ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 569
- ری ایکشن اسکور
- 176
- پوائنٹ
- 77
کیا معاویہ (رضی اللہ عنہ ) نے حدیثِ عمار (رضی اللہ عنہ) کی تاویل کی؟
تحریر : کفایت اللہ سنابلی
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن معمر، عن ابن طاوس، عن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن أبيه، أخبره قال: لما قتل عمار بن ياسر دخل عمرو بن حزم على عمرو بن العاص، فقال: قتل عمار، وقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «تقتله الفئة الباغية» فقام عمرو يرجع فزعا حتى دخل على معاوية، فقال له معاوية: ما شأنك؟ فقال: قتل عمار، فقال له معاوية: قتل عمار فماذا؟ قال عمرو: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «تقتله الفئة الباغية»، فقال له معاوية: دحضت في قولك ، أنحن قتلناه إنما قتله علي وأصحابه، جاءوا به حتى ألقوه تحت رماحنا - أو قال: بين سيوفنا “
ترجمہ: ”محمد بن عمرو رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ : جب عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ ، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: عمار رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ، اور میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا“ تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم بے مطلب کی بات کرر رہے ہو کیا ہم نے انہیں قتل کیا ہے ؟ انہیں تو علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے قتل کیا ہے ان کو لیکر آئے اور ہمارے نیزوں کے بیچ ڈال دیا“
[ الجامع - معمر بن راشد 11/ 240 ، مصنف عبد الرزاق 10/ 278 ط التأصيل الثانية، مسند أحمد 4/ 199، المستدرك للحاكم 2/ 168]
یہ ان روایات میں سب سے مضبوط روایت مانی جاتی ہے جنہیں پیش کرکے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ کو باغی قرار دیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے ۔
اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ عمرو بن حزم رضی اللہ عہ جنگ صفین میں شامل تھے ، حالانکہ جنگ صفین سے بہت پہلے عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا ، مؤرخین نے اپنی تاریخی کتب میں بہت سارا کوڑکباڑ اکٹھا کر دیا ہے لیکن کسی بھی مؤرخ نے جنگ صفین میں ان کی شرکت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ جنگ صفین سے پہلے ہی یہ صحابی اس دنیا سے رخصت کرگئے ۔
بعض نے ان کی تاریخ وفات 51 ہجری کے آس پاس بتلائی ہے ، لیکن یہ غلط ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ چنانچہ:
◈ امام إبراهيم بن المنذر الحزامي المدني رحمه الله (المتوفى236) نے کہا:
”عمرو بن حزم يكنى أبا الضحاك، توفي في خلافة عمر بن الخطاب“
”عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو الضحاک ہے اور عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان کی وفات ہوئی ہے“
[ معرفة الصحابة لأبي نعيم 4/ 1981 ، وإسناده صحيح وأخرجه ابن عساكر في تاريخ دمشق 45/ 477 من طريق أبي نعيم به ، وانظر: إكمال تهذيب الكمال 5/ 524 ]
◈ امام أبو العباس محمد بن إسحاق الثقفي رحمه الله (المتوفى313) نے کہا:
”عمرو بن حزم يكنى أبا الضحاك توفي في خلافة عمر بن الخطاب بالمدينة“
”عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو الضحاک ہے اور مدینہ میں عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان کی وفات ہوئی ہے“
[الأسامي والكنى لأبي أحمد الحاكم: 4/ 350، وإسناده صحيح]
◈ امام أبو أحمد الحاكم رحمه الله (المتوفى378) نے بھی عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں ان کی تاریخ وفات میں صرف ابوالعباس الثقفی کا مذکور قول ہی نقل کیا ہے :[الأسامي والكنى لأبي أحمد الحاكم: 4/ 350]
مذکورہ ائمہ نے عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی جو تاریخ وفات بتلائی ہے درج ذیل امور کی بنا پر وہی راجح ہے۔
⟐ اول:
عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے ایک پوتے امام ابوبکر بن محمد رحمہ اللہ ہیں یہ بہت بڑے عابد وعالم اور مدینہ کے قاضی و امیر تھے ۔
نیز یہ صحیحین سمیت کتب ستہ کے ثقۃ رجال میں سے ہیں ، امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں لکھا ہے :
”أحد الأئمة الأثبات“ ، ”یہ اثبات ائمہ میں سے ایک ہیں“ [سير أعلام النبلاء للذهبي: 5/ 314]
لیکن انہوں نے اپنے دادا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔
امام مزی رحمہ اللہ نے عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے پوتے امام ابو بکر بن محمد رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے کہ:
”وابن ابنه أبو بكر محمد بن عمرو بن حزم ،ولم يدركه“
”ابو بکر بن محمد رحمہ اللہ نے اپنے دادا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا“ [تهذيب الكمال للمزي: 21/ 586]
حافظ مغلطای جو امام مزی کی غلطیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتے ہیں انہوں نے بھی امام مزی کی اس بات پر کوئی نقد نہیں کیا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ امام مزی کی یہ بات درست ہے۔
عرض ہے کہ : یہ بات تبھی ممکن ہے جب ہم ان ائمہ کی بات مان لیں جنہوں نے عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات عہد فاروقی ہی میں بتلائی ہے ۔
ورنہ اگر دوسرے اقوال کی بنیاد پر یہ مانیں کہ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات 51 ہجری میں ہوئی ہے تو پھر اس وقت ان کے پوتے امام ابو بکر بن محمد رحمہ اللہ کی عمر 15 سال کی ہوگی، چنانچہ:
امام ابن معین ، امام ابن المدینی ، امام ابوعبید سمیت جمہور محدثین کے بقول ابو بکر بن محمد کی وفات 120میں ہوئی ہے ۔ [تهذيب الكمال للمزي: 33/ 142،الوافي بالوفيات للصفدي: 10/ 155]
اور ان کی کل عمر 84 سال بتلائی گئی ہے ۔[تهذيب الكمال للمزي: 33/ 142، الطبقات لابن سعد ت عبد القادر: 5/ 336]
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی تاریخ پیدائش 36 ہجری ہے ۔یعنی اپنے دادا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت یہ 15 سال کے تھے ۔
پھر یہ کہنا کیسے ممکن ہوگا کہ امام ابو بکر بن محمد رحمہ اللہ نے اپنے دادا اور صحابی رسول عمرو بن ٖحزم رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ۔
ظاہر ہے کہ یہ تبھی ممکن ہے جب ان کے دادا عمرو بن ٖحزم رضی اللہ عنہ کی وفات عہد فاروقی میں ہی ہوئی ہے جیسا کہ بعض محدثین نے صراحت کی ہے ،کما مضی ۔
⟐ دوم:
اگرعمرو بن حزم رضی اللہ عنہ 51 ہجری تک باحیات ہوتے تو اس دور کے صحابہ وتابعین سے جس طبقہ نے احادیث روایت کی ہیں ، وہ ان سے بھی روایت کرتے مگر کتب احادیث میں یہ ریکارڈ نہیں ملتا۔
⟐ سوم:
عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ ایک عظیم صحابی ہیں ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص عمال و دعاۃ میں سے ہیں اگر ایسی عظیم شخصیت نے جنگ صفین میں شرکت کی ہوتی تو اس بات کی شہرت ہوجاتی اور مؤرخین جنگ صفین کے واقعات میں ان کی شرکت کا تذکرہ ضرور کرتے ، مگر صفین کی تاریخ بیان کرنے والے کسی بھی مؤرخ نے صفین میں ان کی شرکت کا ذکر نہیں کیا ہے ۔
یہ تمام شواہد بتلاتے ہیں کہ انہیں ائمہ کی بات درست ہے جنہوں نے عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات عہد فاروقی میں بتلائی ہے ۔
اس کے برخلاف جن اہل علم نے ان کی تاریخ وفات 50 ہجری کے بعد بتلائی ہے وہ بعض ضعیف ومردود روایات کے سبب غلط فہمی کے شکار ہوئے ہیں ۔مثلا:
(الف)
اس سلسلے میں سب سے بڑی غلط فہمی محمد بن سیرین کی ایک ضعیف روایت سے ہوئی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ یزید کی ولی عہدی سے متعلق بات چیت کرنے کے لئے مدینہ سے شام معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ چنانچہ بعض اہل علم نے اسی روایت کا حوالہ دے کر ان کی تاریخ وفات 51 ہجری کے بعد بتلائی ہے ۔ چنانچہ:
محمدبن عمر الواقدی کا بیان ہے:
”وبقي عمرو بن حزم حتى أدرك بيعة معاوية بن أبي سفيان لابنه يزيد، ومات بعد ذلك بالمدينة“
”اور عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ باحیات رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب اپنے بیٹے یزید کے لئے ولی عہدی کی بیعت لی تو وہ دور بھی انہوں نے پایا اس کے بعد مدینہ میں ان کی وفات ہوئی“
[الطبقات الكبير لابن سعد ت عمر: 5/ 318]
عرض ہے کہ واقدی نے عہد معاویہ میں ان کی وفات کے لئے محمد بن سیرین سے منقول اسی واقعہ کو بنیاد بنایا ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت یزید کے سلسلے میں بات کرنے کے لئے مدینہ سے شام گئے تھے ، اور پھر بات کرکے مدینہ واپس آئے۔
اور اسی روایت کو بنیاد بناتے ہوئے دیگر کئی اہل علم بھی یہ بات کہتے گئے کہ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات 51 ہجری کے بعد ہوئی ہے۔
ابن الأثير (المتوفى 630) لکھتے ہیں:
”وقيل: إنه توفي في خلافة عمر بن الخطاب بالمدينة، والصحيح أنه توفي بعد الخمسين، لأن محمد بن سيرين روى أنه كلم معاوية بكلام شديد لما أراد البيعة ليزيد“
”کہا گیا ہے کہ ان کی وفات عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوئی ، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ 50 ہجری کے بعد بھی باحیات رہے کیونکہ محمد بن سیرین نے روایت کیا ہے کہ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے سختی سے بات کی جب انہوں نے یزید کی بیعت کا ارادہ کیا“
[أسد الغابة ط العلمية 4/ 202]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) لکھتے ہیں:
”قال أبو نعيم: مات في خلافة عمر، كذا قال إبراهيم بن المنذر في الطبقات. ويقال بعد الخمسين. قلت: وهو أشبه بالصواب، ففي مسند أبو يعلى بسند رجاله ثقات- أنه كلم معاوية في أمر بيعته ليزيد بكلام قوي“
”امام ابو نعیم نے کہا ہے کہ : عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوئی ہے ، یہی بات امام ابراہیم بن المنذر نے طبقات میں کہی ہے ، اور کہا جاتا ہے کہ 50 ہجری کے بعد ان کی وفات ہوئی ہے اور یہ بات درست لگتی ہے کیونکہ ابو یعلی کی مسند میں ثقہ رجال کے ساتھ ایک روایت میں ہے کہ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے یزید کی بیعت کو لیکر ٹھوس بات کی“
[الإصابة في تمييز الصحابة 4/ 512]
ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی محمد بن سیرین ہی کی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے ، اور اس کے رجال کے ثقہ ہونے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ روایت منقطع ہے ۔
البتہ یہ واقعہ ایک دوسری صحیح سند سے ثابت ہے لیکن اس میں عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں بلکہ ان کے بیٹے محمد بن عمرو رحمہ اللہ کا ذکر ہے ۔ اس کی پوری تفصیل ہم نے اپنی کتاب یزید بن معاویہ کے اخیر میں بیان کردی ہے دیکھیں: [یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ: ص898 تا 906]
یاد رہے کہ خود محمد بن عمر الواقدی نے بھی عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات عہد فاروقی میں بتلائی ہے جیساکہ حافظ مغطلائ نے ان کی کتاب سے نقل کیا ہے۔ [ إكمال تهذيب الكمال 5/ 524]
لیکن مذکورہ مردود روایت کو بنیاد بناکر واقدی نے یہ کہہ دیا کہ ان کی وفات یزید کی بیعت ولی عہدی کے بعد ہوئی ہے ۔
(ب)
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571) لکھتے ہیں:
”قال الهيثم حدثني صالح بن حبان عن ولد عمرو بن حزم أنه توفي سنة إحدى وخمسين“
”عمرو بن حزم کے ایک لڑکے کا بیان ہے کہ ان کی وفات 51 ہجری میں ہوئی ہے“ [تاريخ دمشق لابن عساكر: 45/ 483]
عرض ہے کہ اس سند میں ہیثم اور عمرو بن حزم کے بیچ کسی بھی راوی کی توثیق نہیں ملتی ، توثیق تو درکنار کسی کا ترجمہ بھی نہیں ملتا ، لہٰذا یہ بات ثابت ہی نہیں ۔
ہیثم کے علاوہ اس روایت کا ذکر کسی نے نہیں کیا ہے ، دیگر اہل علم جنہوں نے عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات 50 ہجری کے بعد بتلائی ہے انہوں نے محمد بن سیرین والی ضعیف روایت پر ہی اعتماد کیا ہے جس کی وضاحت اوپر ہوچکی ہے ۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عمرو بن حزم رضی للہ عنہ جنگ صفین کے وقت باحیات ہی نہ تھے ، لہٰذا جس روایت میں انہیں جنگ صفین میں شریک بتایا جارہا ہے وہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے۔
✿ زیر بحث روایت کی سند پر بحث:
اب رہی بات یہ کہ اگر یہ روایت جھوٹی ہے اور اس میں ایک ناممکن بات کا بیان ہے تو اس سند میں کس راوی سے چوک ہوئی ہے جس نے یہ روایت بیان کردی ۔
تو عرض ہے کہ یہ چوک اس سند میں موجود معمر بن راشد کی ہے کیونکہ دیگر کئی مواقع پر بھی ان سے اس طرح کی چوک ہوئی ہے ۔
● امام مروذي رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
”قلت : كيف معمر في الحديث ؟ قال : ثبت ، إلا أن في بعض حديثه شيئ“
”میں نے امام احمد سے پوچھا : معمر حدیث میں کیسے ہیں؟ تو انہوں نے کہا؛ ثبت ہے مگر ان کی بعض احادیث محل نظر ہیں“
[العلل للأحمد رواية المروذي وصالح والميموني، ت الأزهري: ص: 46]
● امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) نے کہا:
”إذا حدثك معمر عن العراقيين فخفه؛ إلا عن الزهري، وابن طاووس؛ فإن حديثه عنهما مستقيم، فأما أهل الكوفة والبصرة فلا“
”جب معمر اہل عراق سے روایت کریں تو ان سے ڈر کر رہو ، سوائے زہری اور ابن طاووس کی روایت میں ، کیونکہ ان دونوں سے ان کی روایت ٹھیک ہوتی ہیں ، لیکن اہل کوفہ وبصرہ کا ایسا معاملہ نہیں ہے“
[ تاريخ ابن أبي خيثمة، السفر الثالث 1/ 325 وإسناده صحيح]
معمر بن راشد کی بعض خاص مقامات پر یا بعض خاص مشائخ سے روایت پر کلام تو ہے ہی اس کے ساتھ جن رواۃ سے ان کی احادیث صحیح قرار دی جاتی ہیں جیسے امام زہری وغیرہ تو ان سے بھی بعض دفعہ انہوں نے مبنی برغلط روایات حتی کی جھوٹی روایات بھی بیان کردی ہیں ۔چنانچہ:
”ھمام بن منبہ“سے معمر کی روایت بھی بہت بہتر سمجھی جاتی ہے ، لیکن اس طریق کی روایت میں میں بھی معمر سے غلطیاں ہوئی ہیں چناچہ اسی سلسلے کی ایک غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) فرماتے ہیں:
”أخرجه الإسماعيلي من طريق بن المبارك عن معمر لكنه ساقه بلفظ رواية همام عن أبي هريرة ،وهو خطأ من معمر وإذا كان لم يضبط المتن فلا يتعجب من كونه لم يضبط الإسناد“
”اسے اسماعیلی نے ابن المبارک کی سند سے معمر کے طریق سے روایت کیا ہے ، ھمام عن ابی ھریرہ کے الفاظ میں اور یہ معمر کی غلطی ہے ، اور معمر سے جب متن کے ضبط میں غلطی صادر ہوتی ہے تو سند کے بیان میں ان کا غلطی کرجانا کوئی تعجب کی بات نہیں“
[فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 11/ 519]
امام زہری سے ان کا لگاؤ اس قدر تھا کہ انہیں”معمر الزھری“ بھی کہا جانے گا۔ لیکن ان سے روایات میں بھی معمر نے غلطیاں کی ہیں ۔
امام ابن أبي خيثمة رحمه الله (المتوفى 279) فرماتے ہیں :
”سئل يحيى بن معين: عن حديث ابن علية, عن معمر، عن الزهري، عن سالم، عن أبيه: أن غيلان بن سلمة أسلم وعنده عشر نسوة ؟ قال: خطأ؛ إنما كان معمر أخطأ فيه“
”امام ابن معین رحمہ اللہ سے ابن علیہ کی حدیث عن معمر عن الزھری عن سالم سے متعلق پوچھا گیا تو ابن معین رحمہ اللہ نے کہا: یہ غلط ہے ، معمر نے اس میں غلطی کی تھی ۔“
[التاريخ الكبير = تاريخ ابن أبي خيثمة ، السفر الثالث 1/ 328]
بلکہ معمر نے زہری کے طریق سے ایک جھوٹی اور من گھڑت حدیث بھی بیان کر رکھی ہے چنانچہ:
أبو بكر أحمد بن جعفر القطيعي(المتوفى273) نے کہا:
”حدثنا أحمد بن عبد الجبار الصوفي قثنا أحمد بن الأزهر نا عبد الرزاق قال انا معمر عن الزهري عن عبيد الله بن عبد الله عن بن عباس قال : بعثني النبي صلى الله عليه و سلم الى علي بن أبي طالب فقال أنت سيد في الدنيا وسيد في الآخرة من احبك فقد احبني وحبيبك حبيب الله وعدوك عدوي وعدوي عدو الله الويل لمن ابغضك من بعدي“
”ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیج کر علی رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور ان سے کہا: تم دنیا و آخرت دونوں میں سردار ہو ، جو تم سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرے گا ، تمہارا محبوب اللہ کا محبوب ہے اور تمہارا دشمن اللہ کا دشمن ہے ، بربادی ہو اس کے لئے جو میرے بعد تم سے بغض رکھے“
[فضائل الصحابة 2/ 642، ومن طريق القَطِيعي أخرجه ابن الجوزي في العلل (348)عن أحمد بن عبدالجبار ، والطبراني في الأوسط (4751) عن عبدالرحمن بن سلم، وابن عدي في الكامل(1/ 317)عن عليك الرازي ، واللالكائي في (شرح أصول اعتقاد أهل السنة رقم 2644) من طريق عبدالله بن محمد بن الحسن، والخطيب في تاريخ بغداد (5/ 68) من طريق أبي حاتم المكى، وأبي عمران موسى بن العباس الجويني۔جميعهم عن أبي الأزهر به]
یہ ایک جھوٹی اور من گھڑت روایت ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے :
”موضوع“ ، ” یہ حدیث من گھڑت ہے“۔
[ سلسلة الأحاديث الضعيفة 10/ 522]
یہاں معمر نے اس روایت کو زہری سے نقل کیا ہے اور امام عبد الرزاق سے اوپر تمام رجال صحیحین کے رجال ہیں ، اس کے باوجود بھی ائمہ فن نے اس حدیث کو جھوٹی اور من گھڑت حدیث قرار دیا ہے ۔ یعنی محدثین کی نظر میں یہ حدیث اور صحیحین کی شرط پر اس کی یہ سند، دونوں من گھڑت ہے ، اور امام معمر نے وہم یا کسی دھوکہ کا شکار ہوکر اسے زہری سے اپنی مرویات میں بیان کردیا۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
«هذا موضوع مع ثقة إسناده كأنه أدخل على معمر»
”یہ حدیث رجال سند کے ثقہ ہونے کے باوجود بھی من گھڑت ہے ، گویا کہ معمر کی روایات میں اسے شامل کر دیا گیا ہے“
[ موضوعات المستدرك للذهبي ص6 بترقيم الشاملة آليا]
امام زين الدين العراقي رحمه الله (المتوفى806) لکھتے ہیں:
”وضرب امتحنوا بأولاد لهم أو وراقين فوضعوا لهم أحاديث ودسوها عليهم، فحدثوا بها من غير أن يشعروا“
”اور جھوٹی احادیث بیان کرنے والے کچھ محدثین ایسے ہیں جو اپنی ایسی اولاد اور ایسے وراقین سے دھوکہ کھاگئے جنہوں نے حدیثیں گھڑ کر ان محدثین کی احادیث کے ساتھ شامل کردیں ، پھر یہ محدثین نادانستہ طور پر ان احادیث کو بھی بیان کر بیٹھے“
[شرح التبصرة والتذكرة ألفية العراقي 1/ 309]
امام سیوطی رحمہ اللہ نے اس قسم کو ذکر کرتے ہوئے بطور مثال معمر کے رافضی بھتیجے کا قصہ ذکر کیا ہے جس نے معمر کے ساتھ اس طرح کی حرکت کی ہے۔ [تدريب الراوي 1/ 337]
امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597) نے کہا:
”فالويل لمن تكلف في وضعه إذ لا فائدة في ذلك. أنا القزاز قال أخبرنا الخطيب قال أخبرني محمد بن أحمد بن يعقوب قال أنا محمد بن نعيم الضبي قال سمعت أحمد الحافظ سمعت أبا حامد بن شرقي سئل عن حديث أبي الأزهر فقال هذا حديث باطل والسبب فيه أن معمرا كان له ابن أخ رافضيا يمكنه من كتبه فأدخل عليه الحديث وكان معمر رجلا مهيبا لا يقدر عليه أحد في السؤال والمراجعة“
”بربادی ہو اس شخص کے لئے جس نے یہ روایت گھڑنے کی زحمت کی ہے کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ... اور اس حدیث کے بارے میں امام أبو حامد ابن الشرقي رحمه الله (المتوفى325) سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: یہ حدیث جھوٹی ہے ، اور اس سند سے اس کے بیان ہونے کا سبب یہ ہے کہ معمر کا ایک رافضی بھتیجا تھا جسے معمر اپنی کتاب دیا کرتے تھے ، تو اس نے معمر کی کتاب میں یہ حدیث درج کردی ، اور معمر چونکہ رعب دار شخص تھے اس لئے ان سے پوچھ تاچھ کی ہمت کوئی نہیں کرتا تھا“
[العلل المتناهية في الأحاديث الواهية 1/ 219]
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے بھی اسے روایت کرکے أبو حامد ابن الشرقي کا قول نقل کیا ہے۔[العلل : ل 161 /أ ، بحوالہ فضائل الصحابة بتحقیق دکتور وصی اللہ عباس ،2/ 642 ، حاشیہ]
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ بے شک یہ حدیث جھوٹی ہے ، لیکن اس کی علت معمر یا عبد الرزاق کا وہم ہے ، اور معمر کے رافضی بھتیجے والی بات درست معلوم نہیں ہوتی ، کیونکہ اس سے معمر کا بالکل مغفل ہونا ثابت ہوتا ہے اور ان کی کتاب بھی مشکوک قرار پاتی ہے۔
تو عرض ہے کہ یہ دونوں اشکال اس وقت ہوتا جب اس رافضی بھتیجے نے پوری کتاب کے ساتھ بکثرت چھیڑ چھاڑ کی ہوتی ، کیونکہ ایسی صورت میں کتاب کا نقشہ ہی بدل جاتا اور پھر اس پر آگاہ نہ ہونا معمر کے لئے ایک سوالہ نشان ہوتا ۔ لیکن اس رافضی نے ایسا نہیں کیا ہے ، اول تو اس نے صرف رفض وتشیع سے متعلق روایات شامل کی ہیں ، دوسرے کہ یہ تصرف بھی بہت کم مقامات پر کیا ہے ، کیونکہ اتنی عقل تو اسے بھی ہوگی کہ پوری کتاب کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے معمر متنبہ ہوجائیں گے اور چوری پکڑی جائے گی ،لیکن معمر جیسے محدث جن کے پاس احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ ہو اور ان کا اعتماد حفظ سے زیادہ کتاب پر ہو ، اور ان کی شخصیت بارعب ہونے کے سبب ان کو کوئی ٹوکنے والا بھی نہ ہو ، تو ایسے محدث کی کتاب میں معمولی تصرف کی بآسانی گنجائش ہے۔
تاہم اگر معمر کے رافضی بھتیجے کا قصہ درست نہ بھی مانیں تب بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی نہ کسی شخص کی یہ کارستانی رہی ہے جس نے موقع دیکھ کر معمر کی احادیث میں یہ روایت شامل کردی ہے۔
اس تفصیل کے بعد عرض ہے کہ جس طرح معمر نے اپنے خاص الخاص استاذ امام زہری کے طریق سے جھوٹی اور من گھرٹ حدیث بیان کردی ہے ۔ ٹھیک اسی طرح انہوں نے ابن طاووس کے طریق سے بھی زیر بحث من گھڑت روایت بیان کردی ہے ۔
ان دونوں میں ایک مشترک چیز رفض وتشیع کا رشتہ ہے چنانچہ زہری والی روایت میں اہل بیت کی فضیلت میں جھوٹی حدیث بیان ہوئی ہے ، اور ابن طاووس والی روایت میں بنو امیہ کی مذمت میں ایک روایت بیان ہوئی ہے ، ان دونوں روایات کے پیچھے معمر کے وہم کے بجائے کسی رافضی کا کردار ہی ہوسکتا ہے ، جس نے بڑی چابکدستی سے معمر کی کتاب میں اس طرح کی پیوندکاری کی ہے ، ممکن ہے یہ دونوں کام معمر کے اسی رافضی بھتیجے کا ہو جس کی اس طرح کی حرکت کا ذکر محدثین نے کیا ہے۔
بہرحال یہ بات تو متعین ہے کہ یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے ، خواہ یہ معمر کے وہم کا نتیجہ ہو ، یا ان کے رافضی بھتیجے نے ان کی کتاب میں تصرف کیا ہو۔