محمد طالب حسین
رکن
- شمولیت
- فروری 06، 2013
- پیغامات
- 156
- ری ایکشن اسکور
- 93
- پوائنٹ
- 85
کیا موت انبیاکے لیے موجب توہین ہے۔
انبیا علیہم السلام اور اہل اللہ کے حق میں ہم موت سے گبھراتے کیوں ہیں؟
موت کوئی بری چیز نہیں نطفہ سے شروع ہو کر قبض روح، طفولیت، صبا۔ مراہقت، شباب، کہولت زندگی کے مختلف مراتب ہیں۔ ان میں پسندیدہ اور ناپسندیدہ عوارض ہیں۔ مگر ابنیا، صلحا، اہل اللہ سب کو اس راہ سے گزرنا ہے۔ اس لیے کسی کے لیے ان میں کوئی منزل نہ تو خوشگوار ہے اور نہ موجب توہین۔ زندگی بہرحال ان منازل ہی سے تعبیر ہے۔ قرآن عزیز نے فرمایا۔خالق الموت والحیوۃ لیبلو کم ایکم احسن عملا ( سورہ ملک) یعنی موت و حیات اسی دارالابتلا کی منازل ہیں جن سے ہر انسان کو گزرنا ہے۔ دنیوی زندگی سے آخرت تک پہنچنے کےلیے موت ایک پل ہے جسے سب کو عبور کرنا ہے اس میں نا تحقیر ہے نہ اہانت۔ اگر موت کوئی بری چیز ہے تو انبیا اور صلحا پر اسے ایک آن کے لیے بھی نہیں آنا چاہیے۔ اور اگر واقعی آخرت کے سفر کی یہ بھی ایک منزل ہے تو اس کے لیے پیچ و تاب کھانے کی ضرورت نہیں۔ اسے اسی قانون سے آنا چاہیے جو ساری کائنات کے لیے اس کے خالق نے تجویز فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذرضی اللہ عنہ کو فرمایا۔شاید میں تمہیں آیندہ نہ مل سکوں۔ (مجمع الزوائد) اسی طرح ایک خاتون سے فرمایا۔ اگر میں زندہ نہ رہا تو تم ( حضرت ) ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آنا۔ ( مشکوٰۃ ) سورۃ نصر کے نزول پر حضرت صدیق اکبر کو خطرہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہو جائیں گے آپ رو دیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سنا اور ایک لمحہ کے لیے بھی ناپسند نہیں فرمایا۔ تاریخ سیرت اور سنت کے دفاتر موت کے حوادث سے بھر پور ہیں۔ پھر معلوم نہیں ہم لوگ اس کے ذکر سے لرزہ براندام کیوں ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تذکرہ سے از دیوبند تا بریلی ارتعاش کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ احادیث کی کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ، موت ، تجہیز و تکفین، دفن عنوان موجود ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سے گبھراہٹ کیوں ہوتی ہے؟ بعض امہات المومنین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سر کے بال کٹوا دیے اس لیے کہ اب ان کی ضرورت نہیں ۔( صحیح مسلم ) بعض امہا ت المومنین نے سر بالکل منڈوا دیا۔ ( مجمع الزوائد ) کیوں حضرت انتقال فرما چکے تھے۔ اسے موت کہئے یا وصال کہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خلوت گزیں فرمایئے کوئی عنوان اختیار فرمایئے۔ حقیقت یہ کہ جسم اور روح کو پیوند ٹوٹ چکا ہے۔ یہی موت ہے جو برزخی احوال اور قبر کی زندگی کے منافی نہیں۔ بلکہ اس منزل تک پہنچنے کا ایک صحیح ذریعہ ہے۔ آپ فرمائیں عالم برزخ میں موت و زندگی میں ترادف ہے تو مجھے اس اعتراض سے انکار نہیں مگر موت کا انکار اہل علم سے ایک شرمناک سانحہ ہے۔
انبیا علیہم السلام اور اہل اللہ کے حق میں ہم موت سے گبھراتے کیوں ہیں؟
موت کوئی بری چیز نہیں نطفہ سے شروع ہو کر قبض روح، طفولیت، صبا۔ مراہقت، شباب، کہولت زندگی کے مختلف مراتب ہیں۔ ان میں پسندیدہ اور ناپسندیدہ عوارض ہیں۔ مگر ابنیا، صلحا، اہل اللہ سب کو اس راہ سے گزرنا ہے۔ اس لیے کسی کے لیے ان میں کوئی منزل نہ تو خوشگوار ہے اور نہ موجب توہین۔ زندگی بہرحال ان منازل ہی سے تعبیر ہے۔ قرآن عزیز نے فرمایا۔خالق الموت والحیوۃ لیبلو کم ایکم احسن عملا ( سورہ ملک) یعنی موت و حیات اسی دارالابتلا کی منازل ہیں جن سے ہر انسان کو گزرنا ہے۔ دنیوی زندگی سے آخرت تک پہنچنے کےلیے موت ایک پل ہے جسے سب کو عبور کرنا ہے اس میں نا تحقیر ہے نہ اہانت۔ اگر موت کوئی بری چیز ہے تو انبیا اور صلحا پر اسے ایک آن کے لیے بھی نہیں آنا چاہیے۔ اور اگر واقعی آخرت کے سفر کی یہ بھی ایک منزل ہے تو اس کے لیے پیچ و تاب کھانے کی ضرورت نہیں۔ اسے اسی قانون سے آنا چاہیے جو ساری کائنات کے لیے اس کے خالق نے تجویز فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذرضی اللہ عنہ کو فرمایا۔شاید میں تمہیں آیندہ نہ مل سکوں۔ (مجمع الزوائد) اسی طرح ایک خاتون سے فرمایا۔ اگر میں زندہ نہ رہا تو تم ( حضرت ) ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آنا۔ ( مشکوٰۃ ) سورۃ نصر کے نزول پر حضرت صدیق اکبر کو خطرہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہو جائیں گے آپ رو دیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سنا اور ایک لمحہ کے لیے بھی ناپسند نہیں فرمایا۔ تاریخ سیرت اور سنت کے دفاتر موت کے حوادث سے بھر پور ہیں۔ پھر معلوم نہیں ہم لوگ اس کے ذکر سے لرزہ براندام کیوں ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تذکرہ سے از دیوبند تا بریلی ارتعاش کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ احادیث کی کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ، موت ، تجہیز و تکفین، دفن عنوان موجود ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سے گبھراہٹ کیوں ہوتی ہے؟ بعض امہات المومنین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سر کے بال کٹوا دیے اس لیے کہ اب ان کی ضرورت نہیں ۔( صحیح مسلم ) بعض امہا ت المومنین نے سر بالکل منڈوا دیا۔ ( مجمع الزوائد ) کیوں حضرت انتقال فرما چکے تھے۔ اسے موت کہئے یا وصال کہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خلوت گزیں فرمایئے کوئی عنوان اختیار فرمایئے۔ حقیقت یہ کہ جسم اور روح کو پیوند ٹوٹ چکا ہے۔ یہی موت ہے جو برزخی احوال اور قبر کی زندگی کے منافی نہیں۔ بلکہ اس منزل تک پہنچنے کا ایک صحیح ذریعہ ہے۔ آپ فرمائیں عالم برزخ میں موت و زندگی میں ترادف ہے تو مجھے اس اعتراض سے انکار نہیں مگر موت کا انکار اہل علم سے ایک شرمناک سانحہ ہے۔