• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عیسی علیہ السلام کو حجرۂ عائشہ صدیقہ میں دفن کیا جائےگا؟

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
کیا عیسی علیہ السلام کو حجرۂ عائشہ صدیقہ میں دفن کیا جائےگا؟


✍ فاروق عبد اللہ نراین پوری

عام لوگوں کے مابین یہ بات بے حد مشہور ہے کہ حجرۂ عائشہ صدیقہ میں ایک چوتھی قبر کی جگہ خالی ہے جس میں عیسی علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صاحبین کے بغل میں دفن کیا جائےگا۔

بلا شبہ اس پر ہمارا ایمان وعقیدہ ہے کہ عیسی علیہ السلام کو اللہ رب العالمین نے زندہ اٹھا لیا ہے، آپ دوبارہ اتارے جائیں گے اور لوگوں کے مابین چالیس سال زندگی گزاریں گے۔ (اس حدیث کو امام طبرانی نے «المعجم الاوسط» (5/331، حدیث نمبر 5464)، ابن عدی نے «الکامل» (10/480، حدیث نمبر18108) اور ابن عساکر نے «تاریخ دمشق» (47/522) میں روایت کی ہے۔ اور اس کی سند صحیح ہے۔)

پھر آپ کو بھی دوسروں کی طرح موت کا مزہ چکھنا ہے جس سے کسی کو رستگاری نہیں۔ لیکن آپ کی وفات کہاں ہوگی اور آپ کی قبر کہاں ہوگی؟ اس کے متعلق کوئی بھی صحیح روایت موجود نہیں ہے۔ اس لئے آپ کے بارے میں یہ کہنا کہ آپ کو حجرۂ عائشہ میں دفن کیا جائےگا محتاج دلیل ہے۔

ہاں اس سلسلے میں بعض روایتیں پیش کی جاتی ہیں لیکن وہ ثابت نہیں ہیں۔ نیچے ان روایات کا مختصر حال بیان کیا جا رہا ہے:

پہلی روایت: عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ينزل عيسى ابن مريم إلى الأرض، فيتزوج ويولد ويمكث خمسًا وأربعين سنة، ثم يموت، فيدفن معي في قبري، فأقوم أنا وعيسى ابن مريم من قبر واحد بين أبي بكر وعمر۔
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیسی بن مریم زمین پر اتریں گے، پھر شادی کریں گے، ان کی اولاد ہوگی، اور پینتالیس سال زندگی بسر کریں گے پھر ان کی وفات ہوگی، پھر میرے قبر میں میرے ساتھ دفن ہوں گے۔ پس عیسی بن مریم اور میں ایک ہی قبر سے ابو بکر وعمر کے درمیان اٹھوں گا۔
اسے ابن الجوزی نے العلل المتناہیہ (2/433، حدیث نمبر 1529) میں درج ذیل سند سے روایت کی ہے:
أنبأنا أبو القاسم الحريري قال أنبأنا أبو طالب العشاري قال أنا ابن أخي ميمي قال حدثنا أبو علي بن منصور قال نا عبد الله ابن عبيد الله بن مهدي قال نا أبو عبد الرحمن قال نا محمد بن يزيد عن عبد الرحمن بن زياد بن أنعم عن عبد الله بن يزيد الحبلي عن عبد الله بن عمر۔
اس میں عبد الرحمن بن زیاد بن انعم الافریقی پر علما نے سخت کلام کیا ہے۔ [دیکھیں: میزان الاعتدال (2/561-563)]۔
ابن الجوزی اسے روایت کرنے کے بعد فرماتےہیں: "هذا حديث لا يصح والإفريقي ضعيف بمرة"۔ (یہ حدیث صحیح نہیں اور افریقی ایک دم ضعیف ہیں۔)
اور حافظ ذہبی بشمول اس روایت کے ان کی بعض منکر روایتوں کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "فهذه مناكير غير محتملة". (یہ ایسی منکر روایتیں ہیں جو چلنے کے قابل نہیں۔)
اسی طرح علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ (14/141، حدیث نمبر 6562) میں اسے منکر قرار دیا ہے۔

دوسری روایت: عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «مكتوب في التوراة صفة محمد وعيسى ابن مريم يدفن معه»
تورات میں محمد کی صفت مکتوب ہے، اور یہ کہ عیسی بن مریم ان کے ساتھ دفن ہوں گے۔
اسے امام ترمذی نے اپنی «جامع» (5/588، حدیث نمبر3617)، امام بخاری نے «تاریخ کبیر» (1/263)، آجری نے «کتاب الشریعہ» (3/1324، حدیث نمبر891) اور ابن عبد البر نے«التمہید» (14/202) میں "عثمان بن الضحاك بن عثمان الأسدي عن محمد بن يوسف بن عبد الله بن سلام عن أبيه عن جده" کے طریق سے روایت کیا ہے۔
آجری کے یہاں عثمان بن الضحاک کے بجائے الضحاک بن عثمان ہے، جب کہ محمد بن یوسف کے بجائے یوسف بن عبد اللہ بن سلام ہے۔ اور التمہید میں یہ سند اس طرح موجود ہے: "عن محمد بن يوسف عن عبد الله بن سلام عن أبيه عن جده" جوکہ شاید کتابت وطباعت کی غلطی ہے۔
ترمذی کی روایت میں اس کی سند کے ایک راوی ابو مودود فرماتے ہیں: " وقد بقي في البيت موضع قبر" (حجرہ میں ایک قبر کی جگہ خالی ہے۔)
لیکن یہ سند ضعیف ہے، اس میں درج ذیل علتیں ہیں:

1 – عثمان بن الضحاک بن عثمان الاسدی ضعیف ہیں۔ [دیکھیں: الکاشف للذہبی (2/8، ترجمہ نمبر3705)، والتقریب لابن حجر (ص384، ترجمہ نمبر 4481)]۔

2 - محمد بن یوسف بن عبد اللہ بن سلام الاسرائیلی کی توثیق کسی معتبر امام جرح وتعدیل کی جانب سے نہیں ملتی۔ ابن حبان نے انہیں "الثقات" (5/368) میں ذکر کیا ہے۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقبول کہا ہے، یعنی متابعت کی صورت میں مقبول ہیں ورنہ لین الحدیث۔ اور ان کی کوئی متابعت نہ مل سکی۔[التقریب ص515، ترجمہ نمبر6413]۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے سوانح میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور کہا ہے: "هذا لا يصح عندي، ولا يتابع عليه"۔ یہ حدیث میرے نزدیک صحیح نہیں۔ اور نہ ان کی –یعنی محمد بن یوسف کی- اسے روایت کرنے میں متابعت کی جاتی ہے۔

3 – یہ اسرائیلی روایت ہے۔ اسے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نےروایت کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کیا ہے۔ اسے حکمًا بھی مرفوع نہیں کہا جاسکتا کیونکہ عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اسرائیلیات روایت کرنے میں معروف ہیں۔ نیز اس روایت میں "مکتوب فی التواراۃ" کہہ کر اس کا مصدر بھی انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ یہ ایک اسرائیلی روایت ہے۔ اور اسرائیلی روایات کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ ان کی نہ ہم تصدیق کریں نہ جھٹلائیں۔ لہذا یہ روایت اگر عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ثابت بھی ہوتی پھر بھی اس مسئلہ کی دلیل نہیں بن سکتی تھی، چہ جائیکہ یہ ثابت ہی نہیں ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے موقوفًا ضعیف کہا ہے۔ [الضعیفہ حدیث نمبر 6962]۔

تیسری روایت: عن عائشة قالت: قلت للنبي صلى الله عليه وسلم: إني لا أراني إلا سأكون بعدك, فتأذن لي أن أدفن إلى جانبك, قال: وأنى لك ذاك الموضع, ما فيه إلا قبري وقبر أبي بكر وقبر عمر وقبر عيسى بن مريم صلى الله عليه وسلم.
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میرا خیال ہے کہ میں آپ کے بعد زندہ رہوں گی۔ آپ اجازت دیں کہ آپ کے بغل میں میں بھی مدفون ہوں۔ تو آپ نے فرمایا: تمہیں وہاں کہاں جگہ مل سکتی ہے۔ وہاں پر تو صرف میری اور ابو بکر وعمر اور عیسی بن مریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر ہوگی۔
اسے ابن عساکر نے «تاریخ دمشق» (47/522-523) اور ابن الابار نے «التکملہ لکتاب الصلہ» (1/20) میں روایت کی ہے۔ بظاہر دونوں کی سند ایک ہی ہے سوائے بعض فروق کے جن کا ذکر آگے آرہا ہے:
ابن عساکر کی سند درج ذیل ہے: أخبرنا أبو الحسن السلمي حدثنا أبو محمد التميمي أنبأنا تمام بن محمد البجلي وعقيل بن عبيد الله الأزدي قالا أنبأنا محمد بن عبد الله بن جعفر الرازي حدثنا أبو أمية الأحوص بن المفضل حدثنا أبي المفضل بن غسان حدثنا محمد بن عبد الله بن عبد العزيز العمري عن صالح بن شعيب بن طلحة بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي بكر عن أبي بكر عن عائشة۔
محمد بن عبد الله بن عبد العزيز العمری کا ترجمہ مجھے نہیں ملا۔ شاید یہ محمد بن عبد اللہ بن عمر العمری ہوں جیسا کہ ابن الابار کے یہاں ہے۔
اسی طرح صالح بن شعیب کا بھی ترجمہ نہیں ملا، شاید یہ شعیب بن طلحہ ہوں جیسا کہ ابن الابار کے یہاں ہے۔
اور ابن عساکر کی سند میں اماں عائشہ سے روایت کرنے والے ابو بکر کون ہیں اس کا مجھے پتہ نہ چل سکا۔ ابن الابار کے یہاں راوی کی حیثیت سے ان کا ذکر نہیں آیا ہے، بلکہ اس میں اس طرح ہے: "حدثنا شعيب بن طلحة من ولد أبي بكر الصديق رضي الله عنه عن أبيه عن جده عن عائشة رضي الله عنها".
درج ذیل علتوں کی بنا پر اس کی سند ضعیف ہے۔

1 – محمد بن عبد اللہ بن عمر العمری کو عقیلی نے ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی حدیث صحیح نہیں ہوتی اور نہ روایت حدیث کے باب میں یہ معروف ہیں۔ اور ابن حبان فرماتے ہیں: کسی بھی صورت میں ان سے احتجاج جائز نہیں۔ اسی طرح دار قطنی اور ابن مندہ نے بھی ان پر کلام کیا ہے۔ [دیکھیں: المجروحین لابن حبان (2/282)، والمیزان للذہبی (3/610)]۔

2 – شعیب بن طلحہ مختلف فیہ ہیں۔ ابو حاتم رازی نے انہیں "لاباس بہ" کہا ہے۔ اور ابن حبان نے "الثقات" میں ذکر کیا ہے۔ جب کہ ابن معین فرماتے ہیں کہ "میں انہیں نہیں جانتا"، اور معن بن عیسی –جوکہ ان سے روایت کرنے والوں میں سے ہیں- فرماتے ہیں: "بمشکل ہی ان کی کسی کو معرفت ہوگی"۔ اور ابن عدی فرماتے ہیں: "وهذا الذي قال ابن معين أن شعيب بن طلحة لا يعرفه هو كما قال: لا يعرف, ولم أجد له حديثا فأذكره", یہ جو ابن معین نے کہا ہے کہ شعیب بن طلحہ غیر معروف ہیں تو صحیح کہا ہے، مجھے ان کی کوئی حدیث نہ ملی جو ذکر کرتا۔ اور دار قطنی نے انہیں "متروک" کہا ہے۔ [دیکھیں: «تاريخ ابن معين» برواية الدارمي (ص131), و«الجرح والتعديل» (4/349), و«الثقات» (6/439), و«الكامل» (5/5), و«الميزان» (2/277)].

3 – اور ان کے والد طلحہ بن عبد الله بن عبد الرحمن بن ابی بكر کی توثیق مجھے کسی معتبر امام جرح وتعدیل کی جانب سے نہ مل سکی۔ ابن حبان نے انہیں "الثقات" (4/392) میں ذکر کیا ہے۔جب کہ یعقوب بن شیبہ ان سے مروی ایک حدیث کے متعلق فرماتے ہیں: "ورجال إسناده معروفون، ولا علم لي بطلحة من بينهم" اس کے روات تو معروف ہیں لیکن ان کے مابین طلحہ کی مجھے کوئی جانکاری نہیں۔
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں "مقبول" کہا ہے، یعنی متابعت کی صورت میں، لیکن ان کی کوئی متابعت نہ مل سکی۔ [دیکھیں: «تہذيب الكمال» (13/404), و«التقريب» (ص282)].
لہذا یہ روایت ثابت نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری (7/66) میں اسے غیر ثابت شدہ کہا ہے۔

چوتھی روایت: قال سعيدُ بنُ المسيب : فيه يُدْفَنُ عيسى بنُ مريمَ عليه السلام.
سعید بن المسیب فرماتے ہیں: وہاں پر –یعنی حجرہ عائشہ میں- عیسی بن مریم علیہ السلام کو دفن کیا جائےگا۔[الدرة الثمينہ في أخبار المدينہ لابن النجار (المتوفی 643ھ) (ص404، حدیث نمبر 312)]۔
یہ سعید بن المسیب سے معلقا مروی ہے، ابن النجار اور ابن المسیب کے درمیان کی سند کا پتہ نہیں۔ نیز اگر یہ ان سے ثابت بھی ہوتا تب بھی دلیل نہیں بن سکتی تھی کیونکہ یہ سعید بن المسیب کا اپنا کلام ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی تضعیف کی ہے۔ [فتح الباری (7/66)]۔

خلاصہ کلام یہ کہ ایسی کوئی روایت ثابت نہیں ہے جس پر اعتماد کرتے ہوئے یہ دعوی کیا جا سکے کہ عیسی علیہ السلام کو حجرۂ عائشہ رضی اللہ عنہا میں دفن کیا جائےگا۔ جب کے اس کے برخلاف ایسے قرائن ہیں جن کی بنا پر یہ دعوی درست معلوم نہیں ہوتا۔
سب سے پہلا قرینہ تو یہ کہ کس کی وفات کب اور کہاں ہوگی اس کا علم اللہ تعالی کے سوا کسی کو نہیں جیسا کہ سورہ لقمان کی آخری آیت میں ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ عیسی علیہ السلام کی قبر حجرۂ عائشہ میں ہوگی اس بات کی طرف قوی اشارہ ہے کہ ان کی وفات مدینہ میں ہوگی۔ اور یہ دعوی نص قرآنی سے ٹکراتا ہے، کیونکہ اس نص قرآنی کی تخصیص میں عیسی علیہ السلام کے متعلق نصوص شریعت میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔

دوسری بات یہ کہ حجرۂ عائشہ میں کیا اتنی جگہ باقی ہے کہ اس میں ایک اور قبر بنائی جا سکے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قصہ شہادت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں پر صرف تین قبروں کی گنجائش تھی، چوتھی قبر کی نہیں۔ کیونکہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب اپنے لڑکے کو اماں عائشہ سے وہاں پر تدفین کی اجازت طلب کرنے کے لئے بھیجا تو اماں عائشہ کا جواب تھا: "كنت أريده لنفسي، ولأوثرن به اليوم على نفسي" یہ جگہ میں خود اپنی قبر کے لئے چاہتی تھی، لیکن آج میں اپنے اوپر ان کو ترجیح دیتی ہوں۔[صحيح البخاري (5/ 17)]۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے حجرے میں کسی اور ایک قبر کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی، ورنہ یہ کہنے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی کہ میں اپنے اوپر ان کو ترجیح دیتی ہوں، کیونکہ مزید گنجائش رہنے کی صورت میں دونوں کی قبر اس میں ہو سکتی تھی اور ترجیح کی کوئی بات ہی نہ آتی۔
لیکن ایک دوسری روایت سے اس کا تعارض لازم آتا ہے۔ وہ یہ کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو یہ وصیت کی تھی کہ مجھے ان کے ساتھ (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صاحبین کے ساتھ) دفن نہ کرنا، بلکہ میری سوکنوں کے ساتھ بقیع میں دفن کرنا، میں یہ نہیں چاہتی کہ ان کے ساتھ میری بھی تعریف ہوا کرے۔ [صحیح بخاری (حدیث نمبر 1391)]۔

اس وصیت سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ وہاں پر ان کی قبر کی گنجائش تھی ورنہ یہ وصیت کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان دونوں روایتوں میں یہ تطبیق دی ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت ان کا اندازہ یہی تھا کہ وہاں پر صرف ایک قبر کی گنجائش ہے لیکن جب انہیں دفن کر دیا گیا تو مزید ایک قبر کی گنجائش باقی رہی۔ [فتح الباری (7/66)]۔

لیکن اس کے باوجوداس واقعہ سے زیر بحث مسئلہ میں اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ حجرۂ عائشہ میں عیسی علیہ السلام کی قبر کی بات درست نہیں، وہ اس طرح کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اماں عائشہ یا دیگر صحابہ کرام کو یہ خبر دی ہوتی کہ وہاں پر عیسی علیہ السلام بھی دفن ہوں گے تو وہ یہ سبب بیان کرتی نہ کہ وفات فاروقی کے وقت جگہ کی قلت یا اپنی وصیت کے وقت تزکیہ کے خوف کو بیان کرتی۔ اس سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو ایسی کوئی خبر نہ دی تھی۔ واللہ اعلم بالصواب۔

خلاصہ کلام یہ کہ حجرۂ عائشہ میں عیسی علیہ السلام کے دفن ہونے کی بات ثابت نہیں ہے۔ اور یہ ایک غیب کی خبر ہے کہ ان کی وفات اور قبر کہاں ہوگی، جس کا علم صرف اللہ رب العالمین کو ہے، اس لئے اس طرح کے بے بنیاد دعوے سے ہمیں بچنا چاہئے۔
 
Top