• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عورت کی آواز پردہ ہے؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیا عورت کی آواز پردہ ہے؟

تحریر ثناء اللہ صادق تیمی


السلام علیکم ورحمتہ اللہ !

ہمارے ہاں بعض مسائل میں حد سے زیادہ غلو یا افراط و تفریط سے کام لیاجاتا ہے ـ نتجہ کے طور پر کوئی چیز جو کہ شروط کے ساتھ جائز اور مباح ہوتی ہے وہ بھی حرام ہوجاتی ہے ـ انصاف یہ ہے کہ ہرمسئلے میں اس کی جائز صورت کی اجازت ہو نی چاہے ـ دوسال قبل عورت کی آواز ےکے پردہ کے جواز پر مجھے کچھ اشکال پیش آئی کہ کیا عورت کی آواز کسی نامحرم مرد کے لئے پردہ ہوسکتی ہے یا نہیں ؟ تو میں نے عرب علماء کے فتوی سے رجوع کیا تھا ـکیونکہ سعودیہ کے اہل علم کے ہاں عورت کی آوازپردہ نہیں تھی ـ وہ براہ راست ان کا سوال سنتے ، ان کا جواب دیتے ہیں ـ اس مسئلے کے حوالے سے ذیل میں اہل علم کے کلام کی روشنی میں وضاحت کی گئی ہے ـ جمع وترتیب شیخ ثناءاللہ تیمی

(مترجم اردو: خطبہ حرم المکی ) ہیں ـ جزاہ اللہ خیرا

------------
عورت کی آواز پردہ ہے !

ثناءاللہ صادق تیمی

دین کا اگر صحیح شعور نہ ہو تو افراط و تفریط کی عجیب وغریب کیفیت جنم لے لیتی ہے ۔ ہمارے یہاں برصغیر ہندو پاک کے اندر بالعموم دین کا جو تصور کام کرتا ہے وہ کتاب و سنت سے زيادہ رواجی اور خود ساختہ اصول و نظریات کا ترجمان نظر آتا ہے ، آپ اگر غور کرینگے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ دین کے بہت سے ایسے امور میں جن میں رائے دینے کے لیے قرآن وسنت پرگہری نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ایسے لوگ رائی زنی کرتے ہیں جنہيں قرآن وسنت سے کوئی واسطہ تک نہیں ہوتا ، تعجب تو تب ہوتا ہے جب ایسے لوگ مختلف دنیاوی قوانین اور ممالک کی مثالیں پیش کرنے لگتے ہیں ، اسی طرح ہمارا جو طبقہ دیندار مانا جاتا ہے وہ زیادہ تر ایسی چیزوں کو بھی حرام کے نہیں تو کم از کم مکروہ کے درجے میں ضرور رکھتا ہے جو شرعا مباح ہو، یا جس کے کرنے میں کوئی قباحت نہ ہو ۔

اسلامی اعتبار سے عورت پردہ ہے اور اسے پردے میں ہی ہونا چاہیے ، اسے بلاضرورت گھر سے باہر بھی نہ ہونا چاہیے اورجب کبھی باہر نکلنے کی ضرورت پیش آجائے تو اسے مکمل پردے میں نکلنا چاہیے ، اسلامی نقطئہ نظر سے عورت اپنے گھرمیں زیادہ محفوظ بھی ہے اور اللہ نے اسے جن جوہروں سے نوازا ہے اس کا زيادہ بہتر استعمال وہ اپنے گھرمیں رہ کر ہی کرسکتی ہے ، قرآن کریم کے اندر " وقرن فی بیوتکن ولاتبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی " اور " و لیضربن بخمرھن علی جبیوبھن " کے واضح نصوص آئے ہیں ۔

لیکن عام طور سے ہمارے مسلم معاشرے میں عورت کی آواز کو جس طرح پردہ بناکر دیکھا گیا ہے ، اسے شرعی اعتبار سے دیکھنے کی ضرورت ہے ، کمال تو یہ ہے کہ اس معاملے میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی جنہیں قرآن وسنت کا علم ہے ، پس وپیش میں نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ یہ بات اتنی صاف ہے کہ اس میں زيادہ سوچنے کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔

اللہ تعالی نے امھات المؤمین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا

(فَلا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَعْرُوفاً)

(دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو)

شیخ صالح عثیمین لکھتے ہیں

" دبی زبان سے بات کرنے سے منع کرنا اور صاف سیدھی بات کرنے کا حکم دینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عورت کی آواز پردہ نہیں ہے ، اگر عورت کی پوری آواز پردہ ہوتی تو صاف سیدھی بات کرنے کا حکم نہيں دیا جاتا بلکہ پوری طرح منع کردیا جاتا ، اس لیے کہ پھر دبی زبان سے کی گئی باتوں سے روکنے کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا "

آپ آگے کہتے ہیں " جہاں تک سنت کی بات ہے تو اس پر بہت سے دلائل ہیں ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خواتین آتی تھیں اور مردوں کی موجودگی میں استفسارات کرتی تھیں اور آپ انہیں جواب دیتے تھے ، آپ نے کبھی عورتوں کو پوچھنے سے منع نہيں کیا اور نہ مردوں سے یہ کہا کہ تم لوگ یہاں سے اٹھ جاؤ ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کی آواز پردہ نہیں ہے، اس لیے کہ اگر آواز پردہ ہوتی تو یا تو آپ عورتوں کو منع کردیتے یا پھر مردوں کو اٹھ جانے کا حکم دیتے اور یہ دونوں نہیں ہوا ، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی منکر کو برقرار بھی نہیں رکھ سکتے تھے ، پتہ چلا کہ عورت کی آواز پردہ نہیں ہے "

شیخ صالح منجد ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہيں

" عورت کی آواز مطلقا پردہ نہیں ہے ، عورتیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سے شکایتیں کرتی تھیں اور اسلامی امور کے بارے میں دریافت کیا کرتی تھیں ، یہی سلسلہ خلفاء راشدین اور ان کے بعد کے حکمرانوں کے ساتھ بھی رہا ، وہ اجنبی مردوں کو سلام بھی کرتی تھیں اور سلام کا جواب بھی دیتی تھیں اور علماء نے کبھی اس کی نکیر بھی نہیں کی ، ہاں عورتوں کےلیے جائز نہیں وہ اپنی بات میں نزاکت رکھے یا ایسا لہجہ اختیار کرے جس سے مرد فتنہ میں پڑ جائے جیسا کہ اللہ کافرمان ہے

" يا نساء النبي لستن كأحد من النساء إن اتقيتن فلا تخضعن بالقول فيطمع الذي في قلبه مرض وقلن قولا معروفا"

جہاں تک اس حدیث کی بات ہے

" إذا نابكم شيء في الصلاة فليسبح الرجال وليصفق النساء"

( جب تمہیں نماز میں کچھ لگے تو مردوں کو چاہیے کہ سبحان اللہ کہیں اور عورتوں کو چاہیے کہ تالی بجائيں )

تو اس سلسلے میں ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں

" یہ نماز کے لیے مقید ہے ، اور ظاہر حدیث سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ عورت کے لیے اس حکم میں کوئی فرق نہیں کہ مردوں کے ساتھ نماز ادا کررہی ہوں یا اپنے گھرمیں محارم کے ساتھ اور حقیقی علم تو اللہ ہی کو ہے "

یعنی جب وہ اپنے گھرمیں محرم کے بیچ ہو تو کیسا پردہ ؟ اس کا مطلب ہے کہ یہ حکم اس مخصوص عبادت سے متعلق ہے اور اس کا عورت کی آواز سے کوئی خاص مطلب نہیں ۔ لیکن اگر استلال مردوں کے ساتھ نماز ہی کو ذہن میں رکھ کر یہ کیا جائے کہ اجنبی مردوں کی وجہ سے آواز کی بجائے تالی لگانے کا حکم دیا گیا تو کیا یہ بات نہيں کہی جاسکتی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے اور عمل بھی یہی تھا کہ خواتین کی صفیں سب سے پیچھے ہوتی تھیں اور بالعموم خواتین کی آواز پتلی ہوتی ہيں تو یہ حکم اس لیے دیا گیا کہ امام تک تالی کی آواز پہنچ جائے گی جبکہ شاید خواتین کی آواز اس طرح سے نہ پہنچ پائے ؟

لیکن اس تحریر کا یہ مطلب ہرگز نہ نکالا جائے کہ ہم مسلم عورت کو اس بات کی دعوت دے رہے ہیں کہ وہ جس سے تس سے ہم کلام ہوتی رہے ، نہیں ، ہمارا مطلب صرف یہ ہے کہ عورت کی آواز عورت کی مانند پردہ نہيں ہے ، لیکن اگر وہ لگاوٹ اور نزاکت کے ساتھ کسی اجنبی مرد سے ہمکلام ہوتی ہے تو یہ حرام ہے ، ہمارا مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح وہ حسب ضرورت باہر نکل سکتی ہے اسی طرح حسب ضرورت وہ کسی سے بات بھی کرسکتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس ضرورت کا شرعی دائرے کے اندر ہونا ضروری ہے ۔ اچھا یہ کوئی نہیں بات بھی نہیں ہے ، فقہاء میں حنابلہ کے یہاں یہی فتوی رہا ہے ۔

ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں

" ہمارے حنبلی فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے کہ عورت کی آواز پردہ نہیں ہے ،

تفصیل کے لیے دیکھیے شرح المنتهى 3/11 وشرح الإقناع 3/8 ط مقبل، وغاية المنتهى 3/8 والفروع 5/ 157."

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن وسنت کی صحیح سجھ عطا فرمائے اور دین کے مطابق سماج بنانے کی توفیق دے ۔

مراجع :

 
Top