• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا نہار منہ پانی پینا نقصان دہ ہے؟

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
کیا نہار منہ پانی پینا نقصان دہ ہے؟

الحمد للہ وحدہ ،والصلاۃ و السلام علی من لا نبی بعدہ، اما بعد :
محترم قارئین ! سوشل میڈیا پر درج ذیل روایت گردش کر رہی ہے:
”مَنْ شَرِبَ الْمَاءَ عَلَى الرِّيقِ، اِنْتَقَصَتْ قُوَّتُهُ“
”جو شخص نہار منہ پانی پیئے گا ،اس کی قوت گھٹ جائے گی “
جس سے بعض حضرات نے یہ سمجھ لیا کہ نہار منہ پانی پینا نقصان دہ ہےجبکہ روایت ہذا کا حال یہ ہے کہ یہ ثابت ہی نہیں ہے۔
تفصیل پیش خدمت ہے:
روایت ہذا دو (2) صحابہ کرام سے مروی ہے :
(1) ابو سعید سعد بن مالک خدری رضی اللہ عنہ۔
(2) ابوہریرہ عبد الرحمن بن صخر الدوسی رضی اللہ عنہ۔
(1) ابو سعید سعد بن مالک الخدری رضی اللہ عنہ کی روایت :
امام ابو القاسم سلیمان بن احمد الشامی الطبرانی رحمہ اللہ (المتوفی:360ھ)فرماتے ہیں :
”حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُنَيْسٍ الدِّمْيَاطِيُّ، قَالَ: نَا مُحَمَّدُ بْنُ مَخْلَدٍ الرُّعَيْنِيُّ، قَالَ: نَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:” مَنْ شَرِبَ الْمَاءَ عَلَى الرِّيقِ ، اِنْتَقَصَتْ قُوَّتُهُ“.
[تخریج] المعجم الأوسط بتحقیق طارق و عبد المحسن : 5/51،ح:4646.
[ترجمہ] ابو سعید سعد بن مالک الخدری رضی اللہ عنہ ،نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
”جو شخص نہار منہ پانی پیئے گا ،اس کی قوت گھٹ جائے گی “ ۔
[حکم حدیث] ہذا حدیث منکر او موضوع واسنادہ واہ (یہ منکر یا موضوع حدیث ہے اور اس کی سند سخت ضعیف ہے)۔
علامہ البانی رحمہ اللہ : ”ضعيف جدا“ ”یہ حدیث سخت ضعیف ہے“۔ (الضعیفۃ :13/69، ت:6032)
[سبب] روایت ہذا کی سند میں تین (3) علتیں ہیں :
(1) عبيد الله بن محمد بن خنيس الدمياطي : یہ مجہول الحال راوی ہے۔
ان سے تین سے زیادہ ثقہ راویوں نے روایت کیا ہے لیکن ان کی بابت جرح و تعدیل کا کوئی بھی کلمہ مجھے نہیں مل سکا۔
ان کے ترجمہ کے لئے دیکھیں :
المؤتلف والمختلف لعبد الغنی الازدی بتحقیق مثنى محمد حميد الشمري وغیرہ :1/319، ت:830.
الإكمال في رفع الارتياب لابن ماکولا : 2/341،الناشر: دار الكتب العلمية -بيروت-لبنان.
تاريخ دمشق لابن عساکر بتحقیق عمرو بن غرامة العمروي : 38/100،ت: 4483.
إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني،ص: 411،ت: 639.
(2) ابو اسلم محمد بن مخلد الرعيني : یہ متروک ،منکر الحدیث اور باطل روایتیں بیان کرنے والاراوی ہے۔
ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں :
امام ابو احمد بن عدي الجرجانی رحمہ اللہ (المتوفی : 365ھ):
”يحدث عن مالك وغيره بالبواطيل...وهو منكر الحديث عن كل من يروي عنه“
”اس نے امام مالک وغیرہ سے باطل چیزیں بیان کی ہیں ۔ یہ منکر الحدیث ہے ہر اس شخص سے ، جس نے اس سے روایت کیا ہے “ ۔ (الكامل في ضعفاء الرجال بتحقیق عادل و علی : 7/503،ت: 1734)
امام ابو الحسن علی بن عمر البغدادی الدارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی:385ھ):
”متروك الحديث“ ”یہ متروک الحدیث ہے“۔ (لسان المیزان للحافظ بتحقیق ابی غدۃ:7/496، ت:7390 وقد نقلہ المؤلف من کتابہ)
امام ابو عبد اللہ محمد بن اسحاق ، ابن مندہ العبدی رحمہ اللہ (المتوفی:395ھ):
”حدث عَن مَالك بن أنس بمناكير“ ”اس نے مالک بن انس رحمہ اللہ سے منکر روایتیں بیان کی ہیں“۔
(فتح الباب في الكنى والألقاب بتحقیق نظر محمد الفاريابي ،ص:104، ت:652)
امام ابو الفضل محمد بن طاہر المقدسي، المعروف بابن القيسرانی رحمہ اللہ (المتوفی : 507ھ):
”يروي البواطيل عَن الْمَشَاهِير“ ”اس نے مشہور لوگوں سے باطل روایتیں بیان کی ہے“۔ (ذخيرة الحفاظ بتحقیق عبد الرحمن الفريوائي : 1/477،تحت الحدیث : 683)
امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ):
”روى عن مالك الأباطيل“ ”اس نے امام مالک رحمہ اللہ سے باطل حدیثیں روایت کی ہیں“۔ (ديوان الضعفاء بتحقیق حماد الأنصاري،ص:373، ت:3966)
امام ابو الحسن نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی رحمہ اللہ (المتوفی : 807):
آپ رحمہ اللہ نے محمد بن مخلد کو جا بجا ضعیف (مجمع الزوائد بتحقیق حسام الدين القدسي : 5/86،ح: 8292) اور ایک جگہ سخت ضعیف (المصدر السابق: 5/152، ح:8727) قرار دیا ہے اور ان کی ایک روایت کے متعلق فرماتے ہیں :
”وَهَذَا الْحَدِيثُ مِنْ مُنْكَرَاتِهِ“ ”یہ حدیث ان کی منکرات میں سے ہے“۔(مجمع الزوائد بتحقیق حسام الدين القدسي : 9/218، ح:15245)
(3) عبد الرحمن بن زيد بن اسلم المدني : یہ ضعیف اور متہم راوی ہے۔
ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں :
امام یحیی بن معین رحمہ اللہ (المتوفی : 233ھ):
”ليس حديثه بشئ، ضعيف“ ”اس کی حدیث کچھ نہیں ہے ، یہ ضعیف ہے“۔ (الجرح و التعديل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی: 5/233 ، ت: 1107واسنادہ صحیح)
امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:264ھ):
”ضعيف الحديث“ ”یہ ضعیف الحدیث راوی ہے“۔ (الجرح والتعديل بتحقیق المعلمی:5/234،ت: 1107)
امام ابو حاتم محمد بن ادریس الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:277ھ):
”ليس بقوي الحديث ،كان في نفسه صالحا وفي الحديث واهيا، ضعفه علي ( يعني) ابن المديني جدا“
”یہ قوی الحدیث نہیں ہے ، فی نفسہ نیک تھا اور حدیث میں سخت ضعیف تھا، امام ابن المدینی رحمہ اللہ نے اسے سخت ضعیف قرار دیا ہے“۔ (الجرح والتعديل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی: 5/233-234،ت: 1107)
امام ابو عیسی محمد بن عیسی الترمذی رحمہ اللہ (المتوفی:279ھ):
”ضَعِيفٌ فِي الحَدِيثِ، ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَعَلِيُّ بْنُ المَدِينِيِّ وَغَيْرُهُمَا مِنْ أَهْلِ الحَدِيثِ وَهُوَ كَثِيرُ الغَلَطِ“
” یہ حدیث میں ضعیف ہے۔ امام احمد، امام علی بن المدینی اور دیگر اہل الحدیث نے اسے ضعیف کہا ہےاور یہ کثرت سے غلطی کرنے والا ہے“۔ (سنن الترمذی بتحقیق بشار عواد :2/19، تحت الحدیث :632)
امام ابو بکر احمد بن عمرو العتکی ، المعروف بالبزار رحمہ اللہ (المتوفی:292ھ):
”قد أجمع أهل العلم بالنقل على تضعيف أخباره التي رواها...وأنه ليس بحجة فيما يتفرد به“
” اہل الحدیث نے اس کی مرویات کی تضعیف پر اجماع کیا ہے۔۔. اور جس حدیث میں یہ منفرد ہو ، وہ لائق احتجاج نہیں ہے“۔ (مسند البزار بتحقیق عادل بن سعد :15/277، رقم الحدیث :8763)
زیر بحث روایت کو بیان کرنے میں یہ منفرد ہے۔
امام ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الحاکم رحمہ اللہ (المتوفی:405ھ):
”روى عَن أَبِيه أَحَادِيث مَوْضُوعَة، لَا يخفى على من تأملها من أهل الصَّنْعَة أَن الْحمل فِيهَا عَلَيْهِ“
” اس نے اپنے والد سے موضوع حدیثیں روایت کی ہیں ، صاحب فن میں سے جو ان موضوع احادیث پر غور کرے گا ، اس پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ ان موضوع احادیث کا ذمہ دار یہی ہے“۔ (المدخل إلى الصحيح بتحقیق الدکتور ربيع هادي،ص:154، ت:97)
زیر بحث روایت کو اس نے اپنے والد سے ہی بیان کیا ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھیں : تھذیب الکمال بتحقیق الدکتور بشار عواد : 17/114،ت: 3820.
[تنبیہ]امام ابو حاتم محمد بن ادریس الرازی رحمہ اللہ (المتوفی:277ھ) فرماتے ہیں :
”لم ار فى حديثه منكرا“ ”میں نے محمد بن مخلد کی حدیث میں منکر روایت نہیں دیکھی ہے“۔ (الجرح والتعديل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی :8/93، ت:397)
راقم با ادب عرض کرتا ہے کہ امام ابن عدی وغیرہ کو ان کی منکر روایتیں ملیں ہیں لہذا صحیح یہ ہے کہ ان کی مرویات میں منکر روایتیں ہیں۔
دیکھیں : الكامل في ضعفاء الرجال بتحقیق عادل و علی : 7/503،ت: 1734 و ميزان الاعتدال بتحقیق البجاوي:4/32، ت:8151 وغیرہم.
[فائدہ]امام ابو القاسم سلیمان بن احمد الشامی الطبرانی رحمہ اللہ (المتوفی:360ھ) فرماتے ہیں :
” لَمْ يَرْوِ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ إِلَّا ابْنُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، تَفَرَّدَ بِهَا: أَبُو أَسْلَمَ“
”ان تمام احادیث کو زید بن اسلم سے صرف ان کے بیٹے عبد الرحمن نے روایت کیا ہے ۔ اور ابو اسلم ان احادیث کو بیان کرنے میں منفرد ہے“۔
(المعجم الأوسط بتحقیق طارق و عبد المحسن : 5/51،ح:4646)

(2) ابو ہریرہ عبد الرحمن بن صخر الدوسی رضی اللہ عنہ کی روایت :
امام ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی رحمہ اللہ (المتوفی : 360ھ) فرماتے ہیں :
”حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي غَسَّانَ، ثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ عَبْدُ الْأَوَّلِ الْمُعَلِّمُ، ثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ الْأَيْلِيُّ، عَنْ زُفَرِ بْنِ وَاصِلٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” ...وَمَنْ شَرِبَ الْمَاءَ عَلَى الرِّيقِ ،انْتَقَصَتْ قُوَّتُهُ...“.
قال الطبرانی: ”لَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ عَبْدُ الْأَوَّلِ الْمُعَلِّمُ“.

[تخریج] المعجم الأوسط بتحقیق طارق و عبد المحسن :6/334،ح:6557 و فیہ خطا و تاريخ دمشق لابن عساکر بتحقیق عمرو بن غرامة العمروي : 24/456، ت: 2957.
[ترجمہ] ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو شخص نہار منہ پانی پیئے گا ،اس کی قوت گھٹ جائے گی“۔
امام طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے صرف اسی سند کے ساتھ روایت کی جاتی ہے، عبد الاول المنعم اس روایت کو بیان کرنے میں منفرد ہے“۔
[حکم حدیث] ہذا حدیث منکر واسنادہ مظلم (یہ منکر حدیث ہے اور اس کی سند تاریک ہے)
امام ابو جعفر محمد بن عمرو العقیلی رحمہ اللہ (المتوفی : 322ھ):
”الْحَدِيثُ مُنْكَرٌ” ”حدیث منکر ہے“۔(فی کتاب الضعفاء الکبیر بتحقیق عبد المعطي : 3/316، ت: 1332)
امام ابو القاسم علی بن الحسن ، المعروف بابن عساکر رحمہ اللہ (المتوفی :571ھ):
”غريب الإسناد والمتن“ ”یہ حدیث سند اور متن دونوں اعتبار سے غریب ہے“۔ (تاريخ دمشق لابن عساکر بتحقیق عمرو بن غرامة العمروي : 24/456، ت: 2957)
[سبب] روایت ہذا میں تین علتیں ہیں :
(1) ابو نعيم عبد الاول بن اسماعيل المرادي المصري المعلم : راقم کو اس کا ترجمہ نہیں مل سکا۔
علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”ولم أعرفه، ويحتمل أنه الذي في ” ثقات ابن حبان “(8/425):”عبد الأول بن حكيم الحلبي ، يروي عن مسرة بن معبد اللخمي.... روى عنه سعيد بن واقد الحمراني“ . ذكره فيمن روى عن أتباع التابعين وهذا من هذه الطبقة. والله تعالى أعلم“ ”میں اس کو (جرح و تعدیل کے اعتبار سے) نہیں جانتا ہوں اور احتمال ہے کہ یہ عبد الاول بن حکیم الحلبی ہو جس کو امام ابن حبان نے کتاب الثقات میں نقل کیا ہے ،جو مسرہ سے روایت کرتا ہے اور سعید الحمرانی اس سے روایت کرتے ہیں ۔ اس کو انہوں نے ان لوگوں میں ذکر کیا ہے جو تبع تابعین سے روایت کرنے والے ہیں اور یہ اسی طبقہ میں سے ہے، واللہ اعلم“۔(سلسلة الأحاديث الضعيفة : 13/70،ح: 6032)
راقم با ادب عرض کرتا ہے کہ الضعفاء الکبیر (بتحقیق عبد المعطي : 3/316، ت: 1332) میں یہ صراحت ہے کہ عبد الاول یہ ”عبد الأول بن إسماعيل المرادي“ ہے ۔و الحمد للہ علی ذلک.
اور اس کی بابت شیخ عبد القدوس حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
”لم اجدہ“ ” میں اس کا ترجمہ نہیں پا سکا“۔ (فی تحقیق مجمع البحرین : 7/116، ح :4148)
(2) ابو امية عمارة بن عمار الأيلي : یہ مجہول راوی ہے۔
امام شمس الدین الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی : 748ھ) :
(1) ”لا یعرف“ ” یہ نہیں جانا جاتا ہے“. (ميزان الاعتدال في نقد الرجال بتحقیق البجاوی : 3/177،ت: 6034)
(2) "مجهول" ” یہ مجہول ہے“۔ (ديوان الضعفاء بتحقیق حماد الأنصاري،ص:289، ت:3007)
(3) زفر بن واصل : یہ بھی مجہول راوی ہے۔
امام ابو جعفر محمد بن عمرو العقيلي رحمہ اللہ (المتوفی : 322ھ) :
"مجهول" ” یہ مجہول ہے“۔ (کتاب الضعفاء الکبیر بتحقیق عبد المعطي : 3/316،ت: 1332)
امام شمس الدین محمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی : 748ھ) :
(1) ”لا یعرف“ ” یہ نہیں جانا جاتا ہے“. (ميزان الاعتدال في نقد الرجال بتحقیق البجاوی : 3/177،ت: 6034)
(2) ”مجهول“ ” یہ مجہول ہے“۔ (ديوان الضعفاء بتحقیق حماد الأنصاري،ص:289، ت:3007)
اب چند باتیں بطور فائدہ پیش خدمت ہیں :
[فائدہ نمبر:1] مذکورہ روایت تاریخ دمشق لابن عساکرمیں یوں ہے :
”ومن شرب الماء على الريق، ذهب بنصف قوته“ ”جو شخص نہار منہ پانی پیئے گا ،اس کی آدھی قوت ختم ہو جائے گی“۔
[فائدہ نمبر:2] مذکورہ روایت الضعفاء الکبیر للعقیلی میں بھی ہے لیکن اس میں صرف حدیث کے شروع کے تین جملے ہیں اور بقیہ حدیث : ”مَنْ شَرِبَ الْمَاءَ عَلَى الرِّيقِ ،انْتَقَصَتْ قُوَّتُهُ وَمَنْ كَثُرَ كَلَامُهُ كَثُرَ سَقْطُهُ، وَمَنْ كَثُرَ سَقْطُهُ كَثُرَتْ خَطَايَاهُ، وَمَنْ كَثُرَتْ خَطَايَاهُ كَانَتِ النَّارُ أَوْلَى بِهِ“ نہیں ہے ۔
[فائدہ نمبر:3] نہار منہ پانی پینے کے نقصانات سے متعلق ایک روایت اور مروی ہے ۔وہ اس طرح ہے :
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”شُرْبُ الْمَاءِ عَلَى الرِّيقِ، يَعْقِدُ الشَّحْمَ“ ”نہار منہ پانی پینا، چربی کو سخت کرتا ہے“۔ (المتفق والمفترق للخطیب البغدادی بتحقیق محمد صادق :3/1724، ت:1099)
لیکن یہ روایت موضوع ہے کیونکہ اس کی سند میں ”عاصم بن سليمان أبو شعيب التميمي“ ہےجو کہ کذاب ووضاع راوی ہے۔
دیکھیں : ميزان الاعتدال في نقد الرجال بتحقیق البجاوی : 2/351،ت: 4047.
[فائدہ نمبر:4] نہار منہ شہد پینے سے متعلق ایک روایت مروی ہے۔ وہ اس طرح ہے :
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”من شرب العسل ثلاثة أيام في كل شهر على الريق ، عوفي من الداء الأكبر، الفالج والجذام والبرص“ ”جس نے ہر ماہ تین دن نہار منہ شہد پیا تو وہ بڑی بیماریوں : فالج ،کوڑھ پن اور برص ،سے نجات پا جائے گا “. (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة : 2/184،ح: 763)
لیکن یہ روایت بھی موضوع ہے کیونکہ اس کی سند میں ”علي بن عروة الدمشقی“ ہےجو کہ متروک ، منکر الحدیث اور وضاع راوی ہے ۔
دیکھیں : ميزان الاعتدال في نقد الرجال بتحقیق البجاوی :3/145، ت:5891.
[فائدہ نمبر:5] عرق النساء کا علاج بتاتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
”شِفَاءُ عِرْقِ النَّسَا، أَلْيَةُ شَاةٍ أَعْرَابِيَّةٍ تُذَابُ، ثُمَّ تُجَزَّأُ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ، ثُمَّ يُشْرَبُ عَلَى الرِّيقِ، فِي كُلِّ يَوْمٍ جُزْءٌ“
”عرق النساء کا علاج یہ ہے کہ دیہاتی بھیڑ (یا دیہاتی دنبے) کی چکتی کو لے کر پگھلا لیا جائے، پھر اس کے تین حصے کر لئے جائیں ،پھر روزانہ ایک حصہ نہار منہ پی لیا جائے“۔ (سنن ابن ماجه بتحقیق الارنووط و رفقائہ : 4/517،ح: 3463 وصححہ الالبانی و الارنووط)
نیز دیکھیں : زاد المعاد في هدي خير العباد : 4/65-الناشر: مؤسسة الرسالة، بيروت .
نہار منہ عجوہ کھجور کھانے کا فائدہ بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
”إِنَّ فِي عَجْوَةِ الْعَالِيَةِ شِفَاءً أَوْ إِنَّهَا تِرْيَاقٌ أَوَّلَ الْبُكْرَةِ (عَلَى الرِّيقِ)“
”(مدینہ کے) بالائی حصہ کی عجوہ کھجوروں میں شفاء ہے یا نہار منہ صبح کے اول وقت میں (ان کا استعمال ) تریاق ہے “۔
(صحیح مسلم : 2048و مسند احمد بتحقیق الارنووط ورفقائہ: 41/32،ح: 24484 و الزیادۃ لہ وقال المحقق : إسناده صحيح على شرط الشيخين)
نیز ایک دوسرا فائدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
”مَنْ تَصَبَّحَ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعَ تَمَرَاتٍ عَجْوَةً (مِنْ بَيْنَ لابَتَيِ الْمَدِينَةِ عَلَى الرِّيقِ)، لَمْ يَضُرَّهُ فِي ذَلِكَ اليَوْمِ سُمٌّ وَلاَ سِحْرٌ“
”جس نے ہر دن ، نہار منہ ، صبح سویرے مدینے کے دونوں حروں (کالے پتھروں والی زمین) کے درمیان میں سے سات (7) عجوہ کھجوریں کھائیں تو اس کو اس دن جادو اور زہر نقصان نہیں کرے گا“۔
( صحیح البخاری : 5445واللفظ لہ و صحیح مسلم : 2047و مسند احمد بتحقیق الارنووط ورفقائہ: 3/52،ح: 1442والزیادۃ لہ)
اب چند باتیں بطور تنبیہ پیش خدمت ہیں :
[تنبیہ نمبر :1] تاریخ دمشق لابن عساکر میں :
”وصم بن واصل، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة“ ہے جبکہ صحیح ”زُفَر بن وَاصِل، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ “ ہے۔
[تنبیہ نمبر :2] المعجم الاوسط للطبرانی میں : ”انْتَقَضَتْ قُوَّتُهُ“ ہے جبکہ صحیح: ”انْتَقَصَتْ قُوَّتُه“ہے۔
[خلاصۃ التحقیق] نہار منہ پانی پینے کے نقصانات سے متعلق جو روایتیں مروی ہیں وہ سب کی سب ناقابل احتجاج ہیں ۔
اس کے برعکس فائدہ نمبر (5) کے تحت جو تینوں حدیثیں ذکر کی گئی ہیں، ان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نہار منہ فلاں چیز کھانے یا پینے سے فلاں فلاں فائدہ ہوتا ہے۔ والحمد للہ علی ذلک.
اور بسا اوقات ڈاکٹروں اور بزرگوں کی زبانی یہ بات سننے میں آئی ہے کہ نہار منہ پانی پینے یا فلاں چیز کھانےسے فلاں فلاں فائدہ ہوتا ہے لیکن نقصانات کے بارے میں کبھی کوئی بات سننے میں نہیں آئی۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم.

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین.

حافظ اکبر علی اختر علی سلفی / عفی اللہ عنہ
صدر البلاغ اسلامک سینٹر
1439ھ-ربیع الاول -23
13-DEC-2017

Pdf کے لئے کلک کریں
https://drive.google.com/file/d/1JTvCCzF8ezf80B8iBF5w5cBPs46DmYHw/view?usp=drivesdk
 
Top