• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا پاؤں قبلہ رخ کرنا نا جائز ہے ؟

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
قبلہ کی طرف پاؤں کرنا جائز ہے کہ نہیں ؟ یہ مسئلہ آج کل کافی مشہور ہے ۔ جواز اورعدم جواز ہر دو نقطہ نظر رکھنے والے حضرات کی طرف سے کتابوں کے اندر اپنے اپنے موقف کے دلائل موجود ہوں گے البتہ ( میری تلاش کے مطابق ) انٹرنیٹ پر مواد نہ ہونے کے برابر ہے ۔
درج ذیل مضمون اسی کمی کو پورا کرنے کی ایک ہلکی سی کوشش ہے ۔ مندرجہ ذیل تحریر چونکہ ایک دوسری تحریر کے رد میں لکھی گئی ہے اس لیے اس کا انداز کسی بھی مسئلہ پر لکھی گئی ’’ مستقل تحریر ‘‘ سے مختلف ہے ۔
معزز اراکین سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں دیگر تحاریر کو بھی یہاں پیش کرنے کی کوشش کریں ۔ تاکہ اگر کوئی تحقیق کرنا چاہے تو انٹرنیٹ پر اسے خاطر خواہ مواد دستیاب ہوسکے ۔ واللہ الموفق لمحا یحبہ و یرضاہ ۔
آئندہ ’’ شراکت ‘‘ میں تحریر پیش خدمت ہے :
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
پاؤں کے قبلہ رخ ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ
ماخوذ از​
( ہفت روزہ الاعتصام لاہور میں ایک مضمون مولانا عبد القیوم صاحب کا شائع ہوا جنہوں نے ایک دو احادیث سے ثابت کرنے کی سعی کی کہ قبلہ رخ پاؤں کرنا صحیح نہیں ہے تو شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس مضمون کا جواب لکھا تھا ۔ الأزہری )
'' الاعتصام '' مورخہ 23 نومبر 1990 ء میں مولانا عبد اللہ صاحب قصوری کا مضمون بعنوان بالا نظر سے گزرا ۔​
افسوس ہوا کہ مولانا نے اس مضمون میں تحقیق سے کام نہیں لیا ۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر عنوان کو پڑھ کر یہ خیال ہوا کہ دیکھیں کیا کچھ اس میں ہوگا لیکن دلائل کو دیکھ کر ہمیں مایوسی ہوئی ۔​
تفصیل ملاحظہ ہو :​
(اول )
1۔۔۔ سنن دارقطنی جلد 2 سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک مرفوع روایت ذکر کی گئی ہے مولانا نے اس حدیث کا ترجمہ کردیا اور اور سند کے متعلق ایک حرف بھی تحریر نہیں فرمایا حالانکہ سند کی تحقیق اور اس کی صحت و حسن کے یقین کے بغیر کسی حدیث کو معرض استدلال میں پیش کرنا علماء کی شان سے بعید ہے ۔​
حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث بالکل ضعیف ہے ۔ مولانا صاحب سنن دارقطنی کی اس روایت کے متعلق صرف صاحب '' التعلیق المغنی '' کی عبارت کو دیکھنے کی زحمت گوارا فرما تے تو اس طرح اس حدیث کو بلا سند کی تحقیق کے تحریر فرما کر چلے نہ جاتے اگر خدانخواستہ انہوں نے مولانا عظیم آبادی کی تحقیق ملاحظہ فرمائی پھر بھی دانستہ اس علت سے تغافل برت کر چلے گئے تو​
فإن كنت لا تدري فتلك مصيبة ، و إن كنت تدري فالمصيبة أعظم
معاملہ اور بھی سنگین بن جاتا ہے ۔​
گو مولانا کی ذات سےحسن ظن ( کیوجہ سے ) ہمیں اس شق کے ماننے میں تامل ہے ۔​
بہر حال صاحب '' التعلیق المغنی '' فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں ایک راوی تو حسین بن زید ہے جس کو امام علی بن المدینی نے ضعیف کہا ہے ۔ حافظ ابن حجر لسان المیزان میں ''حسن بن حسین عرنی '' کے ترجمہ میں فرماتے ہیں کہ : ''حسین بن زید لین أیضا '' یعنی حسین بن زید بھی کمزور ہے ۔ دوسرا راوی اس کی سند میں '' حسن بن حسین العرنی '' ہے اس کا ترجمہ بھی حافظ ابن حجر کی کتاب لسان المیزان میں موجود ہے جس معلوم ہوتا ہے کہ وہ متروک ہے ۔​
حافظ صاحب نے چند ائمہ حدیث مثلا ابو حاتم ، ابن عدی ، ابن حبان وغیرہم سے ان کو غیر صدوق اور غیر ثقہ کہا اور اسی اللسان میں اس راوی کی چند منکر احادیث ذکر کی گئی ہیں اور ان میں اس حدیث کو بھی ذکر کیا ہے جو مولانا نے دلیل کے طور پر ذکر فرمائی ہے ۔​
حدیث کے اختتام پر حافظ صاحب فرماتے ہیں :​
و هو حديث منكر اور یہ حدیث منکر ہے ۔ اور پھر حسین بن زید کے متعلق یہ بھی فرمایا کہ وقال ابن عدي : منكر الحديث عن الثقات و يقلب الأسانيد یعنی حسین بن زید ثقات راویوں سے منکر روایات لاتا ہے اور اسانید کو بدل دیتا ہے ۔​
میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند میں ایک تیسرا راوی '' حسین بن الحکم الحیری '' ہے اور وہ بھی غیر معروف ہے ملاحظہ ہو '' لسان المیزان للحافظ ابن حجر ''​
بہر حال یہ روایت شدید الضعف ہے اس لیے کہ اس کی سند میں تین راوی ہیں : ایک ضعیف ہے دوسرا متروک ہے اور تیسرا غیر معروف ہے ۔
اصول حدیث سے ممارست رکھنے والے جانتے ہیں کہ متروک راوی کی روایت کو نہ تو شواہد و متابعات تقویت پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی ایسے راوی کی روایت کسی دوسری تھوڑے سے ضعف کی حامل کو ہی تقویت دے سکتی ہے ۔ یعنی ایسے راوی کی روایت نہ تو جابر بن سکتی ہے نہ مجبور ۔ اس روایت میں تو متروک راوی کے علاوہ بھی دو راوی ضعیف ہیں لہذا اس کے ضعف میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کو امام نووی نے بھی ضعیف قراردیا ہے جیساکہ مولانا عظیم آبادی نے '' التعلیق المغنی '' میں تحریر فرمایا ہے اور حافظ ابن حجر نے منکر قرار دیا ہے جیساکہ لسان المیزان کے حوالہ سے گزر چکا ہے ۔
امام بیہقی نے بھی اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے جیسا کہ '' السنن الکبری '' کے جلد 2 ص 307 میں اس حدیث کے اوپر اس طرح عنوان منعقد فرماتے ہیں :​
(( باب ما روي في كيفية الصلوة على الجنب أو الاستلقاء وفيه نظر ))
خط کشیدہ الفاظ میں اس روایت کی تضعیف کی طرف اشارہ ہے ۔​
جب ائمہ حدیث نے اس حدیث کو ضعیف اور منکر قرار دیا ہے تو ایسی ناکارہ روایت کو لے کر دلیل کے طور پر پیش کرنا مولانا کو زیب نہیں دیتا ۔​
(دوم )
دوسرے نمبر پر مولانا نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک اثر سنن دارقطنی سے نقل فرمایا ہے یہ اثر سنن کبری للامام البیہقی وغیرہ میں بھی ہے ۔ لیکن اس کی سند میں یہی ایک راوی ابو بکر بن عبید اللہ بن عمر ہے جو اپنے والد عبید اللہ بن عمر سے روایت کرتا ہے اور اس راوی ( ابو بکر بن عبید اللہ بن عمر ) کا ترجمہ ہمیں کہیں نہیں ملا ۔​
الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ، كتاب الثقات للعجلي ، كتاب الثقات لابن حبان ، تقريب التهذيب و تهذيب التهذيب لابن حجر وغيرها کو دیکھا لیکن یہ نام ہی نہیں ملتا ۔​
جب اس اثر کی سند میں ایک راوی غیر معروف ہے تو اس کو معرض استدلال میں کیسے پیش کیا جاسکتا ہے ۔
(سوم )
تیسرے نمبر پر مولانا نے متن کے الفاظ درج کیے ہیں نہ یہ لکھا کہ مرفوع ہے یا موقوف ہے ۔​
مرفوع ہونے کی صورت میں اس کو روایت کرنے والا کونسا صحابی ہے اور موقوف ہونے کی حالت میں بھی پتہ نہیں چلتا کہ یہ کس صحابی کا قول ہے ۔ یعنی ان باتوں کے متعلق کچھ بھی تحریر نہیں فرمایا گیا پھر نیچے تحریر فرماتے ہیں '' کتاب بالا ، باب صلوۃ المریض ص 33 '' ۔​
اوپر سنن دارقطنی کا ذکر ہے لیکن اس کے اس صفحہ یا اثر ابن عمر والے صفحہ پر تو اس قسم کی کوئی روایت نہیں لہذا اس کے متعلق ہم کچھ عرض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ آگے پھر ہدایہ ، کنز الدقائق ، غنیۃ الطالبین اور '' در مختار '' کی عبارات نقل کی ہیں ۔ لیکن کتب کوئی حجت نہیں ہیں حجت تو صرف کتاب اللہ اور سنت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اسی طرح بعض تابعین یا تبع تابعین کے آثار بھی کوئی حجت نہیں ہیں ۔
خلاصہ کلام
مسئلہ زیر بحث پر مولانا نے کتاب وسنت سے کوئی ٹھوس دلیل پیش نہیں فرمائی جس سے تشفی و تسلی ہو ۔​
آخر میں گذارش ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ کتاب وسنت میں ایسی کوئی صریح دلیل نہیں جس سے پاؤں کا قبلہ رخ ہونا ناجائز قراردیاجائے ۔ ادھر جواز کے دلائل جو مولانا عبد اللہ صاحب قصوری نے پیش فرمائے ان کا حال بھی معلوم ہوچکا ۔​
لیکن ایک بات بالکل واضح ہے کہ شریعت مطہرہ نے بیت اللہ العظیم کی تعظیم و توقیر کا حکم دیا ہے ۔ سورہ حج کی وہ آیت جو مولانا نے نقل فرمائی ہے :​
ذلك و من يعظم شعائر الله فإنها من تقوى القلوب ( الحج : 32 )​
یہ بھی اس پر دال ہے اگرچہ مولانا نے جلالین و ابن کثیر کےحوالہ سے تحریر فرمایا ہے کہ یہاں شعائر اللہ سے مراد قربانی کے جانور ہیں لیکن جیسا کہ اصول فقہ میں یہ مسئلہ طے شدہ ہے کہ '' العبرة لعموم اللفظ لا بخصوص السبب '' ''اعتبار لفظ کے عموم کو ہوتا ہے نہ کہ سبب کے خصوص کو '' اور پھر سیاق و سباق سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بیت اللہ ، مسجد حرام ، مناسک حج ، قربانی کے جانور اور دوسری عبادات سب شعائر اللہ میں شامل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے بہت سے مفسروں نے بھی اس جگہ '' شعائر اللہ '' کو عام ہی رکھا ہے ، بلا وجہ تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ۔ اگر ان حقائق کے باوجود مولانا کو اصرار ہےکہ یہاں شعائر اللہ سے مراد قربانی کے جانور ہی ہیں تو اس آیت کریمہ سے پیشتر یہ آیت کریمہ گزر چکی ہے کہ :​
ذلك و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه ... الآية ( الحج : 30 )​
یہ آیت کریمہ '' و ليطوفوا بالبيت العتيق '' کے بعد آئی ہے اور مضمون کے لحاظ سے اس جگہ حرمات اللہ میں بیت اللہ و مسجد حرام یقینا داخل ہیں ۔ لہذا حقیقت سے فرار مناسب نہیں ۔​
بہر صورت جب بیت اللہ یا قبلہ کی تعظیم شرعا مطلوب ہے تو راقم الحروف کے خیال میں جن لوگوں کے ہاں قبلہ کی طرف پاؤں کو دراز کرنا سوء ادبی میں داخل ہے انہیں بہر حال اس سے اجتناب کرنا اولی و افضل ہے اور جو اس کو سوء ادبی یا تعظیم و توقیر کے منافی نہیں سمجھتے ان کے لیے گنجائش نکل سکتی ہے ۔
والله تعالى أعلم و علمه أتم و أحكم ، و آخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين ، وصلى الله على سيدنا محمد و آله و أصحابه و بارك وسلم .

وأنا أحقر العباد​
محب الله شاه 1990/ 12 / 3​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بہر صورت جب بیت اللہ یا قبلہ کی تعظیم شرعا مطلوب ہے تو راقم الحروف کے خیال میں جن لوگوں کے ہاں قبلہ کی طرف پاؤں کو دراز کرنا سوء ادبی میں داخل ہے انہیں بہر حال اس سے اجتناب کرنا اولی و افضل ہے اور جو اس کو سوء ادبی یا تعظیم و توقیر کے منافی نہیں سمجھتے ان کے لیے گنجائش نکل سکتی ہے ۔
کیا مسلمانوں میں ایسا کوئی ہے جو کعبہ کی تعظیم کا مترادف بھی ہو اور کعبہ کی طرف پاؤں کرنے کو وہ سوء ادب نہیں مانتا ہو ؟؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
کیا مسلمانوں میں ایسا کوئی ہے جو کعبہ کی تعظیم کا مترادف بھی ہو اور کعبہ کی طرف پاؤں کرنے کو وہ سوء ادب نہیں مانتا ہو ؟؟
یہاں تو خیر ہم بہت دور ہیں لیکن کعبہ کے عین سامنے ستون سے ٹیک لگا کر قرآن پڑھتے پڑھتے تھک کر آپ اپنے پاؤں سیدھے کریں، کیا یہ بے ادبی ہوگی؟
کعبہ کی جانب پاؤں کرنا تو دور کی بات، کعبہ کے اوپر چڑھنا اس سے بڑھ کر بے ادبی میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن غلاف کعبہ اتارنے چڑھانے کے لئے کئی لوگ اوپر بھی چڑھتے ہیں، اور دیگر لوگ اسے بے ادبی سمجھنے کے بجائے اس پر رشک کرتے ہیں۔
یہ بے ادبی کچھ اسی قسم کی ہے۔ جیسے ہمارے گاؤں بلکہ اکثر پنجاب کے علاقوں میں بزرگوں کو احتراماً چارپائی کے تکیے والے حصے کی جانب بٹھایا جاتا ہے، دوسری جانب بٹھانا بدتہذیبی یا بے ادبی شمار ہوتی ہے۔ جبکہ دوسروں کے ہاں ایسا نہیں ہے۔
بلکہ گاڑی میں بھی بزرگ حضرات آگے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھتے ہیں، جبکہ شہروں میں الٹ ہے۔ بزرگ یا عہدے میں بڑا شخص پچھلی سیٹ پر بیٹھتا ہے۔ اس کے الٹ کرنا بے ادبی ہے۔

لہٰذا وہی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ جن کے نزدیک پاؤں کعبہ کی جانب کرنا بے ادبی میں شمار ہوتا ہو، وہ ایسا نہ کریں۔ اور جو اسے تعظیم و توقیر کے منافی نہ سمجھیں، ان کیلئے گنجائش ہے۔ اور اس میں تشدد درست نہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
محترم عبیدالرحمن شفیق بھائی !
گزارش ہے کہ مرکز التربیہ سے قابل احترام مشائخ کا اس مسئلہ سے متعلق موقف معلوم کرکے اراکین فورم کو اس سے باخبر کریں ۔
اگر کوئی مستقل مضمون یا تحریر ہے تو اس کا بھی کوئی اتہ پتہ بتائیں ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
الكعبة بيت الله وقبلة المسلمين، ويجب لها من التقديس والحرمة والتعظيم ما يتناسب مع مكانتها الدينية، في حدود المشروع، قال الله تعالى: {ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ الله فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ} (1)، وقد ذكر العلماء أحكام استقبالها واستدبارها.
فمنها أنه يستحب استقبالها في الجلوس مطلقاً، سواء كان لأكل وشرب، أو قراءة قرآن، أو مدارسة علم، أو لأداء وظيفة، أو جلوساً عادياً، فالأفضل للإنسان أن يستقبل القبلة كلما جلس، وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن لكل شيء شرفا، وإن أشرف المجالس ما استقبل به القبلة" (2). رواه الطبراني، وإسناده ضعيف.
وفي الباب أحاديث الترغيب في استقبالها؛ سواء في البيت أو في المكتب أو في المتجر أو في المسجد. وكذلك حال أداء المناسك: مِن رمي ونحر وحلق ووقوف بعرفة، ونحوها. وكذا حال أداء العبادات: كالوضوء والغسل والتيمم والأذان والإقامة، ونحوها.
ومنها أنه يحرم استقبالها واستدبارها حال قضاء الحاجة، من بول، أو غائط؛ لحديث أبي أيوب مرفوعاً: "إذا أتيتم الغائط فلا تستقبلوا القبلة، ولا تستدبروها، ولكن شرقوا أو غربوا" (متفق عليه) (3).
أما الاستنجاء والاستجمار، فقد ذكر الفقهاء أنه يكره استقبال القبلة حال الاستنجاء والاستجمار.
ومنها أنه يجب توجيه الميت إليها، فيوضع في قبره مستقبل القبلة، على جنبه الأيمن.
فأما المريض الذي لا يستطيع القيام ولا الجلوس فيصلي على جنبه الأيمن مستقبلاً القبلة. فإن لم يمكنه على جنبه الأيمن، فعلى الأيسر، ويستقبل القبلة. فإن لم يمكن صلى على ظهره ورجلاه مما يلي القبلة، ويرفع رأسه قليلاً، حتى يكون وجهه مستقبلاً القبلة. وهكذا يُفعل بالمريض حال احتضاره، ومثله إذا أراد الإنسان النوم. ومنها أنه يستحب توجيه الذبيحة إليها حال ذبحها، وليس ذلك بواجب، ولا شرط، وإنما هو سنة.
أما ما ذكرته في السؤال، من مد الرجلين إلى القبلة، فقد ذكرها ابن مفلح في كتاب (الآداب الشرعية)، كما ذكر مسألة إسناد الظهر إليها، فقال (4): (فصل في كراهة إسناد الظهر إلى القبلة في المسجد): ويكره أن يسند ظهره إلى القبلة. قال أحمد -يعني الإمام أحمد بن حنبل-: هذا مكروه، وصرح القاضي بالكراهة. قال إبراهيم: كانوا يكرهون أن يتساندوا إلى القبلة قبل صلاة الفجر. رواه أبو بكر النجاد ... إلى أن قال: (فصل في كراهة مد الرجلين إلى القبلة): ذكر غير واحد من الحنفية رحمهم الله أنه يكره مد الرجلين إلى القبلة في النوم وغيره، وهذا إن أرادوا به عند الكعبة -زادها الله شرفاً- فمسَلَّم، وإن أرادوا مطلقاً -كما هو ظاهر- فالكراهة تستدعي دليلاً شرعياً، وقد ثبت في الجملة استحبابه، أو جوازه، كما هو في حق الميت. قال في (المفيد) -من كتبهم-: ولا يمد رجليه -يعني- في المسجد؛ لأن في ذلك إهانة له، ولم أجد أصحابنا ذكروا هذا، ولعل تركه أولى، ولعل ما ذكره الحنفية رحمهم الله من حكم هاتين المسألتين قياس كراهة الإمام أحمد رحمه الله الاستناد إلى القبلة، كما سبق، فإن هاتين المسألتين في معنى ذلك. والله أعلم.
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
1۔۔۔ سنن دارقطنی جلد 2 سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک مرفوع روایت ذکر کی گئی ہے مولانا نے اس حدیث کا ترجمہ کردیا اور اور سند کے متعلق ایک حرف بھی تحریر نہیں فرمایا حالانکہ سند کی تحقیق اور اس کی صحت و حسن کے یقین کے بغیر کسی حدیث کو معرض استدلال میں پیش کرنا علماء کی شان سے بعید ہے ۔​
))[/arb]​
خط کشیدہ الفاظ میں اس روایت کی تضعیف کی طرف اشارہ ہے ۔​
جب ائمہ حدیث نے اس حدیث کو ضعیف اور منکر قرار دیا ہے تو ایسی ناکارہ روایت کو لے کر دلیل کے طور پر پیش کرنا مولانا کو زیب نہیں دیتا ۔​
(دوم )
دوسرے نمبر پر مولانا نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک اثر سنن دارقطنی سے نقل فرمایا ہے یہ اثر سنن کبری للامام البیہقی وغیرہ میں بھی ہے ۔ لیکن اس کی سند میں یہی ایک راوی ابو بکر بن عبید اللہ بن عمر ہے جو اپنے والد عبید اللہ بن عمر سے روایت کرتا ہے اور اس راوی ( ابو بکر بن عبید اللہ بن عمر ) کا ترجمہ ہمیں کہیں نہیں ملا​
خضر بھائی آپ نے بھی ان احادیث اور آثار کا متن پیش نہین کیا اگر آپ متن سامنے لے آتے تو شاید ان کی سند پر بھی کوئی اللہ کا بندہ بحث کر لیتا،ممکن ہو تو متن کو پیش کر دیں جزاک للہ خیرا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
خضر بھائی آپ نے بھی ان احادیث اور آثار کا متن پیش نہین کیا اگر آپ متن سامنے لے آتے تو شاید ان کی سند پر بھی کوئی اللہ کا بندہ بحث کر لیتا،ممکن ہو تو متن کو پیش کر دیں جزاک للہ خیرا
حضرت شاہ صاحب کی تحریر جوں کی توں نقل کردی ہے ۔ تاکہ آپ جیسے اہل علم اس پر مزید اضافہ جات فرمادیں ۔
یا کم ازکم اس سلسلے میں مزید علماء کے اگر مضامین ملیں تو ان کو یہاں لگادیا جائے تاکہ طرفین کا موقف اور دلائل سامنے آجائیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
پاؤں کے قبلہ رخ ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ
ماخوذ از​
( ہفت روزہ الاعتصام لاہور میں ایک مضمون مولانا عبد القیوم صاحب کا شائع ہوا جنہوں نے ایک دو احادیث سے ثابت کرنے کی سعی کی کہ قبلہ رخ پاؤں کرنا صحیح نہیں ہے تو شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس مضمون کا جواب لکھا تھا ۔ الأزہری )
'' الاعتصام '' مورخہ 23 نومبر 1990 ء میں مولانا عبد اللہ صاحب قصوری کا مضمون بعنوان بالا نظر سے گزرا ۔​
افسوس ہوا کہ مولانا نے اس مضمون میں تحقیق سے کام نہیں لیا ۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر عنوان کو پڑھ کر یہ خیال ہوا کہ دیکھیں کیا کچھ اس میں ہوگا لیکن دلائل کو دیکھ کر ہمیں مایوسی ہوئی ۔​
تفصیل ملاحظہ ہو :​
(اول )
1۔۔۔ سنن دارقطنی جلد 2 سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک مرفوع روایت ذکر کی گئی ہے مولانا نے اس حدیث کا ترجمہ کردیا اور اور سند کے متعلق ایک حرف بھی تحریر نہیں فرمایا حالانکہ سند کی تحقیق اور اس کی صحت و حسن کے یقین کے بغیر کسی حدیث کو معرض استدلال میں پیش کرنا علماء کی شان سے بعید ہے ۔​
حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث بالکل ضعیف ہے ۔ مولانا صاحب سنن دارقطنی کی اس روایت کے متعلق صرف صاحب '' التعلیق المغنی '' کی عبارت کو دیکھنے کی زحمت گوارا فرما تے تو اس طرح اس حدیث کو بلا سند کی تحقیق کے تحریر فرما کر چلے نہ جاتے اگر خدانخواستہ انہوں نے مولانا عظیم آبادی کی تحقیق ملاحظہ فرمائی پھر بھی دانستہ اس علت سے تغافل برت کر چلے گئے تو​
فإن كنت لا تدري فتلك مصيبة ، و إن كنت تدري فالمصيبة أعظم
معاملہ اور بھی سنگین بن جاتا ہے ۔​
گو مولانا کی ذات سےحسن ظن ( کیوجہ سے ) ہمیں اس شق کے ماننے میں تامل ہے ۔​
بہر حال صاحب '' التعلیق المغنی '' فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں ایک راوی تو حسین بن زید ہے جس کو امام علی بن المدینی نے ضعیف کہا ہے ۔ حافظ ابن حجر لسان المیزان میں ''حسن بن حسین عرنی '' کے ترجمہ میں فرماتے ہیں کہ : ''حسین بن زید لین أیضا '' یعنی حسین بن زید بھی کمزور ہے ۔ دوسرا راوی اس کی سند میں '' حسن بن حسین العرنی '' ہے اس کا ترجمہ بھی حافظ ابن حجر کی کتاب لسان المیزان میں موجود ہے جس معلوم ہوتا ہے کہ وہ متروک ہے ۔​
حافظ صاحب نے چند ائمہ حدیث مثلا ابو حاتم ، ابن عدی ، ابن حبان وغیرہم سے ان کو غیر صدوق اور غیر ثقہ کہا اور اسی اللسان میں اس راوی کی چند منکر احادیث ذکر کی گئی ہیں اور ان میں اس حدیث کو بھی ذکر کیا ہے جو مولانا نے دلیل کے طور پر ذکر فرمائی ہے ۔​
حدیث کے اختتام پر حافظ صاحب فرماتے ہیں :​
و هو حديث منكر اور یہ حدیث منکر ہے ۔ اور پھر حسین بن زید کے متعلق یہ بھی فرمایا کہ وقال ابن عدي : منكر الحديث عن الثقات و يقلب الأسانيد یعنی حسین بن زید ثقات راویوں سے منکر روایات لاتا ہے اور اسانید کو بدل دیتا ہے ۔​
میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند میں ایک تیسرا راوی '' حسین بن الحکم الحیری '' ہے اور وہ بھی غیر معروف ہے ملاحظہ ہو '' لسان المیزان للحافظ ابن حجر ''​
بہر حال یہ روایت شدید الضعف ہے اس لیے کہ اس کی سند میں تین راوی ہیں : ایک ضعیف ہے دوسرا متروک ہے اور تیسرا غیر معروف ہے ۔
اصول حدیث سے ممارست رکھنے والے جانتے ہیں کہ متروک راوی کی روایت کو نہ تو شواہد و متابعات تقویت پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی ایسے راوی کی روایت کسی دوسری تھوڑے سے ضعف کی حامل کو ہی تقویت دے سکتی ہے ۔ یعنی ایسے راوی کی روایت نہ تو جابر بن سکتی ہے نہ مجبور ۔ اس روایت میں تو متروک راوی کے علاوہ بھی دو راوی ضعیف ہیں لہذا اس کے ضعف میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کو امام نووی نے بھی ضعیف قراردیا ہے جیساکہ مولانا عظیم آبادی نے '' التعلیق المغنی '' میں تحریر فرمایا ہے اور حافظ ابن حجر نے منکر قرار دیا ہے جیساکہ لسان المیزان کے حوالہ سے گزر چکا ہے ۔
امام بیہقی نے بھی اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے جیسا کہ '' السنن الکبری '' کے جلد 2 ص 307 میں اس حدیث کے اوپر اس طرح عنوان منعقد فرماتے ہیں :​
(( باب ما روي في كيفية الصلوة على الجنب أو الاستلقاء وفيه نظر ))
خط کشیدہ الفاظ میں اس روایت کی تضعیف کی طرف اشارہ ہے ۔​
جب ائمہ حدیث نے اس حدیث کو ضعیف اور منکر قرار دیا ہے تو ایسی ناکارہ روایت کو لے کر دلیل کے طور پر پیش کرنا مولانا کو زیب نہیں دیتا ۔​
(دوم )
دوسرے نمبر پر مولانا نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک اثر سنن دارقطنی سے نقل فرمایا ہے یہ اثر سنن کبری للامام البیہقی وغیرہ میں بھی ہے ۔ لیکن اس کی سند میں یہی ایک راوی ابو بکر بن عبید اللہ بن عمر ہے جو اپنے والد عبید اللہ بن عمر سے روایت کرتا ہے اور اس راوی ( ابو بکر بن عبید اللہ بن عمر ) کا ترجمہ ہمیں کہیں نہیں ملا ۔​
الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ، كتاب الثقات للعجلي ، كتاب الثقات لابن حبان ، تقريب التهذيب و تهذيب التهذيب لابن حجر وغيرها کو دیکھا لیکن یہ نام ہی نہیں ملتا ۔​
جب اس اثر کی سند میں ایک راوی غیر معروف ہے تو اس کو معرض استدلال میں کیسے پیش کیا جاسکتا ہے ۔
(سوم )
تیسرے نمبر پر مولانا نے متن کے الفاظ درج کیے ہیں نہ یہ لکھا کہ مرفوع ہے یا موقوف ہے ۔​
مرفوع ہونے کی صورت میں اس کو روایت کرنے والا کونسا صحابی ہے اور موقوف ہونے کی حالت میں بھی پتہ نہیں چلتا کہ یہ کس صحابی کا قول ہے ۔ یعنی ان باتوں کے متعلق کچھ بھی تحریر نہیں فرمایا گیا پھر نیچے تحریر فرماتے ہیں '' کتاب بالا ، باب صلوۃ المریض ص 33 '' ۔​
اوپر سنن دارقطنی کا ذکر ہے لیکن اس کے اس صفحہ یا اثر ابن عمر والے صفحہ پر تو اس قسم کی کوئی روایت نہیں لہذا اس کے متعلق ہم کچھ عرض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ آگے پھر ہدایہ ، کنز الدقائق ، غنیۃ الطالبین اور '' در مختار '' کی عبارات نقل کی ہیں ۔ لیکن کتب کوئی حجت نہیں ہیں حجت تو صرف کتاب اللہ اور سنت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اسی طرح بعض تابعین یا تبع تابعین کے آثار بھی کوئی حجت نہیں ہیں ۔
خلاصہ کلام
مسئلہ زیر بحث پر مولانا نے کتاب وسنت سے کوئی ٹھوس دلیل پیش نہیں فرمائی جس سے تشفی و تسلی ہو ۔​
آخر میں گذارش ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ کتاب وسنت میں ایسی کوئی صریح دلیل نہیں جس سے پاؤں کا قبلہ رخ ہونا ناجائز قراردیاجائے ۔ ادھر جواز کے دلائل جو مولانا عبد اللہ صاحب قصوری نے پیش فرمائے ان کا حال بھی معلوم ہوچکا ۔​
لیکن ایک بات بالکل واضح ہے کہ شریعت مطہرہ نے بیت اللہ العظیم کی تعظیم و توقیر کا حکم دیا ہے ۔ سورہ حج کی وہ آیت جو مولانا نے نقل فرمائی ہے :​
ذلك و من يعظم شعائر الله فإنها من تقوى القلوب ( الحج : 32 )​
یہ بھی اس پر دال ہے اگرچہ مولانا نے جلالین و ابن کثیر کےحوالہ سے تحریر فرمایا ہے کہ یہاں شعائر اللہ سے مراد قربانی کے جانور ہیں لیکن جیسا کہ اصول فقہ میں یہ مسئلہ طے شدہ ہے کہ '' العبرة لعموم اللفظ لا بخصوص السبب '' ''اعتبار لفظ کے عموم کو ہوتا ہے نہ کہ سبب کے خصوص کو '' اور پھر سیاق و سباق سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بیت اللہ ، مسجد حرام ، مناسک حج ، قربانی کے جانور اور دوسری عبادات سب شعائر اللہ میں شامل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے بہت سے مفسروں نے بھی اس جگہ '' شعائر اللہ '' کو عام ہی رکھا ہے ، بلا وجہ تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ۔ اگر ان حقائق کے باوجود مولانا کو اصرار ہےکہ یہاں شعائر اللہ سے مراد قربانی کے جانور ہی ہیں تو اس آیت کریمہ سے پیشتر یہ آیت کریمہ گزر چکی ہے کہ :​
ذلك و من يعظم حرمت الله فهو خير له عند ربه ... الآية ( الحج : 30 )​
یہ آیت کریمہ '' و ليطوفوا بالبيت العتيق '' کے بعد آئی ہے اور مضمون کے لحاظ سے اس جگہ حرمات اللہ میں بیت اللہ و مسجد حرام یقینا داخل ہیں ۔ لہذا حقیقت سے فرار مناسب نہیں ۔​
بہر صورت جب بیت اللہ یا قبلہ کی تعظیم شرعا مطلوب ہے تو راقم الحروف کے خیال میں جن لوگوں کے ہاں قبلہ کی طرف پاؤں کو دراز کرنا سوء ادبی میں داخل ہے انہیں بہر حال اس سے اجتناب کرنا اولی و افضل ہے اور جو اس کو سوء ادبی یا تعظیم و توقیر کے منافی نہیں سمجھتے ان کے لیے گنجائش نکل سکتی ہے ۔
والله تعالى أعلم و علمه أتم و أحكم ، و آخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين ، وصلى الله على سيدنا محمد و آله و أصحابه و بارك وسلم .

وأنا أحقر العباد​
محب الله شاه 1990/ 12 / 3​
کتنا خوبصورت انداز ہے اس مضمون کا۔

مسجد الحرام میں مولانا مکی صاحب کے درس میں میں بیٹھا تھا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر ایسا علاقہ ہے جہاں اسے سوئے ادب سمجھا جاتا ہے تو قبلہ کی طرف پاؤں نہ پھیلائے اور اگر ایسی جگہ نہیں ہے تو پاؤں پھیلا سکتا ہے۔
وجہ ظاہر ہے۔
 
Top