• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا محدثین کے اصول قرآن کے اصولوں کے خلاف ہے؟؟؟

شمولیت
مئی 23، 2012
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
70
Muhadeseen kay asuol.jpg

کیا محدثین کے اصولِ حدیث
قرآن مجید کے اصولوں کے خلاف ہیں؟
منکرین حدیث نے اصول حدیث کو بھی تختہ مشق بنانے کی کوشش کی، الحمدللہ علماء حق نے ان کے ایک ایک اعتراض کو طشتِ اذبام کر دیا۔ ان کی مثال تو ایسی ہے کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے عقائد اور فلسفہ کے بڑھاوے کے لیے ان اصولوں پر بھی تنقید کی جو کہ سلف سے خلف تک مسلمہ ہیں۔
قارئین کرام! اصولِ حدیث کے جو ضوابط محدثین نے مقرر کیے ہیں وہ قوانین کتاب و سنت کے اہم اصولوں سے ماخوذ ہیں۔ ان اصولوں پر میں مختصر روشنی ڈالنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام منکرین حدیث کو احادیث قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ہمیں بھی قرآن و سنت پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اصولِ حدیث قرآن کریم کی رو سے:
مسلمان اس اعتبار سے دنیا کی ایسی منفرد قوم ہے جس نے اپنے نبیﷺ کے اقوال اور آثار کو محفوظ کرنے میں بے مثال تحقیق کا مظاہرہ کیا۔ آج تک اس کی مثال روشن افک کی مانند ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے مایہ ناز محقق اس بات کو قبول کر چکے ہیں ۔ مولانا محمد علی جوہر کا فرمان ہے:
‘‘قرآن پاک تو قرآن پاک ہے دوسرے صحائف ہماری کتب حدیث کی تحقیق اور صحت و حفاظت کا مقابلہ نہیں کر سکتے’’۔ (خالص اسلام، صفحہ ۱۳۵)
محدثین نے کس قدر احتیاط ، حاضر دماغی اور دیانتداری سے تحقیق کا کام کیا؟ یہ عظیم کارنامہ آج اسلام کے تفاخر میں سے ہےکہ ایک غیر مسلم بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکا، ریورنڈ اسمتھ لکھتا ہے:
‘‘کوئی شخص نہ اس میں دھوکا کھا سکتا ہے نہ دوسرے کو دھوکا دے سکتا ہے۔ یہاں پورے دن کی روشنی ہے، جو ہر چیز پر پڑ رہی ہے اور ہر ایک تک پہنچ رہی ہے’’۔
(تاریخ جمع القرآن والحدیث)
یونیورسل انسائیکلوپیڈیا میں سنت کی تعریف کچھ یوں لکھی گئی ہے:
The para-mount authority of Islam is the Koran (q.v) which contains the revelation from God (A.r Allah) announced by the prophet Muhammed (P.B.U.H) and recorded by his followers. The Koran is supplemented by the sunna.
(The Universal Standard Encyclopedia Volume 16, Pg 5817-18)
اسلام کی مضبوط چوٹی قرآن ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی وحی پر مبنی ہے جس کی اشاعت نبی کریمﷺ اور صحابہ کے ذریعے ہوئی جو آپ کے متبعین ہیں اور قرآن نتیجہ ہے سنت کا۔
تاریخ کا بڑا ذخیرہ اور ایک عالم اس بات پر گواہ ہے کہ محدثین کی قربانیاں اور ان کی چھان پھٹک کے طریقے بڑے ہی کٹھن تھے، کتنے ہی ظاہر میں متقی عبادت گزار شخص بی اپنے ورع اور تقوے کی وجہ سے محدثین کی کڑی نگاہ سے بچ نہ سکے۔ اس جواب میں جو اہم نکتہ عرض کرنا مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ علوم حدیث قرآن کریم کے ضوابط اور معیار پر تعمیر کیے گئے ہیں۔
ہر دور میں مستشرقین مختلف سوال کے سہارے امت کے اجماع کو پامال کرنے کی کوشش میں لگے رہے اور وہ اپنے اس ناپاک عزائم میں ہر دور میں ناکام رہے، آج بھی انہی ارادوں کے ساتھ یہ مستشرقین اور منکرین حدیث نئے سوالات کے ساتھ منظر عام پر آنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ، موجودہ دور میں لا تعداد سوالات ان کی طرف سے سامنے آتے رہتے ہیں۔ کبھی صحیح بخاری کے خلاف اور کبھی صحیح مسلم کے خلاف غرض وہ ہر طرح سے امت کے اجماع کو چکنا چور کرنے کی بھر پور کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کا یہ مقصد صرف ایک بھیانک خواب کی شکل میں سامنے آئے گا۔ ان شاء اللہ
نوٹ: عمومی سوالات کے جوابات کے لیے راقم کی مفصل کتاب ‘اسلام کے مجرم کون؟ ’ کا مطالعہ فرمائیں۔
اصول حدیث جن کو محدثین کی جماعت نے تحقیق سے تشکیل دیا ہے کیا یہ اصول حجت ہیں؟
کیونکہ اصول تو انسانوں کے بنائے ہوتے ہیں ان کو کبھی بھی دین تصور نہیں کیا جا سکتا؟ یہ تو بنیادی سوال ہے جس کا جواب دینے کے لیے حقیر نے قلم اٹھایا۔ بس یہ توفیق صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ہے۔
قارئین کرام! دفاع حدیث پر علماء نے لا تعداد کتابیں تصنیف فرمائیں اور اصول حدیث پر بحث بھی کی، لیکن ساتھیوں کے اصرار اور دلچسپی کے باعث یہ نکتہ بھی ذہن میں آیا کہ ان اصول حدیث جس کو محدثین نے ترتیب دیا آیا یہ اصول کن ضوابط پر ترتیب دیے گئے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر طالب علم کے ذہن میں اُبھرتا نظر آتا ہے اور وہ اس کے جواب کا منتظر رہتا ہے۔ اس مضمون میں آپ ان شاء اللہ اصولِ حدیث کے اہم ترین قواعد کو سمجھیں گے کہ وہ قواعد قرآن مجید کی آیات سے مستنبط ہیں جنہیں محدثین نے بڑی محنت اور عرق ریزی کے بعد مرتب فرمایا اور قرناً قرناً ان اصول و ضوابط کو ایک حیثیت حاصل ہوئی۔ لہٰذا اصول حدیث شریعت کے اہم اصولوں سے ہی مستنبط ہے۔
جی ہاں ہو سکتا ہے یہ بات آپ سمجھ نہ سکیں، لیکن الحمدللہ واقعی یہی بات ہے۔ کیونکہ محدثین کا معیار ہمیشہ تحقیق ہی رہا ہے اور تحقیق بھی ان قواعد و ضوابط سے مستنبط جن کا ذکر قرآن مجید اور احادیث رسولﷺ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ لہٰذا ایک اصولی قاعدے کو دامن گیر فرما لیں کہ‘‘اگر آپ سے کوئی شخص کہتا ہے کہ بھائی ہمیشہ سچ بولو’’ اگرچہ وہ خود سچ نہ بولتا ہو لیکن وہ ایک ایسی بات نقل کرتا ہے جو بعینہ قرآن کریم کے مطابق ہے۔
اب اگر آپ یہ کہیں کہ میں سچ کیسے بولوں یہ شخص تو جھوٹا ہے فلاں فلاں کام کرتا ہے۔ مثلاً چور ہے، ڈاکو ہے اور بہت سارے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے اس شخص کی بات میں آکر سچ نہیں بول سکتا۔
یقیناً یہ شخص جھوٹا ، مکار، جرائم پیشہ اور بہت سارے برے کام کرنے والا ہے ، لیکن وہ ابھی بات جو کر رہا ہے وہ قرآن کریم کے مطابق ہے۔ لہٰذا ہم یہ کہیں گے کہ اس کی بات کو تسلیم کیا جائے کیونکہ یہ جو بات کہہ رہا ہے اس کی اپنی بات نہیں ہے بلکہ یہ تو قرآن کریم کے مطابق کہہ رہا ہے کہ بات ہمیشہ سچ کہو۔
اب غور فرمائیں!یہ جملہ کہنے والا انسان ہے لیکن اس کا اصل مرجع قرآن کریم ہے کیونکہ وہ جو کہہ رہا ہے قرآن کریم کے مطابق ہے اس کی اپنی بات نہیں ہے ، ہاں کہنے والا ضرور بشر اور گناہ گار ہے لیکن اصول یہ ہوگا کہ وہ کیا کہہ رہا ہےاسے دیکھا جائے گا۔
اسی طرح سے یہ عظیم محدثین کی جماعت جن کا ثقہ (Authenticity)ہونا ثابت ہو چکا ہے۔ ان کے تقویٰ کے بارے میں اور ان کے ذہن کے بارے میں امت کا اجماع ہے جو قدم قدم پر سنت کا خیال رکھنے والے ، اللہ کے حکم کی پابندی کرنے والے اور مکمل زندگی صرف اسی مقصد میں لگانے والے کہ رسول اللہﷺ کی احادیث کا دفاع کریں تو بتائیں یہ کیسے اپنے اصول قرآن کے مسلمہ قواعد سے ہٹ کر قائم کر سکتے ہیں؟
بلکہ محدثین کی جماعت نے غور و تدبر سے احادیث کے جو اصول ترتیب دیے ہیں وہ قرآن کریم ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ اب اگر ان محدثین میں سے کوئی یہ کہے کہ سچ بولو تو بتائیں سونے پہ سہاگا ہوگا کہ نہیں۔ کیونکہ بات نقل ہو رہی ہے قرآن کریم کی اور دوم بات کرنے والا بھی مکمل عامل قرآن تو لہٰذا ہم سچ بولنے والے کی سچائی کو قبول کریں اور اس کی سچائی کو مرتبہ دیں گے کیونکہ اس نے دین اسلام کے ایک اہم اصول کے مطابق سچ بولا۔ اسی نکتے کو سامنے رکھیے اور اصول حدیث کو سمجھیے جو کہ قرآن کریم کے مطابق ترتیب دیے گئے ہیں۔
میں اس مضمون میں ان موٹے موٹے اصولوں کا ذکر کروں گا جن پر اکثر و بیشتر اعتراضات اٹھتے رہتے ہیں اور منکرین حدیث کی طرف سے یہ سوالات سامنے آتے رہتے ہیں کہ جن اصولوں کو آپ حجت تسلیم کرتے ہیں ان کی حیثیت شریعت میں کیا ہے؟ اور محدثین کے مقرر کیے ہوئے فن حدیث اور اس کے پرکھنے کے جو معیار طے ہوئے ہیں اس کی دلیل اور ان کی بنیاد کن آیات سے ماخوذ ہے؟ لہٰذا اس قسم کے سوالات کے جوابات آپ ہمارے اس مضمون سے اخذ فرمائیں گے۔ ان شاء اللہ
منکریں حدیث کا ایک سوال جو کہ خبر آحادکے بارے میں ہوتا ہے۔
خبر آحاد کی تعریف:
جس حدیث میں راوی تعداد میں متواتر حدیث کے راویوں سے کم ہوں وہ خبر آحاد کہلاتی ہے۔
(یعنی اگر کوئی ایک شخص خبر دیتا ہے کسی بات کی تو وہ منکرین حدیث کی نظر میں قابل قبول نہیں)
خبر واحد کی دلیل قرآن کریم کی رو سے :
قرآن کریم خبر واحد کو تسلیم کرتا ہے۔ اگر خبر دینے والا سچا ہو مثلاً سورۃ یسین، آیت نمبر ۲۰ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَجَاۗءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ رَجُلٌ يَّسْعٰى قَالَ يٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِيْنَ 20؀ۙ﴾
‘‘اس وقت شہر کے پر لے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا: اے میری قوم! ان رسولوں کی اتباع کرو’’۔ (یسین، آیت:۲۰)
غور فرمائیں! اس آیت مبارکہ میں آنے والا ایک ہی شخص اور وہ ایک خبر دے رہا ہے۔ یعنی وہ شخص بحیثیت خبر واحد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اس خبر کو مقبول فرمایا اور ارشاد ہوتا ہے:
﴿ قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۭ﴾
‘‘(جب قوم نے اس شخص کو مار ڈالا) ارشاد ہوا! جنت میں داخل ہوجا’’۔
(یسین، آیت:۲۶)
گویا وہ شخص جس نے خبر واحد کی صورت میں اپنے نبی کی تائید کی اس پاداش میں اسے قتل کر دیا گیا، اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر واحد کو قبول کر کے جنت میں روانہ کیا، ایک اور دلیل دیتا چلوں جب زکریا نے مریم  کی کفالت کا ذمہ اٹھایا تو زکریا  نے ان کے پاس کھانے کی چیز دیکھی اور فرمایا:
﴿قَالَ يٰمَرْيَـمُ اَنّٰى لَكِ ھٰذَا ۭ قَالَتْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ 37؀﴾
‘‘ کہا اے مریم! یہ تجھے کہاں سے ملا؟اس نے کہا: اللہ کے ہاں سے ، بلاشبہ اللہ جسے چاہے بے حساب رزق دیتا ہے’’۔ (آل عمران:۳۷)
غور فرمائیں!مریم  خبر دے رہی ہیں کہ یہ رزق اللہ کی طرف سے ہے وہ اور ان کی حیثیت خبر واحد کی ہے اورزکریا نے اسے قبول فرمایا اور پھر موقع کی مناسبت دیکھتے ہی اپنے لیے اولاد کا بھی سوال کر دیا۔ لہٰذا خبر واحد کا حجت ہونا اس آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے۔
ایک اور مقام پر قرآن کریم وضاحت فرماتا ہے کہ سلیمان  کے دور میں حاضری کے وقت ہدہد غائب تھا، غصہ میں سزا کے اظہار کے بعد سلیمان  نے فرمایا کہ میں اسے ذبح کر دوں گا یا وہ میرے پاس کوئی معقول وجہ پیش کرے ، قرآن کریم ذکر فرماتا ہے:
﴿فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۢ بِنَبَاٍ يَّقِيْنٍ 22؀﴾ (النمل: ۲۲)
‘‘تھوڑی دیر گزری تھی کہ (ہد ہد ) آ گیا اور کہا :میں نے وہ معلوم کیا جو آپ کو معلوم نہیں اور میں سبا سے متعلق ایک یقینی خبر آپ کے پاس لایا ہوں’’۔
لہٰذا ہدہد نے ایک معقول وجہ پیش کی کہ ملک سبا کے لوگ سورج اور چاند کے پجاری ہیں، لہٰذا سلیمان  نے ہدہد کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے تحقیق کی شرطیں لگائیں۔ غور فرمایئے! ایک جانور خبر دیتا ہے اور اللہ کا عظیم پیغمبر اس کی خبر کو قبول کرتا ہے۔ اب بتائیں جانور کی خبر واحد کو قبول کیا گیا اس کے مقابلے میں ایک سچے مسلمان کی خبر واحد کو قبول کرنے میں کونسی قباحت ہے۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے خبر واحد کی حجیت کو دلیل بنایا ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَجَاۗءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ يَسْعٰى ۡ قَالَ يٰمُوْسٰٓى اِنَّ الْمَلَاَ يَاْتَمِرُوْنَ بِكَ لِيَقْتُلُوْكَ فَاخْرُجْ اِنِّىْ لَكَ مِنَ النّٰصِحِيْنَ 20؀﴾ (القصص:۲۰)
‘‘ایک شخص شہر کے پرلی طرف سے دوڑتا ہوا آیا (اور) بولا کہ موسیٰ (شہر کے) رئیس تمہارے بارے میں صلاحیں کرتے ہیں کہ تم کو مار ڈالیں سو تم یہاں سے نکل جاؤ میں تمہارا خیر خواہ ہوں’’۔
پس اس شخص نے خبر دی اور موسیٰ  اس کی خبر کو قبول کرتے ہوئے وہاں سے نکل پڑے۔ مندرجہ بالا آیت میں بھی خبر واحد کی قبول پر واضح دلیل ہے۔ لہٰذا خبر واحد کی حجیت کا یہ اصول بھی محدثین نے قرآن کریم سے ہی اخذ فرمایا ہے۔
راوی کا ثقہ ہونا اور غیر ثقہ ہونا اس کی چھان پھٹک کا اصول قرآن کریم کی رو سے:
محدثین کرام رحمہم اللہ نے اپنی پوری زندگی اس فن کے لیے گزار دی یعنی وہ علم رجال کے فن کے ماہر تھے اور وہ خوب اس فن کو جانتے تھے کسی راوی کا مقبول اور غیر مقبول ہونا یہ حدیث کے قواعد میں ایک بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ قرآن کریم نے بھی مقبول اور غیر مقبول کے بارے میں اصول مرتب فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا ﴾ (الحجرات:۶)
‘‘اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو’’۔
مندرجہ بالا آیت مبارکہ پر غور فرمائیں کہ وہ مخبر کی تحقیق کا اصول مرتب فرماتی ہے۔ مثلاً کوئی شخص یہ خبر لاتا ہے کہ فلاں شخص کو قتل کر دیا گیا یا فلاں فلاں نقصان ہو اہے تو سننے والے کو اس خبر کو نشر کرنے کے بجائے فوراً اس کی تحقیق کر لینی چاہیے وگرنہ معاشرے میں اس کا بڑا برا اثر مرتب ہوگا، جو جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
لہٰذا اگر کوئی شخص خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لی جائے، ایک چھوٹا سا اصول سمجھا دیا گیا کہ تحقیق کر لو، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ تحقیق کن ذرائع سے کرنا ہے۔ کیونکہ ہر صدی میں تحقیق کے مختلف ذرائع موجود ہوتے ہیں خصوصاً اس صدی میں جو کہ Mediaاور Communication کا دور ہے ۔ محدثین کرام نے جو اصول تحقیق کے لیے مرتب کیے وہ بھی اس وقت کے بڑے کٹھن اصول تھے ۔
اب دیکھیے محدثین کی تحقیق کا طرز عمل اور جانچنے کے اصول چونکہ قرآن کریم نے تحقیق کا حکم دیا ہے لیکن طریقے کا اسلوب نہیں بتایا، کیونکہ مختلف دور میں مختلف ذرائع ہوا کرتے ہیں تحقیق کے۔ لیکن تحقیق کرنی ضروری ہے میں اپنی بات کو آگے لے کر چلتا ہوں۔ اب دیکھیے حدیث کے بارے میں کوئی شخص خبر دیتا ہے کہ یہ اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان ہے اور وہ اپنے کلمات کو نبی ﷺ کے ذمے لگاتا ہے ہمیں قرآن کریم نے اصول سمجھایا کہ مخبر کی خبر کی تحقیق کر لی جائے۔ اب محدثین اس اصول کو (جس کا ذکر سورۃ حجرات کی آیت نمبر ۶ میں ہوا ہے) استعمال کرتے ہیں اور اس پر مختلف انداز سے عمل کرتے ہیں اور تحقیق کا حق ادا کرنے کی کوشش فرماتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص سلمی وہ حدیث گڑھتا ہے اور سند یوں پیش کرتا ہے:
‘‘قال سلمی حدثنا امام مالک قال حدثنا امام نافع حدثنا ابن عمر  عن النبی ﷺ’’
اب دیکھا جائے تو سند بہت عمدہ دکھائی دیتی ہے۔ امام مالک جیسی معتبر ہستی اور وہ روایت کریں ۔ امام نافع سے اور وہ ابن عمر  سے۔ یعنی سند میں سلسلۃ الذھب سونے کی زنجیر ہو گئی لیکن یہ ظاہری سند کی خوبی دیکھ کر آپ تو دھوکا کھا سکتے ہیں، لیکن آفرین ہے محدثین کی پاکیزہ جماعت پر کہ انھوں نے بڑی امانت و دیانت اور ایمانی جذبے کے ساتھ ایسے تحقیق کے نکات نکالے کہ بال کی کھال بھی ادھڑ جائے۔ اب دیکھیے محدثین کی تحقیق قرآن کریم کے مطابق کس طرح سے ہے؟
a پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ سلمی کا حال معلوم ہو جائے، اگر معلوم نہ ہو سکے تو وہ مجہول ہے۔
b اگر حالات معلوم ہو بھی گئے تو یہ دیکھا جائے گا کہ سلمی کاذب ہے یا صادق ، اگر معلوم ہو جائے کہ وہ صادق ہے تو بھی حدیث کی صحت کے لیے کافی نہ ہوگا۔
c پھر دیکھا جائے گا کہ اس کا حافظہ کیسا تھا ؟ حافظہ میں کوئی خرابی تو نہیں۔ اگر ہے تو سئی الحفظ کہلائے گا اور اس کی وہ روایت قبول نہ کی جائے گی (کیونکہ قرآن کریم یتیم کو ان کا مال واپس دینے کا حکم جب دیتا ہے کہ وہ سمجھ دار ہو جائیں کیونکہ بچپن کی عمر جوانی کے مقابلے میں ناقص العقل ہوتی ہے تو پھر بگڑے ہوئے حافظہ والے کی شہادت کیسے قبول کی جا سکتی ہے)۔
d اس کے بعد اگر یہ ثابت ہو بھی جائے کہ وہ خراب حافظہ والا نہیں تھا تو دیکھا جائے گا کہ امام مالک سے اس کی ملاقات ثابت ہے کہ نہیں۔ اگر نہیں تو وہ روایت قابل قبول نہیں ہوگی۔ محدثین کی اصطلاح میں ایسی روایت کو ضعیف کہا جاتا ہے، یعنی اس کی سند میں انقطاع ہے۔ یعنی سند میں ایک یا سب راوی مختلف مقامات سے منقطع ہوں۔
اس کی مثال آپ یوں سمجھ لیں کہ وہ شخص جو آپ کو کسی حادثے کے بارے میں خبر دیتا ہے جب آپ اس سے پوچھتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے کہ جس وقت یہ حادثہ ہوا میں تو اس ملک میں موجود ہی نہیں تھا میں تو out of countryتھا ۔ لیکن مجھے بھی کسی نے بتایا بتانے والا کون معلوم نہیں؟ بتائے کیا آپ خبر کو سچ مان لیں گے ؟ نہیں ، بلکہ آپ قرآن کریم کی آیت کے مطابق تحقیق کریں گے اگر تحقیق ثابت نہ ہوئی تو مخبر کی خبر کو رد کر دیں گے ۔
اسی قانون سے ملتا جلتا ایک واقعہ جسے امام ذھبی  نے ‘‘میزان الاعتدال’’ میں نقل فرمایا ۔ آپ رقمطراز ہیں محمد بن اسحاق بن یسار کے ترجمے میں کہ:
‘‘یحییٰ القطان نے محمد بن اسحاق کے بارے میں فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ کذاب ہے۔امام ذھبی  فرماتے ہیں کہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو کس نے خبر دی کہ وہ کذاب ہے؟انہوں نے کہا کہ ‘‘وھیب ’’ نے، جب وھیب سے پوچھا گیا کہ آپ کو کس نے خبر دی تو انہوں نے فرمایا ‘‘مالک بن انس’’ نے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو کس نے خبر دی کہ (محمد بن اسحاق کذاب ہے؟) تو انہوں نے فرمایا ‘‘ھشام بن عروہ’’ نے ، ھشام بن عروہ سے پوچھا گیا کہ آپ کو کس نے خبر دی (محمد بن اسحاق کذاب ہے؟) تو انہوں نے کہا ‘‘فاطمہ بنت منذر’’ نے، جب فاطمہ بنت منذر کے پاس پہنچے (تحقیق کے لیے) تو وہ ان دنوں نو برس کی تھیں اور انہوں نے مرتے دم تک کسی آدمی کو نہیں دیکھا’’۔ (میزان الاعتدال، ج۳، ص۴۵۵)
اس واقعہ سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ نے فرداً فرداً شخصی ملاقاتیں بھی کیں تاکہ صحت کا جہاں تک التزام ہو سکے وہ کریں اور مذکورہ واقعہ میں اصل خبر دینے والے تک پہنچ کر اصل خبر کی تحقیق کی گئی۔۔۔
لہٰذا حاصل کلام یہ ہوا کہ مخبر جس واقعہ کی خبر دے رہا ہے وہ اس واقعہ کے وقت موجود نہیں تھا بلکہ ملک سے بھی باہر تھا اسی دوری کو یا سماعت ثابت نہ ہونے کو محدثین نے انقطاع کا نام دیا جس کی تحقیق قرآن کریم کے بیان کردہ اصول کے مطابق ہے۔
e بالفرض اگر ثابت ہو جائے کہ سند میں انقطاع نہیں ہے تو دیکھا جائے گا کہ یہ خبر دینے والا کتنا سچا ہے، ایسا تو نہیں کہ وہ کہیں بھول رہا ہو یا اپنے سے زیادہ سچے لوگوں کی مخالفت کر رہا ہو، ایسی مخالفت کو محدثین کی اصطلاح میں شاذ کہتے ہیں کہ ایک ثقہ راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت کرے، اس اصول کو سمجھنے کے لیے اس آیت مبارکہ پر غور فرمائیں، قرآن کریم ذکر فرماتا ہے:
﴿فَاِنْ عُثِرَ عَلٰٓي اَنَّهُمَا اسْتَحَقَّآ اِثْمًا فَاٰخَرٰنِ يَقُوْمٰنِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِيْنَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْاَوْلَيٰنِ فَيُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ لَشَهَادَتُنَآ اَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا﴾
‘‘پھر اگر یہ معلوم ہو کہ وہ دونوں گناہ میں ملوث ہو گئے ہیں تو ان کی جگہ دو اور گواہ کھڑے ہوں جو پہلے دونوں گواہوں سے اہل تر ہوں اور ان کی طرف سے ہوں جن کی حق تلفی ہوئی ہے وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہماری شہادت ان پہلے گواہوں کی شہادت سے زیادہ سچی ہے اور ہم نے کوئی زیادتی نہیں کی اگر ہم نے ایسا کیا تو بلاشبہ ہم ظالم ہیں’’۔ (مائدہ: ۱۰۷)
غور فرمایئے! آیت مبارکہ کے سیاق سے یہ بات واضح ہوئی کہ گواہوں کی گواہی کیسے قبول ہوگی اور ان کا طریقہ کار کیا ہوگا، یعنی پہلے گواہوں نے اگر گواہی دی اگر وہ غیر ثابت ہوئی تو دوسرے اور دو گواہ (جو پہلے گواہوں سے زیادہ ثقہ ہوں) گواہی دیں گے بعد والوں کی گواہی منظور ہوگی جو زیادہ متقی ہوں گے۔ محدثین کی اصطلاح ‘‘شاذ’’ بھی انہیں شرائط پر ہے، پس غور کیجیے۔
ایک اور اصول کی وضاحت کرتا چلوں محدثین کی اصطلاحات میں ایک اور اصطلاح بھی ہے وہ ہے ‘‘منکر الحدیث’’ یعنی راوی کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو ، فاسق ہو، بدعتی وغیرہ وغیرہ۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿ تَحْبِسُوْنَهُمَا مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوةِ فَيُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ ﴾
‘‘(گواہوں کو) اگر تمھیں کچھ شک پڑ جائے تو ان دونوں کی صلوۃ کے بعد ( مسجد میں) روک لو پھر وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ (کسی مفاد کی خاطر) شہادت کو پہنچنے والے نہیں’’۔ (مائدہ: ۱۰۶)
غور فرمائیں! گواہوں کو نماز کے بعد قسم دی جا رہی ہے کیوں؟ کیونکہ نماز ایمان والے کو ثابت کرتی ہے، اور غیر نمازی کا ایمان ناقص ہوتا ہے اسی وجہ سے گواہی کے لیے نماز کے بعد( تاکہ گواہ بھی نماز پڑھے) گواہی دلوائی گئی۔
بالفرض اگر کوئی گواہ نماز ادا کرنے سے انکار کرے تو بتایئے آپ کیا نتیجہ اخذ کریں گے؟ کیونکہ قرآن و سنت سے یہ بات عیاں ہے کہ غیر نمازی کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے، یہی وجہ ہے کہ محدثین اس گواہ کی گواہی کو چھوڑتے ہیں جو کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ لہٰذا آیت مبارکہ سے خوب سے خوب اس بات کی نشاندہی ملتی ہے کہ منکر راوی کی گواہی کیوں قبول نہیں کرنی چاہیے۔ وجہ یہ ہے وہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے جب عمومی معاملات میں اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہے تو کوئی بعید نہیں کہ وہ رسول اللہﷺ پر بھی جھوٹ باندھ رہا ہو۔
میں آپ کو ایک اور اصول کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اگر کسی راوی کا حدیث کے بارے میں جھوٹ بولنا ثابت ہو جائے تو محدثین اس کی بیان کردہ روایت کو ‘‘موضوع’’ قرار دیتے ہیں۔ محدثین نے باطل اور موضوع روایت میں فرق ظاہر کیا ہے۔
موضوع: اس روایت کو کہا جاتا ہے کہ جس میں جان بوجھ کر عمداً ، جہلاً یا کسی سازش کے تحت نبی کریمﷺ پر جھوٹ کھڑا جائے۔
باطل: اس روایت کو کہتے ہیں جو گھڑی نہ گئی ہو مگر رسول اللہﷺ کی طرف خطاً منسوب ہوگئی ہو اس روایت کو باطل کہا جاتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ‘‘الوضع فی الحدیث، ص۱۶’’۔
قارئین کرام! یہ اصول بھی عین قرآن کریم کے مطابق ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ Ć۝ۙ﴾
‘‘اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں انھیں اسّی (۸۰) کوڑے لگاؤ اور آئندہ کبھی ان کی شہادت قبول نہ کرو اور یہی فاسق ہیں’’۔ (النور:۴)
قرآن کریم کی آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جو شخص تہمت لگائے، یعنی جھوٹ باندھے پاک دامن عورتوں پر تو انھیں سزا کی طور پر اسّی (۸۰) کوڑے لگائے جائیں اور ان کی گواہی بھی قبول نہ کی جائے۔
اندازہ فرمائیں کسی پاک دامن شریف زادی پر تہمت کی سزا کس قدر سخت ہے؟ اس کو سوسائٹی کی گواہی سے محروم کر دیا گیا ، خواہ وہ کتنا ہی اس کے بعد پارسائی کا ثبوت دے قرآن مجید نے فیصلہ دے دیا ایسے جھوٹے شخص کی گواہی کو کبھی بھی نہ مانا جائے۔ اب اگر کوئی شخص امام الانبیاء سید المرسلین رحمت اللعالمین جناب محمد رسول اللہﷺ کی ذات مبارکہ پر جھوٹ باندھے اور آپﷺ پر ایسے الفاظ سے بہتان لگائے جو آپﷺ نے ادا نہ فرمائے ہوں تو بتایئے کیا ایسا شخص لائق ہے اس بات کے کہ اس کی گواہی کو قبول کیا جائے؟؟ نا ممکن۔
عام عورتوں پر بہتان کی سزا یہ ہے کہ اسے معاشرے کی گواہی سے خارج کر دیا جائے اور اس سے اس کا مقام چھین لیا جائے ۔ اب وہ اگر محمدﷺ پر جھوٹ باندھے تو کیونکر اسے قبول سمجھا جائے گا۔ بلکہ وہ تو دنیا میں رسوائی کا حقدار ٹھہرا اور آخرت میں عذاب کا حق دار ہوگا۔
مزید ایک اور اصول کو سمجھیے:
بسا اوقات محدثین شواہد کی بناء پر کسی حدیث کو صحیح کا درجہ دیتے ہیں یہ اصول بھی قرآن کریم سے ہی ماخوذ ہے۔ جی ہاں پچھلی آیت مبارکہ پر دوبارہ نظر دوڑایئے۔
آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ گواہ طلب فرما رہا ہے، یعنی اگر کوئی شخص کسی پاک دامن عورت پر بہتان لگائے تو اس کی گواہی اس وقت قبول کی جائے گی جب تک کہ چار گواہ پیش نہ کر دے، وگرنہ اس کی گواہی کو رد کر دیا جائے گا۔
یہی اصول محدثین نے اپنایا کہ اگر کوئی راوی ایسی حدیث کا ذکر کرتا ہے جو الفاظ کسی اور راوی سے ثابت نہ ہوں تو ان الفاظوں کو اس صورت میں قبول کیا جاتا ہے جب اس راوی کے الفاظ کی تائید دوسرے راویوں کی پیش کردہ حدیث میں موجود ہو۔
یعنی یہاں بھی اصول حدیث کا ایک اہم نکتہ کہ دوسری طرف (گواہوں) سے یہ بات ثابت ہوتی ہے ۔ اس اصول کی بھی قرآن کریم ہی تعلیم دیتا ہے، عمل کرنے والے کو آپ ضرور بشر کہیں گے لیکن یہ اصول شریعت سے ماخوذ ہے۔
f اگر یہ بھی ثابت ہو جائے کہ سلمی کی خبر سچی ہے تو اس کے بعد اور بہت سارے پرکھنے کے اصول و ضوابط باقی ہیں اس کے بعد یہ بھی دیکھا جائے گا کہ راوی الفاظ کو آگے پیچھے یعنی Amendmentتو نہیں کرتا۔ یعنی اس کی سند مضطرب تو نہیں۔ اضطراب کے مسئلہ پر بھی قرآن مجید روشنی ڈالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿اِنَّمَا النَّسِيْۗءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُحِلُّوْنَهٗ عَامًا وَّيُحَرِّمُوْنَهٗ عَامًا ﴾ (النور: ۳۷)
‘‘بیشک مہینوں کو پیچھے ہٹا دینا ایک مزید کافرانہ حرکت ہے، جس سے کافر گمراہی میں پڑے رہتے ہیں وہ ایک سال کسی مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام’’۔
اس آیت سے پچھلی آیت (نمبر۳۶) میں اس بات کی وضاحت ملتی ہے کہ بارہ مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب میں موجود ہے اور مزید چار حرمت والے بھی۔
نوٹ: (بارہ مہینے کی گنتی قرآن مجید میں نہیں ہے، بلکہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ رسول اللہﷺ کی احادیث بھی کتاب اللہ ہے (مزید تحقیق کے لیے میرا لیکچر بعنوان ‘‘حدیث بھی کتاب اللہ ہے’’ سماعت فرمائیں) لیکن کفار ان مہینوں کو آگے پیچھے کرتے تھے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کو اپنے شعار میں ملاوٹ پسند نہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس امر پر وعید و عتاب کا حکم دیا۔
نوٹ: اضطراب وقوع خلل اور فساد کو کہتے ہیں، دراصل اضطراب کا اطلاق موضوع کے باہم ٹکرانے پر کیا جاتا ہے۔ اگر مضطرب بفتح الراء پڑھا جائے تو یہ اضطراب سے اسم مکان ہوگا اور اس میں اصطلاحی معنی و مفہوم کی تحقیق زیادہ نمایاں صورت میں ہوگی۔ گویا مضطرب کے معنی ہوں گے وہ حدیث جہاں راوی یا راویوں کا اختلاف بخوبی نمایاں ہو۔ (العینہ سیوطی، حاشیہ: ۱۱۸)
یہ بھی یاد رکھیے کہ اضطراب سند میں بھی ہوتا ہے اور بسا اوقات متن میں بھی ہوتا ہے۔
غور فرمائیں! جس طرح قرآن کریم کے متن کو آگے پیچھے کرنا کبیرہ گناہ ہے اسی طرح اگر حدیث میں بھی کوئی شخص عمداً آگے پیچھے کرتا ہے تو وہ بھی گناہ کبیرہ میں شمار کیا جائے گا۔ لہٰذا یہی وجہ کہ محدثین نے حدیث میں بھی یہی شرائط عائد کی ہیں گویا یہ اصول بھی ماخوذ ہے قرآن کریم سے۔
یہاں ایک اور مسئلہ کی وضاحت کروں کہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ سے کوئی ایک لفظ منقول ہوتا ہے اور مختلف راوی اس کا اپنے الفاظ میں اعادہ کرتے ہیں لیکن معنی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ ایک جملے کے لیے مختلف الفاظ وارد ہوتے ہیں۔ اس پر بسا اوقات یہ بھی اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ اگر معنی میں فرق نہیں ہے تو کیا ہوا الفاظ میں فرق تو واضح ہوگیا۔ اگر تدبر کیا جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ جب ایک جملے کو مختلف الفاظ کے ساتھ بولا جاتا ہے تو یہاں فقہا نے جب غور کیا تو ان جملوں اور معنوں سے مسائل کااستنباط کیا۔ کسی نے بھی اختلاف کو ذکر نہیں کیا، بلکہ انہی الفاظ سے مختلف مسائل کے حل وجود میں آئے۔ بالکل یہی معاملہ قرآن مجیدکا بھی ہے۔ قرآن مجید میں بھی ایک لفظ یا جملے کو مختلف الفاظ کے ساتھ دہرایا گیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ سورۃ البقرۃ میں فرماتا ہے:
﴿ وَاِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۭ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۭ قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ ۭ كُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ 60۝﴾
‘‘اور جب موسیٰ ()نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مارو، جس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنا چشمہ پہنچا لیا (اور ہم نے کہہ دیا کہ) اللہ تعالیٰ کا رزق کھاؤ پیو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو’’۔ (البقرۃ: ۶۰)
آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ ایک لفظ کو استعمال فرماتا ہے ‘‘فانفجرت’’ اس کا مطلب ہے ‘‘پھوٹ نکلے’’ بالکل اسی واقعہ کو سورۂ اعراف میں ذکر کیا گیا ، ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَقَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا ۭوَاَوْحَيْنَآ اِلٰي مُوْسٰٓي اِذِ اسْتَسْقٰىهُ قَوْمُهٗٓ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۚ فَانْۢبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۭقَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۭوَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْهِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى ۭكُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ ۭوَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ ١٦٠؁﴾
‘‘اور ہم نے موسیٰ () کو حکم دیا جب کہ ان کی قوم نے ان سے پانی مانگا کہ اپنے عصا کو فلاں پتھر پر مارو پس فوراً اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ہر ہر شخص نے اپنے پانی پینے کا موقع معلوم کر لیا اور ہم نے ان پر ابر کو سایہ فگن کیا اور ان کو من و سلویٰ پہنچائیں، کھاؤ نفیس چیزوں سے جو کہ ہم نے تم کو دی ہیں اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا، اپنے اوپر ہی ظلم کیا’’۔ (الاعراف:۱۶۰)
آیت مبارکہ میں اسی واقعہ کو نقل فرمایا گیا جو کہ سورۂ بقرہ میں گزر چکا ہے لیکن نکتہ کی بات یہ ہے کہ سورۂ بقرہ میں ‘‘فَانْفَجَرَتْ’’ کے لفظ وارد ہوئے ہیں اور سورۂ اعراف میں ‘‘فَانْۢبَجَسَتْ’’کےا لفاظ ، حالانکہ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں، لیکن لفظ مختلف ہیں۔ اس سے مراد ہر گز اختلاف نہیں ہے بلکہ جب مفسرین اور فقہا نے غور فرمایا تو معلوم ہوا کہ جو لفظ سورۂ بقرہ میں ‘‘فَانْفَجَرَتْ’’ کا لفظ وارد ہوا تو اس سے مراد یہ ہے کہ موسیٰ  نے جب لاٹھی ماری تو سوراخ ہوا اور سورۂ اعراف کی آیت میں جو لفظ وارد ہوا ہے ‘‘فَانْۢبَجَسَتْ’’اس سے مراد یہ ہے کہ وہ سوراخ ہونے کے بعد اتنا بڑا ہوگیا کہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے۔ لہٰذا ایک مطلب کے لیے مختلف الفاظ کا استعمال قرآن و حدیث میں اختلاف کا باعث نہیں بنتا، بلکہ ان کے ذریعے مسائل میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔
لہٰذا محدثین نے بڑے مضبوط ضوابط مقرر فرمائے۔ اسی لیے محدثین رحمہم اللہ کی گرفت سے وہ لوگ بھی بچ نہ سکے جو صالح تھے، اور کچھ حضرات ایسے بھی تھے جو نیک نیتی سے حدیث میں تحریف کر دیا کرتے تھے۔ یہ لوگ باوجود اپنے تقویٰ اور زہد کے محدثین کی جماعت کو دھوکا نہ دے سکے۔ خلاصہ کلام یہ کہ محدثین نے اگر کسی حدیث کو صحیح کہا تو وہ یقیناً قطعی الصحت ہے، اسی لیے شبہات اور شکوک کے تمام منازل کو اس نے عبور کر کے ہی مقام صحت کو حاصل کیا ہے۔
کیونکہ اگر راوی نیک ہے اور متقی ہے اس کے باوجود بھی اس سے اس وقت تک روایت قبول نہ ہوگی جب تک وہ تمام شرائط پر پورا نہ اترے۔ محدثین کی کڑی نگاہ کا اس بات سے اندازہ لگائیں کہ امام نووی  اپنے مقدمے میں فرماتے ہیں:
‘‘ابو زناد (جو کہ حدیث میں امام تھے) نے کہا میں نے مدینے میں سو لوگوں کو پایا سب کے سب نیک تھے مگر ان سے حدیث کی روایت نہیں کی جاتی تھی کیونکہ کہا جاتا تھا کہ وہ اس کے اہل نہیں ہیں’’۔ (مقدمہ صحیح مسلم، ص۳۳)
امام یحییٰ بن سعید القطان  فرماتے ہیں:
‘‘میں ایک لاکھ دینار کے لیے جس آدمی کو صحیح سمجھتا ہوں اسے ایک حدیث کے لیے امین نہیں سمجھتا’’۔ (الکفایہ فی علم الروایہ للخطیب)
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ محدثین حدیث کے معاملہ میں کتنے محتاط تھے۔ وللہ الحمد
محدثین کا منہج رسول اللہ ﷺ کی صحیح حدیث
امت میں لا تعداد مسائل میں اختلافات ہیں اور ان اختلافات کی وجہ صحیح احادیث کو ٹھہرایا جاتا ہے اور نقارے بجا بجا کر ثابت کیا جاتا ہے کہ یہ فروعی اختلافات منہج محدثین کا عمل رہا اور یہ اختلافات کا سر چشمہ انہی کے توسل سے ہمیں ملا۔ یقیناً یہ محدثین کی جماعت پر بہتان عظیم ہے۔ ہاں فروعی مسائل اور حلال و حرام میں بھی فقہا کے درمیان اختلافات موجود ہیں، لیکن اگر غور کیا جائے اور اس مسئلہ کو سمجھا جائے تو اختلافات کی اصل وجہ احادیث کو ماننے میں نہیں بلکہ نہ ماننے میں ہیں۔ یعنی اگر کسی کو صحیح حدیث کا ادراک نہ ہو تو اپنے علم کے مطابق عمل کرتا نظر آتا ہے ، لیکن اگر اسے صحیح حدیث مل جائے تو وہ اس عمل سے رجوع کرتا ہے۔
ایسے واقعات ان گنت کتب فقہ میں موجود ہیں۔ محدثین کرام رحمہم اللہ کا اصل منہج رسول اللہﷺ کی صحیح حدیث ہی ہوا کرتی تھی اور سب کے درمیان یہ بات مسلم تھی کہ احادیث صحیحہ کے بعد اس کا انکار کفر ہے۔ لہٰذا اختلافات جو کہ فقہا اور محدثین میں نظر آتے ہیں وہ اختلافات کئی وجوہات کی بنا پر تھے۔ لیکن اس کے باوجود اصول میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں تھا۔ غلط بات کو پیش کر کے پھر اس کا ڈھنڈورا پیٹا جائے اور محدثین کے مختلف اقوال سے انہی کے اصول کا رد کیا جائے یہ کسی ایمان والے کا شیوہ نہیں۔ بلکہ یہ الزام تو دشمنوں کو زیب دیتا ہے۔ یہی وہ سازشیں ہیں جن کے ذریعے امت کے بہترین لوگ صحابہ کرام  اور ان کے بعد تابعین عظام اور ائمہ مجتہدین پر ایسے ایسے الزامات لگائے گئے کہ زمین اپنی جگہ سے ہل جائے یا آسمان پھٹ جائے مزید افسوس اور رنج کی بات تو یہ ہے کہ ان سازشوں میں ہمارے اپنوں نے حصہ لیا اور تمام اختلافات کا قصور محدثین کے اصولوں کو ٹھہرایا حالانکہ یہ بات حق سے کوسوں دور ہے۔ ایک مرتبہ عمر بن عبدالعزیز  نے خطبہ ارشاد فرمایا:
‘‘ان اللہ لم یبعث بعد نبیکم نبیا ولم ینزل بعد ھذا الکتاب الذی انزلہ علیہ کتابا فما احل اللہ علی لسان نبیہ فھو حلال الی یوم القیمۃ وما حرم علی لسان نبیہ فھو حرام الی یوم القیامہ الا ان لست بقاضٍ ولکنی منفذو لست بمبتدع ولکنی متبع’’
‘‘بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے تمھارے نبیﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں بھیجا اور جو یہ کتاب آپ پر نازل کی اس کے بعد کوئی اور کتاب نازل نہیں فرمائی۔ پس جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ﷺ) کی زبان پر حلال ٹھہرایا وہ قیامت تک حلال ہے اور جسے اپنے نبی(ﷺ) کی زبان پر حرام ٹھہرایا وہ قیامت تک حرام ہے۔ خبردار! میں قاضی نہیں بلکہ میں احکام نافذ کرنے والا ہوں، میں کسی نئے مسئلہ کو ایجاد کرنے والا نہیں بلکہ متبع اور اطاعت کرنے والا ہوں’’۔ (سنن الدارمی، ج ۱، ص۱۲۶)
یہ خطبہ اس بات پر دال ہے کہ ہمارے اسلاف کا منہج اور ان کا عقیدہ صحیح حدیث ہی پر تھا وہ کسی طریقے سے قرآن و صحیح حدیث کے خلاف نہ تھے اور نہ ہی کتاب و سنت کی موجود میں وہ اپنی رائے و قیاس سے کام لیتے ۔ بلکہ قرآن و حدیث ہی کو اصل مرجع قرار دیتے تھے۔ بالکل یہی معاملہ اور طرز عمل صحابہ کرام  کا تھا اور انھوں نے اسی بات کی تعلیم اپنے شاگردوں کو دی ۔ یہی وجہ ہے کہ کبار محدثین حدیث سننے کے بعد رسول اللہﷺ کے فرمان ہی کو حرف آخر گردانتے بظاہر اگر ان ائمہ میں اختلافات نظر بھی آتے تو وہاں اختلافات کسی ذاتی دشمنی یا تعصب کی بنا پر نہیں ہوا کرتے اور نہ ہی اپنے مسلک یا امام کو اونچا کرنے کے سبب، بلکہ اختلافات کی جو وجوہات تھیں وہ حدیث نہ ملنے کی وجہ سے پیدا ہوئیں یا پھر حدیث کی صحت تک رسائی نہ ہونے کے سبب سے پیدا ہوئے جس کی ایک طویل فہرست اصولوں کی کتابوں میں موجود ہے۔ لہٰذا اختلاف امت پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  کی کتاب ‘‘رفع الملام ’’ امام ابن حزم کی ‘‘ الاحکام’’ اور شاہ ولی اللہ کی کتاب ‘‘حجۃ اللہ البالغۃ’’ جو کہ اس مضمون پر لکھی گئی ہیں۔
ان علما کی آراء یہ ہیں کہ جو اختلافات کی اہم وجوہات تھیں ان میں سے ایک وجہ تو یہ ہے کہ:
1 ایک حدیث کا علم بعض کو ہوا اور بعض کو نہ ہوا۔
2 حدیث کا علم تو ہو الیکن اس کی صحت انہیں معلوم نہ ہوئی یا صحیح سند سے ان تک وہ حدیث نہ پہنچی۔
3 حدیث کی تفہیم اور تعبیر میں اختلاف واقع ہوا۔
ان کے علاوہ کئی اور وجوہات بھی ہیں جن سے اختلافات مابین فقہا پیدا ہوئے۔ اس مسئلہ کے باوجود اگر اصلاح اور حسن ظن سے تتبع کیا جائے تو یہی مسئلہ آشکار ہوتا ہے کہ محدثین اور فقہا کے مابین اختلافات کچھ وجوہات کی بنا پر تھے، لیکن محدثین کا منہج رسول اللہﷺ کی حدیث کی قبولیت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا تھا۔ بلکہ کچھ چیدہ چیدہ باتوں کے پیش نظر آج کے متعصبین اور منکرین اس گمراہی کی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ محدثین کے منہج میں کئی اختلافات تھے جو کہ ایک غلط اور افترا پر مبنی بات ہے جس کی حقیقت کچھ بھی نہیں۔
خادم حدیث محمد حسین میمن

https://www.facebook.com/IslamicMessageOrganization/photos/a.299647813502425.1073741829.195530070580867/612296478904222/?type=3&src=https://scontent-b-lhr.xx.fbcdn.net/hphotos-xpf1/v/t1.0-9/1234367_612296478904222_2992724494459020037_n.jpg?oh=e9ca20d704612ae4a3bc2b36bc4978fc&oe=555D3042&size=960,720&fbid=612296478904222
 
Last edited:
Top