامل کیا تھا، تو آپ نے فرمایا کہ: جی ہاں آپ کو صلح میں شامل کرلیا ۔
(سنن ابوداود ، مسنداحمد ) اس کی تفصیل کیلئے علامہ البانیؒ کی "سلسلہ احادیث صحیحہ " 2901 دیکھئے؛
٭٭٭ (اس حدیث میں ابوّت کے رشتہ کے حامل بزرگ جناب ابوبکررضی اللہ عنہ کو محض (الرجل) کہنے سے جو مزاح پیدا ہوتا ہے، اسے کوئی بھی شخص محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا)۔

٭سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ’’ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غزوہ تبوک میں حاضر ہوا، جب کہ آپ چمڑے سے بنے سائبان میں قیام پذیر تھے۔ میں نے سلام کیا، تو انھوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا آجاؤ میں نے عرض کیا: پورا کا پورا آجاؤں؟ آپ نے فرمایا: ہاں پورا کاپورا۔ (جگہ کی قلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان صحابی رضی اللہ عنہ نے جس محبت کے ساتھ مزاح کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمالِ اخلاق مندی سے انہیں کے مزاحیانہ اسلوب میں جواب دیا)‘‘ ۔[سنن أبی داود: کتاب الأدب، باب ماجاء فی المزاح]

مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ آداب کی رعایت کرتے ہوئے کبھی کبھی مزاح کی نہ صرف گنجائش ہے، بلکہ مستحسن ہے اور اسوہ نبوی کی اتباع ہے،لیکن اگرمزاح دوسرے آدمی کے لیے ناگواری اور اذیت کا باعث بن جائے، یا حد سے زیادہ ہنسی کا ذریعہ بن جائے یا مزاح کا عمل کبھی کبھار کے بجائے کثرت سے ہونے لگے، تو ایسے مزاح کی ممانعت ہوگی اور اس کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔

مزاح سے متعلق چند شرعی قواعد وضوابط
(1) ہنسی مذاق میں دین حنیف کا مذاق نہیں ہونا چاہئے:

ایسا کرنے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے ۔ فرمان باری جل وعلا ہے :
[وَلَئن سَاَلْتَہُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ] [التوبة:65]
اگر ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو کھیل مزاح کررہے تھے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’ اللہ تعالیٰ ، اس کی آیات ، اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کرنا کفر ہے اس عمل سے بندہ ایمان لانے کے بعد کافر ہوجاتاہے ‘‘ [مجموع الفتاویٰ: 7 / 273:]

علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے اسے ارتداد قرار دیاہے ۔ اس میں وہ مذاق بھی شامل ہے جیسا کہ بعض لوگ چند شرعی احکام کو مذاق بناتے ہیں جن میں ٹخنے سے کپڑا اونچا رکھنا ، داڑھی بڑھانا ، نماز اور روزہ وغیرہ ۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ جس نے ہنستے ہوئے گناہ کیا وہ روتے ہوئے جہنم میں داخل ہوگا ‘‘[ الحلية لأبي نعيم : 4/96،والفردوس ، للديلمي و3/ 578]

(1)مزاح سچائی پر مشتمل ہونا چاہئے نہ کہ جھوٹ پر :

امام احمد رحمہ اللہ اپنی مسند میں روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ اس شخص کیلئے ہلاکت ہے جو بات کرتا ہے اس میں جھوٹ بولتاہے تاکہ قوم کا ہنسا سکے اس کے لئے تباہی اور ہلاکت ہے‘‘۔ [ ابوداؤد:كتاب الأدب، باب في التشديد في الكذب]

ایک اور روایت میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ بندہ ایسی بات کرجاتاہے کہ جس سے اپنے ساتھ بیٹھے لوگوں کو ہنسا سکے اور اس بات کی وجہ سے جہنم میں اتنا دور جاگرتاہے جیسا کہ دنیا سے ثریا‘‘ ۔[ مسند احمد :]

مذکورہ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مزاح کے طور پر جو گفتگو کی جائے، وہ ظرافت ولطافت کے باوصف فی نفسہ صحیح اور درست ہو، خوش طبعی کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا بھی مذموم ہے۔

(3) مزاح میں کسی کا تمسخر اور استہزاء مقصود نہ ہو

یہ ایک حرام اور ناجائز عمل ہے جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے :

{يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى ....}[الحجرات: 11]
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ اس سے مراد لوگوں کو حقیرکمتر سمجھنا ، ان کا مذاق اڑانا ، یہ ایک حرام کام ہے اور منافقین کی صفت ہے ‘‘۔ [ تفسير ابن كثير :7/376]

امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں روایت نقل کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ لوگوں کا تمسخر اور ٹھٹھ اڑانے والوں کیلئے جنت کا دروازہ کھولا جائے ۔ ان میں سے ایک کو کہا جائے گا کہ آجاؤ ، جب وہ اپنے غم وکرب اور تکلیف میں مبتلا دروازے پر پہنچے گا جب وہ قریب آئے گا تو دروازہ بند کردیا جائے گا ‘‘[ شعب الایمان للبيهقی5 / 310]

کسی کا مذاق اڑانے والے کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ کسی کا مذاق اڑا رہا ہے تو کہیں اللہ تعالیٰ بطور سزا اس پر وہ کیفیت اور صفت مسلط نہ کردے ۔ اور وہ اس مرض میں مبتلا ہوجائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ اپنے بھائی کا تمسخر نہ اڑاؤ ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے اور تمہیں کسی آزمائش میں مبتلا کردے ‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کا مذاق اڑانے ،مسلمانوں کو تکلیف دینےسے منع فرمایا اور کسی بھی مسلمان کی تحقیر کے سلسلے میں احادیث میں سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے:

’’ اَلْمُسْلِمُ أخُو الْمُسْلِمِ لاَ یَظْلِمه وَلاَ یَخْذُله وَلاَ یُحَقِّرُہ‘‘[ صحیح مسلم: كتاب البر و الصلة,باب تحريم الظلم.]
ترجمہ:
ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے،اس پر کوئی ظلم وزیادتی نہ کرے۔ اس کو بے یار ومددگار نہ چھوڑے اور اس کو حقیر نہ جانے اورنہ اس کے ساتھ حقارت کابرتاؤ نہ کرے۔ پھر آپ نے فرمایا: آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے، کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اور اس کے ساتھ حقارت سے پیش آئے۔

تکلیف دہ مزاح کی ممانعت کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو اور اس سے مذاق نہ کرو اور اس سے تم ایسا وعدہ نہ کرو جس کی وعدہ خلافی کرو۔اس حدیث میں دیگر تکلیف دہ اعمال (جھگڑا، وعدہ خلافی) کے ساتھ اس مزاح کی بھی ممانعت کی گئی ہے؛ جو اذیّت ناک اور ناگواری کا باعث ہو۔

(4)مسلمان بھائی کو بطور مذاق ڈرائے یا دھمکائے نہیں

امام ابوداؤ د نے سنن میں ابن ابی لیلیٰ سے روایت نقل کی کہ ’’ ہمیں اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے ان میں سے ایک شخص سوگیا تو ایک اور فرد نے اس کے پاس موجودرسی سے اسے پکڑا وہ گھبراکر اٹھ بیٹھا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو ڈرائے ‘‘۔[رواه ابوداؤد :كتاب الأدب , باب من يأخذ الشيء علي المزاح]

ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’ تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کا سامان کھیل کود میں یا سنجیدگی میں نہ لے ‘‘۔ [ رواه ابوداؤد :كتاب الأدب ,باب لا يأخذن أحدكم متاع أخيه....]

(5) مذاق میں حد سے زیادہ انہماک نہ ہو

مذاق میں حد سے زیادہ منہمک ہونا ، طول دینا، اور مبالغہ آمیزی کرنا بھی جائز نہیں ہے ۔ مذاق کا بنیادی ضابطہ یہ ہے کہ وہ وقتی اور محض کچھ دیر کی خوش طبعی کیلئے ہونا چاہئے نہ کہ اسے پیشہ بنایا جائے ۔ مومنین کی صفات سنجیدگی ہے ، ہنسی مذاق محض بطور رخصت کے اجازت دی گئی ہے بعض لوگ سنجیدگی اور کھیل کے وقت میں فرق نہیں کرتے ۔ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ لوگوں کی ایک بہت بڑی غلطی اور جرم یہ ہے انہوں نے مذاق کو پیشہ بنا لیا ہے ‘‘[ احیاء علوم الدین للغزالی 3/ 129]

اتفاقیہ طور پر حسبِ موقع مزاحیہ گفتگو کرلینا اور تفریحی اشعار کہہ سن لینا اگرچہ جائز ہے؛ لیکن اس کے لیے اہتمام سے اجتماع کرنا اوراس میں گھنٹوں لگانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’ مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکه مَا لاَیَعْنيه‘‘[ترمذي: كتاب الزهد باب في من تكلم بكلمة ليضحك الناس]

یعنی آدمی کے اچھے اسلام کی علامت یہ ہے کہ وہ ان امور کو ترک کردے جن سے انہیں سروکار نہیں ۔

مستقل طور پر مزاح میں لگے رہنا ممنوع ہے، اس لیے کہ وہ زیادہ ہنسنے کا سبب، قلب کے بگاڑ کا ذریعہ اور ذکر اللہ سے اعراض کا موجب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار ہی مزاح فرماتے تھے، وہ بھی کسی خاص مصلحت کے لیے یا مخاطب کو مانوس کرنے کے لیے ۔

ہنسی کے مواقع پر ہنسنا اور مسکرانا بھی انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور بلا موقع اور محل تکلف سے ہنسنا اور قہقہہ لگانا فطرت کے خلاف عمل ہے۔ موجودہ دور میں ڈاکٹروں کی رائے میں اگرچہ ہنسنا انسانی صحت کی برقراری اور اس کو چست ونشیط رکھنے کے لیے معاون فعل ہے، اس کے لیے خاص طور پر ہنسنے کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، جن میں لوگ تکلف قہقہہ لگاتے ہیں اور دیر تک ہنسنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہ عمل شرعی لحاظ سے مناسب نہیں، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’ لاَتُکْثِرِ الضِّحْکَ فَانَّ کَثْرَةَ الضِّحْکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ ‘‘[ ترمذي: كتاب الزهد، باب من اتقى المحارم]

کہ تم زیادہ مت ہنسا کرو، اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے۔

اس کے علاوہ قہقہہ لگانا یہاں تک کہ کھل کھلاکر ہنسنا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (جو بالیقین ایمان والوں کے لیے ہر عمل میں بہترین اسوہ ہیں) سے ثابت نہیں،بلکہ آپ خوشی کے مواقع پر صرف زیر لب مسکرایا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طور پر کھل کھلاکر ہنستے ہوئے کہ آپ کے دہن مبارک کا اندرونی حصہ نظر آجائے، کبھی نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف تبسم فرمایا کرتے تھے ‘‘۔

معلوم ہوا کہ اگر سلسلہٴ کلام میں کوئی تعجب خیز، حیرت انگیز یا مضحکہ خیز بات زیر تذکرہ آجائے؛ تو ان پر ہنسنے اور مسکرانے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ایسے مواقع پر ہنسنا اور مسکرانا چاہیے،تاکہ دل کا بوجھ ہلکا اور غبار کم ہو اور موجودہ زمانے کی تحقیق کے مطابق صحت، مستعدی اور نشاط میں اضافہ ہو، لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ہنسنا اور مسکرانا غافلین کا سا نہ ہو،اس لیے کہ اس طرح کا ہنسنا دلوں کو مردہ کردیتا ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی ہنسا کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں! بیشک! وہ ہنسنے کے موقع پر ہنستے بھی تھے، لیکن اس وقت بھی ان کے قلوب میں ایمان پہاڑ سے زیادہ عظیم ہوتا تھا۔

لہٰذا موجودہ دور کے ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق عمل کرتے ہوئے بہ تکلف قہقہے لگانے کی مجلس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے بلکہ بے تکلف فطری انداز میں جس قدر انسان ہنس لے، وہی اس کی صحت وتندرستی کے لیے کافی ہے۔ اس لیے کہ زیادہ ہنسنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق صحت وتندرستی کا سبب نہیں بلکہ دلوں کے مردہ ہونے کا سبب ہے۔ اگر مزاح کے پہلوؤں کی حامل، مفید امور پر مشتمل کوئی کہانی ہو، تو اسے افادیاتی نقطۂ نظر سے انگیز کیا جاسکتا ہے۔ ایک باررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنھاکو عرب کی تیرہ عورتوں اور ان کے شوہروں کا قصہ سنایا جو’’حدیثِ امّ ِذرع‘‘ کے نام سے حدیث کی کتابوں میں مذکور ہے۔

لطیفہ گوئی اور مزاح کو ذریعہٴ معاش بنانا: کبھی کبھار لطیفہ کہہ دینے یا مزاح اور تفریح کرلینے کی تو گنجائش ہے، لیکن مستقل لطیفہ گوئی کرنا اور اس کو ذریعہٴ معاش بنالینا، یہ اس مقصد حیات کے برخلاف ہے، جو اسلام افراد اورمعاشرے میں پیدا کرنا چاہتا ہے اور مستقل لطیفہ گوئی اور مزاح وتفریح میں مشغول رہنا انسان کو فکرِآخرت، ذکر اللہ، عبادت اور تلاوت قرآن سے غافل کردیتا ہے۔ زیادہ ہنسنے ہنسانے سے دل مردہ ہوجاتا ہے۔ انھی اسباب کی وجہ سے شعر وشاعری کی مذمت کی گئی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انسان اپنا پیٹ پیپ سے بھرے، یہ اس سے بہتر ہے کہ اشعار سے بھرے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ: شعر جب ذکر اللہ، قرآن کریم کی تلاوت اور علم کے اشتغال پر غالب آجائے، اور اگر شعر مغلوب ہے تو پھر برا نہیں۔ یہی حال لطیفہ گوئی اور مزاح نویسی کا ہے۔ اس کو مستقل پیشہ بنالینا انہماک کی دلیل ہے اور ایسی چیزوں میں غالب انہماک ممنوع ہے،لہٰذا اس کی اجرت وصول کرنا بھی درست نہیں، ازخود کوئی بطور انعام کے دے دے، تو اس کے لینے کی گنجائش ہے۔

(6) دوران مذاق عزت و مرتبہ کا خیال رکھا جائے

دوران مذاق لوگوں کے مقام ومرتبہ اور عزت وشرف اور ہیبت وورقار کالحاظ رکھا جائے ۔

کیونکہ صاحب حیثیت ومنزلت افراد کے ساتھ مذاق بسا اوقات دائرہ ادب سے نکل جاتاہے اور بے ادبی کا احتمال ہوتاہے اس لئے ایسے افراد سے مذاق کرنے میں احتیاط برتی جائے ۔ اور دائرہ ٔادب کا خیال رکھاجائے ۔ جیسا کہ بسا اوقات طالب علم استاد سے مذاق کرتاہے تو وہ بھی دائرہ ادب سے نکل جاتاہے اور ایک احترام کا رشتہ قائم رہنا چاہئے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"إن من إجلال الله إكرام ذي الشيبة المسلم"[ رواه أبو داود:كتاب الأدب ,باب في تنزيل الناس منازلهم]
اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں یہ امر بھی شامل ہے کہ باریش مسلمان کی تکریم کی جائے ۔

امام طاؤس رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:’’ عالم کی عزت وتوقیر کرنا سنت ہے‘‘۔

یہ بھی اسلامی آداب میں سے ہے کہ کسی اجنبی سے مذاق کرنے سے اجتناب کیا جائے جس کی طبیعت نفس اور مزاج سے ناآشنائی ہو ۔ کیونکہ اس سے مزاح سے حقارت کے برتاؤ کا پہلو نکلتا ہے۔

سیدنا عمر بن عبد العزیز نے عدی بن ارطاۃ کو لکھاکہ ’’مذاق سے بچو کیونکہ اس سے مروّت جاتی رہتی ہے ‘‘ ۔



(7) بیوقوف اور کم عقل افراد سے مذاق کرنے سے اجتناب کیا جائے

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :’’ مذاق میں میانہ روی اختیار کرو، اس میں افراط سے کام لینے سےہیئت جاتی رہتی ہے اور بے وقوف لوگوں کوآپ کے خلاف جرأت ہوجاتی ہے ‘‘ ۔

8 مذاق میں کسی مسلمان بھائی کی غیبت اور چغل خوری نہیں ہونی چاہئے

مسلمان بھائی کی غیبت کرنا اس کے مردہ گوشت کھانے کے مترادف ہے ۔ غیبت اور چغل خوری کا نتیجہ فتنہ ہے۔ عصر حاضر میں مزاح کی غالب صورتیں اس قبیح اور ناپاک جرم سے خالی نہیں ،اور غیبت کی شرعی اصطلاح میں یہ تعریف بیان کی گئی ہے کہ’’ذكرك أخاك بما يكره‘‘[رواه مسلم : كتاب البر و الصلة و الآداب , باب تحريم الغيبة]
اپنے مسلمان بھائی کا اس انداز میں تذکرہ کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہو ۔ لہٰذا غیبت اور چغل خوری ایک بہت بڑا اخلاقی جرم ہے مزاح کرنے میں اس سے پرہیز کیا جائے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس تفصیل کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ :
ایسا مزاح اور مذاق جس میں کسی مسلمان کی تحقیر و توہین نہ ہو ،اور شریعت اسلامیہ کا مذاق و تمسخر نہ اڑایا گیا ہو ،وہ جائز ومباح ہے ،
جس میں سامنے والے کیعزت و مرتبہ کا خیال رکھا جائے ،
ـــــــــــــ
اگر تمہارا وضو باقی رہ جائے تو نماز مکمل کر سکتے ہو
اس مزاحیہ جملہ میں دراصل مخاطب کی بزدلی کا اشارہ پایا جاتا ہے ،
ایسا مزاح اگر ایسے آدمی سے کیا جائے جو عمر میں بڑا نہ ہو ،اور جو ایسی بات کو اپنی توہین نہ سمجھے یعنی بالعموم جس سے ہلکا پھلکا مذاق و مزاح چلتا ہو تو ایسی صورت میں ایسا کہنا جائز ہے ،
لیکن اگر حساس آدمی ہو یا بزرگ ہو تو ایسی بات کہنا ہرگز جائز نہ ہوگا،
 
Last edited:
Top