• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عاشوراء کا روزہ بنو امیہ نے شکرانے کے طور پر شروع کیا؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
562
ری ایکشن اسکور
174
پوائنٹ
77
کیا عاشوراء کا روزہ بنو امیہ نے شکرانے کے طور پر شروع کیا؟

تحریر : کفایت اللہ سنابلی


تحریر سے منسلک ویڈیو دیکھیں اس مردود شیعہ اور محبت اہل بیت کے جھوٹے دعویدار نے کس طرح سفید جھوٹ بولا ہے کہ عاشوراء کا روزہ بنو امیہ نے شکرانے کے طور پر شروع کیا ہے۔ حالانکہ عاشوراء کے روزہ کی تاریخ بہت پرانی ہے اور یہ اللہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔

ذیل میں اس حوالے سے صرف صحیح بخاری سے چھ (6) صحابہ کی احادیث ملاحظہ فرمائیں:

① ✿ اہل مکہ دور جاہلییت میں بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :

« عن عائشة رضي الله عنها، قالت: «كان يوم عاشوراء تصومه قريش في الجاهلية، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه، فلما قدم المدينة صامه»

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رکھتے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں بھی عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اس کا لوگوں کو بھی حکم دیا۔

[صحيح البخاري رقم2002]

② ✿ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی یہ روایت بیان کی ہے چنانچہ:

عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: كان عاشوراء يصومه أهل الجاهلية، فلما نزل رمضان قال: «من شاء صامه، ومن شاء لم يصمه»

”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن جاہلیت میں ہم روزہ رکھتے تھے لیکن جب رمضان کے روزے نازل ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔“


[صحيح البخاري 4501]

③ ✿ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد مدینہ تشریف لائے اور یہودیوں کو موسی علیہ السلام کی فتح کی مناسبت سے روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو اس روزہ کا تاکیدی حکم دے دیا ۔ ابو موسی اشعری رض اللہ عنہ سے بھی مروی ہے:

عن أبي موسى رضي الله عنه، قال: دخل النبي صلى الله عليه وسلم المدينة وإذا أناس من اليهود يعظمون عاشوراء ويصومونه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «نحن أحق بصومه، فأمر بصومه»

”ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن کی تعظیم کرتے ہیں اور اس دن روزہ رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم اس دن روزہ رکھنے کے زیادہ حقدار ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے کا حکم دیا۔“


[صحيح البخاري 3942]

④ ✿ اہل بیت نے بھی یہ روایت بیان کی ہے چنانچہ اہل بیت کے بہت بڑے عالم ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں:

« عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة فرأى اليهود تصوم يوم عاشوراء، فقال: «ما هذا؟» ، قالوا: هذا يوم صالح هذا يوم نجى الله بني إسرائيل من عدوهم، فصامه موسى، قال: «فأنا أحق بموسى منكم» ، فصامه، وأمر بصيامه»

”ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے۔ (دوسرے سال) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی تھی۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا پھر موسیٰ علیہ السلام کے (شریک مسرت ہونے میں) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔“


[صحيح البخاري رقم 2004]

اہل بیت کی یہ علمی شخصیت یہ بھی بیان کرتی ہے کہ :

عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: «ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يتحرى صيام يوم فضله على غيره إلا هذا اليوم، يوم عاشوراء، وهذا الشهر يعني شهر رمضان»

”ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے عبیداللہ بن ابی یزید نے، اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سوا عاشوراء کے دن کے اور اس رمضان کے مہینے کے اور کسی دن کو دوسرے دنوں سے افضل جان کر خاص طور سے قصد کر کے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔“


[صحيح البخاري 2006]

⑤ ✿ اماں عائشہ ، عبداللہ بن عمر ، ابو موسی الاشعری ، ابن عباس رضی اللہ عنھم کے علاوہ ایک پانچویں صحابی سلمة بن الأكوع رضي الله عنه سے بھی یہ مروی ہے چنانچہ:

عن سلمة بن الأكوع رضي الله عنه، قال: أمر النبي صلى الله عليه وسلم رجلا من أسلم: أن أذن في الناس: أن من كان أكل فليصم بقية يومه، ومن لم يكن أكل فليصم، فإن اليوم يوم عاشوراء

”سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو اسلم کے ایک شخص کو لوگوں میں اس بات کے اعلان کا حکم دیا تھا کہ جو کھا چکا ہو وہ دن کے باقی حصے میں بھی کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے نہ کھایا ہو اسے روزہ رکھ لینا چاہئے کیونکہ یہ عاشوراء کا دن ہے۔“


[صحيح البخاري 2007]

⑥ ✿ بنو امیہ نے یقینا یہ روزہ رکھا ہے اور لوگوں کو یہ روزہ رکھنے کی ترغیب بھی دلائی ہے اور اس کا پرچار کیا ہے لیکن واقعہ کر بلا کے بعد نہیں بلکہ واقعہ کربلا سے پہلے اور سنت رسول کو زندہ کرنے کی نیت سے ،چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

عن حميد بن عبد الرحمن، أنه سمع معاوية بن أبي سفيان رضي الله عنهما، يوم عاشوراء عام حج على المنبر يقول: يا أهل المدينة أين علماؤكم؟ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «هذا يوم عاشوراء ولم يكتب الله عليكم صيامه، وأنا صائم، فمن شاء، فليصم ومن شاء، فليفطر»

”حمید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے عاشوراء کے دن منبر پر سنا، انہوں نے کہا کہ اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کدھر گئے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ یہ عاشوراء کا دن ہے۔ اس کا روزہ تم پر فرض نہیں ہے لیکن میں روزہ سے ہوں اور اب جس کا جی چاہے روزہ سے رہے (اور میری سنت پر عمل کرے) اور جس کا جی چاہے نہ رہے۔“


[صحيح البخاري رقم 2003]

غور کریں واقعہ کربلا سے پہلے معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی حیات میں عاشوراء کا روزہ رکھ رہے ہیں اور لوگوں کو حدیث سنا سنا کر اس سنت پر عمل کی دعوت دے رہے ہیں ۔

یہ مردود شیعہ بنو امیہ پر بلاوجہ بھونک رہا کہ انہوں اپنی طرف سے یہ روزہ ایجاد کرلیا ۔

یہ خبیث ایک طرف نعرہ لگاتے ہیں کہ اسلام زندہ ہوتا ہے کربلا کے بعد اور دوسری طرف یہ کہہ کر ماتم مناتے ہیں کہ بنو امیہ نے کربلا کے بعد دین بدل دیا۔ سبحان اللہ !

دین اور شخصیات کا نام لیکر جتنا جھوٹ ان شیعوں اور جعلی محبان اہل بیت نے بولا ہے اتنا جھوٹ اسلامی تاریخ میں کسی نے نہیں بولا۔

﴿لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَجھوٹوں پر اللہ کی لعنت !

مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے مکاروں اور شعبدہ بازوں سے ہوشیار ہیں۔
 
Top