• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا لوگ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو سجدہ کرتے ہیں؟

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
منہاج القرآن انٹرنیشنل ادارہ تعارف کا مہتاج نہیں۔ اس ادارہ کے کسی طالب علم یا ڈاکٹر طاہر القادری کے ایک معتقد نے اپنا اردو بلاگ بھی بنا رکھا ہے۔
پچھلے دنوں ایک دوست نے اسی بلاگ کی ایک تحریر کا حوالہ دیا ، جس کا عنوان تھا :
کیا لوگ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو سجدہ کرتے ہیں؟ (انگریزی میں : یہاں)

اب یہ الگ بات ہے کہ راقم الحروف نے بہت عرصہ قبل یہ تحریر پڑھی تھی اور کچھ فورمز پر اس کے کچھ حصوں کا جواب بھی دیا تھا۔
یہ ایک بہت مشہور واقعہ ہے کہ سن 2005ء میں دمشق کی ایک "محفل سماع" میں ایک شخص نے ڈاکٹر صاحب موصوف کے پاؤں چومے ۔۔۔ مگر انداز ایسا تھا کہ گویا ڈاکٹر صاحب کو سجدہ کیا جا رہا ہو۔ بہرحال کچھ لوگوں نے اس ویڈیو کلپ کا وہ حصہ یوٹیوب پر لگا کر مشہور کر دیا کہ :
لوگ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو سجدہ کرتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب سجدہ کرنے والوں کو شاباشی دیتے ہیں۔
بس اسی "پروپگنڈے" کا (اپنی دانست میں) "علمی جواب" مذکورہ بالا بلاگ کی تحریر میں درج کیا گیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ اصل ویڈیو بھی اس "علمی جواب" کے ساتھ پیش کر دی جاتی تاکہ عوام کو کچھ اندازہ بھی ہو سکے کہ حقیقت کیا ہے؟ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاں جہاں بھی یہ ویڈیو لگائی گئی ، ڈاکٹر صاحب کے ادارہ نے شاید اپنے اثر و رسوخ سے اس ویڈیو کو ہٹا دیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ ویڈیو اب بھی نیٹ پر موجود ہے یا نہیں؟

دو یہودیوں کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں چومنے کی ایک روایت کو اہل بدعت اکثر و بیشتر اپنے موقف (بزرگوں کے قدم چومنا) کی دلیل میں پیش کرتے ہیں۔ اس کا بہترین جواب ابو صہیب محمد داؤد ارشد نے اپنی کتاب "دین الحق بجواب جاءالحق" میں دیا ہے۔ اسی جواب سے اس مضمون میں بھی استفادہ کیا گیا ہے۔

جب اس روایت پر اعتراض کیا گیا کہ :
چومنے والے تو یہودی تھے۔ ان کا عمل کیسے سنت بن گیا؟؟
تو اس کے جواب میں ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے ایک درس (جو کہ غالباً امام بخاری کی کتاب الادب المفرد پر تھا) میں فرمایا :
نادان اس قسم کا بھی اعتراض کرتے تو میں بھی ان کو جواب دیتا ہوں، کہ آپ کو بغض میں چومنے والے تو دکھائی دیتے ہیں مگر وہ دکھائی نہیں دے رہا جس کے قدم چومے جارہے ہيں؟ اور وہ دکھائی نہیں دے رہا جو منع بھی نہیں کررہا ہے؟
تواس کا مطلب کہ قدم چموا رہے ہیں سنت ہوگئی اور کسے سنت کہتے ہیں؟ پوری مجلس میں صحابہ رضی اللہ عنہم دیکھ رہے ہيں اور منع بھی نہیں کر رہے ہیں تو اس کو سنت نہیں کہتے تو اور کیا کہتے ہیں؟!
اور بالکل یہی بات یہاں پر ترجمان منہاجین نے کچھ یوں تحریر فرمائی ہے :
اتنے اجل محدثین کے اس حدیث کو روایت کرنے اور اس سے استشہاد کرنے کے باوجود بھی کوئی متعصب کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک یہودی کا فعل تھا، ہم اسے کس طرح لازمی شہادت کا درجہ دے سکتے ہیں۔ اس سوچ پر سوائے افسوس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ معترض کو یہودی کا عمل تو نظر آگیا مگر جس کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ بابرکت ہستی نظر نہیں آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو تقبیل سے منع نہیں فرمایا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ تقریری ہوا۔
ڈاکٹر صاحب کی علمیت کا احترام سر آنکھوں پر۔ مگر آپ جناب کا دعویٰ ہے کہ آپ حنفی مسلک کے ماننے والے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ اتنی بڑی علمی شخصیت نے حنفی فقہ کی مشہور کتاب "در مختار" تو ضرور پڑھی ہوگی۔ جہاں صاف صاف لکھا ہے :
دوسرے سے ملاقات کے وقت اپنے ہاتھ کو چومنا مکروہ ہے۔ اس (عمل) میں رخصت نہیں اور اپنے دوست سے ملاقات کے وقت اُس کا ہاتھ چومنا بالاجماع مکروہ ہے اور اسی طرح (یہ بھی مکروہ ہے) جو علماء کے سامنے سے زمین کو بوسہ دیتے ہیں ، ایسا کرنے والا اور اس فعل پر راضی ہونے والا دونوں ہی گناہ گار ہیں ، کیونکہ یہ بتوں کی عبادت کے مشابہ ہے۔
اور اگر عبادت و تعظیم کی نیت سے کرے تو کفر ہے اور اگر تحیة کے ارادہ سے کرے تو کفر نہ ہوگا البتہ گنہگار ہو گیا اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا۔
بحوالہ : درمختار مع فتاوی شامی ، ص:383 ، ج:6 ، کتاب الحظر و الاباحة باب الاستبراء
اب یا تو ڈاکٹر صاحب کو اعلان کر دینا چاہئے کہ وہ اس فقہی عبارت کو نہیں مانتے یا پھر اپنے قول سے رجوع کر لینا چاہئے۔

اب دیکھ لیجئے کہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب میں بوسہ دینے کو یہ نہیں کہا گیا کہ "یہ سجدہ کے برابر ہے" بلکہ یوں کہا گیا ہے کہ "بتوں کی عبادت کے مشابہ ہے" ۔۔۔ ۔ اب ظاہر ہے کسی شیخ محترم کے سامنے گر کر ان کے پاؤں چومنے سے بھی بتوں کی عبادت سے مشابہت نظر آئے گی لہذا یہ بھی درمختار کے فتوی کے مطابق گناہ کبیرہ کا فعل ہوا جس کو کچھ معصوم اور کم علم "منہاجین" مستحب کام ٹھہرانے پر بضد ہوتے ہیں۔

خیر۔ دونوں یہودیوں کی طرف سے پیر چومنے والی اس روایت پر کچھ گفتگو مزید ۔۔۔
اصول کی کتابوں میں "سنت تقریری" کی یہ تعریف لکھی ہوئی ہے کہ :
جو کام نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے مسلمان کریں وہ "تقریری سنت" ہے۔
جبکہ روایت مذکورہ میں ہاتھ پاؤں چومنے (فقبلوا يديه ورجليه) والے مسلمان نہیں بلکہ یہودی تھے۔

اب اس مذکورہ روایت پر ذرا سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اسی میں وہ اصول مل جائے گا کہ :
کافر کے عمل پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاموشی ، "سنت تقریری" نہیں کہلاتی !!

ان دونوں یہودیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاؤں مبارک چوم لیے اور کہا کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اللہ کے رسول ہیں
اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) نے دریافت فرمایا
فما يمنعكم أن تتبعوني
تو پھر لوگ میری کس وجہ سے فرماں برداری نہیں کرتے؟
انہوں نے جواب دیا
إن ‏ ‏داود ‏ ‏دعا بأن لا يزال من ذريته ...
(حضرت) داؤد (علیہ السلام) نے دعا فرمائی تھی کہ ہمیشہ ان کی اولاد میں سے ہی نبی بنا کریں گے ۔۔۔ ۔

حالانکہ اس حدیث کے تمام ہی شارحین نے بیان کیا ہے کہ :
ان دونوں یہودیوں نے جھوٹ بولا اور داؤد علیہ السلام پر افتراء کیا تھا۔ کیونکہ داؤد علیہ السلام نے ایسی کوئی دعا نہ کی تھی بلکہ یہود تو تورات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا تذکرہ پڑھ چکے تھے۔

اب دیکھئے کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے ترجمان نے اس حدیث سے یہ نتیجہ نکالا کہ :
پاؤں چومنے پر رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) خاموش رہے ! لہذا یہ سنت ہوئی۔

ہم کہنا چاہیں گے کہ :
جناب عالی ! نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) تو داؤد علیہ السلام کے متعلق یہود کے واضح جھوٹ پر بھی خاموش رہے۔
اب کیا جھوٹ بولنا بھی ڈاکٹر صاحب کے نزدیک "سنت تقریری" سمجھا جائے گا ؟؟
یا ۔۔۔ ۔
کیا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خاموش رہ کر یہ مان لیا تھا کہ داؤد علیہ السلام نے سچ مچ ایسی کوئی دعا کی تھی؟؟
جبکہ حدیث کے تمام شارحین اور علماء و ائمہ محدثین کہتے آئے ہیں کہ یہود نے جھوٹ بولا اور داؤد علیہ السلام پر افتراء باندھا۔

ایک جگہ کی خاموشی تو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت بنے اور دوسری جگہ کی خاموشی سنت نہ بنے ؟؟

ترجمان منہاجین اور ڈاکٹر صاحب کے معصوم معتقدین کیا ہم کو جواب دے سکتے ہیں کہ :
حدیث کی تشریح کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا یہ کیسا دہرا معیار ہے ؟؟؟
آپ ہی بتلائیں کہ ہم بتلائیں کیا ؟؟؟؟

قرآن تو ہم کو تعلیم دیتا ہے کہ:
وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلاَمًا
جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں
( الفرقان:25 - آيت:63 )
[اردو ترجمہ : ڈاکٹر طاہر القادری]

لہذا کافر کے قول و فعل پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاموشی دین میں حجت نہیں ہوتی۔
مگر افسوس کہ یہ اتنی سادہ سی بات کچھ شیوخ محترم کو سمجھ میں آتی ہے اور نہ ان کے متبعین کو کہ ۔۔۔ ۔ وہ فرماتے ہیں :
وہ دکھائی نہیں دے رہا جس کے قدم چومے جارہے ہيں؟ اور وہ دکھائی نہیں دے رہا جو منع بھی نہیں کررہا ہے؟ تواس کا مطلب کہ قدم چموا رہے ہیں سنت ہوگئی اور کسے سنت کہتے ہیں؟ پوری مجلس میں صحابہ رضی اللہ عنہم دیکھ رہے ہيں اور منع بھی نہیں کر رہے ہیں تو اس کو سنت نہیں کہتے تو اور کیا کہتے ہیں؟!
لاحول ولا قوة الا باللہ !!

اللہ تعالیٰ ہم تمام کو ہدایت اور صحیح سمجھ عطا فرمائے ، آمین !!

آخر میں 2 باتیں عرض ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
  • نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دستِ اقدس اور پاؤں مبارک کو چومنے کی کچھ صحیح احادیث آپ ضرور پیش فرمائیں ۔۔۔ ۔ لیکن یہ بھی ہم کو ضرور بتائیں کہ : کیا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) اور امتی کا جسم ایک جیسا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جسمِ اطہر پر کسی پیر فقیر کبیر شیخ الاسلام وغیرہ وغیرہ کو قیاس کر لیا جائے؟؟
  • یہود سے متعلق اس حدیث پر یہ بحث راقم گذشہ چار پانچ سال سے مختلف اردو فورمز پر پیش کرتا آ رہا ہے ۔۔۔ مگر ڈاکٹر طاہر القادری کے کسی معتقد یا ادارہ منہاج القرآن کے کسی ذمہ دار کو اس وضاحت کا جواب دینے کی توفیق آج تک نہیں ہوئی۔ کیا اس کا یہ مطلب ہم لے سکتے ہیں کہ آپ کے پاس درحقیقت کوئی جواب ہے ہی نہیں؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
عجیب بات ہے کہ اس بلاگ کے شروع میں یہ کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے چومنے کو ناپسند کرتے اور لوگوں کو روکتے ہیں لیکن آخر میں دلائل ہاتھوں اور پاؤوں کے چومنے کے ذکر کر دئیے ہیں، جس میں پاؤوں کو چومنے والی تمام احادیث صحیح سند سے ثابت نہیں۔ ان حضرات کا یہی طریقہ کار ہے کہ ضعیف احادیث پر اپنے عقائد کی بنیاد رکھتے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف حنفی حضرات احادیث کا اس طرح استخفاف کرتے ہیں کہ اخبارِ آحاد کو ظنی کہہ کر ان سے قرآن کریم کی تخصیص اور تقیید بھی جائز نہیں سمجھتے کہ یہ نسخ ہوگا۔ اور نہ ہی خبر واحد کو، خواہ وہ کتنی صحیح ہی کیوں نہ ہو، عقائد میں تسلیم کرتے ہیں، لیکن دوسری طرف حنفی بریلوی حضرات اپنے عقائد کی بنیاد خبر واحد صحیح چھوڑ کر ضعیف احادیث پر رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں!

(١)
لما قدمنا المدينة فجعلنا نتبادر من رواحلنا فنقبل يد النبي ﷺ ورجله
الراوي: زارع، المحدث: الألباني - المصدر: ضعيف أبي داود - الصفحة أو الرقم: 5225
خلاصة حكم المحدث: حسن دون ذكر الرجلين


(٢)
قدمنا ، فقيل : ذاك رسول الله، فأخذنا بيده و رجليه نقبلها
الراوي: الوازع بن عامر، المحدث: الألباني - المصدر: ضعيف الأدب المفرد - الصفحة أو الرقم: 154
خلاصة حكم المحدث: إسناده ضعيف


(٣)
قال يهودي لصاحبه اذهب بنا إلى هذا النبي فقال صاحبه لا تقل نبي إنه لو سمعك كان له أربعة أعين فأتيا رسول الله ﷺ فسألاه عن تسع آيات بينات فقال لهم لا تشركوا بالله شيئا ولا تسرقوا ولا تزنوا ولا تقتلوا النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا تمشوا ببريء إلى ذي سلطان ليقتله ولا تسحروا ولا تأكلوا الربا ولا تقذفوا محصنة ولا تولوا الفرار يوم الزحف وعليكم خاصة اليهود أن لا تعتدوا في السبت قال فقبلوا يديه ورجليه وقالوا نشهد أنك نبي قال فما يمنعكم أن تتبعوني قال قالوا إن داود دعا ربه أن لا يزال في ذريته نبي وإنا نخاف إن تبعناك أن تقتلنا اليهود
الراوي: صفوان بن عسال المحدث: الألباني - المصدر: ضعيف الترمذي - الصفحة أو الرقم: 2733
خلاصة حكم المحدث: ضعيف


(٤)
[ عن ] بريدة قال : جاء أعرابي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله قد أسلمت فأرني شيئا أزدد به يقينا ، فقال : فما الذي تريده ؟ قال : ادع تلك الشجرة فلتأتك . . . فذكر حديثا في إتيان الشجرة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وتسليمها عليه ورجوعها ، وفي آخره : فقال الأعرابي : ائذن لي يا رسول الله أن أقبل رأسك ورجليك ، ففعل ثم قال : ائذن لي أن أسجد لك ، فقال : لا يسجد أحد لأحد ، ولو أمرت أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها لعظم حقه عليها
الراوي: بريدة بن الحصيب الأسلمي المحدث: ابن الملقن - المصدر: البدر المنير - الصفحة أو الرقم: 9/46
خلاصة حكم المحدث: في إسناده حبان بن علي الغزي الكوفي أخو مندل وقد ضعفوه ، ورواه صالح بن حبان أيضا وقد ضعفوه
 

bismillah

رکن
شمولیت
اکتوبر 10، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
225
پوائنٹ
58
ان دونوں یہودیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاؤں مبارک چوم لیے اور کہا کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اللہ کے رسول ہیں
اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) نے دریافت فرمایا
فما يمنعكم أن تتبعوني
تو پھر لوگ میری کس وجہ سے فرماں برداری نہیں کرتے؟
انہوں نے جواب دیا
إن ‏ ‏داود ‏ ‏دعا بأن لا يزال من ذريته ...
(حضرت) داؤد (علیہ السلام) نے دعا فرمائی تھی کہ ہمیشہ ان کی اولاد میں سے ہی نبی بنا کریں گے ۔۔۔ ۔
اس حدیث کی سند صحیح یا حسن ہے یا ضعیف ؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
کچھ عرصہ پہلے ایک بریلوی فورم پر جب میں نے وہ ویڈیو شئیر کی جس میں طاہرالقادری بڑی عمر کے لوگوں کو ناچنے کا کہہ رہا ہے تو وہاں ایک بریلوی ممبر نے یہ تحریر پوسٹ کی۔
میں سوچ رہا تھا کہ اس کا کیا جواب ہونا چاہیِے؟
لیکن آج باذوق صاحب اور انس نضر صاحب کی پوسٹ کے جواب مل گیا۔الحمدللہ
میں اسی طرح چاہتا ہوں کہ اہل باطل کے ہر اعتراضات کا مکمل جواب ہونا چاہیے۔جس طرح ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ جواب دیتے ہیں۔
 

طاہر

مبتدی
شمولیت
جنوری 29، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
0
منہاج القرآن انٹرنیشنل ادارہ تعارف کا مہتاج نہیں۔ اس ادارہ کے کسی طالب علم یا ڈاکٹر طاہر القادری کے ایک معتقد نے اپنا اردو بلاگ بھی بنا رکھا ہے۔
پچھلے دنوں ایک دوست نے اسی بلاگ کی ایک تحریر کا حوالہ دیا ، جس کا عنوان تھا :
کیا لوگ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو سجدہ کرتے ہیں؟ (انگریزی میں : یہاں)

اب یہ الگ بات ہے کہ راقم الحروف نے بہت عرصہ قبل یہ تحریر پڑھی تھی اور کچھ فورمز پر اس کے کچھ حصوں کا جواب بھی دیا تھا۔
یہ ایک بہت مشہور واقعہ ہے کہ سن 2005ء میں دمشق کی ایک "محفل سماع" میں ایک شخص نے ڈاکٹر صاحب موصوف کے پاؤں چومے ۔۔۔ مگر انداز ایسا تھا کہ گویا ڈاکٹر صاحب کو سجدہ کیا جا رہا ہو۔ بہرحال کچھ لوگوں نے اس ویڈیو کلپ کا وہ حصہ یوٹیوب پر لگا کر مشہور کر دیا کہ :
لوگ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو سجدہ کرتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب سجدہ کرنے والوں کو شاباشی دیتے ہیں۔
بس اسی "پروپگنڈے" کا (اپنی دانست میں) "علمی جواب" مذکورہ بالا بلاگ کی تحریر میں درج کیا گیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ اصل ویڈیو بھی اس "علمی جواب" کے ساتھ پیش کر دی جاتی تاکہ عوام کو کچھ اندازہ بھی ہو سکے کہ حقیقت کیا ہے؟ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاں جہاں بھی یہ ویڈیو لگائی گئی ، ڈاکٹر صاحب کے ادارہ نے شاید اپنے اثر و رسوخ سے اس ویڈیو کو ہٹا دیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ ویڈیو اب بھی نیٹ پر موجود ہے یا نہیں؟
[/LIST]
مذکورہ ویڈیو کسی نے دوبارہ اپلوڈ کر دیا ہے اور ایک لنک ای سنیپس پر بھی محفوظ ہے۔ یو ٹیوب کا لنک حسبِ ذیل ہے:
Fake Tahir ul Qadri exposed . Prostration sajda infront of Qadri . Three times deleted video - YouTube
 

محمد شعبان

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 03، 2011
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
19
سلام مسنون!
"دوسرے سے ملاقات کے وقت اپنے ہاتھ کو چومنا مکروہ ہے۔ اس (عمل) میں رخصت نہیں اور اپنے دوست سے ملاقات کے وقت اُس کا ہاتھ چومنا بالاجماع مکروہ ہے اور اسی طرح (یہ بھی مکروہ ہے) جو علماء کے سامنے سے زمین کو بوسہ دیتے ہیں ، ایسا کرنے والا اور اس فعل پر راضی ہونے والا دونوں ہی گناہ گار ہیں ، کیونکہ یہ بتوں کی عبادت کے مشابہ ہے۔
اور اگر عبادت و تعظیم کی نیت سے کرے تو کفر ہے اور اگر تحیة کے ارادہ سے کرے تو کفر نہ ہوگا البتہ گنہگار ہو گیا اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا۔
بحوالہ : درمختار مع فتاوی شامی ، ص:383 ، ج:6 ، کتاب الحظر و الاباحة باب الاستبراء "


حضرت باذوق یہ مواد جہاں سے لیا ہے اس کا لنک بھی دے دیں بہت نوازش ہو گی!!!!!
یہ تو بڑے کام کی معلومات ہیں ایسی کتاب تو واقعی لائق مطالعہ ہے۔
شکریہ!
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
حضرت باذوق یہ مواد جہاں سے لیا ہے اس کا لنک بھی دے دیں بہت نوازش ہو گی!!!!!
یہ تو بڑے کام کی معلومات ہیں ایسی کتاب تو واقعی لائق مطالعہ ہے۔
السلام علیکم۔ اصل عربی عبارت ڈھونڈنے پر یہ ملی ہے :
( تقبيل يد نفسه إذا لقي غيره ) فهو ( مكروه ) فلا رخصة فيه وأما تقبيل يد صاحبه عند اللقاء فمكروه بالإجماع ( وكذا ) ما يفعلونه من ( تقبيل الأرض بين يدي العلماء ) والعظماء فحرام والفاعل والراضي به آثمان لأنه يشبه عبادة الوثن وهل يكفران : على وجه العبادة والتعظيم كفر وإن على وجه التحية لا و صار آثما مرتكبا للكبيرة
جو اسلام پورٹ سائیٹ پر کتاب "رد المحتار" کے حوالے سے یہاں درج ہے۔

کتاب "دین الحق بجواب جاء الحق" کے مصنف ابوصہیب محمد داؤد ارشد نے اسی کتاب کے دوسرے حصے میں ص:526 پر بالا عبارت کا حوالہ دیتے ہوئے اردو ترجمہ بھی پیش کیا ہے۔ اور یہی اردو ترجمہ میں نے اپنے مراسلے میں نقل کیا ہے۔
"دین الحق بجواب جاء الحق" کی پہلی جلد تو آپ یہاں سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ مگر افسوس کہ کتاب و سنت لائیبریری پر ابھی دوسری جلد اپ لوڈ نہیں کی گئی ہے۔
 
Top