• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا میت کو غسل دینے والا غسل کرے گا یا وضو کافی ہے ؟

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
کیا میت کو غسل دینے والا غسل کرے گا یا وضو کافی ہے ؟


میت کو غسل دینے والے سے متعلق لوگوں میں تین اقوال ہیں ۔
پہلاقول : وہ غسل کرے ۔
دوسراقول : وہ وضو کرے ۔
تیسراقول : صرف ہاتھ دھوئے گرپہلے وضو کرچکا ہے ۔
جو لوگ میت کو غسل دینے والوں کے لئے غسل کے وجوب کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ حدیث ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

من غسَّلَ الميِّتَ فليغتسِل ومن حملَهُ فليتوضَّأ( صحيح أبي داود:3161)
ترجمہ: جوشخص کسی میت کو نہلائے وہ غسل کرے اور جو اسے اٹھائے وہ وضو کرے ۔

اس کے علاوہ ایک اور دلیل ملتی ہے ۔
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ: كانَ يغتسِلُ من أربعٍ: منَ الجَنابةِ ، ويومَ الجمعةِ ، ومنَ الحجامةِ ، وغسلِ الميِّتِ(ابوداؤد)
ترجمہ: ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چار باتوں سے غسل کیا کرتے تھے ۔ جنابت سے ، جمعہ کے روز ، سینگی لگوا کر اور میت کو غسل دے کر ۔
اس حدیث کو علامہ البانیؒ نے ضعیف قرار دیا ہے ۔(ضعيف أبي داود:3160)
عظیم آبادی صاحب نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔(عون المعبود: 8/243)

تو یہ روایت ضعیف ہے ،اس سے دلیل نہیں پکڑی جائے گی ،رہی بات اوپر والی پہلی روایت کی تو وہ روایت بظاہر وجوب کا تقاضہ کررہی ہے مگر صحیح آثار سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں وجوب کا استدلال کرنا درست نہیں ہے ۔
پہلا اثر : ليس عليكم في غسلِ ميِّتِكُمْ غسلٌ [ إذا غسَّلْتُموهُ ، فإِنَّ ميتَكُمْ ليسَ بنجِسٍ ، فحسبُكُمْ أنْ تغْسِلُوا أيدِيَكُمْ ](صحيح الجامع:5408)
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ میت کو غسل دینے سے تمہارے لئے غسل کرنا واجب نہیں ہے جبکہ تم اسے غسل دو کیونکہ تمہارا میت نجس (ناپاک) نہیں ہوتا تو تمہارا ہاتھ دھولینا ہی کافی ہے ۔
امام حاکم ، امام ذہبی اور علامہ البانی رحمہم اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور حافظ ابن حجر ؒ نے حسن کہا ہے ۔

دوسرا اثر : عنِ ابنِ عمر : كُنَّا نغسِّلُ الميتَ ، فمِنَّا من يَغتسِلُ ، ومنا من لا يغتسلُ۔
ترجمہ: ابن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم لوگ میت کو غسل دیتے تھے تو ہم میں سے بعض لوگ غسل کرتے اور بعض لوگ غسل نہیں کرتے ۔
اس اثر کو البانی صاحب نے صحیح السند قرار دیا ہے ۔( أحكام الجنائز:72)

تیسرا اثر : اسی طرح اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا والا اثر بھی موید ہے جب انہوں نے اپنے شوہر ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کوان کی وفات پر غسل دیا تو انہوں نے مہاجرین سے پوچھا کہ سخت سردی ہے اور میں روزے سے ہوں کیا مجھے غسل کرنا پڑے گا تو صحابہ نے جواب دیا کہ نہیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : 6123، موطا امام مالک :521)
ان آثار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میت کو غسل دینے والے کے حق میں غسل کرنا مستحب ہے ، اگر وہ غسل نہ کرے تو کوئی حرج نہیں ۔ یہی موقف مبارک پوری صاحب کا ہے اور انہوں نے تحفۃ الاحوذی میں امام شوکانی رحمہ اللہ سے بھی اسی موقف کو نقل کیا ہے جو سارے دلائل میں جمع و تطبیق کی صورت ہے ۔
البتہ وضو کے متعلق شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ میت کو غسل دینے والا لازما وضو کرے یہ تمام اہل علم کا موقف ہے ۔ یہ وضو نماز جنازہ کے لئے ہےجیساکہ ہرنماز کے لئے کرتے ہیں ، بغیر وضو کے کوئی نماز نہیں ہوگی ۔

لا صلاةَ لمَن لا وُضوءَ لهُ (صحيح الترغيب:203)
ترجمہ: اس کی نماز نہیں جس نے وضو نہیں کیا۔

اگر میت کو غسل دینے والا پہلے سے وضو کیا ہوا ہے اور اس کاہاتھ میت کی شرمگاہ کو لگ گیا تو پھر وضو کرنا واجب ہوگا کیونکہ شرمگاہ کو ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن اگر میت کی شرمگاہ کو ہاتھ نہ لگے (اور غسل دینے میں یہی طریقہ اپنائے کہ ہاتھ پہ دستانہ لگالے اور پھر میت کی گندگی صاف کرے) تو اسے وضو کرنا ضروری نہیں ہے لیکن کم از کم ہاتھ دھونا ضروری ہے جیسا کہ اوپر صحیح الجامع والی روایت میں مذکور ہے ۔
مزید چند احکام ومسائل
٭افضل عمل : غسل دینے والے کے حق میں افضل یہ ہے کہ وہ غسل کرلے تاکہ استحباب پر عمل بھی ہوجائے اور میت کو غسل دینے ، اسے باربار دیکھنے اور حرکت دینے سے ذہن میں جو فتور پیدا ہوگیا ہے وہ زائل ہوجائے اور تازہ ونشیط ہوجائے ۔
٭احیتاطی عمل : اگر غسل نہ کرسکے تو کم ازکم وضو کرلےگرچہ انہوں نے پہلے وضو کیا ہو۔ اگر پہلے وضو نہیں کیا تو نماز جنازہ کےلئے وضو تو بہرحال کرنا ہے ۔
٭ جس نے میت کو غسل دیا ہے اسے اپنا کپڑا اتارنے یا صاف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب اسے اپنا بدن دھونا ضروری نہیں تو کپڑا بدرجہ اولی نہیں دھونا ہے ۔
٭ جنازہ کی نماز کے لئے کئے گئے وضو سے دوسرے وقت کی نماز پڑھ سکتا ہے کیونکہ اس وضو اور دوسری نماز کے وضو میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
٭ یہ قول "
ومن حملَهُ فليتوضَّأ" (جو میت کو اٹھائے وہ وضو کرے ) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو جو میت کو کندھا دے وہ سب وضو کرے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو میت کو حرکت دے ، ادھر سے ادھر اٹھاکر رکھے ، ایک چارپائی سے دوسری چارپائی پر لے جائے ۔ اور اس میں مذکور وضو نماز جنازہ کے لئے وضو کرنا ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی
 
Last edited:
Top