• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا لفظ امام کلمہ توثیق ہے؟ ؟

شمولیت
اگست 28، 2013
پیغامات
162
ری ایکشن اسکور
119
پوائنٹ
75
السلام عليكم و رحمته و بركاته
سوال یہ ہے کہ کیا لفظ امام کلمہ توثیق ہے؟ اگر کوی محدث کسی راوی کو امام لکھ دیتا ہے تو کیا وہ اسکی ثقہ ہونے کی دلیل ہے؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاتہ!
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی نظرمیں

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بعض خوبیاں اپنی جگہ پر لیکن اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ وہ روایت حدیث میں ضعیف تھے ، جیساکہ امام ابوبکر بن داؤد رحمہ اللہ نے پوری صراحت کے ساتھ یہ بات کہی ہے:
چنانچہ امام ابن عدی رحمہ اللہ متوفي 365 ھ فرماتے ہیں:
سمعت بن أبى داود يقول الوقيعة في أبى حنيفة جماعة من العلماء لان امام البصرة أيوب السختياني وقد تكلم فيه وإمام الكوفة الثوري وقد تكلم فيه وامام الحجاز مالك وقد تكلم فيه وامام مصر الليث بن سعد وقد تكلم فيه وامام الشام الأوزاعي وقد تكلم فيه وامام خراسان عبد الله بن المبارك وقد تكلم فيه فالوقيعة فيه إجماع من العلماء في جميع الأفاق أو كما قال [الكامل في الضعفاء 7/ 10]۔

اس کے باوجود بھی بعض حضرات امام ذہبی رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جرح وتعدیل کے ماہر اس عظیم امام نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ثقہ قراردیاہے، حالانکہ اس طرح کی بات کرنا امام ذہبی اورامام ابوحنیفہ دونوں پر ظلم ہے ، رحمہمااللہ۔

اس سلسلے میں غلط فہمی کے اسباب درج ذیل ہیں:
  • امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر ’’ تذکرۃ الحفاظ ‘‘ میں کیا ہے۔
  • امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر ’’ المعین فی طبقات المحدثین ‘‘ میں کیا ہے۔
  • امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورصاحبین کے فضائل پر مستقل کتاب لکھ رکھی ہے۔


اب آئیے بالترتیب ان اسباب کا جائزہ لیتے ہیں:

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور’’تذكرة الحفاظ‘‘ للذھبی

’’تذكرة الحفاظ‘‘ میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایسی کوئی شرط نہیں اپنائی ہے کہ اس میں وہ صرف ثقہ لوگوں کا ہی تذکرہ کریں گے بلکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کتاب میں ثقہ لوگوں کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کو شہرت حاصل رہی ہے خواہ وہ ضعیف یا متروک حتی کہ کذاب ہی کیوں نہ ہوں۔
چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
١:أبو بشر أحمد بن محمد بن عمرو بن مصعب بن بشر بن فضالة المروزي:
امام ذہبی نے اپنی اسی کتاب ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں أبو بشر أحمد بن محمد بن عمرو بن مصعب بن بشر بن فضالة المروزي کا تذکرہ کیا ہے جو کہ کذاب ہے ، امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسی کتاب میں اس کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے کذاب بھی کہا ہے ، لکھتے ہیں:
المصعبي الحافظ الأوحد أبو بشر أحمد بن محمد بن عمرو بن مصعب بن بشر بن فضالة المروزي الفقيه إلا أنه كذاب [تذكرة الحفاظ: 3/ 18]۔
آگے اسی کتاب میں اسی کذاب کو وضاع حدیث بتلاتے ہوئے دیگر ناقدین کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قال الدارقطني: كان حافظًا عذب اللسان مجردًا في السنة والرد على المبتدعة لكنه يضع الحديث . وقال ابن حبان: وكان ممن يضع المتون ويقلب الأسانيد [تذكرة الحفاظ:/ 18]۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أحمد بن محمد بن عمرو بن مصعب يكنى أبا بشر و كان من الحفاظ لكنه متهم بوضع الحديث [نتائج الافکار:1 / 264]۔

فائدہ:
امام دارقطنی ،حافظ ذہبی اورحافظ ابن حجررحمہااللہ کے کلام سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ کوئی راوی ’’حافظ ‘‘ ہونے کے باوجود ’’کذاب ومجروح‘‘ ہوسکتاہے ، کیونکہ تینوں اماموں نے مذکورۃ الصد راوی کو ’’کذاب‘‘ کہنے کے ساتھ ساتھ ’’حافظ‘‘ بھی کہاہے۔
واضح رہے کہ امام ذہبی نے بہت سے کذاب اورمجروحین کو ان کے کذب اور ضعف کے باوجود بھی اس قابل سمجھا کہ انہیں ’’حافظ‘‘ سے متصف کیا لیکن امام صاحب کو کہیں ’’حافظ‘‘ کہا ہو یہ ہمیں تلاش بسیار کے باوجود بھی نہیں ملا۔ تاہم کہیں مل بھی جائے تو اس محض ’’حافظ‘‘ کی حقیقت واضح کی جاچکی ہے۔

٢: إبراهيم بن محمد بن أبي يحيى الفقيه المحدث أبو إسحاق الأسلمي المدني۔
امام ذہبی اپنی اسی کتاب میں اس راوی کا تذکرہ کرتے ہوئے اہل فن سے ناقل ہیں:
وقال يحيى القطان: سألت مالكا عنه أكان ثقة في الحديث قال: لا، ولا في دينه. وقال أحمد بن حنبل: قدري جهمي كلا بلاء فيه ترك الناس حديثه. وقال ابن معين وأبو داود: رافضي كذاب. وقال البخاري: قدري جهمي تركه ابن المبارك والناس.[تذكرة الحفاظ: 1/ 181]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس راوی کے بارے میں فرماتے ہیں:
إبراهيم بن محمد بن أبي يحيى الأسلمي أبو إسحاق المدني متروك [تقريب التهذيب:رقم 1/ 17]۔

٣:محمد بن عمر بن واقد الأسلمي۔
امام ذہبی اپنی اسی کتاب میں اس کاتذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
الواقدي هو محمد بن عمر بن واقد الأسلمي مولاهم أبو عبد الله المدني الحافظ البحر [تذكرة الحفاظ:1/ 254]۔
یہ اس قدر ضعیف راوی ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کا مکمل ترجمہ بھی نقل نہیں کیا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس راوی کے بارے میں فرماتے ہیں:
محمد بن عمر بن واقد الأسلمي الواقدي المدني القاضي نزيل بغداد متروك مع سعة علمه [تقريب التهذيب:رقم 1/ 412]۔

٤: أبو العباس محمد بن يونس بن موسى القرشي السامي البصري۔
امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی اس کتاب میں اس کا بھی تذکرہ کیا ہے اورساتھ ہی میں اس پرشدید جرح بھی کی ہے ، لکھتے ہیں:
الكديمي الحافظ المكثر المعمر أبو العباس محمد بن يونس بن موسى القرشي السامي البصري محدث البصرة وهو واه [تذكرة الحفاظ:2/ 144]۔
امام ذہبی آگے چل کراس کے بارے میں اہل علم کے اقوال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قال ابن عدي: اتهم الكديمي بوضع الحديث وقال ابن حبان: لعله قد وضع أكثر من ألف حديث, وقال ابن عدي: ترك عامة مشايخنا الرواية عنه ورماه أبو داود بالكذب, وقال موسى بن هارون وهو متعلق بأستار الكعبة: اللهم إني أشهدك أن الكديمي كذاب يضع الحديث. وقال قاسم المطرز: أنا أجافي الكديمي كذاب يضع الحديث. وقال قاسم المطرز: أنا أجافي الكديمي بين يدي الله وأقول يكذب على نبيك وقال الدارقطني: يتهم بالوضع [تذكرة الحفاظ: 2/ 145]۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ اس راوی کے بارے میں فرماتے ہیں:
محمد بن يونس بن موسى بن سليمان الكديمي بالتصغير أبو العباس السامي بالمهملة البصري ضعيف ولم يثبت أن أبا داود روى عنه[تقريب التهذيب: رقم 1/ 429]۔

٥: أبو معشر نجيح بن عبد الرحمن السندي۔
امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی اسی کتاب میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
أبو معشر السندي المدني الفقيه صاحب المغازي، هو نجيح بن عبد الرحمن [تذكرة الحفاظ:1/ 172]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
نجيح بن عبد الرحمن السندي بكسر المهملة وسكون النون المدني أبو معشر مولى بني هاشم مشهور بكنيته ضعيف [تقريب التهذيب موافق: 1/ 473]۔

واضح رہے کہ ابومعشر کا تذکرہ امام ذہبی نے اسی طبقہ میں کیا ہے جس میں ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ ہے اسی طرح اسی ابوحنیفہ رحمہ اللہ والے طبقہ میں ابن لھیعہ رحمہ اللہ کا بھی تذکرہ ہے جن کے ضعیف ہونے کے بارے میں حدیث کا معمولی طالب علم بھی جانتاہے۔

یہ صرف پانچ نام ہیں جو بطور مثال نقل کئے گئے ہیں ، ان کے علاوہ اسی کتاب میں کذابین وضاعین اور متروکین کی اچھی خاصی تعدا د موجود ہے ،ان مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہم یہ جذباتی سوال کرسکتے ہیں کہ ان کذابین یا ضعفاء کو امام ذہبی رحمہ اللہ نے تذکرۃ الحفاظ میں کیوں ذکر کیا ؟؟؟
میرے خیال سے اتنی وضاحت اہل نظر کے لئے کافی ہے۔

اب آتے ہیں امام ذہبی کی دوسری کتاب کی طرف:


امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور’’المعين فى طبقات المحدثين‘‘ للذھبی


اس کتاب میں بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایسی کوئی شرط نہیں اپنائی ہے کہ اس میں وہ صرف ثقہ لوگوں کا ہی تذکرہ کریں گے بلکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کتاب میں بھی ثقہ لوگوں کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کو شہرت حاصل رہی ہے خواہ وہ ضعیف یا متروک حتی کہ کذاب ہی کیوں نہ ہوں۔
چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

١: علي بن زيد ابن جدعان التيمي
ان کا تذکرہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے دوسرے طبقہ میں کیا ہے یعنی امام حنیفہ رحمہ اللہ والے طبقہ سے دو طبقہ قبل[المعين فى طبقات المحدثين ص: 11]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ میں ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
علي بن زيد بن عبد الله بن زهير بن عبد الله بن جدعان التيمي البصري أصله حجازي وهو المعروف بعلي بن زيد بن جدعان ينسب أبوه إلى جد جده ضعيف [تقريب التهذيب موافق رقم 1/ 317]۔

٢:الحسن بن عمارة القاضي۔
یہ متروک راوی ہیں ،ان کا تذکرہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اعمش اور ابوحنیفہ رحمہما للہ کے طبقہ ہی میں کیا ہے[المعين فى طبقات المحدثين ص: 12]۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
الحسن بن عمارة البجلي مولاهم أبو محمد الكوفي قاضي بغداد متروك[تقريب التهذيب:رقم 1/ 83]۔

٣:طلحة بن عمرو المكي۔
یہ متروک راوی ہیں ان کا تذکرہ بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے اعمش اور ابوحنیفہ رحمہما للہ کے طبقہ ہی میں کیا ہے[المعين فى طبقات المحدثين ص: 12]۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
طلحة بن عمرو بن عثمان الحضرمي المكي متروك [تقريب التهذيب : رقم 1/ 198]۔

٤: مقاتل بن سليمان۔
یہ کذاب راوی ہے ، اس کا تذکرہ بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے اعمش اور ابوحنیفہ رحمہما للہ کے طبقہ ہی میں کیا ہے [المعين فى طبقات المحدثين ص: 13]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کذاب کے بارے میں فرماتے ہیں:
مقاتل بن سليمان بن بسير الأزدي الخراساني أبو الحسن البلخي نزيل مرو ويقال له بن دوال دوز كذبوه وهجروه [تقريب التهذيب موافق رقم 1/ 458]۔

٥:يزيد بن أبي زياد الكوفي۔
یہ ضعیف راوی ہے ، اس کا تذکرہ بھی امام ذہبی رحمہ اللہ نے اعمش اور ابوحنیفہ رحمہما للہ کے طبقہ ہی میں کیا ہے[المعين فى طبقات المحدثين ص: 13]۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس ضعیف کے بارے میں فرماتے ہیں:
يزيد بن أبي زياد الهاشمي مولاهم الكوفي ضعيف كبر فتغير وصار يتلقن وكان شيعيا [تقريب التهذي: رقم 1/ 513]۔

یہ صرف پانچ نام ہیں جو بطور مثال نقل کئے گئے ہیں ، ان کے علاوہ اسی کتاب میں اوربھی کذابین و متروکین اور ضعفاء کی تعدا د موجود ہے ،ان مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہم یہ جذباتی سوال کرسکتے ہیں کہ ان کذابین یا ضعفاء کو امام ذہبی رحمہ اللہ نے’’المعين فى طبقات المحدثين ‘‘ میں کیوں ذکر کیا ؟؟؟
میرے خیال سے اتنی وضاحت اہل نظر کے لئے کافی ہے۔


اب چلتے ہیں امام ذہبی رحمہ اللہ کی تیسری کتاب کی طرف:

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور’’مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه‘‘ للذھبی


کتاب کے نام سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ اس کتاب میں امام ذہبی رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اوران کے صاحبین کے مناقب بیان کریں گے ، لیکن قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اسی کتاب میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مثالب سے متعلق بھی روایات کا اچھا خاصا حصہ نقل کردیا ہے اور اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے ، لیکن کتاب کے محقق زاہد کوثری نے اس قسم کی روایا ت کو حاشیہ میں موضوع و من گھڑت قرار دینے میں ذرا بھی دیر نہیں کی ہے۔
اب قارئین اسی سے اندازہ لگالیں کہ اس کتاب میں منقول ہر چیز قابل قبول نہیں ہے ۔
بہر حال ہمیں یہ بتلانا ہے کہ اس کتاب میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام صاحب کی کیا پوزیش بیان کی ہے ، تو عرض ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بے شک اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بعض خوبیوں کا ذکر ہے ، لیکن جب روایت حدیث کی بات آئی تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کتاب میں بھی دو ٹوک فیصلہ کردیا ہے کہ امام صاحب راویت حدیث میں معتبر نہیں ہیں بلکہ یہاں تک صراحت کی ہے کہ یہ ان کافن ہی نہیں ہے ، اس میں وہ مشغول ہی نہیں ہوئے ۔
ملاحظہ ہوں مناقب امام ابوحنیفہ للذھبی سے امام ذہبی کا فیصلہ :
قلت: لم يصرف الإمام همته لضبط الألفاظ والإسناد، وإنما كانت همته القرآن والفقه، وكذلك حال كل من أقبل على فن، فإنه يقصر عن غيره , من ثم لينوا حديث جماعة من أئمة القراء كحفص، وقالون وحديث جماعة من الفقهاء كابن أبي ليلى، وعثمان البتي، وحديث جماعة من الزهاد كفرقد السنجي، وشقيق البلخي، وحديث جماعة من النحاة، وما ذاك لضعف في عدالة الرجل، بل لقلة إتقانه للحديث[مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه ص: 45]۔




امام ذہبی رحمہ اللہ کی ایک اورکتاب ہے


تذکرۃ الحفاظ یا المعین میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایسی کوئی شرط نہیں لگائی ہے کہ وہ اس میں صرف ثقہ لوگوں کو ذکرکریں گے اسے لئے ان دونوں کتابوں میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے کذابین کا تذکرہ بھی کردیا ہے۔
لیکن امام ذہبی رحمہ انے ایک کتاب ’’ديوان الضعفاء والمتروکين‘‘ کے نام سے لکھی ہے اب کتاب کے نام ہی سے واضح ہے کہ ان میں کن کا تذکرہ ہوگا۔

بہرحال امام ذہبی کی کتاب ’’ديوان الضعفاء والمتروک‘‘ سے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں:
النعمان الامام رحمه الله. قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات وله احاديث صالحة وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث کثير الغلط علي قلة روايته وقال ابن معين: لا يکتب حديثه [ديوان الضعفاء والمتروکين، ص:٤١١ ، ٤١٢]۔

امام ذہبی رحمہ اللہ کی اس عبارت سے ان کا فیصلہ کھل کر سامنے آگیا کہ ان کے نزدیک بھی امام صاحب ضعیف ہیں۔

ایک اورنکتہ


امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایک کتاب لکھی ہے’’معرفة الرواة المتكلم فيهم بما لا يوجب الرد‘‘ اس کتاب میں امام ذھبی رحمہ اللہ نے ایسے لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جن پر بعض لوگوں نے جرح کی ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ راوی قابل قبول ہے اور اس پر کی گئی جرح امام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک مردود ہے۔
لیکن آپ اس کتاب کو پورا پڑھ جائے آپ کو اس میں امام ابوحنیفہ کا نام ونشان نہیں ملے گا، یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ امام صاحب پر اہل فن کی طرف سے جو جروح کی گئی ہیں وہ امام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک مبنی پر انصاف ہیں۔
لہٰذا امام ، حافظ وغیرہ کہنے سے توثیق لازم نہیں آتی!!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محمد بن عمر بن واقد الواقدی کو ’’ امام فی المغازی ‘‘ کہا جاتا ہے ، لیکن اس کے باوجود ان پر سخت قسم کی جرحیں بھی موجود ہیں ۔ و للحدیث بقیۃ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محدثین رواۃ کے بارے میں الفاظ کا استعمال کرتے وقت ان کے لغوی معانی کا لحاظ کرتے ہیں. چنانچہ کسی ضعیف راوی کو کذاب نہیں کہتے کہ ہیں تو یہ دونوں جرح ہی- ان معانی کے ہی لحاظ سے جرح کے مراتب میں فرق کیا جاتا ہے. اسی طرح لفظ امام کا بھی معاملہ ہے- اس کا مطلب ہے مقتدا یعنی جو اس درجے پر ہو کہ اس کی پیروی کی جاتی ہو- چنانچہ جس فن میں امام کہا جائے اس فن میں یہ توثیق ہے- مثلا واقدی کو امام فی المغازی کہا جاتا ہے تو وہ سیرت کے امام ہیں- ان کا ضعف احکام کی احادیث میں ہے- حفص اور عاصم کو قراءت میں امام کہا گیا ہے تو یہ قراءت کے امام ہیں, ضعف احکام کی احادیث کے بارے میں مذکور ہے- اسی پر سب کو قیاس کیا جا سکتا ہے-
جسے مطلقا امام کہا جائے اسے جس فن میں معروف ہے اس میں امام کہا جانا چاہیے- ہاں اگر مبالغے یا تعظیم کی علامات یا الفاظ بھی مذکور ہوں تو پھر انہی کے بقدر توثیق ہوگی-
یاد رہے کہ بعض چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں توثیق بذات خود تضعیف ہوتی ہے جیسے خوارج یا معتزلہ کا امام ہونا وغیرہ
ہذا ما ظہر لی من تتبع کلام الأئمۃ. و اللہ اعلم
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محض الفاظ کے معنی سے اصطلاح میں استدلال کرنا محدثین کا نہ طریق ہے نہ ان کا منہج ہاں یہ پرویزیت کا فتنہ ضرور ہے!
محدثین نے واشگاف الفاظ میں بیان کردیا ہے کہ امام، حافظ وغیرہ کے الفاظ کسی ضعیف راوی کے لئے توثیق نہیں ہوتے!
ملاحظہ فرمائیں؛


(الْأُولَى): قَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ: " إِذَا قِيلَ لِلْوَاحِدِ إِنَّهُ " ثِقَةٌ أَوْ مُتْقِنٌ " فَهُوَ مِمَّنْ يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ ".
قُلْتُ: وَكَذَا إِذَا قِيلَ " ثَبْتٌ أَوْ حُجَّةٌ "، وَكَذَا إِذَا قِيلَ فِي الْعَدْلِ إِنَّهُ " حَافِظٌ أَوْ ضَابِطٌ "، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 122 جلد 01 معرفة أنواع علوم الحديث، (مقدمة ابن الصلاح) - عثمان بن عبد الرحمن، المعروف بابن الصلاح - دار الفكر، دمشق
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 242 - 243 جلد 01 معرفة أنواع علوم الحديث، (مقدمة ابن الصلاح) - عثمان بن عبد الرحمن، المعروف بابن الصلاح - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 307 - 308 جلد 01 معرفة أنواع علوم الحديث، (مقدمة ابن الصلاح) - عثمان بن عبد الرحمن، المعروف بابن الصلاح - دار المعارف، القاهرة

كَأَنْ يُقَالَ فِيهِ: حَافِظٌ أَوْ ضَابِطٌ ; إِذْ مُجَرَّدُ الْوَصْفِ بِكُلٍّ مِنْهُمَا غَيْرُ كَافٍ فِي التَّوْثِيقِ، بَلْ بَيْنَ [الْعَدْلِ وَبَيْنَهُمَا عُمُومٌ وَخُصُوصٌ مِنْ وَجْهٍ ; لِأَنَّهُ يُوجَدُ بِدُونِهِمَا، وَيُوجَدَانِ بِدُونِهِ، وَتُوجَدُ الثَّلَاثَةُ] .
وَيَدُلُّ لِذَلِكَ أَنَّ ابْنَ أَبِي حَاتِمٍ سَأَلَ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ رَجُلٍ، فَقَالَ: " حَافِظٌ، فَقَالَ لَهُ: أَهُوَ صَدُوقٌ؟ " وَكَانَ أَبُو أَيُّوبَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الشَّاذَكُونِيُّ مِنَ الْحُفَّاظِ الْكِبَارِ، إِلَّا أَنَّهُ كَانَ يُتَّهَمُ بِشُرْبِ النَّبِيذِ وَبِالْوَضْعِ، حَتَّى قَالَ الْبُخَارِيُّ: هُوَ أَضْعَفُ عِنْدِي مِنْ كُلِّ ضَعِيفٍ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 280 – جلد 02 فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي - شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن السخاوي - مكتبة دار المنهاج، الرياض

عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي مولاهم البلخي: من أوعية العلم على ضعف فيه.

۔۔۔۔۔۔۔۔
قلت: كذبه ابن معين جاء ذلك من وجهين عنه، وقال مرة: ليس بشيء. وقال أبو داود: ليس بثقة. وقال النسائي وجماعة.
متروك. قلت لا ريب في ضعفه.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 340 - 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 – 312 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف النظامية ، حيدرآباد، دكن
عمر بن ہارون کا امام الذہبیؒ نے ''الحافظ'' بھی کہا ''امام'' بھی کہا '' من أوعية العلم'' بھی قرار دیا، اور ان تمام القابات کے باوجود فرمایا:
قلت لا ريب في ضعفه
میں کہتا ہوں اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں!!
امام ابن حجر العسقلانی ؒنے
تقريب التهذيب میں عمر بن هارون کو متروک قرار دیا، اور اس کے ساتھ یہ بتلایا کہ وہ نویں طبقہ کے حافظ ہیں۔ لہٰذا ''حافظ'' کلمہ توثیق نہیں۔ اگر یہ کلمہ توثیق ہوتا تو امام ابن حجر العسقلانی، اسی جملہ میں عمر بن هارون کو متروك قرار نہ دیتے۔
عمر ابن هارون ابن يزيد الثقفي مولاهم البلخي متروك وكان حافظا من كبار التاسعة مات سنة أربع وتسعين [ومائة] ت ق
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 417 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار الرشيد – سوريا
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 728 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار العاصمة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 459 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - بيت الأفكار الدولية

آیئے ہم آپ کو اس کے مزید ثبوت پیش کرتے ہیں:
امام الذہبیؒ سير أعلام النبلاء میں ابن خراش کا تعارف یوں فرماتےہیں:

ابن خِراش:الحَافِظُ، النَّاقِد، البَارع أَبُو مُحَمَّدٍ عبد الرَّحْمَن بن يُوْسُف بن سَعِيْدِ بن خِرَاش المَرْوَزِيّ، ثم البغدادي.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 508 جلد 13 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 2250 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية

اسی ابن خراش کے متعلق امام الذہبیؒ ميزان الاعتدال میں
موسى بن إسماعيل، أبو سلمة المنقرى التبوذكى البصري الحافظ الحجة، أحد الاعلام. کے ترجمہ میں رقم فرماتے ہیں:
قلت: لم أذكر أبا سلمة للين فيه، لكن لقول ابن خراش فيه: صدوق، وتكلم الناس فيه.
قلت: نعم تكلموا فيه بأنه ثقة ثبت يا رافضي
.
میں(الذہبی) کہتا ہوں : ابو سلمہ کو لین ذکر نہیں کیا گیا، لیکن ابن خراش کا قول ہے کہ ابو سلمہ صدوق ہیں اور لوگوں نے ان پر کلام کیا ہے۔
میں (الذہبی) کہتا ہوں: جی ہاں ابو سلمہ کے بارے میں لوگوں نے یہ کلام کیا ہے کہ ابو سلمہ ثقہ ثبت ہیں، اے(ابن خراش) رافضی!
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 200 جلد 04 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 536 جلد 06 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محض الفاظ کے معنی سے اصطلاح میں استدلال کرنا محدثین کا نہ طریق ہے نہ ان کا منہج ہاں یہ پرویزیت کا فتنہ ضرور ہے!
محدثین نے واشگاف الفاظ میں بیان کردیا ہے کہ امام، حافظ وغیرہ کے الفاظ کسی ضعیف راوی کے لئے توثیق نہیں ہوتے!
ملاحظہ فرمائیں؛


(الْأُولَى): قَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ: " إِذَا قِيلَ لِلْوَاحِدِ إِنَّهُ " ثِقَةٌ أَوْ مُتْقِنٌ " فَهُوَ مِمَّنْ يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ ".
قُلْتُ: وَكَذَا إِذَا قِيلَ " ثَبْتٌ أَوْ حُجَّةٌ "، وَكَذَا إِذَا قِيلَ فِي الْعَدْلِ إِنَّهُ " حَافِظٌ أَوْ ضَابِطٌ "، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 122 جلد 01 معرفة أنواع علوم الحديث، (مقدمة ابن الصلاح) - عثمان بن عبد الرحمن، المعروف بابن الصلاح - دار الفكر، دمشق
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 242 - 243 جلد 01 معرفة أنواع علوم الحديث، (مقدمة ابن الصلاح) - عثمان بن عبد الرحمن، المعروف بابن الصلاح - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 307 - 308 جلد 01 معرفة أنواع علوم الحديث، (مقدمة ابن الصلاح) - عثمان بن عبد الرحمن، المعروف بابن الصلاح - دار المعارف، القاهرة

كَأَنْ يُقَالَ فِيهِ: حَافِظٌ أَوْ ضَابِطٌ ; إِذْ مُجَرَّدُ الْوَصْفِ بِكُلٍّ مِنْهُمَا غَيْرُ كَافٍ فِي التَّوْثِيقِ، بَلْ بَيْنَ [الْعَدْلِ وَبَيْنَهُمَا عُمُومٌ وَخُصُوصٌ مِنْ وَجْهٍ ; لِأَنَّهُ يُوجَدُ بِدُونِهِمَا، وَيُوجَدَانِ بِدُونِهِ، وَتُوجَدُ الثَّلَاثَةُ] .
وَيَدُلُّ لِذَلِكَ أَنَّ ابْنَ أَبِي حَاتِمٍ سَأَلَ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ رَجُلٍ، فَقَالَ: " حَافِظٌ، فَقَالَ لَهُ: أَهُوَ صَدُوقٌ؟ " وَكَانَ أَبُو أَيُّوبَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الشَّاذَكُونِيُّ مِنَ الْحُفَّاظِ الْكِبَارِ، إِلَّا أَنَّهُ كَانَ يُتَّهَمُ بِشُرْبِ النَّبِيذِ وَبِالْوَضْعِ، حَتَّى قَالَ الْبُخَارِيُّ: هُوَ أَضْعَفُ عِنْدِي مِنْ كُلِّ ضَعِيفٍ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 280 – جلد 02 فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي - شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن السخاوي - مكتبة دار المنهاج، الرياض

عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي مولاهم البلخي: من أوعية العلم على ضعف فيه.

۔۔۔۔۔۔۔۔
قلت: كذبه ابن معين جاء ذلك من وجهين عنه، وقال مرة: ليس بشيء. وقال أبو داود: ليس بثقة. وقال النسائي وجماعة.
متروك. قلت لا ريب في ضعفه.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 340 - 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 – 312 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف النظامية ، حيدرآباد، دكن
عمر بن ہارون کا امام الذہبیؒ نے ''الحافظ'' بھی کہا ''امام'' بھی کہا '' من أوعية العلم'' بھی قرار دیا، اور ان تمام القابات کے باوجود فرمایا:
قلت لا ريب في ضعفه
میں کہتا ہوں اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں!!
امام ابن حجر العسقلانی ؒنے
تقريب التهذيب میں عمر بن هارون کو متروک قرار دیا، اور اس کے ساتھ یہ بتلایا کہ وہ نویں طبقہ کے حافظ ہیں۔ لہٰذا ''حافظ'' کلمہ توثیق نہیں۔ اگر یہ کلمہ توثیق ہوتا تو امام ابن حجر العسقلانی، اسی جملہ میں عمر بن هارون کو متروك قرار نہ دیتے۔
عمر ابن هارون ابن يزيد الثقفي مولاهم البلخي متروك وكان حافظا من كبار التاسعة مات سنة أربع وتسعين [ومائة] ت ق
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 417 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار الرشيد – سوريا
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 728 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار العاصمة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 459 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - بيت الأفكار الدولية

آیئے ہم آپ کو اس کے مزید ثبوت پیش کرتے ہیں:
امام الذہبیؒ سير أعلام النبلاء میں ابن خراش کا تعارف یوں فرماتےہیں:

ابن خِراش:الحَافِظُ، النَّاقِد، البَارع أَبُو مُحَمَّدٍ عبد الرَّحْمَن بن يُوْسُف بن سَعِيْدِ بن خِرَاش المَرْوَزِيّ، ثم البغدادي.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 508 جلد 13 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 2250 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية

اسی ابن خراش کے متعلق امام الذہبیؒ ميزان الاعتدال میں
موسى بن إسماعيل، أبو سلمة المنقرى التبوذكى البصري الحافظ الحجة، أحد الاعلام. کے ترجمہ میں رقم فرماتے ہیں:
قلت: لم أذكر أبا سلمة للين فيه، لكن لقول ابن خراش فيه: صدوق، وتكلم الناس فيه.
قلت: نعم تكلموا فيه بأنه ثقة ثبت يا رافضي
.
میں(الذہبی) کہتا ہوں : ابو سلمہ کو لین ذکر نہیں کیا گیا، لیکن ابن خراش کا قول ہے کہ ابو سلمہ صدوق ہیں اور لوگوں نے ان پر کلام کیا ہے۔
میں (الذہبی) کہتا ہوں: جی ہاں ابو سلمہ کے بارے میں لوگوں نے یہ کلام کیا ہے کہ ابو سلمہ ثقہ ثبت ہیں، اے(ابن خراش) رافضی!
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 200 جلد 04 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 536 جلد 06 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ان میں سے صرف اس:
عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي مولاهم البلخي: من أوعية العلم على ضعف فيه.
۔۔۔۔۔۔۔۔
قلت: كذبه ابن معين جاء ذلك من وجهين عنه، وقال مرة: ليس بشيء. وقال أبو داود: ليس بثقة. وقال النسائي وجماعة.
متروك. قلت لا ريب في ضعفه.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 340 - 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 – 312 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف النظامية ، حيدرآباد، دكن
عمر بن ہارون کا امام الذہبیؒ نے ''الحافظ'' بھی کہا ''امام'' بھی کہا '' من أوعية العلم'' بھی قرار دیا، اور ان تمام القابات کے باوجود فرمایا:
قلت لا ريب في ضعفه
میں کہتا ہوں اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں!!
کے علاوہ امام کا لفظ کہاں ہے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مراسلہ بغور پڑھا کریں:
محدثین نے واشگاف الفاظ میں بیان کردیا ہے کہ امام، حافظ وغیرہ کے الفاظ کسی ضعیف راوی کے لئے توثیق نہیں ہوتے!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مراسلہ بغور پڑھا کریں:
جی جی اسی لیے یہ عرض کیا تھا۔ نہیں سمجھے تو صراحت سے پوچھ لیتا ہوں کہ محدثین نے جو حافظ کے لفظ کے بارے میں لکھا ہے وہ تو اوپر موجود ہے۔ یہ "امام" کے لفظ کے بارے میں "واشگاف الفاظ" کہاں پائے جاتے ہیں؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جی جی اسی لیے یہ عرض کیا تھا۔ نہیں سمجھے تو صراحت سے پوچھ لیتا ہوں کہ محدثین نے جو حافظ کے لفظ کے بارے میں لکھا ہے وہ تو اوپر موجود ہے۔ یہ "امام" کے لفظ کے بارے میں "واشگاف الفاظ" کہاں پائے جاتے ہیں؟
امام ذہبی رحمہ اللہ کا کلام پڑھیئے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي مولاهم البلخي: من أوعية العلم على ضعف فيه.
۔۔۔۔۔۔۔۔
قلت: كذبه ابن معين جاء ذلك من وجهين عنه، وقال مرة: ليس بشيء. وقال أبو داود: ليس بثقة. وقال النسائي وجماعة.
متروك. قلت لا ريب في ضعفه.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 340 - 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 – 312 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف النظامية ، حيدرآباد، دكن
عمر بن ہارون کا امام الذہبیؒ نے ''الحافظ'' بھی کہا ''امام'' بھی کہا '' من أوعية العلم'' بھی قرار دیا، اور ان تمام القابات کے باوجود فرمایا:
قلت لا ريب في ضعفه
میں کہتا ہوں اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں!!

پڑھ لیا۔
ان کے بارے میں تو الامام اور دوسرے الفاظ سے توثیق کا شبہ ہو رہا تھا جبھی تو امام ذہبیؒ نے ضعف کی وضاحت کی۔ اگر ان الفاظ سے توثیق بالکل نہ ہوتی تو ذہبیؒ کو ضعف کی وضاحت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

مجھے لفظ امام کے بارے میں یہ الفاظ دکھائیے جو آپ نے فرمائے ہیں:
محدثین نے واشگاف الفاظ میں بیان کردیا ہے کہ امام، حافظ وغیرہ کے الفاظ کسی ضعیف راوی کے لئے توثیق نہیں ہوتے!
محدثین کا "امام" کے بارے میں یہ واشگاف جملہ کہاں پایا جاتا ہے کہ "یہ لفظ کسی ضعیف راوی کی توثیق کے لیے نہیں ہوتا"؟
 
Top