• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عمر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث کا انکار کیا؟

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
(محمد حسین میمن)

امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کتاب الطلاق میں حدیث کا زکر فرماتے ہیں:
''عن فاطمة بنت قیس قول ان زوجھا طلقھا ثلثاً فلم یجعل لھا رسول اللہ ﷺ سکنیٰ ولا نفقہ قالت قال لی رسول اللہ ﷺ ازا حللت فاٰذینی فاٰذنتہ فخطبھا معاویة واٴبو جھم واٴسامة بن زید رضی اللہ عنہم فقال رسول اللہ ﷺ اما معاویة فرجل ترب لا مال لہ واٴما اٴبو جھم فرجل ضرّاب النساء ولکن اسامة فقالت بیدھا ھکذا۔۔۔۔''(صحیح مسلم مع نووی ج ۱۰، کتاب الطلاق، رقم الحدیث: ۱۴۸۰)
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ان کے شوہر نے تین طلاقیں دیں اور جناب رسول اللہ ﷺ نے نہ انہیں گھر دلوایا اور نہ ہی خرچ اور فرمایا فاطمہ نے کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تمہاری عدت پوری ہو جائے تو مجھے خبر دینا مین نے آپ ﷺ کو خبر دی اور مجھے پیغام (نکاح کا) دیا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اور ابو جہم رضی اللہ عنہ اور اسامہ رضی اللہ عنہ نے ۔ سو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ معاویہ تو مفلس ہے کہ اس کو مال نہیں اور ابو جہم عورتوں کو بہت مارنے والا ہے ، مگر اسامہ ۔ سو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اسامہ اور جناب رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری مجھے بہتر ہے ۔ پھر میں نے ان سے نکاح کیا اور عورتیں مجھ پر رشک کرنے لگیں۔
قارئین کرام! مندرجہ بالا حدیث کو امام مسلم کے علاوہ امام احمد رحمہ اللہ نے مسند احمد ج ۴۵ رقم ۴۷۳۴۹، سنن الدارقطنی ۳۳/۴، مصنف ابن ابی شیبة ۱۴۶/۵ اور سنن الکبری للبیقھی نے نکالا ہے۔ مذکورہ بالا احادیث پر کئی اعتراضات کیے گئے ہیں۔ جن کو نقل کرنے کے بعد ہم بالترتیب ان کے جوابات اپنے قارئین کے سامنے پیش کریں گے۔
اعتراضات:

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ کی حدیث قرآن مجید کی آیت کے مخالف ہے اسی سبب پر سیدنا عمر و عائشہ رضی اللہ عنہما اور مروان نے عدم قبولیت کا اظہار کیا اور حدیث فاطمہ کو قرآن سے متصادم گردانا جس کی وجہ سے انہوں نے حدیث فاطمہ پر اعتبار نہ کیا۔
الجواب:

ہم سب سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال نقل کریں گے پھر قرآن مجید کی اس آیت کی نشاندہی کریں گے جن کو ان بزرگوں نے فاطمہ بنت قیس کی حدیث کے مخالف جانا۔ پھر ان تمام اقوال اور آیت مبارکہ کی صحیح مطالب اور صحیح تاویل جو جمہور کے نزدیک ہے اس کو نقل کریں گے۔
قول ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا :
''عن ابی سلمة بن عبدالرحمن عن فاطمة بنت قیس ، انہا اخبرتہ انھا کانت تحت ابی عمرو ابن حفص بن المغیرة، فطلقھا اٰخر ثلاث تطلیقات، فذعمت انہا جاءت رسول اللہ ﷺ فاستفتتہ فی خروجھا سن بیتھا فامرھا ان تنتٰقل الی بیت ابن ام مکتوم الاعمی فابی مروان ان یصدق حدیث فاطمة فی خروجالمطلقة من بیتھا ، وقال عروة انکرت عائشة ذالک فاطمة بنت قیس'' (اخرجہ مسلم: ۱۴۸۰، مسند احمد: ۴۷۳۴۱، ابو داؤد: ۴۴۸۹، والطحاوی فی شرح: ۴۰۸، معانی الاثار: ۶۶۱۳، والنسائی فی المجتبیٰ: ۶)
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ ابو عمرو بن حفص کے نکاح میں تھیں۔ ابوعمرو نے انہیں تین طلاقیں دے دیں، فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لاتی ہیں اور اپنے شوہر کے گھر سے خروج کا فتوی مانگنے ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں منتقل ہونے کا حکم دیا کہ وہ ابن ام مکتوم کے گھر منتقل ہو جائیں۔) حدیث کے دوسرے طرق میں موجود ہے کہ وہ ام مکتوم کے گھر اس لیے منتقل ہوگئیں کہ وہ نابینا تھے تاکہ وہ اپنے کپڑے اتار سکیں ، اس جملہ سے مراد یہ نہیں کہ وہ برہنہ ہو جائیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کام کاج وغیرہ میں سر پر اوڑنی وغیرہ نہ ہو تو کوئی فتنہ پیدا نہ ہو کیونکہ وہ نابینا تھے اور ان کا گھر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے پردے اور رہائش کے لیے مؤثر تھا(۔)اس واقعہ کا ) مروان نے انکار کیا کہ وہ تصدیق کریں ۔ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا اور عروہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس کا انکار کیا ہے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول:
''عن فاطمة بنت قیس رضی اللہ عنہا عن النبی ﷺ انہ لم یجعل لھا سکنی ولا نفقة، قال حسن : قال السندی ، فذکرت ذالک لابراہیم والشعبی، فقالا قال عمر رضی اللہ عنہ: لا تصدق فاطمة لھا السکن والنفقة'' (اخرجہ مسلم: ۱۴۸۰، مسند امام احمد: ۴۷۳۴۸، ج:۴۵، وابن ابی عاصم فی الاحاد والمثانی: ۳۱۸۴)
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے نفقہ اور رہنے کی جگہ نہیں فرمائی۔ سو انہوں نے کہا کہ میں نے اس کا ذکر ابراہیم اور شعبی سے کیا تو ان دونوں نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سکنی اور نفقہ کے مسئلہ پر ہم فاطمہ کی تصدیق نہیں کریں گے۔
یہ وہ اقوال ہیں جن کی وجہ سے منکرین حدیث کو اپنی زبانوں کو احادیث کے خلاف استعمال کا موقعہ ملا۔ حالانکہ جن کے اقوال یہ نقل کر رہے ہیں یہ لوگ سنت کی شیدائی اور اپنی جانوں کو اس پر مٹانے والے تھے۔ دراصل اگر ان تمام روایات پر غور کیا جائے تو مسئلہ میں صریح فاطمہ بنت قیس کی ہی حدیث ہے اور جہاں تک تعلق ہے امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا تو وہ رسول اللہ ﷺ کے انتقال کے بعد اس مسئلے پر گفتگو فرما رہی ہیں، جو کہ ایک طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ اور وہ ان مسائل کو قیاس کے ذریعے حل فرما رہی تھیں، جس طرح عمر رضی اللہ عنہ قیاس کر رہے تھے۔ کیوں کہ اس مسئلے میں نص تو فاطمہ بنت قیس کی حدیث ہی ہوگی۔ رہی بات مروان کی تو ان کی بات یا کسی قسم کی رائے اس مسئلے پر قابل قبول نہیں کیونکہ وہ نص صریح کے مخالف جا رہے ہیں۔ صفی الرحمان مبارکپوری رقمطراز ہیں:
''لکن ابا مروان لا یقدم شیئا ولا یؤخر، وابو سلمة ابن عبدالرحمن تابع جلیل ، اجل من مروان واوثق، لا یجوز توھیمہ بغیر دلیل، وقف تلقی ھذا الحدیث من فاطمة بنت قیس رضی اللہ عنہا مشافھة'' (منة المنعم شرح مسلم، ج: ۲، ص:۴۴۷)
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
''ابا مروان نے (اس مسئلےمیں )نہ تو کسی چیز کو مقدم کیا اور نہ ہی مؤخر کیا ۔ ( اور جہاں تک) ابو سلمہ بن عبدالرحمن کا تعلق ہے توہ جلیل القدر تابعی ہیں اور مروان سے زیادہ ثقہ ہیں ان پر کسی قسم کا کوئی توہمت دراز کرنا بغیر دلیل کے درست نہیں اور یقیناً ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے بالمشافہ حدیث سنی ہے۔''
اور جہاں تک تعلق ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا تو ہم اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ وہ سنت سے محبت کرنے والے اور اسے ماخوذ شریعت مانتے تھے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اس مسئلے پر رسول اللہ ﷺ کی حدیث موجود نہ تھی اور وہ قرآن مجید کی آیت سے استدلال تو اخذ فرماتے تھے حالانکہ قرآن مجید کی آیت عمومیت پر دلیل ہے اور فاطمہ بنت قیس کی حدیث اس مسئلے کی خاصیت پر دلیل ہے۔
محترم صدیق حسن خان القنوجی راقم ہیں:
''ولو سلم العموم فی الایة، لکان حدیث فاطمة مخصصا لہ'' (السراج الوھاج، ج:۴، ص:۱۱)
یعنی اگر تسلیم کیا جائے آیت میں عموم کو تو فاطمہ کی حدیث نے اس مسئلے کو خاص کر دیا ہے۔
لہٰذا جس آیت سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا استدلال تھا وہ مسئلہ ان عورتوں کے لیے ہے جن کے خاوند پہلی بار ، یا دوسری بار طلاق دیں۔ کیونکہ تیسری طلاق کے بعد نہ تو رجعت کا اختیار باقی رہتا ہے اور نہ ہی نان و نفقہ کی ذمہ داری خاوند پر عائد ہوتی ہے۔ اور جس عورت کو مختلف اوقات میں دو طلاقیں مل چکی ہوں تو تیسری طلاق اس کے لیے ''طلاق بتة، یا بائنة ''ہے۔ اس کا سکنی اور نفقہ خاوند کے ذمے نہیں ہے۔ اس کے فوراً بعد وہ اپنے خاوند کا گھر چھوڑ دے اور وہاں سے منتقل ہو جائے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جس آیت سے مطلقہ عورت کا نفقہ اور سکنی ضروری قرار دیا وہ آیت طلاق رجعیہ یعنی جس وقت خاوند کو رجوع کا حق باقی رہتا ہے اس پر دلالت کرتی ہے نہ کہ اس عورت کے لیے جسے تین ادوار میں تین طلاقیں دے کر فارغ کر دیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَاَحْصُواالْعِدَّةَ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ ۭ لَا تَدْرِيْ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا ۝﴾ (الطلاق)
''اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے جو تمہارا رب ہے ڈرتے رہو نہ تم انہیں ان گھروں سے نکالو اور نہ وہ (خود) نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں۔''
مندرجہ بالا آیت میں عدت کے دوران عورت کو گھر سے باہر نکالنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ پچھلے اوراق میں ہم نے نشاندہی کی ہے کہ یہ عورت وہ ہے جس سے ابھی رجوع کا اختیار باقی ہے۔ اسی لیے اس کا نان و نفقہ اور رہائش خاوند کے ذمے ہے۔ کیونکہ یہ وہ لمحہ ہے کہ اگر خاوند کے گھر میں وہ عدت گزارے گی تو ممکن ہے کہ صلاح اور موافقت کا کوئی بہتر پہلو اجاگر ہو جائے ، جس سے ٹوٹتے ہوئے گھر دوبارہ آباد گاہ بن جائیں۔ لیکن اگر عورت کو تین طلاقیں مختلف اوقات میں دے دی گئیں اور وہ تیسری طلاق کے بعد بھی خاوند کے گھر رہے گی تو بگاڑ اور بربادی کی کئی صورتیں وجود میں آ سکتیں ہیں۔ لہٰذا اس بگاڑ سے بچنے کے لیے حدیث رسول نے تین طلاق والی عورتوں کو سکنی اور نفقہ سے الگ رکھا ۔ لہٰذا عمر رضی اللہ عنہ کی آیت سے استدلال لینا ان عورتوں کے لیے جن کو تین طہر میں یا مختلف ادوار میں تین طلاقیں دے دی گئی ہوں اس کا نان و نفقہ حاصل کروانا درست نہیں ، کیونکہ یہاں پر فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث مقدم رہے گی ۔ کیونکہ فاطمہ بنت قیس وہ خاتون ہیں جن کے ساتھ یہ مسئلہ در پیش آیا اور وہ خود بنفس نفیس رسول اکرم ﷺ سے مسئلہ دریافت کرنے گئیں۔ لہٰذا فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث قرآن کے خلاف نہیں، مزید وضاحت سنن الدارقطنی میں موجود ہے کہ، رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
''انما النفقة والسکنی للمراٴة اذا کان لزوجھا علیھا الرجعة'' (سنن الدارقطنی کتاب الطلاق ، رقم الحدیث:۳۹۰۱، اسناد حسن )
'' رہائش اور نفقہ اس عورت کے لیے ہے جس کے خاوند کے پاس رجعت کا اختیار باقی ہو۔''
گویا فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو الگ انہی وجوہات پر کر دیا گیا کہ ان کو طلاقِ بائنہ دے دی گئی تھی اور آیت طلاق رجعیہ پر نان و نفقہ کا حکم صادر فرما رہی ہے۔
اسی وجہ سے محققین نے حدیث فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو اس مسئلے پر قطعی قرار دیا ہے۔ جیسا کہ امام الدارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''السنة بید فاطمة قطعا'' (السراج والوھاج، ج:۴، ص۱۱)
یہی وجہ ہے کہ محققین نے حدیث فاطمہ کو صحیح قرار دیا ہے اور اسے قرآن سے متصادم ماننے والوں کا رد کیا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو عمر رضی اللہ عنہ یہ سمجھ رہے تھے کہ فاطمہ بھول گئی ہوں گی، اور وہ غلط مسئلہ بتا رہی ہوں گی۔ جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:
''لا ندع کتاب اللہ لقول المراة لعلھا نسیت''(سنن الدارقطنی:۳۶، رقم الحدیث: ۳۹۱۴)
یعنی ہم کتاب اللہ کو ایک عورت کے کہنے پر نہیں چھوڑیں گے ۔ ہو سکتا ہے کہ (فاطمہ بنت قیس) بھول گئی ہوں۔''
یہاں پر عمر رضی اللہ عنہ نے جو خدشہ ظاہر فرمایا ہے وہ نسیان کا تھا۔ وہ خدشہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر چسپاں نہیں ہوتا۔ کیونکہ تمام دلائیل اور براہین سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حدیث کو بھولنا ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ دیگر احادیث صحیحہ بھی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تائید کرتی ہیں۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''وقد انکر الاما احمد ھذا من قول عمر رضی اللہ عنہ وجعل یستبسم ویقول: این فی کتاب اللہ ایجاب اسکنی والنفقة للمطلقة ثلاثا؟'' (منة المنعم، ج:۲، ص۴۵۰)
''یقیناً امام احمد رحمہ اللہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کا انکار فرمایا اور تبسم فرماتے ہوئے فرمایا کہ کتاب اللہ میں کس جگہ پر طلاق ثلاثہ کو سکنی اور نفقہ دیا گیا ہے؟''
یعنی کتاب اللہ میں ہر گز مطلقہ ثلاثہ کو نان و نفقہ اور رہائش نہیں فراہم کی گئی۔ اب ہمیں ماننا ہوگا کہ اس مسئلے پر فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث قطعاً ہے اور اسی پر عمل ہوگا کیونکہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا صحابیہ ہیں اور انہوں نے بالمشافہ رسول اللہ ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھا اور اس پر عمل پیرا ہوئیں۔ مزید دلچسپی کی بات یہ ہے کہ علماء و محققین نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی ایک حدیث سے کئی اہم مسائل کی تخریج فرمائی ہے۔ تحقیق کے لیے مراجعت کی جائے شرح نووی ج ۱۰ صفحہ ۱۰۵ وغیرہ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
ٹائپنگ ایرر

السلام علیکم

ایک بہت بڑی ٹائپنگ غلطی کی طرف نشادہی کروانا چاہتا ہوں اگر یہ غلطی عام عبارت میں ہو تو پھر اس پر بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی مگر یہ غلطی حدیث مبارکہ کے اردو متن میں وارد ہوئی ھے اس لئے اس پر آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور یہ غلطی اصل مراسلہ میں ھے جہاں سے آپنے اسے کاپی کیا ھے اس لئے آپ اپنے دھاگہ میں ہی اسے ایڈٹ کر کے درست کر سکتی ھے۔ کوٹ مراسلہ میں میں نے اسے درست کر دیا ھے مگر نشاندہی لال رنگ سے کی ھے آپ اپنے مراسلہ میں اردو متن کو درست کر لیں۔ شکریہ!

امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کتاب الطلاق میں حدیث کا زکر فرماتے ہیں:
''عن فاطمة بنت قیس قول ان زوجھا طلقھا ثلثاً فلم یجعل لھا رسول اللہ [SUP]صلی اللہ علیہ وسلم[/SUP] سکنیٰ ولا نفقہ قالت قال لی رسول اللہ [SUP]صلی اللہ علیہ وسلم[/SUP] ازا حللت فاٰذینی فاٰذنتہ فخطبھا معاویة واٴبو جھم واٴسامة بن زید رضی اللہ عنہم فقال رسول اللہ [SUP]صلی اللہ علیہ وسلم[/SUP] اما معاویة فرجل ترب لا مال لہ واٴما اٴبو جھم فرجل ضرّاب النساء ولکن اسامة فقالت بیدھا ھکذا۔۔۔۔''
[SUP](صحیح مسلم مع نووی ج ۱۰، کتاب الطلاق، رقم الحدیث: ۱۴۸۰)[/SUP]

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ان کے شوہر نے تین طلاقیں دیں اور جناب رسول اللہ [SUP]صلی اللہ علیہ وسلم[/SUP] نے نہ انہیں گھر دلوایا اور نہ ہی خرچ اور فرمایا فاطمہ نے کہ مجھ سے رسول اللہ [SUP]صلی اللہ علیہ وسلم[/SUP] نے فرمایا کہ جب تمہاری عدت پوری ہو جائے تو مجھے خبر دینا مین نے آپ [SUP]صلی اللہ علیہ وسلم[/SUP] کو خبر دی اور مجھے پیغام (نکاح کا) دیا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اور اٴبو جھم رضی اللہ عنہ اور اسامہ رضی اللہ عنہ نے ۔ سو رسول اللہ [SUP]صلی اللہ علیہ وسلم[/SUP] نے ارشاد فرمایا کہ معاویہ تو مفلس ہے کہ اس کو مال نہیں اور ابو جہم عورتوں کو بہت مارنے والا ہے ، مگر اسامہ ۔ سو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اسامہ اور جناب رسول اللہ [SUP]صلی اللہ علیہ وسلم[/SUP] نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ [SUP]صلی اللہ علیہ وسلم[/SUP] کی فرمانبرداری مجھے بہتر ہے ۔ پھر میں نے ان سے نکاح کیا اور عورتیں مجھ پر رشک کرنے لگیں۔

[SUP]قارئین کرام! مندرجہ بالا حدیث کو امام مسلم کے علاوہ امام احمد رحمہ اللہ نے مسند احمد ج ۴۵ رقم ۴۷۳۴۹، سنن الدارقطنی ۳۳/۴، مصنف ابن ابی شیبة ۱۴۶/۵ اور سنن الکبری للبیقھی نے نکالا ہے۔ مذکورہ بالا احادیث پر کئی اعتراضات کیے گئے ہیں۔ جن کو نقل کرنے کے بعد ہم بالترتیب ان کے جوابات اپنے قارئین کے سامنے پیش کریں گے۔[/SUP]
والسلام
 
Top