کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ قبلہ اول بیت المقدس تھا اور بعد میں قبلہ تبدیل ہوکر خانہ کعبہ ہوا یا قبلہ اول پہلے ہی سے خانہ کعبہ تھا البتہ کچھ مصلحت کے تحت کچھ عرصے کے لئے قبلہ بیت القدس بنایا گیا جو بعدمیں دوبارہ خانہ کعبہ میں تبدیل ہو ا اس بارے میں آپ علماء کرام سے قران و حدیث سے و ضاحت درکا ر ہے ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ (96) سورۃ آل عمران
بلاشبہ سب سے پہلا گھر (عبادت گاہ) جو لوگوں کے لیے تعمیر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے، اس گھر کو برکت دی گئی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا "
علامہ عبدالرحمن کیلانی ؒ تفسیر تیسیر القرآن میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
تشریح :
یہ یہود کے ایک دوسرے اعتراض کا جواب ہے۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ تمام انبیاء کا قبلہ بیت المقدس ہی رہا ہے اور تمام انبیاء نے وہاں ہجرت کی۔ لہذا یہ مقام کعبہ سے افضل ہے اب مسلمانوں نے بیت المقدس کے بجائے کعبہ کو اپنا قبلہ بنایا ہے تو یہ ملت ابراہیمی سے روگردانی کی ہے۔
اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ لوگوں کی عبادت کے لیے سب سے پہلے جو گھر تعمیر ہوا۔ وہ بیت اللہ تھا۔ بیت المقدس نہیں تھا۔ کیونکہ بیت اللہ ہی وہ گھر ہے جسے حضرت ابراہیم نے اللہ ہی کی عبادت کے لیے لوگوں کے مرجع کی حیثیت سے تعمیر کیا تھا اور بیت المقدس کو تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے چار سو سال بعد تعمیر کیا تھا اور حضرت سلیمان ہی کے عہد میں یہ قبلہ اہل توحید کے لیے بنایا گیا تھا۔ لہذا قبلہ اول تو دراصل کعبہ ہی ہے۔ تحویل قبلہ پر یہود کے اعتراض کا جواب سورة بقرہ (آیت ١٤٢ تا ١٥٠) میں پہلے بھی گزر چکا ہے۔ مگر یہود چونکہ اپنے اس اعتراض کو اس کے بعد بھی بار بار دہراتے رہے۔ لہذا پھر سے ان کے اعتراض کا تاریخی پہلو سے بھی جواب دیا گیا ہے۔
تفسیر تیسیر القرآن
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور علامہ ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ
اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں
وَقَدْ قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْميّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَر، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ قلتُ: يَا رسولَ اللَّهِ، أيُّ مَسجِد وُضِع فِي الْأَرْضِ أوَّلُ؟ قَالَ: "الْمسْجِدُ الْحَرَامُ". قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ؟ قَالَ: "الْمسجِدُ الأقْصَى". قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: "أرْبَعُونَ سَنَةً". قلتُ: ثُمَّ أَيُّ؟ قَالَ: ثُم حَيْثُ أدْرَكْت (3) الصَلاةَ فَصَلِّ، فَكُلُّهَا مَسْجِدٌ".
وَأَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ، وَمُسْلِمٌ، مِنْ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ، بِهِ ((4) المسند (5/150) وصحيح البخاري برقم (3366، 3425) وصحيح مسلم برقم (520)
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی ہے؟
آپ نے فرمایا مسجد الحرام، پوچھا پھر کون سی؟ فرمایا مسجد بیت المقدس پوچھا ان دونوں کے درمیان کتنا وقت ہے؟ فرمایا چالیس سال پوچھا پھر کون سی؟ آپ نے فرمایا جہاں کہیں نماز کا وقت آ جائے نماز پڑھ لیا کرو ساری زمین مسجد ہے (مسند احمد وبخاری مسلم)۔(صحیح بخاری:3366)
وَقَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا شَرِيك عَنْ مُجالد، عَنِ الشَّعْبيّ عَنْ علِيّ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا} قَالَ: كَانَتِ الْبُيُوتُ قِبْلَةً، وَلَكِنَّهُ كَانَ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِعِبَادَةِ اللَّهِ [تَعَالَى] (5) .
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں گھر تو پہلے بہت سے تھے لیکن خاص اللہ تعالیٰ کی عبادت کا گھر سب سے پہلا یہی ہے، کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ زمین پر پہلا گھر یہی بنا ہے؟ تو آپ نے فرمایا نہیں ہاں برکتوں اور مقام ابراہیم اور امن والا گھر یہی پہلا ہے،،
اور مسند احمد میں ایک حدیث شریف ہے کہ:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عُمَرَ بْنِ قَيْسٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَشْعَثِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ:
( بَيْنَا أَنَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ فَأَذِنَ لَهُ فَقَالَ السَّامُ عَلَيْكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْكَ قَالَتْ فَهَمَمْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ قَالَتْ ثُمَّ دَخَلَ الثَّانِيَةَ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْكَ قَالَتْ ثُمَّ دَخَلَ الثَّالِثَةَ فَقَالَ السَّامُ عَلَيْكَ قَالَتْ فَقُلْتُ بَلْ السَّامُ عَلَيْكُمْ وَغَضَبُ اللَّهِ إِخْوَانَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ أَتُحَيُّونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا لَمْ يُحَيِّهِ بِهِ اللَّهُ قَالَتْ:
فَنَظَرَ إِلَيَّ فَقَالَ مَهْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَا التَّفَحُّشَ قَالُوا قَوْلًا فَرَدَدْنَاهُ عَلَيْهِمْ فَلَمْ يَضُرَّنَا شَيْءٌ وَلَزِمَهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِنَّهُمْ لَا يَحْسُدُونَا عَلَى شَيْءٍ كَمَا يَحْسُدُونَا عَلَى يَوْمِ الْجُمُعَةِ الَّتِي هَدَانَا اللَّهُ لَهَا وَضَلُّوا عَنْهَا وَعَلَى الْقِبْلَةِ الَّتِي هَدَانَا اللَّهُ لَهَا وَضَلُّوا عَنْهَا وَعَلَى قَوْلِنَا خَلْفَ الْإِمَامِ آمِينَ )
صححه الألباني.، وله شواهد. :
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک یہودی آدمی نے اندر آنے کی اجازت چاہی، نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے اجازت دے دی، اس نے آکر " السام علیک " کہا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے صرف " وعلیک " کہہ دیا میں نے کچھ بولنا چاہا لیکن رک گئی، تین مرتبہ وہ اسی طرح آیا اور یہی کہتا رہا،
آخر کار میں نے کہہ دیا کہ اے بندروں اور خنزیروں کے بھائی ! تم پر ہی موت اور اللہ کا غضب نازل ہو، کیا تم نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اس انداز میں آداب کرتے ہو، جس میں اللہ نے انہیں مخاطب نہیں کیا، اس پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے میری طرف دیکھ کر فرمایا رک جاؤ، اللہ تعالیٰ فحش کلامی اور بیہودہ گوئی کو پسند نہیں فرماتا، انہوں نے ایک بات کہی، ہم نے انہیں اس کا جواب دے دیا، اب ہمیں تو کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی البتہ ان کے ساتھ قیامت تک لے لئے یہ چیز لازم ہوجائے گی، یہ لوگ ہماری کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا جمعہ کے دن پر حسد کرتے ہیں جس کی ہدایت اللہ نے ہمیں دی ہے، اور (کعبہ کو )ہمارا قبلہ بنائے جانے پر بھی ہم سے حسد کرتے ہیں اور یہ لوگ اس سے گمراہ رہے، اسی طرح یہ لوگ ہم سے امام کے پیچھے آمین کہنے پر حسد کرتے ہیں۔ ، :
اور علامہ لقمان سلفی تفسیر تیسیرالرحمن میں لکھتے ہیں :
صحیحین میں سیدنا ابو ذر (رضی اللہ عنہ) کی روایت ہے، میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! روئے زمین پر کون سی مسجد پہلے بنائی گئی ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسجد حرام، میں نے پوچھا، پھر کون ؟ تو آپ نے مسجد اقصی، میں نے پوچھا : دونوں کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ تھا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا چالیس سال، علامہ ابن القیم (رح) نے لکھا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ کو بنایا، اس کے چالیس سال کے بعد یعقوب بن اسحاق (علیہما السلام) نے مسجد اقصی کو بنایا۔))