عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
کیا کدو کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث موجود ہے؟؟؟
سوال: مجھے یہ جاننا تھا کہ کیا کدو کی فضیلت پر بھی کوئی حدیث ہے؟
جواب: کدو ایک قسم کی سبزی ہے جسے لوکی اور گھیا بھی کہا جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کو یہ بے حد محبوب تھی چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ خَيَّاطًا دَعَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَهُ، قَالَ أَنَسٌ: فَذَهَبْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَأَيْتُهُ يَتَتَبَّعُ الدُّبَّاءَ مِنْ حَوَالَيِ الْقَصْعَةِ، قَالَ: فَلَمْ أَزَلْ أُحِبُّ الدُّبَّاءَ مِنْ يَوْمِئِذٍ
ترجمہ: ایک درزی نے رسول اللہ ﷺ کو کھانے پر بلایا جسے انہوں نے نبی کریم ﷺ کے لیے تیار کیا تھا۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ میں بھی گیا، میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ پیالہ میں چاروں طرف کدو تلاش کرتے تھے (کھانے کے لیے) (انس رضی اللہ عنہ نے مزید) بیان کیا کہ اسی دن سے کدو مجھ کو بھی بہت بھانے لگا۔
(صحیح بخاری: 5379)
اسکے علاوہ اس مضمون کی اور بھی کئی صحیح احادیث ہیں لیکن خاص کدو کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے (فیما ادری)۔ کچھ روایات تو ملتی ہیں لیکن ان میں کچھ ضعیف ہیں تو کچھ موضوع۔ تفصیل پیش خدمت ہے:
1) كان يكثر من أكل الدباء، فقلت: يا رسول الله! إنك تكثر من أكل الدباء، قال: إنه يكثر الدماغ، ويزيد في العقل
ترجمہ: (انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) نبی اکرم ﷺ کدو بہت زیادہ کھاتے تھے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول (ﷺ)! آپ کدو بہت زیادہ کھاتے ہیں؟ (کیا بات ہے؟)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ دماغ کو بڑھاتا ہے اور عقل میں اضافہ کرتا ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔
(دیکھیں: سلسلہ الاحادیث الضعیفہ: 1608)
یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی روایت کی جاتی ہے:
عليكم بالقرع فإنه يزيد بالدماغ
ترجمہ: تم کدو کو لازم پکڑو کیونکہ یہ دماغ کو بڑھاتی ہے.۔
یہ روایت بھی موضوع ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کو موضوع قرار دیا ہے۔
(دیکھیں: سلسلہ الاحادیث الضعیفہ: 510، 40)
2) يا عائشة! إذا طبخت قدراً، فأكثروا فيها من الدُّبَّاء، فإنه يشد قلب الحزين
ترجمہ: اے عائشہ! جب تم ہانڈی پکاؤ تو اس میں کدو کثرت سے ڈالا کرو کیونکہ وہ پریشان دل کو سکون دیتا ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
(دیکھیں: سلسلہ الاحادیث الضعیفہ: 6935)
واللہ اعلم بالصواب!
کتبہ: عمر اثری