• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا فقہ گندی بھی ہوتی ہے ؟

asifchinioty

رکن
شمولیت
جولائی 27، 2015
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
37
السلام علیکم

عموما غیر مقلدین کی طرف سے یہ اعتراض سامنے آتا ہے کہ فقہ حنفی گندی فقہ ہے اس لئے مناسب سمجھا کہ محدث فورم پر اس موضوع کو زیر بحث لایا جائے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
السلام علیکم
عموما غیر مقلدین کی طرف سے یہ اعتراض سامنے آتا ہے کہ فقہ حنفی گندی فقہ ہے اس لئے مناسب سمجھا کہ محدث فورم پر اس موضوع کو زیر بحث لایا جائے
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قرآن وسنت کے سنجیدہ فہم کو ’ فقہ‘ کا نام دیا جائے، تو فقہ ایک عظیم اور مقدس لفظ ہے۔
جبکہ اس فقاہت کو جب مختلف دائروں میں تقسیم کردیا جائے، تو ان دائروں اور نسبتوں کی وجہ سے یہ لفظ فقہ بھی متاثر ہوگا۔
فقہ کا ایک اطلاق بطور علَم کے بھی ہے، یعنی احکام و مسائل کے مجموعہ کو فقہ کہا جاتا ہے۔ اور ان مسائل پر مشتمل کتابوں کو فقہ کی کتابیں کہا جاتا ہے۔
بعض کتابوں میں عجیب و غریب قسم کے مسائل لکھے ہوتے ہیں، بعض لوگ ان غلط مسائل کو دیکھ کر فقہ کو ہی غلط یا برا کہنا شروع کردیتے ہیں۔
مراد اگر مطلقا فقہ ہو، یا مطلقا کسی بھی فقہ کی کتابیں ہوں تو یہ اطلاق درست نہیں۔
لیکن اگر بعض حیاباختہ فرضیات کے لیے یہ لفظ بولا جائے، تو کسی حد تک درست ہے۔
یہ بالکل ایسے ہی ، جیسے کہتے ہیں کہ فلاں فقہ میں بہت وسعت ہے، فلاں فقہ بہت سخت ہے وغیرہ۔
واللہ اعلم۔
 

asifchinioty

رکن
شمولیت
جولائی 27، 2015
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
37
جبکہ اس فقاہت کو جب مختلف دائروں میں تقسیم کردیا جائے، تو ان دائروں اور نسبتوں کی وجہ سے یہ لفظ فقہ بھی متاثر ہوگا۔
جب فقھاء اسلام کا اختلاف ہوگا تو دائرہ ایک ہی رہے گا یا مختلف دائرے بن جائیں گے

بعض کتابوں میں عجیب و غریب قسم کے مسائل لکھے ہوتے ہیں، بعض لوگ ان غلط مسائل کو دیکھ کر فقہ کو ہی غلط یا برا کہنا شروع کردیتے ہیں۔
مراد اگر مطلقا فقہ ہو، یا مطلقا کسی بھی فقہ کی کتابیں ہوں تو یہ اطلاق درست نہیں۔
لیکن اگر بعض حیاباختہ فرضیات کے لیے یہ لفظ بولا جائے، تو کسی حد تک درست ہے۔
یہ بالکل ایسے ہی ، جیسے کہتے ہیں کہ فلاں فقہ میں بہت وسعت ہے، فلاں فقہ بہت سخت ہے وغیرہ۔
واللہ اعلم۔
جس چیز کو آپ عجیب و غریب سمجھیں تو کیا اس غلط کہنا چاہیے؟
کیا اسلام حیا باختہ صورت مسئلہ کا کوئی حکم شرعی نہیں بتاتا؟

قرآن نے نابالغ بچی کی عدت کا حکم فرضی صورت مسئلہ میں دیا تھا یا کوئی واقعہ پیش آیا تھا؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جب فقھاء اسلام کا اختلاف ہوگا تو دائرہ ایک ہی رہے گا یا مختلف دائرے بن جائیں گے
آپ شاید بات سمجھے نہیں۔
نسبتوں سے چیز شرف بھی پاتی ہے۔ اور اس کا برعکس بھی۔
اگر بات ’ فقہ اسلام‘ ، یا ’ فقہاء اسلام‘ کی ہو ، تو شاید کوئی بھی مسلمان کسی فقہ یا فقیہ کو برا نہ کہے۔
لیکن جب ہم مزید دائروں میں بٹ جاتےہیں، تو جس طرح میں کسی کو برا کہتاہوں، کوئی دوسرابھی مجھے برا کہےگا۔
لفظ ’حدیث‘ کے لوگوں نے کیا کیا اطلاقات نہیں نکالے ؟ اور اس سے اہل حدیثوں کو کیا کیا ثابت نہیں کیا؟ تو کیا مطلب ان لوگوں کے دل میں ’حدیث‘ کی عزت نہیں؟!
جس چیز کو آپ عجیب و غریب سمجھیں تو کیا اس غلط کہنا چاہیے؟
کیا اسلام حیا باختہ صورت مسئلہ کا کوئی حکم شرعی نہیں بتاتا؟
قرآن نے نابالغ بچی کی عدت کا حکم فرضی صورت مسئلہ میں دیا تھا یا کوئی واقعہ پیش آیا تھا؟
کیا خیال ہے ، مسائل ذکر کرکے بات کر لی جائے؟
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
بنیادی بات یہ ہے کہ فقہ انسانی زندگی میں ممکنہ طورپر پیش آنے والے واقعات کا شرعی حل ہے،انسانی زندگی میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات بے حد وشمار ہیں، فقہاء کرام نے ایک حد تک ،دوسرے لفظوں میں اپنی بساط کے مطابق ان کو منضبط کرنے کی کوشش کی ہے،چونکہ انسانی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اچھے بھی ہوتے ہیں اوربرے بھی ،کچھ سب کے سامنے بیان کرنے کے لائق اورکچھ صرف خود تک محدود کرنے کی حد تک،لہذا ضروری ہے کہ فقہ کے مسائل بھی ویسے ہی ہوں گے، بیشتر مسائل توایسے ہیں، جن کے ذکر میں کوئی شرم اور عار نہیں ہاں کچھ مسائل جن کا تعلق مباشرت اور جنابت وغیرہ سے ہے، ان کا ذکر ہرایک کے سامنے نہیں کیاجاسکتاہے،اگرکسی کو اس طرح کا کوئی مسئلہ پیش آیاہے تووہ کسی سے پوچھ لے یاکتاب میں دیکھ لے اور عمل کرلے،یہ تو ماضی قریب اوردورحاضر میں کچھ لوگوں کا شغل ہے کہ وہ فقہ کی کتاب سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے مسائل بیان کرتے ہیں جس میں غسل جنابت اور مباشرت وغیرہ کے احکام ہیں اور پھر کہتے ہیں دیکھو !یہ شرمناک فقہ ہے
اگرمحض شرمناک ہوناہی کسی چیز کے غلط ہونے کا معیار ہے تو کوئی حدیثیں ایسی ہیں، جن کو عورتوں کے مجمع میں کھلے عام بیان نہیں کیاجاسکتاتوکیااس کا یہ مطلب ہے کہ حدیثیں غلط ہیں،توپھر فقہاء نے زندگی میں پیش آمدہ اس طرح کے مسائل جس کا تعلق جوانی اوراس کے لوازمات وغیرہ سے ہے،اگراس کی فرضی صورت اوراس کا حکم بیان کیاہے تو وہ کیوں کر غلط قرارپائے گا۔
ایک خاتون ڈاکٹر بھی دوران تعلیم انسانی جسم کے ہرحصے کے بارے میں علم حاصل کرتی ہے، انسانی جسم کے بعض اعضا ایسے ہیں، جن سے شرم وحیاوابستہ ہے توکیااس کا یہ مطلب لیاجائے کہ ڈاکٹر کی تعلیم سے ان اعضا کا ذکر ہی نکال دیاجائے، اگرنہیں توپھر انہی اعضا کے تعلق سے اگرکچھ فقہی احکام فقہاء نے ذکر کئے ہیں تواس پر شرمناک شرمناک کی رٹ لگانے کی کیا تک بنتی ہے۔
حالانکہ ایسے لوگوں کے گھر کی خواتین کے ساتھ اگرکچھ مسئلہ ہوجائے تو وہ ڈاکٹر سے اس کا ذکر کرتے ہوئے نہیں شرمائیں گےاورضرورت پڑنے پر خاتون ڈاکٹر کو چھوڑ کر مرد ڈاکٹر تک سے علاج ومعالجہ کرائیں گے،لیکن فقہاء کرام نے اگرکچھ اس طرح کا مسئلہ ذکر کردیاہے تووہ ان کے نزدیک شرمناک ہے،اگر خود ان کے جسم کے بعض اعضا کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوجائے تو ڈاکٹر سے رائے لیتے ہوئے نہیں شرمائیں گے لیکن کتب فقہ میں اس کا تذکرہ شرمناک ہے۔
شرمناک یہ نہیں ہے کہ فقہ کی کتابوں میں پیش آسکنے والے معاملات کاشرعی حل پیش کیاجائے،شرمناک یہ ہے کہ فقہ کی کتابوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے مسائل نکالے جائیں پھر اس کو عوام الناس کے سامنے پیش کیاجائے،یہ بعینہ ایسی حرکت ہے کہ کوئی طبی کتاب سے انسان کے جنسی اعضا کی بحث نکال کر عوام الناس کو دکھانا شروع کردے،جس طرح طبی کتاب سے جنسی اعضاء پر مشتمل بحث کو ہرشخص کو دکھاتے پھرنے والے کو ہم عقل مند نہیں کہیں گے ویسے ہی فقہی کتابوں سے اس طرح کے مسائل ڈھونڈ کر یہاں وہاں نشر کرنے والا بھی احمق ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بنیادی بات یہ ہے کہ فقہ انسانی زندگی میں ممکنہ طورپر پیش آنے والے واقعات کا شرعی حل ہے،انسانی زندگی میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات بے حد وشمار ہیں، فقہاء کرام نے ایک حد تک ،دوسرے لفظوں میں اپنی بساط کے مطابق ان کو منضبط کرنے کی کوشش کی ہے،چونکہ انسانی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اچھے بھی ہوتے ہیں اوربرے بھی ،کچھ سب کے سامنے بیان کرنے کے لائق اورکچھ صرف خود تک محدود کرنے کی حد تک،لہذا ضروری ہے کہ فقہ کے مسائل بھی ویسے ہی ہوں گے، بیشتر مسائل توایسے ہیں، جن کے ذکر میں کوئی شرم اور عار نہیں ہاں کچھ مسائل جن کا تعلق مباشرت اور جنابت وغیرہ سے ہے، ان کا ذکر ہرایک کے سامنے نہیں کیاجاسکتاہے،اگرکسی کو اس طرح کا کوئی مسئلہ پیش آیاہے تووہ کسی سے پوچھ لے یاکتاب میں دیکھ لے اور عمل کرلے،یہ تو ماضی قریب اوردورحاضر میں کچھ لوگوں کا شغل ہے کہ وہ فقہ کی کتاب سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے مسائل بیان کرتے ہیں جس میں غسل جنابت اور مباشرت وغیرہ کے احکام ہیں اور پھر کہتے ہیں دیکھو !یہ شرمناک فقہ ہے
اگرمحض شرمناک ہوناہی کسی چیز کے غلط ہونے کا معیار ہے تو کوئی حدیثیں ایسی ہیں، جن کو عورتوں کے مجمع میں کھلے عام بیان نہیں کیاجاسکتاتوکیااس کا یہ مطلب ہے کہ حدیثیں غلط ہیں،توپھر فقہاء نے زندگی میں پیش آمدہ اس طرح کے مسائل جس کا تعلق جوانی اوراس کے لوازمات وغیرہ سے ہے،اگراس کی فرضی صورت اوراس کا حکم بیان کیاہے تو وہ کیوں کر غلط قرارپائے گا۔
ایک خاتون ڈاکٹر بھی دوران تعلیم انسانی جسم کے ہرحصے کے بارے میں علم حاصل کرتی ہے، انسانی جسم کے بعض اعضا ایسے ہیں، جن سے شرم وحیاوابستہ ہے توکیااس کا یہ مطلب لیاجائے کہ ڈاکٹر کی تعلیم سے ان اعضا کا ذکر ہی نکال دیاجائے، اگرنہیں توپھر انہی اعضا کے تعلق سے اگرکچھ فقہی احکام فقہاء نے ذکر کئے ہیں تواس پر شرمناک شرمناک کی رٹ لگانے کی کیا تک بنتی ہے۔
حالانکہ ایسے لوگوں کے گھر کی خواتین کے ساتھ اگرکچھ مسئلہ ہوجائے تو وہ ڈاکٹر سے اس کا ذکر کرتے ہوئے نہیں شرمائیں گےاورضرورت پڑنے پر خاتون ڈاکٹر کو چھوڑ کر مرد ڈاکٹر تک سے علاج ومعالجہ کرائیں گے،لیکن فقہاء کرام نے اگرکچھ اس طرح کا مسئلہ ذکر کردیاہے تووہ ان کے نزدیک شرمناک ہے،اگر خود ان کے جسم کے بعض اعضا کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوجائے تو ڈاکٹر سے رائے لیتے ہوئے نہیں شرمائیں گے لیکن کتب فقہ میں اس کا تذکرہ شرمناک ہے۔
شرمناک یہ نہیں ہے کہ فقہ کی کتابوں میں پیش آسکنے والے معاملات کاشرعی حل پیش کیاجائے،شرمناک یہ ہے کہ فقہ کی کتابوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے مسائل نکالے جائیں پھر اس کو عوام الناس کے سامنے پیش کیاجائے،یہ بعینہ ایسی حرکت ہے کہ کوئی طبی کتاب سے انسان کے جنسی اعضا کی بحث نکال کر عوام الناس کو دکھانا شروع کردے،جس طرح طبی کتاب سے جنسی اعضاء پر مشتمل بحث کو ہرشخص کو دکھاتے پھرنے والے کو ہم عقل مند نہیں کہیں گے ویسے ہی فقہی کتابوں سے اس طرح کے مسائل ڈھونڈ کر یہاں وہاں نشر کرنے والا بھی احمق ہے۔
کسی کو مسئلہ پیش آجائے ، تو اس کا حل تو پیش کرنا چاہیے۔
لیکن بہر صورت بعض کتابوں میں فضولیات اور فرضی مسائل بھی موجود ہیں۔
چند دن پہلے کسی نے منٹو کی فحش گوئی کا دفاع کرتے ہوئے کچھ اسی قسم کا الزامی جواب پیش کیا ہوا تھا۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ائمہ احناف متقدمین میں سے کسی سے کوئی ایسافرضی مسئلہ منقول نہیں ہے ،جس کو دورازکار یاناممکن الوقوع یاپھرفضول کہاجاسکے، کتب فقہ میں اس طرح کے جوتھوڑے بہت مسائل ملتے ہیں، وہ عام طورپر اقوال مجتہدین پر تخریج کرنے والے فقہاء کے ہیں کہ تخریج مسائل میں وہ بعض اوقات غلو کے شکار ہوگئے، لیکن انصاف سے اگر آپ یاکوئی بھی کام لےتویہ بات یقیناتسلیم کرے گاکہ تھوڑے بہت غلو سے کسی بھی فن کا دامن خالی نہیں ہے، تفسیر میں مفسرین نے اسرائیلیات میں غلو کیاہے،کچھ محدثین نے رطب ویابس کے جمع کرنے میں غلو کیاہے،اسی طرح فقہ میں بعض مخرجین فقہاء فرضی صورتوں میں غلو سے کام لیاہے،شعروادب کا توپوچھناہی کہ وہاں احسنہ اکذبہ کا فارمولاکام کرتاہے۔
 
Top