• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا نجاشی رضی اللہ عنہ کے عمل سے طاغوت سے فیصلے کروانے کی دلیل پکڑنا درست ہے؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
سوال: السلام علیکم! ایک جگہ طاغوت سے فیصلے کروانے کے متعلق دو فریقین کی گفتگو ہو رہی تھی، وہاں ایک صاحب نے لکھا کہ جب مسلمان نجاشی کے پاس تھے تب انہوں نے ان کی بات سن کر فیصلہ کیا تھا اس وقت تک وہ ایمان نہیں لائے تھے تو ایک طاغوت تھے اور اس وقت مسلمانوں کا فیصلہ ایک طاغوت نے کیا تھا جو بعد میں ایمان لایا، تو کیا اس واقعے سے طاغوت سے فیصلے کروانے کی دلیل پکڑنا درست ہے۔ اور کیا طاغوت سے فیصلے کروانا کفریہ عمل نہیں؟

جواب: وعلیکم السلام! ہر کافر حکمران طاغوت نہیں ہے۔ طاغوت اس حکمران کو کہتے ہیں جو اللہ کے مقابلے میں اپنی عبادت کا مدعی ہو جیسا کہ فرعون یا نمرود وغیرہ کی مثالیں ملتی ہیں۔نجاشی کے بارے ایسی کوئی بات نہیں ملتی کہ وہ اپنی عبادت کی طرف لوگوں کو بلاتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دین اسلام کی کما حقہ دعوت نہ پہنچنے کے سبب سے وہ لاعلمی اور جہالت میں تھے۔ پس یہ کہنا کہ ایمان لانے سے پہلے نجاشی سے فیصلہ ایک طاغوت سے فیصلہ کروانا تھا، درست بات نہیں ہے۔
جہاں تک دوسری بات کا تعلق ہے کہ طاغوت سے فیصلہ کروانا بہر صورت جائز نہیں ہے جبکہ آپ کے پاس آپشن ہو کہ دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق فیصلہ لے سکتے ہوں اور اگر آپ کے پاس آپشن نہیں ہے تو پھر آپ کی مجبوری ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
سوال: السلام علیکم! ایک جگہ طاغوت سے فیصلے کروانے کے متعلق دو فریقین کی گفتگو ہو رہی تھی، وہاں ایک صاحب نے لکھا کہ جب مسلمان نجاشی کے پاس تھے تب انہوں نے ان کی بات سن کر فیصلہ کیا تھا اس وقت تک وہ ایمان نہیں لائے تھے تو ایک طاغوت تھے اور اس وقت مسلمانوں کا فیصلہ ایک طاغوت نے کیا تھا جو بعد میں ایمان لایا، تو کیا اس واقعے سے طاغوت سے فیصلے کروانے کی دلیل پکڑنا درست ہے۔ اور کیا طاغوت سے فیصلے کروانا کفریہ عمل نہیں؟

جواب: وعلیکم السلام! ہر کافر حکمران طاغوت نہیں ہے۔ طاغوت اس حکمران کو کہتے ہیں جو اللہ کے مقابلے میں اپنی عبادت کا مدعی ہو جیسا کہ فرعون یا نمرود وغیرہ کی مثالیں ملتی ہیں۔نجاشی کے بارے ایسی کوئی بات نہیں ملتی کہ وہ اپنی عبادت کی طرف لوگوں کو بلاتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دین اسلام کی کما حقہ دعوت نہ پہنچنے کے سبب سے وہ لاعلمی اور جہالت میں تھے۔ پس یہ کہنا کہ ایمان لانے سے پہلے نجاشی سے فیصلہ ایک طاغوت سے فیصلہ کروانا تھا، درست بات نہیں ہے۔
جہاں تک دوسری بات کا تعلق ہے کہ طاغوت سے فیصلہ کروانا بہر صورت جائز نہیں ہے جبکہ آپ کے پاس آپشن ہو کہ دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق فیصلہ لے سکتے ہوں اور اگر آپ کے پاس آپشن نہیں ہے تو پھر آپ کی مجبوری ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ
ارسلان بھائی اس بحث کی وجہ درج بالا قول ہے جو کہ کتاب مشروعیة الدخول الی المجالس التشریعیة کے اندر پایا جاتا ہے۔ہم اس کے باطل نظریہ کی رد میں ایک تحریر یہاں پر نقل کرتے ہیں ان شاء اللہ حق نکھر کر سامنے آجائے گا۔اور باطل نظریہ اپنی موت آپ مرجائے گا۔
کتاب مشروعیة الدخول الی المجالس التشریعیةکے ص 42پر مصنف لکھتے ہیں کہ اگر اسلام کی شرائط اور لوازمات میں سے یہ ہوتا کہ کفار کے ساتھ کسی بھی فیصلہ کرنے والی کمیٹی یا اسمبلی سے دور رہنا ہے تو پھر نجاشی کی تعریف نبیﷺکبھی نہ کرتے کہ آپ ﷺنے اسکی وفات کے موقعہ پر کہاتھا کہ رجل صالح نیک آدمی تھا۔
جواب:
ایسا لگتا ہے کہ مصنف کے پاس کوئی مضبوط دلیل یا عذر نہیں تھا اس لئے یہ دلیل پیش کر دی اس لئے کہ یہ دلیل نہیں بلکہ دین سے ناواقفیت ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کفار کے ساتھ عدم شراکت اسلام کے لوازمات میں سے نہ ہو جبکہ قرآن میں صراحت کے ساتھ اللہ کے احکام کو چھوڑ کر فیصلہ کرنے والوں کو ظالم فاسق کافر کہاگیا ہے اسی طرح اللہ نے ان لوگوں کو جھوٹا قرار دیا ہے جو دعوی تو اللہ کے نازل کردہ پر ایمان کا کرتے ہیں مگر فیصلے طاغوت کے پاس لیجاتے ہیں کفار کے ساتھ فیصلوں میں مشارکت سے گریز اسلام کے لوازمات میں سے کیسے نہیں ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے کفار اور جن چیزوں کی اللہ کے علاوہ پوجا ہوتی ہے ۔ ان سے بیزاری و دوری کو واجب قرار دیا ہے اب کسی مسلمان کے لئے کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ کسی ایسی اسمبلی کارکن بنے جو خود کو قانون ساز کہتی ہوجبکہ اللہ نے قانون ساز کو شریک اور رب کہا ہے مسلمان کے لئے کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ کی شریعت کے خلاف کسی اور قانون کے پاس اپنا فیصلہ لے جائے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس تحاکم کو عبادت قرار دیا ہے او رجوشخص طاغوت کے پاس فیصلے لے جاتا ہے اسے مشرک کافر قرار دیا ہے اس لئے کہ غیر اللہ کے پاس اپنے فیصلے لیجانا کفر اکبر ہے اللہ نے ہمیں طاغوت کے انکار کا حکم دیا ہے اور اس کاطریقہ یہ بتایا ہے کہ اس کے پاس فیصلے نہ لیجائیں اب جو شخص طاغوت کے پاس فیصلہ کرانے جائے گا تو وہ طاغوت کا منکر نہیں کہلائے گا اسلئے کہ طاغوت کے انکار کی شرط یہ ہے کہ اس کے پاس فیصلے نہ لیجائے جائیں ۔

شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں طاغوت کے انکار کی صورت یہ ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ غیر اللہ کی عبادت باطل ہے اسے چھوڑ دے اس سے نفرت کرے اور اس کو ماننے والوں کو کافر سمجھے ان سے دشمنی رکھے۔ (مجموعۃ التوحید)اب جو شخص غیر اللہ کی عبادت کو باطل سمجھتا ہے مگر اسے چھوڑتا نہیں تو وہ طاغوت کا منکر نہیں کہلا سکتا۔ جو شخص اس کو باطل سمجھے اور اسے چھوڑ دے مگر پھر اسے پسند کرتا رہے اس سے نفرت نہ کرے تو وہ بھی طاغوت کا منکر نہیں ہے ۔

شیخ عبداللطیف بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ جو شخص کتاب و سنت کے علاوہ کسی اور طرف فیصلے لیجاتا ہے جبکہ اسے سب معلوم ہے تو وہ کفر کر رہا ہے ۔(الدرر السنیۃ 10/426)۔

مؤلف کتاب کو اللہ کا خوف کرنا چاہیئے کہ اس اہم مسئلے میں کسی کمزور دلیل کو بنیاد بنا رہے ہیں اگرچہ انکی نیت اچھی ہوگی اور ارادہ اصلاح کا ہوگا مگر اس طرح کی باتیں اسے کوئی فائدہ نہیں دیں گی اس طرح کی باتوں سے بہت بگاڑ پیداہوتا ہے بلکہ ہوا ہے یہ باتیں عدالتوں میں اور قانون پڑھانے والے اداروں تک اپنے اثرات پہنچا چکی ہیں اور اب وہاں )غیر اسلامی قوانین میں (کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا اب ہم اللہ کا نام لیکر اس شبہے کاازالہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس ازالے کی متعدد صورتیں ہیں مثلاً
1۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (البقرہ:111)
(اے محمد )ﷺان سے کہدو کہ اگر تم سچے ہوتو اپنی دلیل لاؤ۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ نجاشی طاغوتی فیصلے کرتا تھا(پھر بھی نبی ﷺ نے اسکی تحسین فرمائی تو ان لوگوں کو چاہیئے کہ اپنے دعوی کے ثبوت کے لئے کوئی صحیح متصل سند والی خبر سے یا اجماع سے کوئی دلیل لائیں ان صحابہ کرام کا قول پیش کریں جو نجاشی کے ساتھ رہے اور انہیں نجاشی کے بارے میں تمام معاملات کا علم تھا یا یہ بتا دیں کہ نجاشی اسلام قبول کرنے کے بعد بھی طاغوتی فیصلے کرتا تھا کوئی ایک فیصلہ ہی ایسا ثابت کر دیں؟)ورنہ دعوی بلا دلیل قبول نہیں کیاجاتا)۔

2۔ نجاشی کے واقعہ سے استدلال کرنا صرف قیاس ہے جبکہ قیاس کے لئے ضروری ہے کہ کسی نص میں کوئی مسئلہ بیان ہوا ہو اور اس کی علت کے اشتراک کی بناپر کوئی مسئلہ غیر منصوصہ اس پر قیاس کیاجائے اور ان دونوں مسئلوں میں کوئی فارق بھی نہ ہو اور یہ بھی قیاس کے لئے شرط ہے کہ مقیس)فرع( کوئی نص بھی نہ ہو جبکہ یہاں تو بہت سے نصوص موجود ہیں کہ اللہ کے حکم کو معطل کرنا یا اسے حکم وضعی سے بدلنا کفر باللہ ہے بلکہ اللہ کی شریعت کے ہوتے ہوئے کسی اور طرف فیصلے لیجانا ایمان بالطاغوت ہے جیسا کہ پہلے آیت گذر چکی ہے ۔
اَلَمْ تَرَاِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ ……(النساء:60)
اور
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اﷲَ وَاَطِیْعُوالرَّسُوْلَ وَ اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ(النساء:59)
ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ تنازعات میں فیصلے اللہ کی شریعت کے پاس نہیں لیجاتے وہ حقیقت میں مسلمان نہیں ہیں بلکہ ان کا ایمان طاغوت پر ہے ۔ (تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام العنان )1/398)

جب ہمارے پاس واضح نصوص دلائل موجود ہیں توہم کس طرح قیاس کو لے لیں جبکہ اصول یہ ہے کہ نص کے مقابلے پر قیاس سے استدلال کرنا باطل ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ قیاس کے شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ اصل حکم اور فرع میں فارق نہ ہو جبکہ یہاں معاملہ یہ ہے کہ اصل نجاشی کے عمل کو بنایا گیا ہے اور فرع اسمبلیوں میں داخلے کو جہاں کہ اللہ کے احکام کومعطل کیاجاتا ہے اور شریعت کے بجائے انسانوں کی مرضی پر قانون بنتے ہیں کہتے ہیں کہ نجاشی نے مصلحت کی بنا پر شریعت محمدی ﷺ کے مطابق فیصلے نہیں کئے لہٰذا ہم بھی مصلحت کی وجہ سے پارلیمنٹ میں جاتے ہیں (یعنی پارلیمنٹ میں جانا نجاشی کے عمل پر قیاس کیاگیا ہے )اس کا رد اس طرح کیاجاسکتا ہے کہ جب ہمیں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ قیاس صحیح کے لئے ضروری ہے کہ اصل اور فرع میں فارق نہ ہوتو ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ قیاس فاسد ہے اس لئے کہ دونوں صورتوںمیں فوارق موجود ہیں مثلاً
1پہلا فارق ۔نجاشی کا انتقال اسلام کے قوانین مکمل ہونے سے قبل ہوگیا تھا اور اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمَ دِیْنِکُمْ ……(المائدہ:3)آج میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے بطور دین اسلام کو پسند کرلیا ہے یہ آیت حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی 13ھ میں جبکہ نجاشی کا انتقال فتح مکہ سے قبل ہواتھا گویا نجاشی کی زندگی میں بہت سے اسلامی قوانین نازل و نافذ نہیں ہوئے تھے مثلا ًسورہ مائدہ کو لے لیں جس میں اکثر احکامات ہیں دیگر صورتوں کی بنسبت اور اسی میں یہ حکم ہے کہ جو اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ کافر ہے یہ سورت نجاشی کے انتقال کے بعد نازل ہوئی ہے ا سلئے کہ یہ آخری سورہ ہے نزول کے لحاظ سے اب نجاشی کے عمل پر جو کہ شریعت اسلامی کی تکمیل سے پہلے کا ہے یہ اسمبلی کو کیسے قیاس کر سکتے ہیں جو کہ اسلامی شریعت کی تکمیل کے بعد وجود میں آرہی ہے۔

2دوسرا فارق۔جب نبی ﷺنے بادشاہوں اور حکمرانوں کو اس بات کا پابند نہیں کیاتھا کہ وہ اللہ کی شریعت کے بغیر کسی اور قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں اس سے پہلے ہی نجاشی کاانتقال ہوگیا تھا یا جن بادشاہوں کو جزیہ کا حکم دیاگیا تھا جیسا کہ مسلم میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے قیصر و کسری اور نجاشی کو لکھا کہ اسلام کی دعوت قبول کر لیں یا جزیہ دیں (یہ وہ نجاشی نہیں ہے جسکی نبی ﷺنے تعریف کی ہے)۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس نجاشی کو نبی ﷺنے جزیہ کا اسلام قبول کرنے کا خط لکھا تھا وہ نجاشی دوسرا تھا اور جوآپ ﷺپر ایمان لایا آ پﷺکے صحابہ کی تکریم و توقیر کی وہ نجاشی دوسرا ہے بعض راویوں نے ان دونوں میں فرق نہیں کیا جو کہ ان کی سہو ہے۔(زادالمعاد3/690)۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب آپ ﷺ نے بادشاہوں کو خطوط لکھے واقدی کے بقول یہ ذی الحجہ 6ھ میں تھا جب عمرہ حدیبیہ ہوچکا تھا بیہقی کہتے ہیں یہ غزوہ موتہ کے بعد کا واقعہ ہے ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے اس لئے کہ یہ سلسلہ خط و کتابت فتح مکہ سے پہلے تھا اس لئے کہ ابو سفیان نے ہرقل کے سامنے کہاتھا (جب اس نے پوچھا کہ محمدﷺغداری یا وعدہ خلافی کرتاہے )ہمارا ان سے ایک مدت تک معاہدہ ہے اب دیکھتے ہیں کہ وہ (محمد )ﷺکیاکرتے ہیں بخاری میں ہے کہ یہ وہ وقت تھا جس میں نبیﷺکا ابو سفیان سے معاہدہ تھا(البدایہ والنہایۃ 298) پھر ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺنے نجاشی کو بھی خط لکھا (جس میں اسلام قبول کرنے یا جزیہ کامطالبہ تھا مگر یہ وہ نجاشی نہیں ہے جس کی نماز جنازہ نبی ﷺنے پڑھائی تھی)۔

3تیسرافارق ۔نجاشی ایک ایسی (آسمانی)شریعت پر قائم تھا جس کے اکثر احکام میں تحریف نہیں ہوئی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے ۔
وَ کَیْفَ یُحَکِّمُوْنَکَ وَ عِنْدَہُمُ التَّوْرٰةُ فِیْہَا حُکْمُ اﷲِ (المائدہ:43)
یہ اہل کتاب آپ ﷺکو کیسے حکم بناتے ہیں جبکہ انکے پاس توراۃ ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے ۔

جبکہ موجودہ اسمبلیوں کی یہ حیثیت نہیں ہے ۔ جب اصل اور فرع میں یہ تینوں فارق پائے گئے تو یہ قیاس کو باطل کرنے کے لئے کافی ہیں اور اس طرح یہ قیاس فاسد قرار پاتا ہے ۔

3تیسرا ازالہ-نجاشی جس علاقے میں تھا وہ دور دراز اور علم سے بے بہرہ خطہ تھا نجاشی نے وہاں اسلام قبول کیااور علماء نے کہا ہے کہ جو لوگ ایسے علاقوں میں ر ہتے ہیں ان کے لئے اتنی سہولت ہوتی ہے جو کہ دوسرے علاقوں والوں کے لئے نہیں ہوسکتی اسی طرح اس زمانے میں ذرائع مواصلات بھی آج کی طرح نہ تھے اس لئے بہت سے قوانین سالوں بعد جاکر پہنچتے تھے بلکہ بعض دفعہ تو ایسے علاقوں کے کچھ لوگ احکامات پہنچنے سے قبل انتقال کر جاتے تھے جبکہ وہی احکام دوسرے علاقوں میں کافی عرصہ سے مروج ہوتے تھے اس کی مثال ہم بخاری سے ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی حدیث سے پیش کرتے ہیں کہتے ہیں ہم نماز کے دوران ہی نبی ﷺ پر سلام کرتے تھے آپ ﷺ ہمیں سلام کا جواب دیتے جب ہم نجاشی کے ہاں سے واپس آئے تو ہم نے آپ ﷺکو سلام کیا آپ ﷺ نے جواب نہ دیا بعد میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نماز میں مصروف تھا(اس لئے سلام کا جواب نہ دے سکا)حالانکہ عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کبار صحابہ اور علماء میں سے تھے اور نماز ایسی عبادت ہے کہ جو دن میں باربار ہوتی ہے مگر اسمیں ہونے والی یہ تبدیلی ابن مسعودرضی اللہ عنہ تک نہ پہنچ سکی تو ایسا شخص جو دور دراز علاقے میں رہنے کے علاوہ عربی سے بھی واقف نہ ہوتو وہ بدرجہ اولی معذور ہے کہ اسے کسی حکم شرعی کی خبر نہ پہنچے ۔

ایسے امور سے استدلال کرنا امور متشابہ میں شمار ہوتا ہے جبکہ ہمیں حکم یہ دیاگیا ہے کہ متشابہ کو چھوڑ کر محکم کی اتباع کریں اور محکم وہی ہے جسکا تذکرہ پہلے ہم دلائل کے باب میں کر چکے ہیں لہٰذا ایسے لوگوں پر صرف تعجب ہی کیاجاسکتا ہے جو محکم نصوص کو چھوڑ کر متشابہ ظنی خبروں سے استدلال کرتے ہیں ۔

ھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ

اللہ وہ ذات ہے جس نے آپ ﷺ پر کتاب نازل کی ہے اس میں کچھ آیات محکمات ہیں جو کتاب کی اصل ہیں۔(آل عمران:7)۔

طبری نے اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ محکمت سے مراد ہے ناسخ ، حلال، حرام، حدود، فرائض، جن پر ایمان لایا جاتا ہے عمل کیاجاتا ہے اور واخر متشابہات (دوسری متشابہ ہیں)سے مراد ہے منسوخ ، مقدم مؤخر، مثالیں اقسام اور جن پر ایمان لایا جاتا ہے مگر عمل نہیں کیاجاتا ۔

نجاشی کا واقعہ بھی ایسا ہے کہ جب نبی ﷺ نے بادشاہوں کے پاس نمائندے بھیجے تھے تو اس سے نجاشی کے احکامات منسوخ ہوگئے اگرچہ اس وقت نجاشی کا انتقال ہوا تھا جیسا کہ مسلم کی روایت پہلے گذر چکی ہے کہ یہ وہ نجاشی نہیں تھا جس کی نماز جنازہ نبی ﷺ نے پڑھائی تھی ۔

جو حاکم شرعی احکام کامکلف ہونے کے باوجود غیر شرعی قوانین کے مطابق فیصلے کرتا ہے وہ سب کے نزدیک (کافر) ظالم ، فاسق، فاجر ہے اس پر ان تمام فیصلوں کے گناہوں کا بوجھ ہوگا جو اسکی رعایا میں طاغوت کے ذریعے ہوں گے اس لئے کہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی نے قبر بنائی اور پھر لوگ اس قبر کے گرد ایسا طواف کرنے لگے جیسا بیت اللہ کے گرد ہوتا ہے تو ان کے عمل کا حصہ اس بنانے والے کو بھی ملے گا اس طرح جو شخص اللہ کی شریعت سے روک کر لوگوں کو طاغوت کی طرف لیجاتا ہے اور یہ جو صرف اللہ کی عبادت تھی وہ وثن و طاغوت کے لئے کروا رہا ہے تو اس کے ذریعے سے وہ ظلم فجور کے اس درجے تک پہنچ رہا ہے جس کی حد صرف اللہ ہی جانتا ہے یہ کم سے کم حال ہے اس شخص کا تو ہم کہتے ہیں کہ نجاشی اس طرح کے کام کیسے کر سکتا ہے اور اگر کئے تھے تو نبی ﷺ نے اسے رجل صالح نیک آدمی کس طرح کہدیا ؟معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب باتیں غلط ہیں جو اسکی طرف منسوب کی گئی ہیں اور اب ان سے استدلال کیاجاتا ہے۔

اس لئے کہ نجاشی توراۃ کا متبع تھا وہ طاغوت کی شریعت کا پیرو کار نہیں تھا اللہ نے اس کے اور اس جیسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے ۔
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّا نَصٰرٰی ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وْرُھْبَانًا وَاَنَّہُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ (المائدہ:82)
آپ ﷺ مومنوں کے سب سے بڑے دشمن ان لوگوں کو پائیں گے جویہودی اور مشرک ہیں اور قریب تر ان کو پائیں گے جو خود کو نصاری کہتے ہیں اس لئے کہ ان میں علماء اور راہب ہیں اور یہ لوگ تکبر نہیں کرتے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ نجاشی ان لوگوں میں سے تھا جن کا ذکر اس آیت میں ہے ۔
اِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرٰة فِیْہَا ھُدًی وَّ نُوْرٌ یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اﷲِ وَ کَانُوْا عَلَیْہِ شُہَدَآءَ فَلاَ تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اﷲُ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ (المائدہ:44)
ہم نے توراۃ نازل کی اس میں ہدایت اور روشنی ہے اس پر حکم کرتے پیغمبر جو کہ حکم بردار تھے اللہ کے یہود کو اور حکم کرتے تھے درویش اور عالم اس لئے کہ وہ نگہبان ٹھہرائے گئے تھے اللہ کی کتاب پر اور اس کی خبر گیری پر مقرر تھے تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور مت خریدو میری آیات پر تھوڑی قیمت اور جو کوئی حکم نہ کرے اس کے موافق جو اللہ نے اتارا سو وہی لوگ ہیں کافر۔

اب آپ کے سامنے صورتحال واضح ہوچکی ہے اور دونوں حالتوں کا فرق بھی سامنے آچکا یعنی نجاشی اور موجودہ قانون ساز اسمبلیوں کا ۔ نجاشی کی حالت یہ ہے کہ وہ ایک کافر بادشاہ تھا جب اس نے سنا کہ ایک شخص ایمان کی طرف دعوت دے رہا ہے تو وہ فورا ایمان لے آیا اور اس دعوت کو تسلیم کرکے اس کے تابع ہوگیا اور جو کچھ اس داعی کی طرف سے اسے پہنچا اس کو مانا اس پر عمل کیااور اپنے عمل سے ثابت کیاکہ وہ تمام ادیان سے علیحدہ ہوکر صرف اس دین اسلام کاہوگیا ہے دین کے مخالف تمام امور سے براء ت کا اعلان کیادین اسلام کی خاطر بادشاہت اور ملک چھوڑنے کے لئے بھی تیار تھا مگر اسلامی قوانین کی تکمیل سے قبل اسکا انتقال ہوگیا دوسری طرف صورت حال بالکل مختلف ہے جسے اس پہلی صورت پر قیاس کیاجارہا ہے وہ صورت یہ ہے کہ کچھ لوگ زبردستی وہ ذمہ داری اپنے سر لے رہے ہیں جس کا حکم یااجازت اللہ نے نہیں دی ہے بلکہ اس کام کے مرتکب ہورہے ہیں جس سے اللہ نے منع کیا ہے انہوں نے حرام ذرائع اختیار کر لئے ہیں یعنی شرک کو توحید کے حصول کا ذریعہ بنایا۔ معصیت کو اطاعت کا وسیلہ بنالیا ہے اوریہ سب کچھ اس کے بعد ہوا ہے کہ شریعت مکمل ہوچکی ہے اورحجت تمام ہوگئی ہے اب اس والی صورت کو پہلی والی پر کس طرح قیاس کیاجاسکتا ہے جبکہ دونوں کے درمیان مختلف انداز کے فوارق موجود ہیں اور قاعدہ و اصول یہ ہے کہ قیاس مع الفارق باطل ہے دوسری بات یہ ہے کہ نجاشی کے حالات سے استدلال کیسے کیاجاسکتا ہے جبکہ اس کے کئی احتمال موجود ہیں اور اصول یہ ہے کہ جب احتمال آجاتا ہے تو استدلال باطل ہوجاتا ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
سمیر بھائی! طاغوت سے فیصلے کروانا تو قطعا غلط ہے، اس بات پر میں آپ سے متفق ہوں۔ لیکن یہ بتائیں کسی شخص کو مجبور کر دیا جائے تو وہ کیا کرے۔مثلا کسی کو یورپین ممالک میں قید کر دیا جائے اور پھر اسے عدالت میں اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے بلایا جائے تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی جانا پڑ جائے، اسی طرح پاکستان کی عدالتیں جو کتاب و سنت کے مطابق فیصلے نہیں کرتیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں مجبورا یہاں جانا پڑتا ہے تو ایسے شخص کا کیا حکم ہے۔اوپر جو مفتی صاحب نے جواب دیا ہے میں اس متفق ہوں کہ جومجبور کر دیا جائے تو پھر وہ گناہ گار نہیں ہو گا۔اللہ اعلم
آپ اس بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کریں۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
سمیر بھائی! طاغوت سے فیصلے کروانا تو قطعا غلط ہے، اس بات پر میں آپ سے متفق ہوں۔ لیکن یہ بتائیں کسی شخص کو مجبور کر دیا جائے تو وہ کیا کرے۔مثلا کسی کو یورپین ممالک میں قید کر دیا جائے اور پھر اسے عدالت میں اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے بلایا جائے تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی جانا پڑ جائے، اسی طرح پاکستان کی عدالتیں جو کتاب و سنت کے مطابق فیصلے نہیں کرتیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں مجبورا یہاں جانا پڑتا ہے تو ایسے شخص کا کیا حکم ہے۔اوپر جو مفتی صاحب نے جواب دیا ہے میں اس متفق ہوں کہ جومجبور کر دیا جائے تو پھر وہ گناہ گار نہیں ہو گا۔اللہ اعلم
آپ اس بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کریں۔
برادر محترم ہمارا سارا کلام ان لوگوں کے بارے میں ہے جو خوشی کے ساتھ طاغوتی عدالتوں میں جاتے ہیں۔ان طاغوتی عدالتوں کو تسلیم کرتے ہیں۔اپنے بچوں کو ان طاغوتی قوانین کو پڑھاتے ہیں۔ججز بنتے ہیں ۔ ان طاغوتی قوانین کی حفاظت کرتے ہیں۔لیکن جس پر ظلم ہوا اور وہ مجبور ہو تو وہ تو حالت اکراہ میں ہے۔جو اپنے تنازعات ان لوگوں کے پاس لے جاتے ہیں جو طاغوتی جج ہیں، جنہوں نے خود کو زمین میں معبود بنا لیا ہے، لوگوں کے فیصلے طاغوتی احکام کے ذریعے کرتے ہیں، جو لوگ ان کے پاس فیصلے لے جاتے ہیں ان کا یہ عمل اگر حالت اکراہ کے بغیر ہو تو یہ کفر ہے۔ اکراہ کی صورت یہ ہے کہ کسی شخص کو اپنے قتل یا کسی اور قسم کی تکلیف کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں وہ طاغوتی جج سے فیصلہ کروا سکتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
من کفر باﷲ من بعد ایمانہ الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان ولکن من شرح بالکفر صدرا۔
جس نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا، الاَّ یہ کہ اُسے مجبور کر دیا جائے جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تو اس کے کفر کا وبال نہیں ہو گا) ہاں اگر کسی نے شرح صدر کے ساتھ(کفر کیا تو وہ کفر شمارہ ہو گا)۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
برادر محترم ہمارا سارا کلام ان لوگوں کے بارے میں ہے جو خوشی کے ساتھ طاغوتی عدالتوں میں جاتے ہیں۔ان طاغوتی عدالتوں کو تسلیم کرتے ہیں۔اپنے بچوں کو ان طاغوتی قوانین کو پڑھاتے ہیں۔ججز بنتے ہیں ۔ ان طاغوتی قوانین کی حفاظت کرتے ہیں۔

خوشی کے ساتھ خلاف شریعت فیصلہ کرنے والے اور کروانے والے کو جس نظر سے آپ دیکھتے ہیں ہم بھی اس نظر سے دیکھتے ہیں۔۔ ہم اس طرح کے لوگوں کوسر عام کافر کہتے ہیں یانہیں؟ اگر کہتے ہیں توکیوں اور اگر سرعام کافر نہیں کہتے تو کیوں؟ اور پھر اس طرح کے لوگوں کو سرعام کافر کہنا بھی چاہیے کہ نہیں؟ یا الگ موضوعات ہیں۔۔
لیکن جس پر ظلم ہوا اور وہ مجبور ہو تو وہ تو حالت اکراہ میں ہے۔جو اپنے تنازعات ان لوگوں کے پاس لے جاتے ہیں جو طاغوتی جج ہیں، جنہوں نے خود کو زمین میں معبود بنا لیا ہے، لوگوں کے فیصلے طاغوتی احکام کے ذریعے کرتے ہیں، جو لوگ ان کے پاس فیصلے لے جاتے ہیں ان کا یہ عمل اگر حالت اکراہ کے بغیر ہو تو یہ کفر ہے۔ اکراہ کی صورت یہ ہے کہ کسی شخص کو اپنے قتل یا کسی اور قسم کی تکلیف کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں وہ طاغوتی جج سے فیصلہ کروا سکتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
من کفر باﷲ من بعد ایمانہ الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان ولکن من شرح بالکفر صدرا۔
جس نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا، الاَّ یہ کہ اُسے مجبور کر دیا جائے جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تو اس کے کفر کا وبال نہیں ہو گا) ہاں اگر کسی نے شرح صدر کے ساتھ(کفر کیا تو وہ کفر شمارہ ہو گا)۔
حالت اکراہ میں اگر کوئی شخص طاغوت سے فیصلہ کرواتا ہے۔ تو اس پر بھی مواخذہ نہیں ہوگا۔۔۔

آپ نے اکراہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ کسی شخص کو قتل یا کسی اور قسم کی تکلیف کاخطرہ ہو ‘‘ برائے مہربانی اس کی مزید کچھ وضاحت کرنے کے ساتھ مجھے یہ بھی بتائیں کہ اگر آپ پر کسی بھی طرح کا کیس ہوجاتا ہے۔ فیصلہ کےلیے آپ کو عدالت بلاتی ہے تو آپ جائیں گے یا نہیں ؟
اگر جائیں گے تو کیوں ؟ اور اگر نہیں جائیں گے تو کیوں ؟
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
خوشی کے ساتھ خلاف شریعت فیصلہ کرنے والے اور کروانے والے کو جس نظر سے آپ دیکھتے ہیں ہم بھی اس نظر سے دیکھتے ہیں۔۔ ہم اس طرح کے لوگوں کوسر عام کافر کہتے ہیں یانہیں؟ اگر کہتے ہیں توکیوں اور اگر سرعام کافر نہیں کہتے تو کیوں؟ اور پھر اس طرح کے لوگوں کو سرعام کافر کہنا بھی چاہیے کہ نہیں؟ یا الگ موضوعات ہیں۔۔
ہمیں شریعت اسلامی نے جو جو تعلیمات دی ہیں وہ آپ کی بیان کردہ سوچ کے مخالف ہیں۔کیونکہ جب آپ نے شریعت سے متصادم ایک فعل دیکھ لیا تو اس کی مخالفت کرنا آپ پر واجب ہے۔اگر کوئی حکومتی اہلکار اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شان میں گستاخی کررہا ہو یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کررہا ہو تو آپ کا رد عمل کیا ہوگا؟؟؟؟؟؟
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
ہمیں شریعت اسلامی نے جو جو تعلیمات دی ہیں وہ آپ کی بیان کردہ سوچ کے مخالف ہیں۔کیونکہ جب آپ نے شریعت سے متصادم ایک فعل دیکھ لیا تو اس کی مخالفت کرنا آپ پر واجب ہے۔اگر کوئی حکومتی اہلکار اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شان میں گستاخی کررہا ہو یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کررہا ہو تو آپ کا رد عمل کیا ہوگا؟؟؟؟؟؟
بے سوچے سمجھے اور پڑھے بغیر ایسی بات کی طرف چڑھ دوڑنا جو حقیقت میں ہو ہی ناں۔۔۔ آدمی کی جہالت کےلیے کافی ہوتا ہے۔
جناب میرے ان الفاظ کو غور سے پڑھیں
’’ ہم اس طرح کے لوگوں کوسر عام کافر کہتے ہیں یانہیں؟ اگر کہتے ہیں توکیوں اور اگر سرعام کافر نہیں کہتے تو کیوں؟ اور پھر اس طرح کے لوگوں کو سرعام کافر کہنا بھی چاہیے کہ نہیں؟ یا الگ موضوعات ہیں۔۔‘‘
امید ہے اب بات سمجھ آگئی ہوگی۔ ان شاءاللہ۔۔۔ اس وضاحت کے بعد آپ کا سوال غیر متعلقہ ٹھہرتا ہے۔ اس لیے جواب پر بھی کوئی لب کشائی نہیں کی جاتی۔۔ لیکن آپ سے سوال کیا تھا آپ نے آدھی پوسٹ کا تو جواب لکھ دیا تاکہ بات کو کسی اور طرف گھسیٹ کر لے جایا جاسکے۔ لیکن جو بات مطلوب تھی اس پر نگاہ ہی نہیں دوڑائی یا نگاہ دوڑانے کی زحمت نہیں کی۔ بات دوبارہ پیش ہے
آپ نے اکراہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ کسی شخص کو قتل یا کسی اور قسم کی تکلیف کاخطرہ ہو ‘‘ برائے مہربانی اس کی مزید کچھ وضاحت کرنے کے ساتھ مجھے یہ بھی بتائیں کہ اگر آپ پر کسی بھی طرح کا کیس ہوجاتا ہے۔ فیصلہ کےلیے آپ کو عدالت بلاتی ہے تو آپ جائیں گے یا نہیں ؟
اگر جائیں گے تو کیوں ؟ اور اگر نہیں جائیں گے تو کیوں ؟
امید ہے اب صرف اس بات پر لکھا جائے گا۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اسلام علیکم گڈ مسلم بھائی -

نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا فرمان ہے -

من ترك صلاة متعمدا فقد كفر (متفق علیہ )

جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی اس نے کفر کیا -

جب انسان جان بوجھ کر الله کے نازل کردہ ایک اہم فریضے کی حکم عدولی کی بنا پر کافرقرار پا سکتا ہے تو کفریہ نظام کو جان بوجھ کر قبول کرنے پر کافر کیوں نہیں قرار پا سکتا ؟؟
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
برادر محترم ہمارا سارا کلام ان لوگوں کے بارے میں ہے جو خوشی کے ساتھ طاغوتی عدالتوں میں جاتے ہیں۔ان طاغوتی عدالتوں کو تسلیم کرتے ہیں۔اپنے بچوں کو ان طاغوتی قوانین کو پڑھاتے ہیں۔ججز بنتے ہیں ۔ ان طاغوتی قوانین کی حفاظت کرتے ہیں۔لیکن جس پر ظلم ہوا اور وہ مجبور ہو تو وہ تو حالت اکراہ میں ہے۔
لو آپ ہی اپنے دام میں صیاد آ گیا۔
سمير صاحب کی درج بالا عبارت پڑھی تو اپنی قوت ابلاغ پہ کڑھنےکو دل چاہا کہ ہم اپنا مؤقف آج تک پہنچا نہ سکے- محترم یہی تو ہم چیخ رہے ہیں کہ اس وقت موجودہ نظام کاحصہ بننا ہماری مجبوری ہے۔لیکن ہم ہیں کہ پارہ اتر ہی نہی رہا۔ یہی بات شیخ السلام ابن تیمیہ﷫ نے نجاشی اور یوسف ﷤کےبارےمیں فرمائی ہے۔ چنانچہ سے سوال کیا گیا:

ایسا کافر جو دار الکفر میں رہتا ہو، اسے اسلام کا پیغام پہنچ چکا ہو، وہ مسلمان بھی ہو جائے، نیز یہ کہ و ہ دار الاسلام کی طرف ہجرت بھی نہ کرسکے اورتمام احکام شریعت پرعمل بھی نہ کرسکے تو اس کےبارےمیں کیاحکم ہے؟

جواب: ایسے مسلمان کے لئے یہ ہےکہ وہ اللہ سے اپنی استطاعت کے مطابق ڈرے۔اس کی بہترین مثال نجاشی﷜ اور یوسف﷤ کی ہے۔ دونوں ہی مسلمان تھے لیکن ان کی قوم ایمان نہ لائی۔ وہ ہجرت اور اظہار اسلام پر بھی قدرت نہیں رکھتے تھے۔ اپنے معاملات کےتمام امور میں اسلا م کےمطابق فیصلہ نہیں کرتےتھے بلکہ جتناممکن ہوتا اتناہی اسلام پرعمل کرتے۔ ابن تیمیہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیے:
فالنجاشي وأمثاله سعداء في لجنة وإن لم يلتزموا من شرائع الإسلام ما لا يقدرون على التزامه ، بل كانوا يحكمون بالأحكام التي يمكنهم الحكم بها.
مزید لکھتےہیں کہ قرآن کی یہ آیت انہی لوگوں کےبارےمیں نازل ہوئی ہے:
﴿ وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَن يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلّهِ لاَ يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللّهِ ثَمَنًا قَلِيلاً أُوْلَئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ إِنَّ اللّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴾
سلف کی ایک جماعت کی رائے یہ ہےکہ یہ آیت نجاشی کےبارےمیں نازل ہوئی ہے۔جابر، ابن عباس اور انس سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ ایسے ہی حسن، قتادہ کی بھی یہی رائےہے۔صحابہ کی رائے قابل اطاعت ہوتی ہے۔ تاہم واضح رہےکہ آیت میں عا م او رجمع کے الفاظ بولےگئے ہیں لہٰذا اسے کسی فرد واحد کےساتھ خاص نہیں کرنا چاہئے۔ جو بھی اس مفہوم کے تحت آئے گا وہی مراد لیاجائے گا۔
مجموع الفتاوى: 19/216-219 ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
لو آپ ہی اپنے دام میں صیاد آ گیا۔
سمير صاحب کی درج بالا عبارت پڑھی تو اپنی قوت ابلاغ پہ کڑھنےکو دل چاہا کہ ہم اپنا مؤقف آج تک پہنچا نہ سکے- محترم یہی تو ہم چیخ رہے ہیں کہ اس وقت موجودہ نظام کاحصہ بننا ہماری مجبوری ہے۔لیکن ہم ہیں کہ پارہ اتر ہی نہی رہا۔ یہی بات شیخ السلام ابن تیمیہ﷫ نے نجاشی اور یوسف ﷤کےبارےمیں فرمائی ہے۔ چنانچہ سے سوال کیا گیا:

ایسا کافر جو دار الکفر میں رہتا ہو، اسے اسلام کا پیغام پہنچ چکا ہو، وہ مسلمان بھی ہو جائے، نیز یہ کہ و ہ دار الاسلام کی طرف ہجرت بھی نہ کرسکے اورتمام احکام شریعت پرعمل بھی نہ کرسکے تو اس کےبارےمیں کیاحکم ہے؟

جواب: ایسے مسلمان کے لئے یہ ہےکہ وہ اللہ سے اپنی استطاعت کے مطابق ڈرے۔اس کی بہترین مثال نجاشی﷜ اور یوسف﷤ کی ہے۔ دونوں ہی مسلمان تھے لیکن ان کی قوم ایمان نہ لائی۔ وہ ہجرت اور اظہار اسلام پر بھی قدرت نہیں رکھتے تھے۔ اپنے معاملات کےتمام امور میں اسلا م کےمطابق فیصلہ نہیں کرتےتھے بلکہ جتناممکن ہوتا اتناہی اسلام پرعمل کرتے۔ ابن تیمیہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیے:
فالنجاشي وأمثاله سعداء في لجنة وإن لم يلتزموا من شرائع الإسلام ما لا يقدرون على التزامه ، بل كانوا يحكمون بالأحكام التي يمكنهم الحكم بها.
مزید لکھتےہیں کہ قرآن کی یہ آیت انہی لوگوں کےبارےمیں نازل ہوئی ہے:
﴿ وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَن يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلّهِ لاَ يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللّهِ ثَمَنًا قَلِيلاً أُوْلَئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ إِنَّ اللّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴾
سلف کی ایک جماعت کی رائے یہ ہےکہ یہ آیت نجاشی کےبارےمیں نازل ہوئی ہے۔جابر، ابن عباس اور انس سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ ایسے ہی حسن، قتادہ کی بھی یہی رائےہے۔صحابہ کی رائے قابل اطاعت ہوتی ہے۔ تاہم واضح رہےکہ آیت میں عا م او رجمع کے الفاظ بولےگئے ہیں لہٰذا اسے کسی فرد واحد کےساتھ خاص نہیں کرنا چاہئے۔ جو بھی اس مفہوم کے تحت آئے گا وہی مراد لیاجائے گا۔
مجموع الفتاوى: 19/216-219 ۔
مداخلت کی معذرت -

محترم کیلانی صاحب کیا آپ اس کی وضاحت کریں گے کہ آخر وہ کیا مجبوری جس کے تحت ہمارے لئے موجودہ نظام کاحصہ بننا ضروری ہے -جب کہ یہ نظام بذات خود عوام کا ہی مرہون منّت ہے -

یوسف علیہ سلام اور نجاشی رضی الله عنہ کے دور میں بادشاہی نظام تھا- جو کہ مکمل کفر کا نظام نہیں ہے -اور نہ ہی یہ نظام عوام کا مرہون منّت ہے - دوسری بات کے دین اسلام کی تکمیل نبی کرم صل الله علیہ وسلم کی آخری دنوں میں ہوئی -لہذا پچھلی شریعتوں کو اس کفریہ نظام سے جوڑنا یا جواز بنانا ایک بڑی غلط فہمی ہے- نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے عورت کی حکمرانی کونا جائز قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ "جس قوم پر عورت حکمران بنائی گئی وہ کبھی فلاح حاصل نہیں کر سکتی " -لیکن حضرت سلیمان علیہ سلام کے دور میں ملکہ سبا یمن کے علاقے کی حکمران تھیں لیکن حضرت سلیمان علیہ سلام نے ان کی حکمرانی پر کوئی نقد یا تنقید نہیں کی - تو کیا اس سے یہ جواز فراہم کیا جا سکتا ہے کہ عورت بھی حکمران ہو سکتی ہے -

آپ کہتے ہیں کہ جو امید واروں میں سب سے بہتر ہو اس کو چن لیا جائے -ورنہ کوئی فاسق امیدوار عوام پر مسلط ہو جاتے گا -سوال ہے کہ اگر دس مرد اور ایک عورت امید وار ہوں اور صرف عورت ہی صاحب کردار ہو تو کیا عورت کو ہی چنا جائے گا - اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نظام کو اپنانے سے خود با خود انسان الله اور اس کے رسول کی شریعت کی خلاف ورزی پر مجبور ہو جاتا ہے -اور اس لئے ایک مسلمان کی حثیت سے اس سے بچنا ہمارے لئے واجب ہے -
 
Top