• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا واقعتا میں حق کی تلاش میں ہوں ؟

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
فلاں حق پر ، فلاں باطل پر ، میں حق کا دفاع کرتا ہوں ، میرا مخالف باطل کے دفاع پر مصر رہتا ہے ۔
یہ ایسی باتیں اور رویے ہیں جو عموما سننے ، دیکھنے میں آتے رہتے ہیں ۔ مختلف فیہ مسائل میں حق بات تک پہنچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم انصاف سے طرفین کے دلائل کو دیکھیں اور سمجھیں جو درست محسوس ہو اس پر عمل کیا جائے ۔ بعض دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ ہم ایک نظریہ پہلے قائم کرلیتے ہیں، اور پھر اپنے تئیں انصاف سے دلائل تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ لاشعوری طور پر اپنے موقف کے دلائل قوی اور مخالف کے دلائل غیر صحیح محسوس ہوتے ہیں ۔ ایسی صورت میں در حقیقت ہم ’’ اتباع حق ‘‘ سے نکل کر ’’ اتباع ہوی ‘‘ کے دائرے میں داخل ہوجاتے ہیں ۔
گویا غلطی کا امکان دو جگہ پر ہے :
1۔ حق چھوڑ کر خواہش نفس کی پیروی کرنا ۔
2۔ ’’ حق ‘‘ اور ’’ خواہش نفس ‘‘ میں فرق نہ کرسکنے کے باعث ’’ خواہش نفس ‘‘کی پیروی کو ’’ اتباع حق ‘‘ سمجھ لینا ۔
پہلی بات تو بالکل واضح ہے ۔ کہ دلی طور پر ہم جس بات کو حق سمجھتے ہیں اس کو جان بوجھ کر چھوڑ کر غلط راستے پرڈٹے رہیں ۔ نا انصافی ، بے اعتدالی ، تعصب وغیرہ اس رویے پر صادق آتے ہیں ۔
البتہ دوسرا نکتہ ذرا دقیق ہے جس میں بعض دفعہ مخلص اور معتدل مزاج لوگ بھی درست راہ سے ہٹ جاتے ہیں ۔
اس حوالے سے ذہبی العصر ، علامہ عبدالرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی ’’ صاحب التنکیل ‘‘ کا ایک اقتباس بمع ترجمہ پیش خدمت ہے ’’ القائد إلی تصحیح العقائد ص 32 ‘‘ پر فرماتے ہیں :
وبالجملة فمسالك الهوى أكثر من أن تحصى وقد جربت نفسي أنني ربما أنظر في القضية زاعماً أنه لا هوى لي فيلوح لي فيها معنى، فأقرره تقريراً يعجبني، ثم يلوح لي ما يخدش في ذاك المعنى، فأجدني أتبرم بذاك الخادش وتنازعني نفسي إلى تكلف الجواب عنه وغض النظر عن مناقشة ذاك الجواب، وإنما هذا لأني لما قررت ذاك المعنى أولاً تقريراً أعجبني صرت أهوى صحته، هذا مع أنه لا يعلم بذلك أحد من الناس، فكيف إذا كنت قد أذعته في الناس ثم
لاح لي الخدش؟ فكيف لولم يلح لي الخدش ولكن رجلاً آخر أعترض علي به؟ فكيف كان المعترض ممن أكرهه؟
هذا ولم يكلف العالم بأن لا يكون له هوى؟ فإن هذا خارج عن الوسع، وإنما الواجب على العالم أن يفتش نفسه عن هواها حتى يعرفه ثم يحترز منه ويمعن النظر في الحق من حيث هو حق، فإن بان له أنه مخالف لهواه آثر الحق على هواه.

بے شمار مقامات پر انسان ’’ خواہش نفس ‘‘ میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ خود میں نے تجربہ کیا ہے کہ بعض دفعہ میں کسی مسئلہ میں غور وفکر شروع کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ میں خواہش نفس سے بالکل بری ہوں ، چنانچہ میں ( دلائل کی جانچ پرکھ کے بعد ) ایک موقف اختیار کرلیتا ہوں ، لیکن پھر بعد میں واضح ہوتا ہےکہ نہیں فلاں دلیل میرے اس موقف کےخلاف ہے ۔ تو میں دل ہی دل میں اس دلیل کو رد کرنے کے لیے بے جا بحث شروع کردیتا ہوں، میرا نفس مجھے مجبور کرتا ہے کہ تکلفا اس کا کوئی غلط سلط جواب گھڑ لوں ۔
یہ ساری کیفیت کیوں ہوتی ہے کیونکہ میں پہلی دفعہ دلائل کی بنیاد پر ایک بات کو حق تصور کر چکا ہوں ۔
حالانکہ ابھی تک یہ بات میرے ذہن میں تھی کسی اور کو پتہ نہیں تھا ۔
اس وقت کیا کیفیت ہوگی جب میں اس بات کو لوگوں میں پھیلا چکا ہوں گا اور پھر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگا ؟
اور ممکن ہے مجھے خود اپنی غلطی کا اندازہ ہو ہی نہ بلکہ کوئی اور میرے اوپر اعتراض کرے ، تو ایسی صورت میں کیا کیفیت ہوگی ؟
بلکہ ممکن ہے یہ اعتراض میرےمخالفین میں سے کوئی کردے تو پھر کیا حالت ہوگی ؟
ہاں :
اس سب کے باوجود کسی عالم سے یہ مطالبہ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس کے اندر ’’ خواہش نفس ‘‘ کا مادہ ہی نہ ہو کیونکہ یہ بات تو انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہے ۔ البتہ یہ عالم دین کا فرض ہے کہ وہ اپنے نفس کا جائزہ لے اور محاسبہ کرے اور خواہشات کی پہچان کرے اور پھر ان سے بچنے کی بھرپور کوشش کرے ۔ حق تلاش کرنے میں مکمل غور وفکر کرے ، پھر اگر اس کے لیے واضح ہوجائے کہ حق وہ نہیں جو میں نے سمجھا تھا تو اس کو اپنی خواہشات کی قربانی دے کر حق بات کی پیروی کرنی چاہیے ۔
اقتباس کا ترجمہ ختم ہوا ۔
سوال : کیا میں واقعتا حق جاننے کے لیے دلائل تلاش کرتا ہوں ؟
(اس سوال کا جواب منظر عام پر لانے کی ضرورت نہیں ۔ خود اپنے آپ کو اس سوال کا جواب دیں )
 

123456789

رکن
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
88
پوائنٹ
43
”فلاں حق پر ، فلاں باطل پر ، میں حق کا دفاع کرتا ہوں ، میرا مخالف باطل کے دفاع پر مصر رہتا ہے ۔
یہ ایسی باتیں اور رویے ہیں جو عموما سننے ، دیکھنے میں آتے رہتے ہیں ۔ مختلف فیہ مسائل میں حق بات تک پہنچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم انصاف سے طرفین کے دلائل کو دیکھیں اور سمجھیں جو درست محسوس ہو اس پر عمل کیا جائے ۔ بعض دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ ہم ایک نظریہ پہلے قائم کرلیتے ہیں، اور پھر اپنے تئیں انصاف سے دلائل تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ لاشعوری طور پر اپنے موقف کے دلائل قوی اور مخالف کے دلائل غیر صحیح محسوس ہوتے ہیں ۔ ایسی صورت میں در حقیقت ہم '' اتباع حق '' سے نکل کر '' اتباع ہوی '' کے دائرے میں داخل ہوجاتے ہیں ۔
گویا غلطی کا امکان دو جگہ پر ہے :
1۔ حق چھوڑ کر خواہش نفس کی پیروی کرنا ۔
2۔ '' حق '' اور '' خواہش نفس '' میں فرق نہ کرسکنے کے باعث '' خواہش نفس ''کی پیروی کو '' اتباع حق '' سمجھ لینا ۔
پہلی بات تو بالکل واضح ہے ۔ کہ دلی طور پر ہم جس بات کو حق سمجھتے ہیں اس کو جان بوجھ کر چھوڑ کر غلط راستے پرڈٹے رہیں ۔ نا انصافی ، بے اعتدالی ، تعصب وغیرہ اس رویے پر صادق آتے ہیں ۔
البتہ دوسرا نکتہ ذرا دقیق ہے جس میں بعض دفعہ مخلص اور معتدل مزاج لوگ بھی درست راہ سے ہٹ جاتے ہیں ۔”

بڑی باریک بات کی ہے۔ اکثر اس بیمار ی میں مبتلا ہیں۔ اور حق کی ہتک ہوجاتی ہے
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
بہتر طریقہ یہ ہے کہ پہلے یہ معلوم کریں کہ حق کیا ہے اور حق کہاں ملیگا ۔ ظاہر بات ہے کہ حق وہ ہے جسے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہوسلم نے حق کہا ہو اور وہ قرآن و حدیث میں ملیگا لوگوں کے اقوال میں نہیں کیونکہ اسلام اللہ کا پیغام ہے جسکو اپنے نبی کے ذریعہ لوگوں تک پہونچایا ہے لہذا اسلام قرآن وحدیث میں ہی ملیگا چونکہ مخالفین نے لوگوں کو قرآن وحدیث سے دور کردیا ہے اسلیے لوگوں کے سامنے قرآن وحدیث کے نصوص پڑھکرانکو بتاییں کہ دیکھو قرآن و حدیث میں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے بارے میں یہ فرماتے ہیں انشااللہ یہ زیادہ اثر انداز ہوگا اس پر میرا ذاتی تجربہ بھی ہے ۔اسلام میں اختلاف نہیں ہے ۔ لوگوں نے اختلاف کرلیا ہے ۔ہمیں لوگوں کے اختلاف کیضرورت نہیں ہے ۔
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
اگر انسان واقعی حق کی تلاش میں ہے تو وہ حق اس جگہ تلاش کرے جہاں ملے اور وہ صرف قرآن وحدیث ہے ۔ ایک غیر مسلم اسلام کو قرآن وحدیث میں تلاش کرتا ہے اور اسے مل جاتا ہے لہذا مسلمانوں کو بھی حق قرآن و حدیث میں تلاش کرنا چاہیے ۔آج مقلدین جب قرآن و حدیث پڑہتے ہیں تو انہیں صحیح رہنمایی ملتی ہے پہر وہ تقلید کو چھوڑ کر قرآن وسنت کی واضح شاہراہ پر آجاتے ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بہتر طریقہ یہ ہے کہ پہلے یہ معلوم کریں کہ حق کیا ہے اور حق کہاں ملیگا ۔ ظاہر بات ہے کہ حق وہ ہے جسے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہوسلم نے حق کہا ہو اور وہ قرآن و حدیث میں ملیگا لوگوں کے اقوال میں نہیں کیونکہ اسلام اللہ کا پیغام ہے جسکو اپنے نبی کے ذریعہ لوگوں تک پہونچایا ہے لہذا اسلام قرآن وحدیث میں ہی ملیگا چونکہ مخالفین نے لوگوں کو قرآن وحدیث سے دور کردیا ہے اسلیے لوگوں کے سامنے قرآن وحدیث کے نصوص پڑھکرانکو بتاییں کہ دیکھو قرآن و حدیث میں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے بارے میں یہ فرماتے ہیں انشااللہ یہ زیادہ اثر انداز ہوگا اس پر میرا ذاتی تجربہ بھی ہے ۔اسلام میں اختلاف نہیں ہے ۔ لوگوں نے اختلاف کرلیا ہے ۔ہمیں لوگوں کے اختلاف کیضرورت نہیں ہے ۔
یوں
ان شاءاللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
علامہ معلمی رحمہ اللہ کا ایک اور بہترین اقتباس :

"و اعلم أن الله تعالى قد يوقع بعض المخلصين في شيء من الخطأ ابتلاء لغيره ، أيتبعون الحق ويدعون قوله ، أم يغترون بفضله و جلالته ؟ و هو معذور بل مأجور لاجتهاده و قصده الخير و عدم تقصيره ۔ و لكن من اتبعه مغترا بعظمته بدون التفات الى الحجج الحقيقية من كتاب الله تعالى و سنة رسوله صلى الله عليه و سلم فلا يكون معذورا بل يكون على خطر عظيم ۔"
( رفع الاشتباه عن معنى العبادة والإله ص 152-153 )​

جان لیجیے بعض دفعہ اللہ تعالی کسی مخلص عالم دین سے بھی غلطی سرزد کروا دیتا ہے ، تاکہ اس کے پیرو کاروں کی آزمائش کی جائے کہ وہ حق کے مقابلے میں اس کی بات چھوڑتے ہیں یا پھر اس کے علم و فضل کی بنیاد پر اس کی غلط بات مان لیتے ہیں ۔؟ اس حالت میں عالم دین معذور ہی نہیں ، بلکہ مستحق اجر و ثواب ہوتا ہے کیونکہ اس نے درست نیت سے اجتہاد کرنے میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کی ، جبکہ اس کے پیروکار ، جنہوں نے اس عالم دین کی عظمت کی بنا پر کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی دلائل کی طرف توجہ نہ کی ، ان کا اس صورت میں نہ صرف یہ کہ کوئی عذر قابل قبول نہیں بلکہ ان کا معاملہ بہت خطرناک ہے ۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
انا پرستی:
  • حق سے اعراض اور عدم قبو ل کی ایک بڑی وجہ انانیت اور انا پرستی ہے ۔بہت سے لوگوں پر حق کی حقانیت واضح ہوجاتی ہے، لیکن قبول حق کی صورت میں انہیں اپنی حشمت وجاہ اور اجارہ داری جاتی نظر آتی ہے اس لیے وہ حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔نضر بن حارث ملعون ایک بہت بڑا تاجر تھا ۔یہ تجارت کے سلسلے میں مختلف ممالک کا سفر کیا کرتا تھا ۔ایک دفعہ یہ بلاد فارس گیا وہاں سے اس نے ان کے بادشاہوں رستم اور اسفند یار کے قصے معلوم کیے۔جب واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺکو نبی بنا کر مبعوث فرما دیا ہے اور آپ ﷺلوگوں کو قران مجید پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں ۔رسول اللہﷺجب کسی مجلس سے اٹھتے تو یہ لوگوں کو رستم اور اسفند یار کے قصے سنا نے لگ جاتا۔پھر کہتا:اے اللہ!تو ہی بتا ہم سے کسی کے قصے اچھے ہیں میرے یا محمد(ﷺ)کے نعوذ باللہ۔گویا اس بدبخت نے اپنی انانیت کی وجہ سے قران مجید کو اساطیر الاولین قرار دیا اور دعوی کیا کہ وہ بھی اس جیسا کلام پیش کرنے پر قادر ہے ۔اسی لیے جب قران مجید کا اعجاز اس کی تمام تر حیلوں کو ناکام بنا دیتا تو وہ اس کوماننے کی بجائے کفر،سرکشی اور عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتا:


﴿اَللَّهُمَّ إِنْ کَانَ هَذَا الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْعَلَيْنَاحِجَار َةًمِّنَ السَّمَآءِ اَوِئْتِنَا بِعَذَابٍ عَلَيْم﴾(الانفال:۳۲)

"اے اللہ یہ اگر (قران)تیری طرف سے برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر تکلیف دینے والا عذاب بھیج دے۔"

  • چاہیے تو یہ تھا کہ کہتا:اے اللہ !اگر یہ قران تیری طرف سے برحق ہے تو ہمیں اس کی ہدایت فرما اور اس کی اتباع کی توفیق عطا فرما، لیکن اس کی بجائے اس نے عذاب کا مطالبہ کر دیا یہ سب کچھ اس نے اپنی انا پرستی کی وجہ سے کیا ۔

  • اسی طرح جب یہ بدبخت غزوہٴ بدر میں قیدی بن کر آیا تو رسول اللہ ﷺنے حکم دیا کہ آپ کے سامنے اس کی گردن اڑا دی جائے ،چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے تعمیل ارشاد کرتے ہوئے اس کی گر دن تن سے جدا کردی۔(تفسیر الخازن:۲ /۳۰۸)

امام شعبہ رحمہ اللہ نے عبد الحمید صاحب الزیادی کے حوالے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ (نضر بن حارث کی بجائے) ابو جہل نے یہ بات کہی ۔(صحیح البخاری :۴۶۴۸)

آیت کا مصداق ابو جہل ہو یانضر بن الحارث دونوں کا مقصود اپنی انانیت کو قائم رکھنا تھا۔اس وجہ سے انہوں نے قبول حق پر عذاب کو ترجیح دی ۔آج بھی بہت سے لوگ محض اپنے تشخص کو اجاگر کرنے کے لیے حق کو دھتکار دیتے ہیں حالانکہ انہیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ،چنانچہ وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اورعوام الناس کا بھی بیڑا غرق کرتے ہیں۔
 
Top